کیا یمن نے سعودی عرب کوکو ئی دھمکی دی ہے؟
ایران کیوں یمن کا ہمدردبنا ہوا ہے؟
کیا یمنیوں کے مذہبی عقائد ایرانیوں سے ملتے ہیں یا فقہ حنفیہ سے؟
کیا یمن میں کوئی فرقہ وارانہ تنازعہ ہے؟
یمن کے حوثی کون ہیں؟ ان کا پس منظر کیا ہے؟
یمن پر کنٹرول کیوں اہم ہے؟
آجکل یہ سوالات بہت اہم ہیں۔ ان کے جوابات بھی یقیناً۔
آئیے مل کر ان کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہاں طرفداری نہیں، غیر جانبداری ضروری ہے۔
یمن کا محل وقوع
سب سے بڑی حقیقت یمن کا محل وقوع ہے۔ اس کے مغرب میں بحرِ احمر Red Sea اور بالخصوص آبنائے باب المندب ہے یعنی Strait of Bab Al-Mandab۔ اور جنوب میں بحرِ عرب واقع ہے۔ یہیں یمن کا ساحلی شہر عدن اور مشہور بندرگاہ واقع ہے۔ یمن کے شمال مغرب میں یمن کا دارالخلافہ صنعاء ہے اور باب المندب پر حدیدہ کی بندر گاہ ہے۔ جنوب میں خلیج عدن کے مغرب میں صومالیہ ہے۔ شمال میں سعودی عرب کی طویل سرحد ہے۔ مغرب میں جبوتی اور اریٹیریا ہے۔
تاریخی پس منظر
تاریخی پس منظر کے لحاظ سے یہ علاقہ بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہاں بحرِ احمر کے دونوں طرف یعنی یمن اور ایتھوپیا میں ملکہ سبا Queen Sheba کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ اس وقت کے ایتھوپیا میں صومالیہ، اریٹیریا اور جبوتی بھی شامل تھے۔ یوں بحرِ احمر کے دونوں جانب واقع صحراؤں کے جنوب میں یہ عظیم سلطنت ہوا کرتی تھی۔ اسے Queendom of South کہا جاتا تھا۔ جبکہ صحرائے عرب کے شمال میں حضرت سلیمان ع کی سلطنت ہوا کرتی تھی جسے Kingdom of North کہا جاتا تھا، یہی باب المندب کی آبی گزرگاہ تھی جہاں سے افریقہ کی طرف سے ہاتھی عرب و یمن کی طرف لائے جاتے تھے۔ خانہ کعبہ کو مسمار کرنے کا ارادہ لے کر آنیوالا یمنی حکمران ابرہہ بھی انہی افریقی ہاتھیوں کی فوج کے ساتھ حملہ آور ہوا تھا۔ واضح رہے کہ صحراْے عرب ہاتھی نہیں پائے جاتے تھے۔ اور پھر مسلمانوں نے پہلی ہجرت یعنی ہجرت حبشہ باب المندب کے راستے ہی کی تھی اور عیسائی بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کو پناہ دی تھی۔یمن کے حوثیوں یعنی زیدی شیعوں نے تقریباً ایک ہزار سال تک یمن میں حکومت کی ہے یعنی 1962ء تک۔
مذہبی رجحان
یمن کے حوثی ایک قدیم قبیلہ کا نام ہے۔ یہ اپنے آپ کو شیعہ زیدی کہلواتے ہیں۔ ان کے عقائد ایرانی، پاکستانی اور ہندوستانی شیعوں سے بہت زیادہ مختلف ہیں اور سوائے لفظ شیعہ کے باقی عقائد فقہ حنفیہ والے ہی ہیں، زیدی شیعوں کا عقیدہ اس طرح کا ہے کہ وہ رسالت کے بعد پانچ اماموں کو مانتے ہیں۔ البتہ ان کے پانچویں امام بھی دوسرے شیعوں کے برعکس امام محمد باقر نہیں بلکہ ان کے بھائی امام زید ابن امام زین العابدین ؑ ہیں۔ زیدی شیعہ تمام خلفاءِ راشدین یعنی ابوبکرؓ، عمرؓ اور عثمانؓ کو حنفی فقہ کی مطابق خلیفہ مانتے ہیں۔ یمن میں دوسرا بڑا فرقہ امام شافعی ؒ کو ماننے والوں کا ہے۔
تمام مسلمان ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں۔ کوئی الگ الگ مسجدیں نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ باقی شیعوں کے برعکس زیدی شیعہ بارہ اماموں کو نہیں مانتے۔ وہ Family Lineage کو بھی نہیں مانتے۔ انہیں Fivers بھی کہا جاتا ہے یعنی پانچ اماموں کو ماننے والے۔ ان کا ماننا ہے کہ جو بھی امام زید کی طرح باطل کی قوتوں کو میدان میں آ کر للکارے وہی امام ہے۔ یہاں کبھی بھی فرقہ وارانہ فسادات نہیں رہے البتہ کچھ عرصہ سے القاعدہ گھس آئی ہے جو فرقہ واریت کے بیج بونا چاہتی ہے۔
یمن کا محل وقوع ایسا ہے کہ یہ بین الاقوامی بحری تجارتی راہداری پر واقع ہے۔ کمزور ہے، غریب ہے لیکن طاقتوروں کی غلامی پر آمادہ نہیں ہے۔ حوثی اپنے ملک میں اپنی حکومت چاہتے ہیں۔ وہ ترقی چاہتے ہیں۔ انہوں نے ترقیاتی کام نہ ہونے کی وجہ سے صدر صالح کا تختہ الٹا حالانکہ صالح بھی حوثی اور زیدی شیعہ تھا۔ اس کے صدر ہادی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے کیونکہ ہادی امریکہ نواز تھا۔ اب سعودی عرب ہادی کی حمایت کر رہا ہے اور حوثیوں کو باغی کہا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ حوثیوں نے سعودی عرب کو نہ تو کوئی دھمکی دی ہے اور نہ کبھی کوئی ارادہ ظاہر کیا ہے۔ مگر عالمی سامراجی قوتیں سعودی عرب کے ذریعے باب المندب، خلیج عدن، بحرِ احمر اور بحرِ عرب کے یمنی اور صومالی ساحلوں پر مکمل کنٹرول چاہتے ہیں۔
ایران کی ہمدردیاں حوثیوں کے ساتھ ہیں۔ یہ ہمدردیاں مذہبی عقائد کی وجہ سے نہیں ہیں کیونکہ عقائد میں تو کوئی مماثلت ہی نہیں ہے۔ ایران کی ہمدردیاں صرف اس لئے ہیں کہ وہ خطے میں فقط سعودی عرب کی اجارہ داری نہیں چاہتا۔ اور جو قوت بھی اس اجارہ داری کے خلاف ہو گی، ایران کی ہمدردیاں اس کے ساتھ ہوں گی۔اس میں مذہبی عقائد اور فرقہ وغیرہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ ویسے بھی ایران تو یمن سے سینکڑوں میل دور ہے، اس کی سرحد بھی یمن کے ساتھ نہیں ملتی، سوائے ہمدردیوں کے کوئی خاص مدد بھی نہیں کر سکتا۔ امریکہ بھی ایران کے ساتھ رابطہ میں ہے۔ امریکہ کو پتہ ہے کہ حوثی نہ تو دہشت گرد ہیں، نہ فرقہ پرست اور نہ ہی محض وقتی قوت۔ وہ یمن کی اصل قوت ہیں، انہوں نے ایک ہزار سال یمن پر حکومت کی ہے۔ بالآخر حوثیوں کے ساتھ مذاکرات ہی کرنا پڑیں گے اور اس وقت ایران کی ضرورت ہو گی۔
یمن میں اصل مسئلہ آبنائے باب المندب پر کنٹرول کا ہے یہ یمن کی آبنائے ہے اور یہاں سے بین الاقوامی بحری تجارتی جہاز بالخصوص تیل بردار جہاز گزرتے ہیں چونکہ یہ یمن کی ملکیت ہے اسلئے فیصلے کا اختیار بھی یمن کو ہی ہونا چاہیے، یمن کے حوثی قبائل کی جدوجہد صرف یمن کے اندر ہے، وہاں پر حکومت حاصل کرنا ان کا حق ہے۔ فیصلہ یمن کی عوام کو کرنے دیاجائے۔ حوثی قبائل نے سعودی عرب کو نہ تو کوئی دھمکی دی ہے اور نہ ہی کوئی لڑائی کا ارادہ ظاہر کیا ہے، البتہ سعودی عرب اور مصر سابقہ حکمرانوں کے ذریعے آبنائے باب المندب پر عملی طور پر کنٹرول رکھتے تھے، اب وہاں مداخلت کے بہانے ڈھونڈے جا رہے ہیں الزام یہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ایران حوثیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے کیونکہ حوثی شیعہ زیدی ہیں جبکہ وہ ایران کی طرح شیعہ اثنا عشری نہیں ہیں اور سنی بریلویوں کے زیادہ قریب ہیں، ہاں البتہ وہ سعودی اہلحدیث یا وہابیوں کے قریب نہیں ہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ یمن کا اندرونی مسئلہ ہے جوبہرحال یمن کی عوام کو ہی حل کرناچاہیے۔
یمن میں اصل مسئلہ آبنائے باب المندب پر کنٹرول کا ہے یہ یمن کی آبنائے ہے اور یہاں سے بین الاقوامی بحری تجارتی جہاز بالخصوص تیل بردار جہاز گزرتے ہیں چونکہ یہ یمن کی ملکیت ہے اسلئے فیصلے کا اختیار بھی یمن کو ہی ہونا چاہیے، یمن کے حوثی قبائل کی جدوجہد صرف یمن کے اندر ہے، وہاں پر حکومت حاصل کرنا ان کا حق ہے۔ فیصلہ یمن کی عوام کو کرنے دیاجائے۔ حوثی قبائل نے سعودی عرب کو نہ تو کوئی دھمکی دی ہے اور نہ ہی کوئی لڑائی کا ارادہ ظاہر کیا ہے، البتہ سعودی عرب اور مصر سابقہ حکمرانوں کے ذریعے آبنائے باب المندب پر عملی طور پر کنٹرول رکھتے تھے، اب وہاں مداخلت کے بہانے ڈھونڈے جا رہے ہیں الزام یہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ایران حوثیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے کیونکہ حوثی شیعہ زیدی ہیں جبکہ وہ ایران کی طرح شیعہ اثنا عشری نہیں ہیں اور سنی بریلویوں کے زیادہ قریب ہیں، ہاں البتہ وہ سعودی اہلحدیث یا وہابیوں کے قریب نہیں ہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ یمن کا اندرونی مسئلہ ہے جوبہرحال یمن کی عوام کو ہی حل کرناچاہیے۔