17 نومبر، 2014

قانون بے بس ہے


ہمیں یہ کہنے میں ذرا برابر دقت نہیں ہوتی کہ اس ملک میں قانون نام کی چیز ہی نہیں ہے لیکن مجال ہے جو یہ سوچنا گوارا کرنے کا موقع آیا ہو کہ میرے اپنے اندر کسی قانون نام کی چیز کا وجود ہے، کیا ہم اس قسم کا معاشرہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں کہ جس میں قانون کی بالا دستی قائم رہ سکیتو یہ دونوں جواب منفی میں موصول ہوتے ہیں قانون ایک سوچ کا ایک نظریے کا نام ہے جسے دنیا بھر کے تمام معاشروں کے تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے  با شعورافراد کی نگاہ میں مذہب کے برابر درجہ حاصل ہے جس کی تصدیق معلوم تاریخ میں ایک بھی مثال کانہ ملنا ہے کہ جس میں ثابت ہوتا ہو کہ کوئی معاشرہ نظریۂ قانون سے ناآشنا گزرا ہو حتی کہ "جنگل کا قانون" بھی ایک ضرب المثل کے طور ہی سہی لیکن استعمال ہوتی چلی آئی ہیکہ شیر گھاس نہیں کھاتالیکن بکری کے بچوں کا باپ ایک بکرا ہی ہوتا ہے۔ہمارے ملک سے کون سی حکومت اس ملک سے کتنی مخلص ہے اس کا اندازہ ملک میں سزا پا کر آنے والے افراد کی تربیت، اور فلاح و بہبود کے اداروں کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس ملک میں کسی مجرم کو سدھارنے کے لیے کتنی کاوشیں کی جا رہی ہیں کیونکہ جرائم پر صرف اسی صورت قابو پایا جا سکتا ہے کہ دوران سزا مجرم کو غلطی کا احساس دلایا جائے اور مستقبل میں نہ کرنے کے عہد کو یقینی بنایا جائے جو کہ ایک حد تک ہو جاتا ہے بالخصوص وہ مجرم جو پہلی دفعہ قانون سے سزا پا کر آتے ہیں لیکن ازاں بعد غیر مناسب معاشرتی رویوں کی بدولت جرم کو روکنا ناممکن ہے کہ جب ایک سزا یافتہ مجرم کو کوئی ادارہ ایک قابل عزت شہری تسلیم ہی نہیں کرتا یا اس کو فی الوقت درپیش معاشی مسائل میں کوئی حتی کہ گھر والوں تک کی کوئی امداد نہیں ملتی تو وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو کر مجبوراََ جرائم کا رخ کرتا ہے اور اس شعبے میں اس کا خیر مقدم کرنے والے اس لمحے کو برداشت کر کہ وہاں تک پہنچے ہوتے ہیں جو اس نئے آنے والے کے دل میں سے اس احساس کو ختم کر دیتے ہیں جو دوران سزا اس کے دل میں پیدا ہوا ہوتا ہے "کہ میں نے غلط کیاتھا"
اور اس کے ذمہ داران کون ہیں یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔احساس ہونا ایک رحمتِ خداوندی ہے اور ایک رحمت یافتہ شخص کے ساتھ معاشرے کا یہ منفی برتاؤ بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے۔قانون کی ذمہ داروں کی ذمہ داری ایک حد تک ہوتی ہے ازاں بعد معاشرے کے تمام افراد کو از خود امورمثلِ مذکورہ کی نہ صرف انجام دہی بلکہ خوش اسلوبی سے انجام دہی کو یقینی بنانے کے اقدامات کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرنی چاھیے بلکہ از خودایسی سرگرمیوں میں شمولیت اختیار کرنی چاہیے جن سے ممکن ہو کہ مجرم سزا پانے کے بعد ایسے ماحول میں نہ جائے جس ماحول کا ایک بھی دروازہ جرم کی گلی میں کھلتا ہو۔
لیکن ہم الحفیط و الاماں اس بیچارے احساس یافتہ شخص کو نہ صرف اس گلی کا راستہ دکھانے بلکہ از خود وہاں پر چھوڑ کر آنے کے بندوبست میں بھی کوئی کوتاہی برداشت نہیں فرماتے۔
اور لان میں صبح صبح صبح خیزی کے فوائد پر لیکچر دیتے ہو ئے اپنے بچوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی جرائم کی شرح پر بلاناغہ تبصرہ فرمانا بھی اپنا فرائض منصبی بلکہ اجداد کی سنت سمجھ کر ادائیگی کو باعث تفاخر گردانتے ہیں۔
یقینا قابل تحسین ہو سکتا ہے کہ کسی کے خاندان میں سے کسی نے کبھی بھی جرم کی گلی نہ دیکھی ہو لیکن وہ معاشرہ اور زیادہ قابل رشک ہوتا ہے جس میں ایک مجرم کو دوبارہ جرم کی گلی میں جانے سے روکنے کے مناسب اقدامات اور سب سے بڑھ کر ایسے رویے موجود ہوں۔
الگ المیہ یہ ہیکہ ہمارے معاشرے میں اس پر عمل درآمد تو درکنار اس کے بر عکس اقدامات کی حوصلہ افزائی تک کو ثواب کا درجہ حاصل ہیجو کسی کو ایسا سوچنے تک کی بھی توفیق میسر نہیں آتی۔
مثال کے طور پر ایک استاد کا اگر کسی جرم کی سزا کے دوران احساس بیدار ہو جاتا ہے تو کیا ہمارا معاشرہ ایک سزا یافتہ مجرم سے اپنے بچوں کی تعلیم و تدریس مناسب سمجھتا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟حالانکہ عین ممکن ہے وہ پہلے سے بھی بہتر انداز میں فرائض ادا کرے۔
ایک مجرم کو جب احساس ہو جاتا ہے اور اس احساس کو جب معاشرہ محسوس کر کے قبول نہیں کرتا تب تک ہونے والے کسی قتل، چوری، ڈکیتی، زیادتی بلکہ ہر جرم میں ہمارا کسی نہ کسی قدر و شکل ضرور کنٹریبیوشن ہے,,,,,,,,,اور وہ ایسے کہ اب جب اسی استاد کو معاشی سہارا یعنی نوکری نہیں ملے گی، تو معاشرے میں چوری اور ڈکیتی کی خبریں اخبارات کی زینت بنا کریں گی، ایک سزایافتہ مجرم جس کے احساس ہو جانے کو نظرانداز کر کہ مجرم ہی تصور کر کہ یا عزت دار تصور نہ کر کہ ایک عام آدمی کی طرح امور زندگی کی ادائیگی کا موقع نہ ملے اور نام نہاد شرفاء میں وہ رشتہ داری کے قابل نہ سمجھا جائے تو آئے روز زنا اورزنا بالجبر کے قصے سن سن کے عدالتوں کی دیواریں بھی معاشرے کی بے حسی پر شرمندہ ہوا کرتی ہیں۔ایک غلطی تو سنا ہے خدا بھی معاف کر دیا کرتا ہے۔ لیکن ہمارے رویوں میں گھٹی میں دی جانے والی جہالت کا بدبودار اثر اور ہمارا کھوکھلا معزز و مہذب پن ہمیں مثبت اقدام سے روکے ہوئے ہے۔
قانون مزید اقدامات سے قاصر ہے
مکمل تحریر >>

10 نومبر، 2014

روئے زمیں پر قیام امن ممکن ہے


ایمان امن سے ماخوز ہے لیکن ایمان شائد وہ واحد ماخذ ہے جس کو اخذ کرنا خود ماخذ یعنی امن کی مجبوری تھی۔
کیونکہ امن ممکن تب ہی ہے جب ایمان مکمل ہو۔اور شائد ہر ایک آدمی کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا بلکہ ملائک تک میں سے بھی ہر ایک اپنا ایمان مکمل نہ کر سکا ورنہ ابلیس کو بھی آتے تھے وضو کے فرائض بہت۔
اب ایمان مکمل نہ ہونے کی وجہ سے برائی کسی نہ کسی جگہ کسی نا کسی شکل میں نظر آتی ہے۔ ایمان ایک انٹیرئیر کیفیت کا نام ہے جو ایکسٹرئیر کو کنٹرول کرتی ہے۔ جیسے ایک کار کا انٹرئیر اس کے ایکسٹرئیر کو کنٹرول کرتا ہے جس کے لئے مختلف فنکشن ہیں جیسے گاڑی کے اندرسے سمت تبدیل ہوتی ہے تو باہر والا حصہ سر تسلیم خم کر دیتا ہے اور اگر ایسا نہیں کرتا تو بھیا نک حادثہ نتیجے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ 
اسی طرح انسان کا انٹرئیر یعنی ایمان اس کے ایکسٹرئیر یعنی اعمال کو کنٹرول کرتا ہے۔
ایمان کی بنیادی طور پر چار کیفیات ہیں جن کی مزید اقسام اور درجات ہیں ایک یقین کی اصل کیفیت جن کا ایکسٹرئیر یا اعمال نیک صفت ہوں۔ عام طور پر شعور و لا شعور میں وہ عمل(عبادات کو چھوڑ کر) کسی بھی ایمانی کیفیت والے شخص سے سرزد ہو اور اس عمل کو تین میں سے دو طبقات کی حمایت حاصل ہو تو یہ عمل یقیناً مثبت ہو گا۔ اسی طرح جس عمل کی اکثریت مخالفت کرے منفی ہو گا یہاں بھی عبادات کو الگ رکھ کر عمل کی تعریف کریں۔
اب چونکہ زندگی عبادت کی طرح تو گزاری جا سکتی ہے لیکن عبادت میں ہی گزارنا اکثر مجھ جیسی ناچیزوں کے بس میں نہیں ہوتا۔تو ضرورت پڑتی ہے ایسے ایمان کی جو صرف ایک مہذب و معزز مذہب ہی نہ ہو بلکہ مذہب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فطری نظام زندگی بھی ہو۔تو بے ساختہ دین اسلام پر نظر پڑتی ہے جس میں مذہب کے ساتھ ساتھ ایک ایسا چارٹر دیاگیا جس میں ایسا عمل موجود ہے اور نہ پسند کیا گیاجو بنی نوع انسانیت کے کسی انسان اور کل مخلوق میں سے کسی تخلیق کے لئے باعث تکلیف ہو۔دین اسلام میں موجود ضابطہ حیات میں کوئی واضع اعتراض کی ایک وجہ تک دیگر مذاہب کو نہ مل سکی، اس میں دیگر تمام مذاہب کی نسبت امن اور امن پسندی ہے، بلکہ میں یہ مثال دینے کا موقع قطعاً نہیں کھونا چاہتا کہ دین اسلام کے امن پسند ہونے کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہو گا کہ اس نظام میں معافی کو جہاد سے بھی افضل قرار دیا جس کا عملی ثبوت فتح مکہ پر دیا کہ بدلہ کی طاقت اور حق محفوظ رکھتے ہوئے معاف کر دینے کو پسندیدہ ترین قرار دیا گیا۔اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو کہ انسانیت کی معلوم تاریخ میں سب سے پہلے عورتوں کو مرد کے برابر حقوق دینے کا تصور دین اسلام نے پیش کیا۔
پہلی بار انسانی غلامی کی مخالفت دین اسلام میں سامنے آئی بلکہ دین اسلام کے آئین میں ہر انسان کواس کی پیدائش سے پہلے ہی یہ حق دے دیا گیا کہ کوئی بھی شخص آزاد پیدا ہوتا ہے اور اس کی آزادی غصب کرے کا حق کسی کو حاصل نہیں،دیگر مذاہب میں اگرچہ امن موجود ہے لیکن مذہب اور ضابطہ حیات میں کچھ بنیادی فرق ہیں کہ اگر ان میں سے کسی بھی مذہب پر مکمل عمل پیرا ہو کر امن قائم کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لئے مکمل طور پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے کہ معاشرے کا ہر شخص عبادت میں مصروف رہے۔جبکہ معاشرہ معاش کے بغیر نہیں چل سکتا کہ ایک گھر کے تمام افراد مشغول عبادات رہیں تو ایک ماہ بعد بھوکے مر جائیں گے کیونکہ کوئی مذہب ذریعہ معاش نہیں بتاتا تا وقتیکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہو تو دوبارہ دین اسلام کی جانب نگاہیں اٹھتی ہیں جو نہ صرف عبادات بلکہ حمل سے قبر تک کے طرز زندگی میں معاون و رہنما بنتا ہے جس کے وضع کردہ اصول یا عمل پر کوئی قابل ذکر اعتراض نہیں کیا گیا۔اسلام ہی وہ واحدمذہب ہے جو بیک وقت نظام بھی ہے جبکہ حقیقتاً نظام فطرت کے تا بع ہوتا ہے اور مذہب کسی کے تابع رہنے کو پسند نہیں کرتا اس لئے یہ تابع رکھتا ہے، ایسی دو متضاد قوتوں کو یکجا کرنا صرف اور نظام اسلام کا خاصہ ہے کہ اس نے عبادت کو بھی عین فطری بنایا اورفطرت کو ہی عبادت بنا دیا ایک مثال دینا ضروری سمجھوں گا کہ نماز ایک جسمانی عبادت ہے اور جسمانی مشقت(ورزش) انسانی جسم کو توانا و چست یا صحت مند رکھنے کے لئے از حد ضروری ہے جبکہ نماز ایسی عبادت میں انسان کوفطری و مذہبی فوائد حاصل ہوئے اسی طرح رات کو سونا ایک فطری عمل ہے لیکن دین اسلام میں اسے بھی عبادت بنا دیا گیا۔ کھانا کھانا انسان کا فطری عمل ہے لیکن ایک طریقہ کار متعین کر کے دین اسلام نے اسے بھی عبادت کا درجہ دیا ، اور ازاں بعد انسان کی رہنما ئی ازخود خالق کائنات نے فرمائی جس کے لئے اپنی جانب سے پیامبر پیغام دے کر بھیجے اور انہوں نے وہ آ کر بتایا جو انسان نہ جانتے تھے اور یہاں تک علم بھیجا کہ انسان کو شکوہ نہ رہے کہ لا علم تھے اور انسان کو عقل عطا فرمائی جس سے وہ سوچتا ہے اور اس کو اس قدر وسعت دی کہ جس قدر اس نے بہتر جانا اور بار ہا یہ باور کروایا کہ مجھے تمہاری عبادتوں کی ضرورت نہیں تمہاری عبادتیں میرے کسی کام آنے والی نہیں ہیں اگر رب نے عبادتیں کروانی ہوتی تو ان پانچ ارب انسانوں کی جگہ پانچ ارب فرشتے بنا کر کام چلا لیتا۔اور غور کرنے کو کہا کہ اس عبادت میں بھی تمہارا ہی فائدہ ہے اگر تم غور کرو تو۔ اور اگر انسان کلام الٰہی پر غور کر پائے تو واضع طور پر تمام احکامات کی تہہ میں انسان کا فائدہ ہی پوشیدہ رکھا گیا ہے مثال کے طور پر سوچیں ہمیں روزہ رکھوانے کااللہ تعالیٰ کو کیا ذاتی فائدہ ہو تا ہو گا؟
قیام امن میں معاشرے کے مذہبی پہلوؤ ں کی بجائے فطری اور عملی پہلوؤں کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے، مثلاً معاشرے میں اگر امن قائم کرنا ہو تو جوبنیادی چیز ضرورت پڑتی ہے وہ ہے مساوات یعنی برابری کیونکہ اس کے بغیر موت کے علاوہ کوئی دوائی امن نہیں لا سکتی برابری سے مراد عمر میں برابری سمجھ کر جملہ درگزر نہ کر دیا جائے اس لئے واضع رہے کہ برابری سے مراد معیار زندگی میں برابری ہے۔ جس میں معاشی طور پر برابر ہونا ضروری ہے اور امن قائم کرنے اور قائم رکھنے کے لئے آج کل کے مہذب معاشرے کوئی نہ کوئی حکمت عملی اپناتے نظر آتے ہیں جہاں (چیریٹی) خیرات ، ڈونیشن، سروسز چارجز، پینلٹی اور محصولات جیسی PRECTICES متعارف کروائی گئی ہیں کہ ملک یا معاشرے میں عدم مساوات نہ ہو اور معاشی نظام میں خرابی نہ آسکے لیکن ان میں سے کسی کو بھی مذہبی اہمیت حاصل نہیں لیکن دین اسلام میں معاشرے میں معاشی مساوات برقرار رکھنے کے لئے ایک ایسی پریکٹس متعارف کروائی جس کو عین عبادت کا درجہ دیا گیا بلکہ فرض کر دیا گیا۔اور دین اسلام کا ایک بنیادی رکن بنا دیا گیا۔
دین اسلام کا امن پسند ہونے کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو کہ قیام امن میں درکار ایک جزو یا پریکٹس کے انکار کرنے والوں سے سختی بھی کی اور یہاں تک کہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کے مرتکب افراد کے خلاف اعلان جنگ کا حکم موجود ہے۔ ایمان مکمل اور خالص اسی وقت ہو سکتا ہے جب مذہب اور فطرت میں کوئی عدم مماثلت نہ ہو جو صرف دین اسلام میں ممکن ہے جہاں موت کے بعد کی زندگی ( جس کی تصدیق حال ہی میں جرمن یونیورسٹی Technische Universitatمیں ڈاکٹر برتھولڈ ایکرمین کی سربراہی میں سائنسدانوں کی ایک ریسرچ ٹیم نے بھی کی کہ موت کے بعد بھی ایک زندگی ہے جس کے لئے انہوں نے مختلف مکتب فکر و مذاہب کے 944رضاکار افراد پر کارڈیو پلمونری ریسی ٹیشن (CPR) نامی مشین سے تجربات کئے)کا ایک عالم گیر فلسفہ و تصور دیا جس سے معاشرے میں قیام امن کے لئے درکار بنیادی عناصر میں سے ایک صبر و قناعت کا عنصر پروان چڑھایا۔ اسی طرح سزاو جزا اور اجر و ثواب جیسے اصول وضع کر دئیے جن سے معاشرے میں رواداری ، ہمدردی ، بھائی چارہ، اخوت، عیادت ، خدمت ، معاونت ، عدل و انصاف، حسن سلوک، ادب، صلح رحمی اور رحمدلی جیسے جذبات بیدار کئے جو کسی بھی معاشرے میں قیام امن کے لئے نا گزیر ہوتے ہیں۔
اور اگر معاشرے کو چار ایمانی کیفیات والے افراد کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا جائے تو قیام امن کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
ایک حقیقت کو مان لینا چاہیے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور سات ارب میں اللہ تعالیٰ نے یقیناً اکثریت فکر کرنے والوں کی رکھی ہے جو سوچتے اور سمجھتے ہیں جیسے کسی شخص کے کردار میں موجود خامیوں یا خوبیوں کا تعلق اس کے مذہب اور اس کے نظام سے براہ راست ہوتا ہے۔مثال کے طور پر کوئی شخص پیدائشی چور نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی مشغلے کے طور پر چوری کرتا ہے، سوائے چند ایک جن ایمانی کیفیات والی شخصیات کا ذکر آگے کیا جائے گا معاشرہ اور نظام یعنی رائج ضابطہ حیات اس کو چور یا مجرم بناتے ہیں۔بالکل بعینہ دین اسلام کے ساتھ آجکل دنیا بھر میں انتہا پسندی کا الزام عائد کیا جاتا ہے، لیکن اسلامی تعلیمات میں اس کا اشارتاً بھی ذکر نہیں کیونکہ اگر دین اسلام میں انتہا پسندی ہوتی تو یہ دیگر مذاہب کی طرح مذہبی عبادات اور احکامات تک محدود رہتا عالم انسانی کو ایک مکمل اور فطری ضابطہ حیات نہ بنا کر دیتا۔
لیکن چونکہ دین سے دوری اور ضابطہ کی خلاف ورزی بالکل اس جان بچانے والی دوا کی طرح ہوتی ہے جو غلط استعمال پر یا زائد المعیاد ہو جانے پر جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
پہلے طبقہ یا پہلے ذکر ہونے والے طبقے جسے میں اصل ایمان بھی سمجھتا ہوں اس میں اور اس سے مخالف طبقہ کیفیات میں آپس میں بالکل برابر ہوتے ہیں جہاں ان میں درست اور غلط میں فرق کرنے کے لئے نظریا ت ایگزامن ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک آدمی کی زندگی کا ایک محور ہوتا ہے اور وہ موت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اسی محور کے گرد زندگی گزارتا ہے، اور اپنے ہر عمل کا معاشرے کو یا کم از کم اپنے آپ کو جواب دہ ضرور سمجھتا ہے جہا ں اس نے زندگی گزارنے کے اصول متعین کئے ہوتے ہیں وہ اپنے آپ سے سوال کرتا ہے کہ کیا میرا یہ عمل درست ہے؟ یہاں تک اصل ایمان اور کفر یعنی مخالف طبقے میں مماثلت ہوتی ہے، لیکن اگلا سوال نظریے سے متعلق ہے جو درست اور غلط میں فرق کا باعث ہے کہ
’’ کیامعاشرے کی اکثریت بھی اس عمل کو درست سمجھتی ہے’’؟
اور دوسرے سوال کا جواب بھی مثبت پانے والے یقیناً درست ہوتے ہیں اب تیسر ی قسم کا ذکر کرنے سے پہلے چوتھی قسم کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کیونکہ تیسری قسم کی کیفیات والے لوگ ہی اصل مسائل کا باعث ہیں جبکہ دوسری اور مخالف قسم کا تدارک موجود ہے چوتھی کیفیت ان افراد کی ہوتی ہے جو سرے سے ہی لا علم ہوتے ہیں جن کے دماغ میں درست اور غلط کے تصور نے ابھی جنم ہی نہیں لیا ہوتا، جن کو قرآن پاک میں بد ترین جانور کہا گیا، جو معاشرے پر بوجھ ہوتے ہیں اورکسی سے نظریہ ادھار تک نہیں لیتے ، ایسے افراد اور قسم کے تدارک کے لئے دین اسلام میں علم کے حصول کوبلا تخصیص وبلا تقسیم جنس فرض قرار دیا گیا۔اورآخری قسم ایک درمیانی کیفیت کا نام ہوتا ہے جو غلط اور درست کی درمیانی کیفیت میں مبتلا ہوتے ہیں جیسے مثال کے طور پر ایک مسلمان ہونے کے ناطے میں اپنی زندگی کی محفوظ یاداشت کا جائزہ لینے کے بعد ایک نتیجہ پر پہنچتا ہوں کہ درست یا غلط اور ہر مسلمان بلا شبہ اس ایکسر سائز کے بعد ایک نتیجے پر پہنچتا ہے کہ وہ کامیاب ہے یا وہ ناکام ہے۔ اس نتیجے کے بعد آپ اندازہ لگا لیں کہ اگر آپ اس سروے کے بعد اپنے آپ کو کامیاب تصور کرتے ہیں تو آپ معاشرے کا سرمایہ ہیں اوراندازہ کریں کہ اب اگر تمام افرادآپ جیسے ہوجائیں تو معاشرہ کتنا خوشحال ہو، آپ معاشرے کی حالت دیکھ کر اندازہ لگا لیں کے افراد کس ایمانی کیفیت سے تعلق رکھنے والے ہیں، اور اگر آپ اپنی یاداشت میں محفوظ اعمال کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ افسوس صد افسوس تو آپ یہ تحریر اس سے آگے مت پڑھیے۔ بلکہ میں آپ کی ہدایت کے لئے دعا کرتا ہوں اور آپ میری ہدایت کے لئے دعا کیجئے اور آگے پڑھنے سے پہلے اس تحریر کو آغاز سے پڑھنا شروع کیجئے۔
موجودہ حالات میں دنیا بھر میں بالعموم اور ملت اسلامیہ بالخصوص قیام امن کے حوالے سے بہت نازک دور سے گزر رہے ہیں جس کی وجہ دو بنیادی نظریات کی جنگ درست یا غلط نہیں بلکہ قیام امن میں حائل درست و غلط طبقے کا درمیانی طبقہ ہے جو آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ وہ مذہبی ہے یا سیکولر اگر مذہبی ہے تو کونسا ہے اور اس کا فرقہ کونسا ہے اور کیا اس فرقے کو اس مذہب کے باقی فرقے درست سمجھتے بھی ہیں کہ نہیں ، اور یہ کش مکش کہ وہ سیکولر بھی ہے یا نہیں کیا اسے باقی سکیولر سیکولر سمجھتے بھی ہیں کہ نہیں اس درمیانی کیفیت میں مبتلا لوگ دراصل معاشرے کی ترقی کی رکاوٹ ہوتے ہیں کیونکہ آپ سیکولرز کو بھی اکثر اوقات درست بات کرتے ہوئے سنیں گے جس پہ کسی مذہب کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا اور وہ معاشرے کی بہتری کے لئے کار آمد بھی ہوتی ہے۔دنیا اب چونکہ گلوبل ویلیج کی شکل اختیار کر چکی ہے اور دنیا کے ایک کونے میں کسی ایک شخص یا ایک گروہ کی ایک حرکت سے اگر دنیا کے دوسرے کونے میں کسی شخص یا قوم کے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہے ساری دنیا ایک معاشرے کی صورت ہے جہاں ہر ایک کو لبرل کی طرح سوچنا پڑے گا کیونکہ دنیا میں 14۔2013 کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی سات ارب بارہ کروڑ انیس لاکھ میں سے 23.4% یعنی ایک ارب چھیاسٹھ کروڑپینسٹھ لاکھ چوبیس ہزار چھ سومسلمان ہیں اور باقی76.6% آبادی دیگر 21 مذاہب پر یقین رکھتی ہے جن میں سب سے زیادہ مانا جانے والا مذہب عیسائیت ہے دنیا بھر میں جس کے ماننے والوں کی تعداد 2.1 بیلیئن ہے جو کل آبادی کا 31.5% بنتا ہے۔جبکہ اس وقت دنیا کی نکیل صرف ایک کروڑ بیالیس لاکھ تینتالیس ہزار آٹھ سو یہودیوں نے جو ساری آبادی زیرو اعشاریہ 2فیصد ہیں جو 99.80%آبادی پر بد معاشی کر رہے ہیں۔
وجہ۔۔۔۔ درمیانی کیفیت 
جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیکولرازم اور مذہبیت کے معاملے میں دریا دلی سے کام لینا ہو گا کہ 23.4 فیصد لوگوں کا کہنا باقی 76.6 فیصد لوگ ماننے کے پابند نہیں لیکن اگر 23.4 فیصد اگر قول و فعل میں تضاد ختم کر دیں گے اور ایک آدھ مثال ہی کسی ریاست میں کسی کامیاب معاشرے کی بنا کر پیش کر دیں گے یا ایک آدھ مثالی فلاحی ریاست بنا کر دکھا دیں گے تو کوئی امر مانع نہیں کہ لوگ 0.2فیصد کی بجائے 23.4 فیصد لوگوں کی بات مانیں ۔

خرم شہزاد بیگ
کشمیر ایکسپریس میں 14&15 ستمبر
مکمل تحریر >>

6 نومبر، 2014

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں


ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے يہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
منیر نیازی
مکمل تحریر >>

تلاش کیجئے