﷽
مشہور شخصیات کو زیر اثر کرنے اور مئوثر تبلیغ کے تبلیغیTactics کا ٹرینڈ تو بن چکا ہے اوراب چونکہ عادت بھی ہو گئی ہے تو تبلیغی جماعت کے Think Tank کو اس بات پر بھی ضرور غور فرمانا چاہیے کہ پاپولر شخصیات کی غلطیاں بھی انہی کی طرح تھوڑا زیادہ مشہور ہو جاتی ہیں اور علما کرام کو معاشرہ میں تعلیمی معیار بالخصوص نظام اسلام سے متعلق اپنی خدمات کا علم تو بخوبی ہوتا ہے جس کی یہ مثال دی جائے کہ ایک شخص حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شان میں نا دانستہ گستاخی کا مرتکب ہو تو دفعہ"جہاد" لگا دیا جائے جبکہ ایک فرقہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ ساتھ ان کے والد گرامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور چند دیگر محترم صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی شان میں قصداً بلکہ باقاعدہ تیاری کر کے (معاذ اللہ) زبان درازی کرے توقانون دانِ اسلام دفعہ "اجتہاد"یا زیادہ سے زیادہ دفعہ"اختلاف"کے زیر تحت فیصلہ صادر فرمائیں اس لئے حتیٰ الامکان کوشش کی جانی چاہیے کہ کسی بھی شخص کو منبر و محراب کا ناخدا مقررکرنے سے پہلےاس شخص کو نظام اسلام سےمتعلق مکمل سوجھ بوجھ اور سابقہ معاشرتی معیارِ معلوماتِ دین بارے مناسب حد تک آگاہ کیا جائے بصورت دیگرکسی شخص کی پاپولیرٹی ان کے گلے پڑسکتی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر کسی کی قیمتی جان ضائع ہو سکتی ہے، تاہم جنید جمشید کو جو جنید جمشید سے جنید جمشید صاحب بن گئے تھےکو اپنی ذات کا محاصبہ کرنا چاہیے۔
اگرچہ کوئی شخص دلی طور پر اور ارادتاً یا قصداً کسی ایسے قول یا فعل کا ارتکاب تو نہ کرے لیکن دیکھنے یا سننے والوں یا دیکھنے یا سننے والوں کو دیکھ یا سن کرمحسوس ہویا باالفاظ دیگر بلکہ باالفاظ درست کسی کو زیادہ مسلمانی چڑھ جائے اور اسکو یاد آ جائےکہ یہ مولوی صاحب کے مطابق گستاخی ہے چاہے انہیں گستاخی کے لغوی معنی کا علم ہے یا نہیں یا شائد مولوی صاحب کی مہربانی سے ان کے ہوتے ہوئے انہیں جاننے کی ضرورت بھی نہیں تو حالات خدانخواستہ حادثات کی صورت اختیار کر لیا کرتے ہیں۔
اور تاریخ اٹھا کر ملاحظہ کی جائے توایسے ماحول میں مولوی صاحب کی اپنی ذات کو مثبت کردار ادا کرنے کے بوجھ سےچھٹکارہ حاصل کرنے میں کامیابی نصیب ہوتی رہی،البتہ دیگر فصائل و فوائد الگ جو معاملہ کی نزاکت اور ماحول کی حساسیت سے بالواسطہ متعلق ہیں۔
سوال پیدا کیا جا رہا ہے کہ مسجد یا مدرسہ میں ایک شخص ایسے بچوں کے ساتھ ایک ایسے فعل کا مرتکب ہوتا ہے جن کا انہیں وہم و گماں تو درکنار مطلق علم بھی نہیں ہوتا، بفرض محال اگر علم ہو بھی جو آجکل مولوی صاحب کا شوق *****ہے چرچےتو عام ہیں تو بھی علم ہونا اس فعل کو بہتر تصور نہیں کرے گا ایسے شخص کے لئے مولوی صاحب کے بیان کردہ قانونِ اسلام میں گستاخی کی کوئی دفعہ موجود ہےیہ کیا یہ مسجد و مدرسہ کے تقدس کے ساتھ اسلامی تعلیمات و اخلاقیات کا تقدس پامال نہیں کیا گیا؟یا اجتہاد پایا جاتا ہے،یا یہ کہ مولوی صاحب اس پر عمل کروانے میں کس قدر مئوثر کردار ادا کر رہے ہیں یا اگر عمل نہیں تو مولوی صاحب وہ والے جو تحفظِ ناموس رسالت کے موقع پر منبر پر مسلح نظر آتے ہیں لیکن احکامات نبویﷺاور اسوہ حسنہ کی اصل صورت واضع کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔
لیکن اسلام واحد نظام ہے جس میں لوگوں کا معیار جانچنے کے لئے بھی کسوٹی موجود ہے کسی کے بھی قول کو رگڑ کر دیکھیں اگر عمل چمکے تو معیاری ہے ورنہ غیر معیاری تو ہے ہی ہے۔
مزید سوال پیدا کر کے مولوی صاحب کی پوزیشن کو مشکوک بنایا جا رہا ہے کہ ملک پاکستان میں آئے روز ایسے واقعات وقوع پذیر ہوا چاہتے ہیں پوچھا جا رہا ہے کہ کیوں ؟ مولوی صاحب اب تک کس محاذ پر مصروفِ عمل ہیں کہ گستاخی کی تعریف یا دفعات ایک عام مسلمان کو بلکہ ہر پاکستانی کو بھی کیوں نہیں بتائی گئیں کہ وہ خدانخواستہ اس فعل کا مرتکب ہو ، اور جذبات مجروح والی نام نہاد تسبیح کے اوراد و وظائف کو افضل درجہ حاصل ہو جائے۔پوزیشن مشکوک بنانے والے سوال کی تفصیل میں الزام لگایا گیا کہ ایسا قصداً کیا جا رہا ہے کہ آئے روز ایسے واقعات کو ذاتی مفادات کے حصول اور بالخصوص مسلکی جنگ میں بطور آلہ کار استعمال کیا جائے، کیونکہ ان کے فہم میں فرقہ واریت کی تعلیم و تربیت اب اس نہج تک ہو چکی ہے کہ ہم کسی بھی وقت ریاست کو بلیک میل کر کے بھاگ دوڑ حاصل کر سکتے ہیں اور ملک کو فرقہ وارانہ نظام کے تحت تقسیم یعنی جیسے سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبر پختونخواہ، اور گلگت بلتستان ہیں ریڈ کلف کی سنت(ریڈ کلف کے عمل کو سنت کہنےپر فتویٰ لگانے کی بجائےسنت کو محض عربی کے لفظ کے طور پر پڑھا اور سمجھا جائے) پر عمل پیرا ہو کر سنی استان، وہابی استان، شیعہ استان، فلانستان ٹمکانستان وغیرہ کی صورت اسلامستان کے نقشے کا ناپاک خواب دیکھا جا رہا ہے۔
جسکی یقیناً عملی تردید سامنے آنی چاہیے کیونکہ فکری ، علمی و عملی طور پر متحد و یکجا پاکستان زیادہ بہترہےاورتردید پیش کرنے کا سنہری موقع جنید جمشید سے متعلقہ واقع اور صورت حالات ہیں جہاں مثبت کردار سے تردید کی جا سکتی ہے۔
ازاں بعد مشترکہ طور پر فرقہ واریت کے خاتمہ کے لئے مئوثر اقدامات کئے جائیں کہ کم از کم تحفظ ناموس رسالت ﷺکے حوالے سے تمام مکاتب فکر کے تحفظات ختم ہو جائیں۔
اگرچہ کوئی شخص دلی طور پر اور ارادتاً یا قصداً کسی ایسے قول یا فعل کا ارتکاب تو نہ کرے لیکن دیکھنے یا سننے والوں یا دیکھنے یا سننے والوں کو دیکھ یا سن کرمحسوس ہویا باالفاظ دیگر بلکہ باالفاظ درست کسی کو زیادہ مسلمانی چڑھ جائے اور اسکو یاد آ جائےکہ یہ مولوی صاحب کے مطابق گستاخی ہے چاہے انہیں گستاخی کے لغوی معنی کا علم ہے یا نہیں یا شائد مولوی صاحب کی مہربانی سے ان کے ہوتے ہوئے انہیں جاننے کی ضرورت بھی نہیں تو حالات خدانخواستہ حادثات کی صورت اختیار کر لیا کرتے ہیں۔
اور تاریخ اٹھا کر ملاحظہ کی جائے توایسے ماحول میں مولوی صاحب کی اپنی ذات کو مثبت کردار ادا کرنے کے بوجھ سےچھٹکارہ حاصل کرنے میں کامیابی نصیب ہوتی رہی،البتہ دیگر فصائل و فوائد الگ جو معاملہ کی نزاکت اور ماحول کی حساسیت سے بالواسطہ متعلق ہیں۔
سوال پیدا کیا جا رہا ہے کہ مسجد یا مدرسہ میں ایک شخص ایسے بچوں کے ساتھ ایک ایسے فعل کا مرتکب ہوتا ہے جن کا انہیں وہم و گماں تو درکنار مطلق علم بھی نہیں ہوتا، بفرض محال اگر علم ہو بھی جو آجکل مولوی صاحب کا شوق *****ہے چرچےتو عام ہیں تو بھی علم ہونا اس فعل کو بہتر تصور نہیں کرے گا ایسے شخص کے لئے مولوی صاحب کے بیان کردہ قانونِ اسلام میں گستاخی کی کوئی دفعہ موجود ہےیہ کیا یہ مسجد و مدرسہ کے تقدس کے ساتھ اسلامی تعلیمات و اخلاقیات کا تقدس پامال نہیں کیا گیا؟یا اجتہاد پایا جاتا ہے،یا یہ کہ مولوی صاحب اس پر عمل کروانے میں کس قدر مئوثر کردار ادا کر رہے ہیں یا اگر عمل نہیں تو مولوی صاحب وہ والے جو تحفظِ ناموس رسالت کے موقع پر منبر پر مسلح نظر آتے ہیں لیکن احکامات نبویﷺاور اسوہ حسنہ کی اصل صورت واضع کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔
لیکن اسلام واحد نظام ہے جس میں لوگوں کا معیار جانچنے کے لئے بھی کسوٹی موجود ہے کسی کے بھی قول کو رگڑ کر دیکھیں اگر عمل چمکے تو معیاری ہے ورنہ غیر معیاری تو ہے ہی ہے۔
مزید سوال پیدا کر کے مولوی صاحب کی پوزیشن کو مشکوک بنایا جا رہا ہے کہ ملک پاکستان میں آئے روز ایسے واقعات وقوع پذیر ہوا چاہتے ہیں پوچھا جا رہا ہے کہ کیوں ؟ مولوی صاحب اب تک کس محاذ پر مصروفِ عمل ہیں کہ گستاخی کی تعریف یا دفعات ایک عام مسلمان کو بلکہ ہر پاکستانی کو بھی کیوں نہیں بتائی گئیں کہ وہ خدانخواستہ اس فعل کا مرتکب ہو ، اور جذبات مجروح والی نام نہاد تسبیح کے اوراد و وظائف کو افضل درجہ حاصل ہو جائے۔پوزیشن مشکوک بنانے والے سوال کی تفصیل میں الزام لگایا گیا کہ ایسا قصداً کیا جا رہا ہے کہ آئے روز ایسے واقعات کو ذاتی مفادات کے حصول اور بالخصوص مسلکی جنگ میں بطور آلہ کار استعمال کیا جائے، کیونکہ ان کے فہم میں فرقہ واریت کی تعلیم و تربیت اب اس نہج تک ہو چکی ہے کہ ہم کسی بھی وقت ریاست کو بلیک میل کر کے بھاگ دوڑ حاصل کر سکتے ہیں اور ملک کو فرقہ وارانہ نظام کے تحت تقسیم یعنی جیسے سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبر پختونخواہ، اور گلگت بلتستان ہیں ریڈ کلف کی سنت(ریڈ کلف کے عمل کو سنت کہنےپر فتویٰ لگانے کی بجائےسنت کو محض عربی کے لفظ کے طور پر پڑھا اور سمجھا جائے) پر عمل پیرا ہو کر سنی استان، وہابی استان، شیعہ استان، فلانستان ٹمکانستان وغیرہ کی صورت اسلامستان کے نقشے کا ناپاک خواب دیکھا جا رہا ہے۔
جسکی یقیناً عملی تردید سامنے آنی چاہیے کیونکہ فکری ، علمی و عملی طور پر متحد و یکجا پاکستان زیادہ بہترہےاورتردید پیش کرنے کا سنہری موقع جنید جمشید سے متعلقہ واقع اور صورت حالات ہیں جہاں مثبت کردار سے تردید کی جا سکتی ہے۔
ازاں بعد مشترکہ طور پر فرقہ واریت کے خاتمہ کے لئے مئوثر اقدامات کئے جائیں کہ کم از کم تحفظ ناموس رسالت ﷺکے حوالے سے تمام مکاتب فکر کے تحفظات ختم ہو جائیں۔