20 مارچ، 2015

جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے

چالیس برس پر تین اوپر ہوئے کہ ایک بچہ اپنے والد کی گود میں کراچی کے کینٹ ریلوے سٹیشن پر اترا۔ اس پر بچپن، لڑکپن اور جوانی کا عرصہ اسی شہر میں گزرا۔ اس نے دیکھا کہ کراچی آنے والا ہر نیا شخص چند ہی روز میں اپنے حصے کی یہ گواہی ضرور دیتا کہ اس شہر میں زندگی کی رفتار بہت تیز ہے۔ زندگی کی اس تیز رفتار سے ہر شخص کا وقت بہت اچھا گزرتا۔ اتنا اچھا کہ "غریب پروری" اس شہر کا استعارہ بن گیا اور کیوں نہ بنتا کہ یہ ہندوستان سے آنے والے ان مہاجرین کا شہر بن چکا تھا جن کی زکوٰۃ و عطیات نے صدیوں تک صحرائے عرب کے بدوؤں کی پرورش کی تھی۔ آل سعود آج بھی ہندوستانی مسلمانوں کی اس سخاوت کے حوالے دیتے نظر آتے ہیں جو تحریک پاکستان کی ہنگامہ خیزیوں تک جاری رہی۔ تحریک پاکستان کی دھول بیٹھی تو ان مہاجرین نے دیکھا کہ جو عالم عرب پانی کے کنووں کو ترسا کرتا تھا وہاں تیل کے کنویں پوری دنیا کی مشینوں کو سیراب کرنے کے لئے منہ کھول چکے۔ اب عرب بدو غریب نہ رہے تھے۔ ہندوستان سے لٹ پٹ کر کراچی پہنچنے والوں کے جیسے ہی قدم جمے انہوں نے مکے اور مدینے کا متبادل مدارس و مساجد کو بنا لیا۔ ان کی دولت سے کراچی شہر میں پہلے ایسے کارخانے لگے جو ملک کے طول عرض سے مزدوروں کو دعوت کار دینے لگے اور پھر انہی کے سرمائے سے ایسے مدارس بنے جو پاکستان کے ہر ضلع سے طالب علموں کو مقناطیس کی طرح کھینچتے چلے گئے۔ یوں اپنے خون سے قیام پاکستان کی حقیقت لکھنے والوں نے اپنے سرمائے سے ایک ایسا شاندار "منی پاکستان" بھی کھڑا کر کے دکھا دیا جسے عروس البلاد کا تاج ملا۔ مدارس و مساجد پورے ہوئے تو انہوں نے پاکستان کی سب سے بڑی ویلفیئر آرگنائزیشنز کھڑی کردیں۔ کراچی آج پاکستان کا وہ شہر بن چکا جہاں پاکستان کے سب سے بڑے کارخانے اور سب سے بڑے مدارس ہی نہیں، سب سے بڑے خیراتی ادارے بھی پائے جاتے ہیں۔ اس ملک کا شائد ہی کوئی مدرسہ اور خیراتی ادارہ ہو جو ہو اہل کراچی کی مدد کے بغیر چل رہا ہو۔ یہ دینی منصوبوں پر خرچ کرنے والوں کے شہر کے طور متعارف ہوا اور یہ ضرورت مند کی ہر ضرورت اس شان سے پوری کرنے لگا کہ خود غریب اسکی غریب پروری کا گواہ ہوا۔ یوں ہر نظر کراچی پر پڑ گئی۔
جب ہر نظر اس پر پڑی تو نظر تو لگنی تھی۔ یہاں سیاست کے سورج کو عصبیت کا گہن لگ گیا اور قوم نے صلوٰۃ الکسوف پڑھنے میں دیر کردی۔ جس سے زندگی کی رفتار ہی نہیں خود زندگی غیر یقینی ہو کر رہ گئی۔ یہاں ایسے ماہ سال آنے لگے جن کے آنے کا پتہ چلتا اور نہ ہی جانے کا۔ اب یہاں وقت رک رک کر چلتا اور زندگی چل چل کر رکتی۔ سبحان الذی سخر لنا۔۔۔۔ کے بغیر چلنے والی گاڑی نذر آتش ہونے لگی اور ماں سے آیت الکرسی دم کرائے بغیر نکلنے والے خون میں لت پت لوٹنے لگے۔ جن انسانوں کی حرمت انکے مالک نے حرمت کعبہ سے بڑھ کر طے کی تھی وہ ایسے بے قیمت ہوئے کہ انکی زندگی کے سودے صرف پانچ ہزار میں طے ہونے لگے۔ ایسی آہ و فغاں بلند ہوئی کہ شہر قائد میں واقع مزار قائد کے گنبد سے روح قائد نے پوچھا۔
"یہ شور کیسا؟ یہ چیخیں کیوں؟ یہ آہیں کاہے؟"
جواب آیا
"قائد! تیرے شہر میں ایک نیا قائد آیا ہے، اس کا فلسفہ عام کیا جا رہا ہے"
ایک ایسا فلسفہ جسے بیاں فاروق ستار کرتا اور عیاں صولت مرزا کرتا۔ جس کا متن حیدر عباس رضوی پڑھتا اورحاشیہ اجمل پہاڑی لکھتا۔ جس کا پروف ریڈر وسیم اختر ہوتا اور سرخ پرنٹ ندیم نصرت نکالتا۔ جس کی تلاوت فیصل سبزواری کرتا اور فاتحہ عبید کے ٹو پڑھتا۔ جس کا جمالی فرشتہ تنویر الحق تھانوی اور جلالی فرشتہ فیصل موٹا ہوتا۔ مگر ظلم و عدوان تابکے؟ شائد ڈھیل کا عرصہ تمام ہوا۔ کراچی میں عزیز آباد اور اس کے اطراف زندگی کی رفتار ایک بار پھر اسقدر تیز ہوگئی ہے کہ چَین ہی چَین لکھنے والا راوی چِین ہی چِین لکھنے لگا ہے۔ واقعات اس تیزی سے رونما ہو رہے ہیں کہ گوشوارے ترتیب دینا دشوار ہو چلا ہے۔ انسانیت کے دشمن چن چن کر بلوں سے نکالے جارہے ہیں۔ پراسیکیوٹر کیس ترتیب دے رہا۔ جج اپنے ہتھوڑے سمیت انتظاری ہے۔ سالوں سے کچی شراب کے نشے میں دھت جلاد کے منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر ہوش میں لایا جا رہا ہے اور پھانسی گھاٹ کے لیور کو تیل دیا چکا۔ شہر قائد کے نئے قائد نے قیام پاکستان کو بلنڈر کہہ کر اپنی غداری پر مہر تصدیق ثبت کردی تھی۔ سنا ہے آج بھی قائد کی روح نے مزار قائد کے گنبد سے پوچھا۔
"یہ شور کیسا؟یہ چیخیں کیوں؟ یہ آہیں کاہے؟"
جواب آیا
"جوقائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے"

تلاش کیجئے