کیا بھٹو بننے کے لئے بھٹو کا بیٹا،بیٹی، پوتا، پوتی، نواسا یا نواسی ہونا ضروری ہے؟؟؟
اور وہ لوگ جو یہ سوال اٹھاتے ہیں وہ کم از کم بھٹو کی عظمت کا تو اقرار کر لیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بھٹو ایک سوچ اور نظریے کا نام ہے نہ کہ کوئی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد ہے کہ جس میں حصہ داری کے لئے خونی رشتہ ہونا ضروری ہو۔
دوسری بات کہ بلاول تو بھٹو کا نواسہ ہے، بینظیر کا بیٹا ہے، اگر پوتا ہوتا تو وارث بن جاتا۔ تو اے اہل اسلام! ذرا یہ تو بتانے کی زحمت کیجییگا کہ امام حسنؓ اور امام حسینؓ تو علیؓ کے بیٹے تھے، رسولﷺ کے نواسے تھے وہ رسولﷺ کی نسبت سے کیوں جانے جاتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ وہ رسول کے نقش قدم پر ویسے ہی چلے جیسے علیؓ اور فاطمہؓ بنت رسول چلے اس طرح ان کی نسبت رسول کے ساتھ مضبوط ٹھہری۔
تیسری بات کہ ہم درود بھیجتے ہیں ابراہیم اور آل ابراہیم پر، محمد اور آل محمد ﷺ پر۔ تو اگر آل سے مراد خون کا رشتہ ہے تو خون کا رشتہ تو ابو لہب کا بھی ابراہیم سے ثابت ہے تو کیا ہم ابو لہب پر (معاذاللہ) درود بھیجنے کی جراءت کر سکتے ہیں جبکہ قرآن پاک میں تو ابو لہب پر لعنت ثابت ہے۔ اس لیے آل کا مطلب ہے سچا پیروکار، اس کا تعلق خون کے رشتے سے ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ البتہ سچا پیروکار ہونا لازم ہے۔ اور اگر کسی سچے پیروکار کا خون کا رشتہ بھی ہے تو زیادہ فخر کی بات ہے۔
چوتھی بات کہ لوگ بھی توقع رکھتے ہیں کہ مشکل وقت میں اپنے اباءواجداد کے وارث ہر قسم کی قربانی پیش کریں گے اور اگر نہیں کریں گے تو اپنے اباءواجداد کی طرح قابل تحریم قرار نہیں پائیں گے۔ امام حسن وحسینؓ نے اپنے عمل سے سچے پیروکار ہونے کا ثبوت دیا۔
اب اگر بلاول بھٹو اور بینظیر کی طرح اپنی قابلیت ثابت کرے گا، قربانی کے وقت قربانی پیش کرے گا تو یقینی طور پر بھٹو کہلائے گا۔ عام طور پر بھی دیکھا گیا ہے کہ جن کے بزرگوں نے قربانیان دی ہوتی ہیں وہی بوقت ضرورت قربانی دیتے ہیں۔ اس لیے لوگوں کو بلاول، بختاور اور آصفہ سے محبت بھی ہو گی اور توقعات بھی ہوں گی۔ اچھی وراثت فخر کی بات ہوتی ہے۔ اس لیے وراثت کی سیاست کے طعنے دینے والوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ اگر بلاول کے نانا نے قربانی دی ہے اور اس کی والدہ نے اس کے نانا کے نقش قدم پر چلتے ہوے قربانی دی ہے تو بلاول فخر کیوں نہ کرے۔