ہمیں یہ کہنے میں ذرا برابر دقت نہیں ہوتی کہ اس ملک میں قانون نام کی چیز ہی نہیں ہے لیکن مجال ہے جو یہ سوچنا گوارا کرنے کا موقع آیا ہو کہ میرے اپنے اندر کسی قانون نام کی چیز کا وجود ہے، کیا ہم اس قسم کا معاشرہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں کہ جس میں قانون کی بالا دستی قائم رہ سکیتو یہ دونوں جواب منفی میں موصول ہوتے ہیں قانون ایک سوچ کا ایک نظریے کا نام ہے جسے دنیا بھر کے تمام معاشروں کے تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے با شعورافراد کی نگاہ میں مذہب کے برابر درجہ حاصل ہے جس کی تصدیق معلوم تاریخ میں ایک بھی مثال کانہ ملنا ہے کہ جس میں ثابت ہوتا ہو کہ کوئی معاشرہ نظریۂ قانون سے ناآشنا گزرا ہو حتی کہ "جنگل کا قانون" بھی ایک ضرب المثل کے طور ہی سہی لیکن استعمال ہوتی چلی آئی ہیکہ شیر گھاس نہیں کھاتالیکن بکری کے بچوں کا باپ ایک بکرا ہی ہوتا ہے۔ہمارے ملک سے کون سی حکومت اس ملک سے کتنی مخلص ہے اس کا اندازہ ملک میں سزا پا کر آنے والے افراد کی تربیت، اور فلاح و بہبود کے اداروں کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس ملک میں کسی مجرم کو سدھارنے کے لیے کتنی کاوشیں کی جا رہی ہیں کیونکہ جرائم پر صرف اسی صورت قابو پایا جا سکتا ہے کہ دوران سزا مجرم کو غلطی کا احساس دلایا جائے اور مستقبل میں نہ کرنے کے عہد کو یقینی بنایا جائے جو کہ ایک حد تک ہو جاتا ہے بالخصوص وہ مجرم جو پہلی دفعہ قانون سے سزا پا کر آتے ہیں لیکن ازاں بعد غیر مناسب معاشرتی رویوں کی بدولت جرم کو روکنا ناممکن ہے کہ جب ایک سزا یافتہ مجرم کو کوئی ادارہ ایک قابل عزت شہری تسلیم ہی نہیں کرتا یا اس کو فی الوقت درپیش معاشی مسائل میں کوئی حتی کہ گھر والوں تک کی کوئی امداد نہیں ملتی تو وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو کر مجبوراََ جرائم کا رخ کرتا ہے اور اس شعبے میں اس کا خیر مقدم کرنے والے اس لمحے کو برداشت کر کہ وہاں تک پہنچے ہوتے ہیں جو اس نئے آنے والے کے دل میں سے اس احساس کو ختم کر دیتے ہیں جو دوران سزا اس کے دل میں پیدا ہوا ہوتا ہے "کہ میں نے غلط کیاتھا"
اور اس کے ذمہ داران کون ہیں یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔احساس ہونا ایک رحمتِ خداوندی ہے اور ایک رحمت یافتہ شخص کے ساتھ معاشرے کا یہ منفی برتاؤ بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے۔قانون کی ذمہ داروں کی ذمہ داری ایک حد تک ہوتی ہے ازاں بعد معاشرے کے تمام افراد کو از خود امورمثلِ مذکورہ کی نہ صرف انجام دہی بلکہ خوش اسلوبی سے انجام دہی کو یقینی بنانے کے اقدامات کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرنی چاھیے بلکہ از خودایسی سرگرمیوں میں شمولیت اختیار کرنی چاہیے جن سے ممکن ہو کہ مجرم سزا پانے کے بعد ایسے ماحول میں نہ جائے جس ماحول کا ایک بھی دروازہ جرم کی گلی میں کھلتا ہو۔
لیکن ہم الحفیط و الاماں اس بیچارے احساس یافتہ شخص کو نہ صرف اس گلی کا راستہ دکھانے بلکہ از خود وہاں پر چھوڑ کر آنے کے بندوبست میں بھی کوئی کوتاہی برداشت نہیں فرماتے۔
اور لان میں صبح صبح صبح خیزی کے فوائد پر لیکچر دیتے ہو ئے اپنے بچوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی جرائم کی شرح پر بلاناغہ تبصرہ فرمانا بھی اپنا فرائض منصبی بلکہ اجداد کی سنت سمجھ کر ادائیگی کو باعث تفاخر گردانتے ہیں۔
یقینا قابل تحسین ہو سکتا ہے کہ کسی کے خاندان میں سے کسی نے کبھی بھی جرم کی گلی نہ دیکھی ہو لیکن وہ معاشرہ اور زیادہ قابل رشک ہوتا ہے جس میں ایک مجرم کو دوبارہ جرم کی گلی میں جانے سے روکنے کے مناسب اقدامات اور سب سے بڑھ کر ایسے رویے موجود ہوں۔
الگ المیہ یہ ہیکہ ہمارے معاشرے میں اس پر عمل درآمد تو درکنار اس کے بر عکس اقدامات کی حوصلہ افزائی تک کو ثواب کا درجہ حاصل ہیجو کسی کو ایسا سوچنے تک کی بھی توفیق میسر نہیں آتی۔
مثال کے طور پر ایک استاد کا اگر کسی جرم کی سزا کے دوران احساس بیدار ہو جاتا ہے تو کیا ہمارا معاشرہ ایک سزا یافتہ مجرم سے اپنے بچوں کی تعلیم و تدریس مناسب سمجھتا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟حالانکہ عین ممکن ہے وہ پہلے سے بھی بہتر انداز میں فرائض ادا کرے۔
ایک مجرم کو جب احساس ہو جاتا ہے اور اس احساس کو جب معاشرہ محسوس کر کے قبول نہیں کرتا تب تک ہونے والے کسی قتل، چوری، ڈکیتی، زیادتی بلکہ ہر جرم میں ہمارا کسی نہ کسی قدر و شکل ضرور کنٹریبیوشن ہے,,,,,,,,,اور وہ ایسے کہ اب جب اسی استاد کو معاشی سہارا یعنی نوکری نہیں ملے گی، تو معاشرے میں چوری اور ڈکیتی کی خبریں اخبارات کی زینت بنا کریں گی، ایک سزایافتہ مجرم جس کے احساس ہو جانے کو نظرانداز کر کہ مجرم ہی تصور کر کہ یا عزت دار تصور نہ کر کہ ایک عام آدمی کی طرح امور زندگی کی ادائیگی کا موقع نہ ملے اور نام نہاد شرفاء میں وہ رشتہ داری کے قابل نہ سمجھا جائے تو آئے روز زنا اورزنا بالجبر کے قصے سن سن کے عدالتوں کی دیواریں بھی معاشرے کی بے حسی پر شرمندہ ہوا کرتی ہیں۔ایک غلطی تو سنا ہے خدا بھی معاف کر دیا کرتا ہے۔ لیکن ہمارے رویوں میں گھٹی میں دی جانے والی جہالت کا بدبودار اثر اور ہمارا کھوکھلا معزز و مہذب پن ہمیں مثبت اقدام سے روکے ہوئے ہے۔
قانون مزید اقدامات سے قاصر ہے
اور اس کے ذمہ داران کون ہیں یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔احساس ہونا ایک رحمتِ خداوندی ہے اور ایک رحمت یافتہ شخص کے ساتھ معاشرے کا یہ منفی برتاؤ بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے۔قانون کی ذمہ داروں کی ذمہ داری ایک حد تک ہوتی ہے ازاں بعد معاشرے کے تمام افراد کو از خود امورمثلِ مذکورہ کی نہ صرف انجام دہی بلکہ خوش اسلوبی سے انجام دہی کو یقینی بنانے کے اقدامات کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرنی چاھیے بلکہ از خودایسی سرگرمیوں میں شمولیت اختیار کرنی چاہیے جن سے ممکن ہو کہ مجرم سزا پانے کے بعد ایسے ماحول میں نہ جائے جس ماحول کا ایک بھی دروازہ جرم کی گلی میں کھلتا ہو۔
لیکن ہم الحفیط و الاماں اس بیچارے احساس یافتہ شخص کو نہ صرف اس گلی کا راستہ دکھانے بلکہ از خود وہاں پر چھوڑ کر آنے کے بندوبست میں بھی کوئی کوتاہی برداشت نہیں فرماتے۔
اور لان میں صبح صبح صبح خیزی کے فوائد پر لیکچر دیتے ہو ئے اپنے بچوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی جرائم کی شرح پر بلاناغہ تبصرہ فرمانا بھی اپنا فرائض منصبی بلکہ اجداد کی سنت سمجھ کر ادائیگی کو باعث تفاخر گردانتے ہیں۔
یقینا قابل تحسین ہو سکتا ہے کہ کسی کے خاندان میں سے کسی نے کبھی بھی جرم کی گلی نہ دیکھی ہو لیکن وہ معاشرہ اور زیادہ قابل رشک ہوتا ہے جس میں ایک مجرم کو دوبارہ جرم کی گلی میں جانے سے روکنے کے مناسب اقدامات اور سب سے بڑھ کر ایسے رویے موجود ہوں۔
الگ المیہ یہ ہیکہ ہمارے معاشرے میں اس پر عمل درآمد تو درکنار اس کے بر عکس اقدامات کی حوصلہ افزائی تک کو ثواب کا درجہ حاصل ہیجو کسی کو ایسا سوچنے تک کی بھی توفیق میسر نہیں آتی۔
مثال کے طور پر ایک استاد کا اگر کسی جرم کی سزا کے دوران احساس بیدار ہو جاتا ہے تو کیا ہمارا معاشرہ ایک سزا یافتہ مجرم سے اپنے بچوں کی تعلیم و تدریس مناسب سمجھتا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟حالانکہ عین ممکن ہے وہ پہلے سے بھی بہتر انداز میں فرائض ادا کرے۔
ایک مجرم کو جب احساس ہو جاتا ہے اور اس احساس کو جب معاشرہ محسوس کر کے قبول نہیں کرتا تب تک ہونے والے کسی قتل، چوری، ڈکیتی، زیادتی بلکہ ہر جرم میں ہمارا کسی نہ کسی قدر و شکل ضرور کنٹریبیوشن ہے,,,,,,,,,اور وہ ایسے کہ اب جب اسی استاد کو معاشی سہارا یعنی نوکری نہیں ملے گی، تو معاشرے میں چوری اور ڈکیتی کی خبریں اخبارات کی زینت بنا کریں گی، ایک سزایافتہ مجرم جس کے احساس ہو جانے کو نظرانداز کر کہ مجرم ہی تصور کر کہ یا عزت دار تصور نہ کر کہ ایک عام آدمی کی طرح امور زندگی کی ادائیگی کا موقع نہ ملے اور نام نہاد شرفاء میں وہ رشتہ داری کے قابل نہ سمجھا جائے تو آئے روز زنا اورزنا بالجبر کے قصے سن سن کے عدالتوں کی دیواریں بھی معاشرے کی بے حسی پر شرمندہ ہوا کرتی ہیں۔ایک غلطی تو سنا ہے خدا بھی معاف کر دیا کرتا ہے۔ لیکن ہمارے رویوں میں گھٹی میں دی جانے والی جہالت کا بدبودار اثر اور ہمارا کھوکھلا معزز و مہذب پن ہمیں مثبت اقدام سے روکے ہوئے ہے۔
قانون مزید اقدامات سے قاصر ہے