دورہ تاج محل(آگرہ۔بھارت) کے دوران گیسٹ بک پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ریمارکس دئیے کہ
"There are two kinds of people, those that have seen the Taj Mahal and those who haven't.
اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ (بنیادی طور پر) دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جن کا کوئی نظریہ ہوتا ہے اور ایک وہ جن کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہوتا۔اب نظریہ کو جمہوریت کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو پاکستانی عوام کی ایک بڑی اکثریت پر جمہوریت کے معانی و مطلب ہی واضع نہیں ہیں، آپ ایک سادہ لوح ادھیڑ عمر شخص سے ملکی معاملات پر لب کشائی کو کہیں تو وہ صدر ایوب کے دور حکومت کو بہترین قرار دے گا، اور شائد ساتھ ہی جمہوریت کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے بھی ملا دے۔ جمہوریت ایک بہتر نظام ہو سکتا ہے لیکن اس سے قطعاً انکار ممکن نہیں کہ بلا شبہ جمہوریت سے بہتر ین نظام بھی موجود ہیں گو دور حاضر میں ان سے استفادہ نہیں کیا جا رہا انہیں قدیم تصور کر کے ان کے بارے میں خام خیالی ہے کہ وہ قدیم نظام عصر حاضر کے ضروری تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں اوراس سوچ کی کوکھ سے ایک نظریہ (جمہوریت) جنم لیتا ہے جمہوریت کی تعریف کرنے سے قبل دیگر نظام ہائے زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ وہ کیوں ناکام ہوئے یا سمجھے جانے لگے اس کی بیشتر وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن بنیادی وجوہات میں مذہب کا ایک پہلو رہا کہ اسلام کی آمد پر نظریہ زندگی یکسر تبدیل ہو گیااور ایک روشن تاریخ کا آغاز ہوا جہاں تمام موجودہ نظام سابقہ ہو گئے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ نظام نامی نظریہ کا ظہور ہوا کیونکہ قبل ازیں کی تاریخ میں سوائے نمرود، قارون، فرعون، قیصر و قصریٰ اور ایسے لوگوں نے نظام نامی نظریے کی پیدائش پر پابندی لگا رکھی تھی اوراسلام اپنے دور نبوت میں ہی ایک نظام کی حیثیت سے جانا اور مانا جا چکا تھا تا ہم اسے جمہوریت کا سہارا لینے کی ضرورت نہ پڑی شائد اسی لئے دور نبوت میں بلکہ مزید تیرہ سو سال بعد تک بھی عام انتخابات کی ضرورت محسوس نہ ہوئی کیونکہ اگر صرف جمہوریت میں ہی بنی نوح انسانیت کی مکمل فلاح پوشیدہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ قران کریم میں اور پیامبرِ حق اپنی زندگی میں اس کو پوشیدہ نہ رکھ جاتے بلکہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور عام انتخابات کا انعقاد فرماتے۔اگر نہیں تو پھر دور خلافت میں خلفائے راشدین جیسی شخصیات جو ایسے نظام و طرائق وضع کرتے رہے جو بنی نوع انسانیت کے لئے سود مند تھے تو ان میں سے کوئی ضرور جمہوریت کو اپناتا حضرت علیؓ کو باب العلم کہا جاتا ہے انہوں نے بھی نہ تجربہ کیا، حضرت عمرؓبن خطاب بغیر کسی جمہوریت کا سہارا لئے اٹھائیس لاکھ مربع میل پر حکومت کرتے ہیں اور ایسی حکومت کہ اس زریں اور درخشندہ عہد پر کئی غیر مسلم بھی آپ کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے،اور زمانہ عدل فاروقی کی مثالیں دیتے نہیں تھکتا۔خلافت راشدہ کے اختتام پرخلافت عباسیہ کا دور شروع ہوا اور جدت وترقی کے ادوار بھی کہ اسی دور حکومت میں ہارون الرشید جیسے خلفاء بھی بغیر جمہوریت کے شاندار انداز میں حکومت کر گزرے۔ تاہم کم و بیش پانچ سو سال کے اس دورِ حکومت کا خاتمہ منگول فاتح ہلاکو خان نے کیالیکن جمہوریت سے نہیں اور ایسا بھی ہر گز نہیں کہ خلافت عباسیہ "خلافت عباسیہ کی بجائے جمہوریتِ عباسیہ"ہوتی تو ہلاکو خان انہیں شکست نہ دے پاتا۔سکندر اعظم جو ارسطو جیسے معلم کی شاگردی بھی اختیار کرتا ہے لیکن جمہوریت کا سہارا لئے بغیرساری دنیا پر بے داغ حکمرانی کی واحد و عظیم مثال بھی قائم کرتا ہے"۔ سلطان ٹیپو شہید اور اس کے بہادر باپ حیدر علی کا نام دنیا کے غیرت مند حکمرانوں کی تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا، اور کوئی شخص ان کا تعلق جمہوریت سے ثابت نہیں کر سکتا۔الغرض انیسویں صدی کے اواخر تک نظریہ جمہوریت کے بغیر دنیا نہ صرف اچھے طریقہ سے چلتی رہی بلکہ اپنی زندگی کے کئی سنہری ادوار بھی دیکھ آئی، دنیا کی معلوم تاریخ تقریباً پانچ ہزار سال بھر میں نظریہ جمہوریت کی مثال نہیں ملتی اور نہ ہی کسی الہامی کتاب میں ہے اور نہ ہی اور کسی مذہب کی مذہبی کتاب میں اس کا حوالہ ملتا ہے، میں جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ نظریہ جمہوریت نے محض ایک نام نہاد جدت پسندی کی سوچ سے جنم لیا ہے اس لئے اس کی کوئی تابناک تاریخ موجود نہیں ہے تا ہم دیگر اقوام اور مذاہب کے اعتبار سے یہ ایک مؤثر نظریہ ثابت ہو ا لیکن نظریہ جمہوریت دراصل کچھ بنیادی ضروریات کا متقاضی ہے یہ محض ایک لیبل کا نام نہیں کہ یہ کسی بھی نظام پر لگا کر اس کو جمہوریت سمجھنا شروع کر دیا جائے یا اسے کسی بھی اور نظام یا نظریہ کے ساتھ کراس کروا کر تیسرا نظریہ پیدا کروا لیا جائے کہ اس تیسرے پیدا ہونے والے نظریے میں دونوں آبائی نظریات کے کچھ خواص موجود تو ہوں لیکن اس کی عمر بہت کم ہو کیونکہ ہر نا خالص جنس کا قیام قلیل ثابت ہوتا ہے۔اب اسی تناظر میں" اسلامی جمہوری" نظریہ کو دیکھیں تو آپ کے سامنے وطن عزیز ایک لیبارٹری محسوس ہو گا جہاں اسلام اور جمہوریت میں توازن رکھنے کے لئے 67سال سے تجربات کئے جا رہے ہیں چونکہ نظریہ جمہوریت اپنے اندر اسلام کی خصوصیات نہیں رکھتا اور نہ ہی جمہوریت کا دامن اتنا وسیع کہ وہ اسلام یا کسی مذہب کو مکمل طور پر قبول کر سکے اور اسی طرح نہ اسلام کی ابدی اقدار ہی اس کی اجازت دیتی ہیں کہ وہ کوئی بیرونی نظریہ درآمد کرسکے جیسے ایک آدمی بیک وقت مسلمان اور یہودی نہیں ہو سکتا کیونکہ مذہب ایک نظریہ پر یقین کامل کا نام ہوتا ہے اور کوئی بھی شخص ایک ہی وقت میں دو مخالف نظریات کا حامی نہیں ہو سکتا ایسا صرف نظریہ منافقت میں ہی ممکن ہے کہ ایک شخص مسلمان ہونے کے ناطے سود کو حرام سمجھے اور نظریہ جمہوریت سے اجازت لے کر باقاعدہ سودی کاروباربھی کرے۔ایک شخص یا تو مسلمان ہونے کے ناطے ہر سال بمطابق نصاب زکٰوۃ دے سکتا ہے یا نظریہ جمہوریت کی پروانی کے لئے ٹیکس اب اگر وہ دونوں فرائض ادا کرنے کا سوچے گا تو اسے لا محالہ نظریہ منافقت کے تحت جمہوریت کی روشنی میں سودی کاروبار کا سہارا لینا پڑے گا، مثلاً پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کی جاتی ہے کہ شراب کی فروخت سے حاصل ہونے والی کمائی اور ٹیکس کو حرام قرار دیا جائے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صوبہ پنجاب کی اسمبلی ہی اسے اکثریتِ رائے سے مسترد کر دیتی ہے اور بادل نخواستہ منظور ہو بھی جاتی تو قومی اسمبلی میں اس قرارداد کے ساتھ یہی حال ہوتا، سوال یہ نہیں کہ قرارداد مسترد کیوں ہوئی، بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ضرورت تھی کہ یہ قرارداد پیش کر کہ اسمبلی اراکین سے پوچھا جائے کہ یہ غلط ہے یا درست کیا یہ قرآن پاک میں واضع طور پر احکام موجود نہیں؟آپ نہیں سمجھتے کہ 1947میں جب پاکستان یہ کہہ کر بنا دیا گیاکہ ہم مسلمان ہیں ہم تو ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے کیا اس لئے کہ ہمارا رہن سہن ایک سا نہیں۔۔۔۔نہیں اس لئے نہیں کہ ہمارا رہنا سہنا ہمارا کھانا پینا ہماری زبان، ہمارا رنگ، ہمارا طور طریقہ، ہماری ثقافت ایک سی نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف اس لئے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے کیونکہ جو ہما رے مذہب میں حرام ہے وہ اسے جائز سمجھتے ہیں جیسے سود، شراب وغیرہ جبکہ جو ہم حلال سمجھ کر کھاتے ہیں اس گائے کی یہ پوجا کرتے ہیں اور اس کا ذبح کرنا پاپ سمجھتے ہیں جبکہ ہم عیدالاضحیٰ پر اسے ثواب کی نیت سے قربانی کرتے ہیں۔اسی نظریہ اسلام کوعملی طور پربھی نافذ کرنے میں کون سی رکاوٹیں حائل تھیں جو 1956میں اصل نظریہ سے ہٹ کر ایک الگ ہی نظام ترتیب دے کر رائج کرنے کی کوشش کی گئی اور تاحال جاری ہے جس کی بنیاد دو نظریوں پر رکھی گئی ہے جس کی وجہ سے نہ یہاں اصل جمہوریت کی شکل دکھائی دی اور نہ ہی حقیقی معنوں میں اسلام کی، انفرادی طور پر ایک طبقہ حقیقی جمہوریت کا قائل ہے اسی طرح ایک طبقہ انفرادی طور پر صرف اسلام کا قائل ہے کوئی بھی ایسا طبقہ موجود نہیں جو اجتماعی طور پر کسی ایک نظریہ پر کاربند نظر آتا ہواسی وجہ سے آج تک حقیقی اور مکمل جمہوریت قائم نہ ہو سکی اور میرا ذاتی خیال ہے جویقیناًغلط بھی ہو سکتا ہے کہ آئندہ بھی یہ امید رکھنا کوئی زیادہ عقل مندی نہ ہو گی،یا1956میں ایسی کیا خاص ضرورت درپیش تھی کہ ایک مملکت کو چلانے کے لئے ایک نظریہ یا نظام ہونے کی فکر دامن گیر ہوئی کیاایک نظریہ اور نظام موجود نہیں تھا وہی نظریہ جس کو بنیاد بنا کر ہندوستان کا سینہ چاک کر کہ ایک مملکت برآمد کی گئی کیا وہ اسی مملکت کوقائم رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا جودو نظریوں پر مبنی ایک نیا آئین مرتب کیا گیا جو از خود اتنا کھوکھلا اور بودا کہ جس کی روشنی میں اقتدار پرجبری قبضہ کی ایک کھڑکی بلکہ مکمل دروازہ رکھ دیا گیا کہ ایک ادارے کا سربراہ کسی بھی وقت جمہوریت کا عمل روک کر حاکم بن جاتا ہے اور اسی نظام جس کی مدد سے وہ وہاں پہنچتا ہے اپنی مرضی سے اس میں ترمیم و تبدیلی فرماتا ہے بلکہ چاہے تو اس کو معطل کر سکتا ہے بلکہ لکھنے والوں نے لکھا کہ ایک جنرل نے آئین کو موم کی ناک کی طرح توڑا مروڑا اور سیر ہونے تک ترامیم کیں،یہاں تک ہی محدود نہیں اسی آئین کی روشنی میں بننے والی جمہوری حکومتوں نے بھی مختلف ادوار میں اسی آئین کے متعدد حصے غیر مؤثر رکھے اور بعض تا حال معطل ہیں۔اس خطہ کی عوام کی بے حسی کا فائدہ اٹھایا گیایہ بے شعورنہ تھی کہ انہیں پتہ نہ چل سکا کہ کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے اس کی ذہانت اور شعور کا اندازہ لگا لیں کہ صدیوں سے موجود کئی اسلامی ممالک کے بعد اور انتہائی نامساعد حالات میں بننے والا ملک کہ جب یہ بنا تو بنانے والے سوچ رہے تھے کہ ہم اس کو چلائیں گے کیسے اور پھر یہی ملک پچاس سال سے بھی کم عرصہ میں تمام عالم اسلام کی پہلی اور واحد ایٹمی طاقت کے طور پر جانا جانے لگا۔ضرورت تو تھی کہ اپنے اصل نظریہ کو ہی آئین تصور کیا جاتاتو جس تنزلی کا شکار ہم ہوئے آج نہ ہوتے،یقیناًآج ہم اس مقام سے قوسوں آگے پہنچ چکے ہوتے کیونکہ مقام نظام کے مرہون منت ہوتے ہیں۔
اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ (بنیادی طور پر) دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جن کا کوئی نظریہ ہوتا ہے اور ایک وہ جن کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہوتا۔اب نظریہ کو جمہوریت کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو پاکستانی عوام کی ایک بڑی اکثریت پر جمہوریت کے معانی و مطلب ہی واضع نہیں ہیں، آپ ایک سادہ لوح ادھیڑ عمر شخص سے ملکی معاملات پر لب کشائی کو کہیں تو وہ صدر ایوب کے دور حکومت کو بہترین قرار دے گا، اور شائد ساتھ ہی جمہوریت کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے بھی ملا دے۔ جمہوریت ایک بہتر نظام ہو سکتا ہے لیکن اس سے قطعاً انکار ممکن نہیں کہ بلا شبہ جمہوریت سے بہتر ین نظام بھی موجود ہیں گو دور حاضر میں ان سے استفادہ نہیں کیا جا رہا انہیں قدیم تصور کر کے ان کے بارے میں خام خیالی ہے کہ وہ قدیم نظام عصر حاضر کے ضروری تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں اوراس سوچ کی کوکھ سے ایک نظریہ (جمہوریت) جنم لیتا ہے جمہوریت کی تعریف کرنے سے قبل دیگر نظام ہائے زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ وہ کیوں ناکام ہوئے یا سمجھے جانے لگے اس کی بیشتر وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن بنیادی وجوہات میں مذہب کا ایک پہلو رہا کہ اسلام کی آمد پر نظریہ زندگی یکسر تبدیل ہو گیااور ایک روشن تاریخ کا آغاز ہوا جہاں تمام موجودہ نظام سابقہ ہو گئے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ نظام نامی نظریہ کا ظہور ہوا کیونکہ قبل ازیں کی تاریخ میں سوائے نمرود، قارون، فرعون، قیصر و قصریٰ اور ایسے لوگوں نے نظام نامی نظریے کی پیدائش پر پابندی لگا رکھی تھی اوراسلام اپنے دور نبوت میں ہی ایک نظام کی حیثیت سے جانا اور مانا جا چکا تھا تا ہم اسے جمہوریت کا سہارا لینے کی ضرورت نہ پڑی شائد اسی لئے دور نبوت میں بلکہ مزید تیرہ سو سال بعد تک بھی عام انتخابات کی ضرورت محسوس نہ ہوئی کیونکہ اگر صرف جمہوریت میں ہی بنی نوح انسانیت کی مکمل فلاح پوشیدہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ قران کریم میں اور پیامبرِ حق اپنی زندگی میں اس کو پوشیدہ نہ رکھ جاتے بلکہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور عام انتخابات کا انعقاد فرماتے۔اگر نہیں تو پھر دور خلافت میں خلفائے راشدین جیسی شخصیات جو ایسے نظام و طرائق وضع کرتے رہے جو بنی نوع انسانیت کے لئے سود مند تھے تو ان میں سے کوئی ضرور جمہوریت کو اپناتا حضرت علیؓ کو باب العلم کہا جاتا ہے انہوں نے بھی نہ تجربہ کیا، حضرت عمرؓبن خطاب بغیر کسی جمہوریت کا سہارا لئے اٹھائیس لاکھ مربع میل پر حکومت کرتے ہیں اور ایسی حکومت کہ اس زریں اور درخشندہ عہد پر کئی غیر مسلم بھی آپ کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے،اور زمانہ عدل فاروقی کی مثالیں دیتے نہیں تھکتا۔خلافت راشدہ کے اختتام پرخلافت عباسیہ کا دور شروع ہوا اور جدت وترقی کے ادوار بھی کہ اسی دور حکومت میں ہارون الرشید جیسے خلفاء بھی بغیر جمہوریت کے شاندار انداز میں حکومت کر گزرے۔ تاہم کم و بیش پانچ سو سال کے اس دورِ حکومت کا خاتمہ منگول فاتح ہلاکو خان نے کیالیکن جمہوریت سے نہیں اور ایسا بھی ہر گز نہیں کہ خلافت عباسیہ "خلافت عباسیہ کی بجائے جمہوریتِ عباسیہ"ہوتی تو ہلاکو خان انہیں شکست نہ دے پاتا۔سکندر اعظم جو ارسطو جیسے معلم کی شاگردی بھی اختیار کرتا ہے لیکن جمہوریت کا سہارا لئے بغیرساری دنیا پر بے داغ حکمرانی کی واحد و عظیم مثال بھی قائم کرتا ہے"۔ سلطان ٹیپو شہید اور اس کے بہادر باپ حیدر علی کا نام دنیا کے غیرت مند حکمرانوں کی تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا، اور کوئی شخص ان کا تعلق جمہوریت سے ثابت نہیں کر سکتا۔الغرض انیسویں صدی کے اواخر تک نظریہ جمہوریت کے بغیر دنیا نہ صرف اچھے طریقہ سے چلتی رہی بلکہ اپنی زندگی کے کئی سنہری ادوار بھی دیکھ آئی، دنیا کی معلوم تاریخ تقریباً پانچ ہزار سال بھر میں نظریہ جمہوریت کی مثال نہیں ملتی اور نہ ہی کسی الہامی کتاب میں ہے اور نہ ہی اور کسی مذہب کی مذہبی کتاب میں اس کا حوالہ ملتا ہے، میں جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ نظریہ جمہوریت نے محض ایک نام نہاد جدت پسندی کی سوچ سے جنم لیا ہے اس لئے اس کی کوئی تابناک تاریخ موجود نہیں ہے تا ہم دیگر اقوام اور مذاہب کے اعتبار سے یہ ایک مؤثر نظریہ ثابت ہو ا لیکن نظریہ جمہوریت دراصل کچھ بنیادی ضروریات کا متقاضی ہے یہ محض ایک لیبل کا نام نہیں کہ یہ کسی بھی نظام پر لگا کر اس کو جمہوریت سمجھنا شروع کر دیا جائے یا اسے کسی بھی اور نظام یا نظریہ کے ساتھ کراس کروا کر تیسرا نظریہ پیدا کروا لیا جائے کہ اس تیسرے پیدا ہونے والے نظریے میں دونوں آبائی نظریات کے کچھ خواص موجود تو ہوں لیکن اس کی عمر بہت کم ہو کیونکہ ہر نا خالص جنس کا قیام قلیل ثابت ہوتا ہے۔اب اسی تناظر میں" اسلامی جمہوری" نظریہ کو دیکھیں تو آپ کے سامنے وطن عزیز ایک لیبارٹری محسوس ہو گا جہاں اسلام اور جمہوریت میں توازن رکھنے کے لئے 67سال سے تجربات کئے جا رہے ہیں چونکہ نظریہ جمہوریت اپنے اندر اسلام کی خصوصیات نہیں رکھتا اور نہ ہی جمہوریت کا دامن اتنا وسیع کہ وہ اسلام یا کسی مذہب کو مکمل طور پر قبول کر سکے اور اسی طرح نہ اسلام کی ابدی اقدار ہی اس کی اجازت دیتی ہیں کہ وہ کوئی بیرونی نظریہ درآمد کرسکے جیسے ایک آدمی بیک وقت مسلمان اور یہودی نہیں ہو سکتا کیونکہ مذہب ایک نظریہ پر یقین کامل کا نام ہوتا ہے اور کوئی بھی شخص ایک ہی وقت میں دو مخالف نظریات کا حامی نہیں ہو سکتا ایسا صرف نظریہ منافقت میں ہی ممکن ہے کہ ایک شخص مسلمان ہونے کے ناطے سود کو حرام سمجھے اور نظریہ جمہوریت سے اجازت لے کر باقاعدہ سودی کاروباربھی کرے۔ایک شخص یا تو مسلمان ہونے کے ناطے ہر سال بمطابق نصاب زکٰوۃ دے سکتا ہے یا نظریہ جمہوریت کی پروانی کے لئے ٹیکس اب اگر وہ دونوں فرائض ادا کرنے کا سوچے گا تو اسے لا محالہ نظریہ منافقت کے تحت جمہوریت کی روشنی میں سودی کاروبار کا سہارا لینا پڑے گا، مثلاً پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کی جاتی ہے کہ شراب کی فروخت سے حاصل ہونے والی کمائی اور ٹیکس کو حرام قرار دیا جائے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صوبہ پنجاب کی اسمبلی ہی اسے اکثریتِ رائے سے مسترد کر دیتی ہے اور بادل نخواستہ منظور ہو بھی جاتی تو قومی اسمبلی میں اس قرارداد کے ساتھ یہی حال ہوتا، سوال یہ نہیں کہ قرارداد مسترد کیوں ہوئی، بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ضرورت تھی کہ یہ قرارداد پیش کر کہ اسمبلی اراکین سے پوچھا جائے کہ یہ غلط ہے یا درست کیا یہ قرآن پاک میں واضع طور پر احکام موجود نہیں؟آپ نہیں سمجھتے کہ 1947میں جب پاکستان یہ کہہ کر بنا دیا گیاکہ ہم مسلمان ہیں ہم تو ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے کیا اس لئے کہ ہمارا رہن سہن ایک سا نہیں۔۔۔۔نہیں اس لئے نہیں کہ ہمارا رہنا سہنا ہمارا کھانا پینا ہماری زبان، ہمارا رنگ، ہمارا طور طریقہ، ہماری ثقافت ایک سی نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف اس لئے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے کیونکہ جو ہما رے مذہب میں حرام ہے وہ اسے جائز سمجھتے ہیں جیسے سود، شراب وغیرہ جبکہ جو ہم حلال سمجھ کر کھاتے ہیں اس گائے کی یہ پوجا کرتے ہیں اور اس کا ذبح کرنا پاپ سمجھتے ہیں جبکہ ہم عیدالاضحیٰ پر اسے ثواب کی نیت سے قربانی کرتے ہیں۔اسی نظریہ اسلام کوعملی طور پربھی نافذ کرنے میں کون سی رکاوٹیں حائل تھیں جو 1956میں اصل نظریہ سے ہٹ کر ایک الگ ہی نظام ترتیب دے کر رائج کرنے کی کوشش کی گئی اور تاحال جاری ہے جس کی بنیاد دو نظریوں پر رکھی گئی ہے جس کی وجہ سے نہ یہاں اصل جمہوریت کی شکل دکھائی دی اور نہ ہی حقیقی معنوں میں اسلام کی، انفرادی طور پر ایک طبقہ حقیقی جمہوریت کا قائل ہے اسی طرح ایک طبقہ انفرادی طور پر صرف اسلام کا قائل ہے کوئی بھی ایسا طبقہ موجود نہیں جو اجتماعی طور پر کسی ایک نظریہ پر کاربند نظر آتا ہواسی وجہ سے آج تک حقیقی اور مکمل جمہوریت قائم نہ ہو سکی اور میرا ذاتی خیال ہے جویقیناًغلط بھی ہو سکتا ہے کہ آئندہ بھی یہ امید رکھنا کوئی زیادہ عقل مندی نہ ہو گی،یا1956میں ایسی کیا خاص ضرورت درپیش تھی کہ ایک مملکت کو چلانے کے لئے ایک نظریہ یا نظام ہونے کی فکر دامن گیر ہوئی کیاایک نظریہ اور نظام موجود نہیں تھا وہی نظریہ جس کو بنیاد بنا کر ہندوستان کا سینہ چاک کر کہ ایک مملکت برآمد کی گئی کیا وہ اسی مملکت کوقائم رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا جودو نظریوں پر مبنی ایک نیا آئین مرتب کیا گیا جو از خود اتنا کھوکھلا اور بودا کہ جس کی روشنی میں اقتدار پرجبری قبضہ کی ایک کھڑکی بلکہ مکمل دروازہ رکھ دیا گیا کہ ایک ادارے کا سربراہ کسی بھی وقت جمہوریت کا عمل روک کر حاکم بن جاتا ہے اور اسی نظام جس کی مدد سے وہ وہاں پہنچتا ہے اپنی مرضی سے اس میں ترمیم و تبدیلی فرماتا ہے بلکہ چاہے تو اس کو معطل کر سکتا ہے بلکہ لکھنے والوں نے لکھا کہ ایک جنرل نے آئین کو موم کی ناک کی طرح توڑا مروڑا اور سیر ہونے تک ترامیم کیں،یہاں تک ہی محدود نہیں اسی آئین کی روشنی میں بننے والی جمہوری حکومتوں نے بھی مختلف ادوار میں اسی آئین کے متعدد حصے غیر مؤثر رکھے اور بعض تا حال معطل ہیں۔اس خطہ کی عوام کی بے حسی کا فائدہ اٹھایا گیایہ بے شعورنہ تھی کہ انہیں پتہ نہ چل سکا کہ کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے اس کی ذہانت اور شعور کا اندازہ لگا لیں کہ صدیوں سے موجود کئی اسلامی ممالک کے بعد اور انتہائی نامساعد حالات میں بننے والا ملک کہ جب یہ بنا تو بنانے والے سوچ رہے تھے کہ ہم اس کو چلائیں گے کیسے اور پھر یہی ملک پچاس سال سے بھی کم عرصہ میں تمام عالم اسلام کی پہلی اور واحد ایٹمی طاقت کے طور پر جانا جانے لگا۔ضرورت تو تھی کہ اپنے اصل نظریہ کو ہی آئین تصور کیا جاتاتو جس تنزلی کا شکار ہم ہوئے آج نہ ہوتے،یقیناًآج ہم اس مقام سے قوسوں آگے پہنچ چکے ہوتے کیونکہ مقام نظام کے مرہون منت ہوتے ہیں۔
اگست16 بروز ہفتہ کشمیر
ایکسپریس میں