7 اپریل، 2015

قوم عاد و قوم ثمود

عرب و یمن کے تاریخی پس منظر میں
عاد اور ثمود کی قوموں کا ذکر قرآن کریم اور انجیل مقدس میں مسلسل پایا جاتا ہے، ان کی اجڑی ہوئی بستیوں پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے،قدیم یونانی مئورخوں نے بھی ان قدیم تہذیبوں کا ذکر کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان کے کرۂ ارض پر موجودگی کے ثبوت کہاں کہاں پرہیں؟
ہر تاریخی واقعہ کا جغرافیہ سے تعلق ہوتا ہے اور جس کا کوئی جغرافیائی محل وقوع نہ ہو اور ٹھوس ثبوت نہ ہوں، اسے حقیقت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ بغیر جغرافیائی اور طبعی ثبوتوں کے کوئی بھی واقعہ محض افسانہ ہو سکتا ہے، Fiction ہو سکتی ہے مگر حقیقت ہر گز نہیں۔ سچی کتابوں میں جو واقعات درج ہیں، وہ اسی کرۂ ارض کے کسی نہ کسی مقام پر ہو گزرے ہیں۔ ان کتابوں کو ایمان کی حد تک ماننے والوں کا فرض ہے کہ تحقیق کریں اور نا قابل تردید ثبوتوں کے انبار لگا دیں۔ یہ کام تحقیق کا ہے، سائنسی رویوں کا ہے۔ مگر بد قسمتی سے مذہبی ہامانوں نے سنبھالا ہوا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان میں اکثر کو ان جغرافیائی مقامات اور ان کے گرد و نواح کی ماحولیات کا بنیادی علم ہی نہیں ہے اور مزید بدقسمتی یہ کہ جس چیز کا علم ہی نہیں ہے، اس پر کامل مہارت کا دعوی کرتے ہوئے حتمی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے پیروکار عرصہ دراز تک ان کی لا علمی کو علم مانتے ہوئے دفاع کرتے ہیں اور بالآخر سچائی ڈھنکے کی چوٹ پر غالب آتی ہے اور جاہلانہ تشریحات کو ہمیشہ کے تاریخ کے قبرستان میں دفن کر دیتی ہے۔ 
قوم عاد کے بارے میں ام لکتاب یعنی قرآن مجید میں مندرجہ ذیل معلومات ہیں:
یہ عظیم اور انتہائی ترقی یافتہ قوم تھی، ان کا "ارم" نام کا شہر تھا جسے عظیم ستونوں والا شہر کہا گیا ہے یعنی کثیر منزلہ عمارتوں والا شہر۔ ان کے پیغمبر حضرت ہود ؑتھے۔ یہاں مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن آندھی چلی اور ریت کے طوفان نے پوری تہذیب کو ملیامیٹ کر دیا، نام و نشان مٹا دیا۔ انہوں نے کھیتی باڑی کے لئے"سد'' یعنی ڈیم بنائے ہوئے تھے جن کے بند عدم توجہ کی وجہ سے کمزور ہو گئے، چوہوں نے سوراخ کر دئییاور یوں جمع شدہ پانی نے تباہی مچا دی، حضرت ہودؑ قوم عاد کو متنبہ کرتے رہے مگر انہوں نے ان کی باتوں پر توجہ نہ دی۔
مکررسوال ہے کہ اس سب کچھ کے ثبوت کہاں پر ہیں؟
مذہبی ہامان تو کچھ واضع نہ کر سکے اور غلط لکھتے رہے مگر ماہرین آثار قدیمہ نے ایسے ثبوت ڈھونڈ نکالے، ماہرین آثار قدیمہ یعنی Archaeologists نے الہامی کتابوں اور یونانی مئورخوں کی کتابوں سے معلومات جمع کیں، مقام کا تعین کیا۔ مگر یہاں پر تو ریت کے اونچے اونچے ٹیلے Sand Dunes تھے اور وسیع و عریض علاقے پر پھیلے ہوئیتھے۔ ہر طرف ریت ہی ریت تھی۔ ریت کی گہرائی بھی معلوم نہ تھی اور اس کے کہیں نیچے دبے ہوئیقوم عاد کی تہذیب کے آثار تھے۔
یہ علاقہ جزیرہ نما عرب یا صحرائے عرب کا جنوبی علاقہ تھا، یہ یمن اور اومان (مسقط) کا علاقہ تھا اور یہیں حضرموت کی تہذیب پروان چڑھی تھی، جو قوم عاد کی تہذیب تھی اور ریت میں دب چکی تھی۔ یونانی مئورخ اسے Southern Arabia اور Fortunate Arabia لکھتے ہیں۔ اسے Fortunate اس لئے کہا جاتا تھا کہ باقی تو صحرا تھا مگر یہ جنوبی عرب انتہائی سر سبز و خوشحال علاقہ تھا۔
اب ماہرین نے ریت میں مدفون شہر کے مقام کا تعین کرنے کے لئے فضا سے طاقتور کیمروں کی مدد سے تصویریں لیں۔ ایک ایسے مقام کا پتہ چلا کہ جہاں ہر طرف سے راستے جاتے تھے، گویا یہ کوئی اہم مقام ہو سکتا تھا مگر پچاس فٹ نیچے ریت میں دبا ہوا تھا۔ 
اب اس مقام سے ریت ہٹانے کا مشکل کام شروع کیا گیا۔ بالآخر ایسے آثار مل گئے جہاں چار چار منزلہ عمارتیں موجود تھیں اور بیشمار انسانی ڈھانچے بھی ریت میں دبے ہوئے ملے،مزید تحقیق سے پتہ چلا کہ قوم عاد کی تہذیب1300 قبل مسیح سے 1000 قبل مسیح کے زمانے میں اپنے جوبن پر تھی،اس کے شمال میں وسیع و عریض ریگستان تھا جہاں سے ریت کے طوفان اٹھتے رہتے تھے اور ایک ایسے ہی طوفان نے جو مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن چلتا رہا، پوری تہذیب جو دفن کر دیا۔ یہاں تباہ شدہ بندوں اور ڈیموں کے آثار بھی ملے ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ اس شہر کو Ubar کا نام دیا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ مذہبی ہامانوں نے عظیم قوم عاد سے مراد ان کے ستر، ستر فٹ لمبے قد قرار دیا ہوا تھا جو کہ ثابت نہ ہو سکا۔ قوم عاد کے قد نارمل یعنی آجکل کے انسانوں جیسے تھے۔ اب یہ حقائق مذہبی ہامانوں کے کاروبار کو نقصان پہنچا سکتے تھے لہذا انہوں نے فوٹو شاپ کی مدد سے لمبے لمبے انسانی ڈھانچے بنا کر Internet پر لگا دئیے ہیں مگر یہ جعلی تصاویر مکانات کے دروازوں کی اونچائی سے مطابقت نہیں رکھتیں، ابھی تک کھدائی کا کام محدود ہے، ریت بہت زیادہ ہے۔ جوں جوں مزید معلومات سامنے آتی جائیں گی، قوم عاد کے عروج و زوال کے اسباب سے پردے اٹھتے جائیں گے۔
یمن کے شہر صنعا میں کثیر منزلہ تاریخی عمارات موجود ہیں جو Historical Mud Architecture کی مثالیں ہیں۔ 
مندرجہ بالا حقائق سے کئی مفید نتائج برآمد کئے جا سکتے ہیں۔
قوم ثمود کا ذکر عام طور پر قوم عاد کے ساتھ ہی آتا ہے۔ قوم عاد تو صحرائے عرب کے جنوب میں آباد تھی اور ریت کے طوفان میں دب گُیی۔ قوم ثمود کے بارے ذکر ہے کہ یہ لوگ پہاڑوں کو کاٹ کر، ان کے اندر عظیم الشان مکانات بنانے کے ماہر تھے۔ ان کے علاقے میں پانی کی شدید قلت تھی- ان کے پیغمبر حضرت صالح ع تھے۔ 
ان کا مسکن وسیع و عریض صحرائے عرب کے شمال میں ہے یعنی قوم عاد کے مخالف سمت میں۔ آجکل ان کا علاقہ شمالی اور شمال مغربی سعودی عرب اور اردن میں واقع ہے۔ سعودی عرب میں "مدائن صالح" یعنی حضرت صالح ع کی بستیاں کھنڈرات کی صورت میں موجود ہیں ۔ یہاں پر غاروں اور پہاڑوں کا ایک وسیع سلسلہ بھی ہے جنہیںHofuf Caves کہا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ بحرۂ احمر اور خلیج عقبہ کے مشرق میں اُردن تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ پہاڑی علاقہ ہے، لوگوں کی گذر بسر گلہ بانی پر ہوتی تھی۔ پانی کے وسائل محدود تھے اور چشموں کی صورت میں تھے۔ کچھ جگہوں پر لوگوں نے کنویں بھی کھود رکھے تھے۔ پانی کے وسائل پر امراء قبضہ کر لیتے تھے۔ غرباء اور ان کے مویشیوں کو پانی کم میسر آتا تھا۔ حضرت صالح ع نے پانی کی مینجمنٹ کی کوشش کی کہ پانی کسی کی ملکیت نہیں ہے۔ ایک اونٹنی جو ناقۂ صالح کہلاتی تھی اور طے یہ تھا کہ اسے پانی پینے سے ہر گز نہ روکا جائے گا اور اسی طرح سب جاندار پانی کے چشموں سے مستفید ہوں گے۔ مگر امراء کے غنڈوں نے ناقۂ صالح کے پاؤں کاٹ کراس منصوبے کو ناکام بنا دیا۔
اس علاقے میں پہاڑوں کو کاٹ کر بنے ہوئے خوبصورت مکانات موجود ہیں۔ بعد میں یہ علاقہ سلطنت روم کا حصہ بنا۔ رومیوں نے بھی پہاڑ کاٹ کر عمارات بنانے کا سلسلہ مزید خوبصورت انداز میں آگے بڑھایا۔ ان کے آثار اس علاقے میں جگہ جگہ موجود ہیں۔ آجکل اُردن میں "البتراء" کے مقام پر Petra Monuments کے نام سے ایک سائٹ Site موجود ہے۔ واضح رہے کہ Petra Monuments دنیا کے سات عجوبوں میں شامل ہیں اور Internet پر آسانی سے ان کی images دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ رومیوں کی بنائی ہوئی عمارات کے خوبصورت آثار ہیں۔ ان میں Roman Corinthian Columns اور Pediments نمایاں ہیں، یعنی Roman Rock-Cut Architecture یہ تھا وہ پہاڑی سلسلہ جہاں قوم ثمود نے پہاڑوں کو کاٹ کر عمارات بنانے کا فن روشناس کرایا تھا۔ سات مشہور عجوبوں میں سے ایک ہونے کی وجہ سے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہے۔ یہاں پر جانا بھی ایک دشوار گزار مہم Adventure ہے۔ اونچے اونچے پہاڑوں میں تنگ وادیاں ہیں۔ سیاح پہلے گاڑیوں پہ جاتے ہیں، پھر اونٹوں پر اور پھر پیدل بھی سفر کرنا پڑتا ہے۔اس طرح قوم عاد اور قوم ثمود نے دشوار گزار حالات میں ترقی کی عظیم منزلوں کو چھوا ۔ مگر امراء کی بد نظمیوں کی وجہ سے اسے برقرار نہ رکھ سکے۔

تلاش کیجئے