تم ہو اک زندہ و جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو جو ڈھل جاؤ گے
آزادی کی روایت زندہ و جاوید ہوا کرتی ہے ، قومیں اور افراد زندگی دینے والوں کے بعد آزادی دلانے والوں کی قدر کیا کرتے ہیں۔
انیس صد چھیالیس میں جنت نظیر کے ایک خوبصورت گاؤں میں خوشبودار شخصیت کا مالک ایک خوبرو نوجوان سردار علی اکبر خان تحریک آزادی کا حصہ بنا اور اپنی عسکری و قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا، سرینگر میں شیخ عبداللہ اور چوہدری غلام عباس سے ملاقات میں پونچھ اور باغ کے غیور قبائل کی ترجمانی کرتے ہوئے انہیں عوام کے آزادی کے لئے جذبات و احساسات سے آگاہ کیا، اورغازی ملت سردار محمد ابراہیم خان جو اس وقت متحدہ جموں کشمیر کے رکن اسمبلی تھے سے اہم مشاورت کے بعد براستہ اُڑی واپس آکر اپنے معتبر اور" آزادی پرست"ہم عصروں جن میں پیر سید علی اصغر شاہ آف سیری پیراں، سید حسن شاہ گردیزی، سرداردوست محمد خان آف چوکی، سردار محمد حسین خان آف دھڑے، سردار انور خان آف ٹوپی کلری، سردار محمد شیر خان آف بنی پساری، سردار صلاح محمد خان آف سوانج اور میاں غلام محمد سے انفرادی و اجتماعی مشاورت کے بعد باقاعدہ جنگ آزادی کا آغاز کر دیا۔ سردار علی اکبر خان مرحوم باوجودیکہ متذکرہ بالا احباب سے کم عمرتھے لیکن تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ خداداد قائدانہ، دانشورانہ ، جرات مندانہ اور دلیرانہ صلاحیتوں کی مالک پر سحر شخصیت کے حامل تھے، اور جذبہ آزادی آپ کی رگوں میں خون کا ہم سفر تھا۔تمام احباب سے مشاورت کے بعد مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان کی سرپرستی میں ڈوگرہ راج کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ تحریک کا افتتاحی جلسہ ہڈیٰ باڑی باغ کے مقام پر منعقد کیا گیا جس پر ڈوگرہ افواج کی فائرنگ سے سید خادم حسین نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کرتے ہوئے شہید ہو کر آزادی کے نقشے میں اپنے خون سے رنگ بھر کر عملی تحریک کا آغاز کر دیاجس سلسلہ میں ازاں بعد اسلحہ کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے سردار علی اکبرخان مرحوم ، سردار ولائت خان آف ناڑ شیر علی خان اور دیگر قائدین نے اپنی اپنی بساط کے مطابق درہ آدم خیل سے اسلحہ خرید کر کیپٹن حسین خان آف پونچھ سے ملاقات کی جبکہ اس وقت تک موجودہ تمام آزاد کشمیر میں آزادی کی جنگ شروع ہو چکی تھی اور سردار عبدالقیوم خان کے دست راست کے طور پر میجر ریٹائرڈ سردار محمد ایوب خان نے لوگوں کو منظم کر کے ڈوگرہ افواج کے خلاف عملی جنگ کے لئے تیار کر لیا اور ڈھلی کے مقام پر جہاں سکھ مورچہ بند تھے بڑا معرکہ ہوا جس میں سردار عنائت خان، سردار علی حیدر خان اور مور باز ماگرے شہید ہوئے،اور سکھوں کو شکست دینے سے کافی مقدار میں اسلحہ بھی ہاتھ آگیااس معرکہ کے نتیجے میں مظفر آباد ، دھیرکوٹ اور جہاں جہاں سکھ آباد تھے نقل مکانی شروع کر دی جن کی بغیر کسی قاعدے و قانون کی روشنی کےبھارتی افواج نے با قاعدہ مدد کی۔تحریک کی بھنک پڑتے ہی ڈوگرہ انتظام نے گھر گھر تلاشی لے کر ہر قسم کا آتشیں اسلحہ اور کچی بندوقیں تک ضبط کر لی تھیں تا ہم اس بے قاعدہ جنگ میں کشمیری نوجوانوں کے جتھے صرف تلوار ، خنجر، نیزے اور کلہاڑیوں سے جگہ جگہ حملہ آور ہو کر ڈوگروں پر حملہ آور ہوئے اور ڈوگروں کو شکست دیوار پر لکھی ہوئی نظر آنے لگی تو جان بچا کر راولاکوٹ اور باغ کے سنگھم تولی پیر کے راستے پونچھ شہر کی طرف بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔سردار علی اکبرخان اس وقت نوجوان تھے اور ناڑ شیر علی خان کے تمام قبائل ان کی قیادت میں متحد ہو کر ڈوگرہ راج کے خلاف لڑے جبکہ سردار علی اکبر خان نے عملی طور پرلوگوں کے شانہ بشانہ جنگ میں حصہ لیا۔باقاعدہ جنگِ آزادی کے لئے میجر ریٹائرڈ سردار محمد ایوب خان نے آزاد کشمیر رجمنٹ تیار کر لی جس میں غیور کشمیری محض جذبہ آزادی سے سرشار بلا معاوضہ جوق در جوق بھرتی ہوئے اور سردار علی اکبر خان کمپنی کمانڈر کے طور پر خدمات فراہم کیں بعد ازاں پاکستان مسلح افواج پنجاب رجمنٹ کے عسکری دستے باغ پہنچنا شروع ہو گئے جن میں جنرل عبدالرحیم جو اس وقت لیفٹیننٹ کے فرائض ادا کر رہے تھے شامل رہے پاکستان آرمی کے باقاعدہ کنٹرول سنبھالنے کے بعد سردار علی اکبر خان ڈھلی کے مقام پر کیمپ کمانڈر منتخب کئے گئے اور دور درازمحاذ ہائے جنگ پر جہاں ترسیل کے ذرائع کا نام و نشان تک نہ تھا تک اسلحہ و راشن کے رسد کے فرائض انجام دئیے۔ بھارتی وڈوگرہ افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان آمی کے میجر محمد سلیم نے باغ کے نامور قائدین سے مشاورت کے بعد عام لوگوں کی مدد سے باغ تا حاجی پیر ، بسالی پہاڑ رائیکوٹ تک اپنی مدد آپ کے تحت بنانے کا آغاز کر دیا جس میں قبائل ناڑ شیر علی خان نے سردار علی اکبر خان کی قیادت میں گھر سے خشک روٹیاں ہمراہ لا کراپنے اوزاروں سے تعمیر میں حصہ لیا۔کشمیریوں کی اس تحریک میں افغان مجاہدین نے بھی پاکستان آرمی کے شانہ بشانہ ڈوگرہ تسلط ختم کرنے میں کردار ادا کیااور کشمیری مسلمانوں سے مل کر سرینگر تک ڈوگروں کا تعاقب کیا اس معرکہ میں بے شمار مجاہدین نے جام شہاد ت بھی نوش کیا تا ہم انگریزوں نے مداخلت سے سیز فائر کی کیفیت پیدا کر کہ بھارتی افواج کو موقع فراہم کیا جو 1965 ء میں بھارتی افواج کے حملے نے ثابت کر دیالیکن چونکہ پاکستانی افواج پہلے ہی تمام جنگی محاذوں پر منظم و متحدتھی بلکہ میجر رحمت شاہ نے 647مجاہد بٹالین تیار کی جس نے سردار علی اکبر خان کی قیادت میں بسالی کے محاذ پر دشمن کو شکست فاش سے دوچار کیاتمام اسلحہ چھین لیا گیا اور کمال بہادری سے لڑنے پر آپ کی کمانڈ میں صوبیداراسرائیل خان کو ستارہِ جرات کا اعزاز دیا گیا جبکہ اسی معرکہ میں سابق صدر آزاد کشمیر کرنل شیر احمد خان کے بھتیجے صوبیدار نذر محمد نے جام شہادت نوش کیا، پھر چٹی بٹی کے مقام پر لڑائی کے دوران ڈھلی سے تعلق رکھنے والے مجاہد عبدالرشید خان شہید ہوئے جبکہ دشمن کے سینکڑوں فوجیوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا۔پاکستان کی مسلح افواج نے جب باقاعدہ تمام محاذوں کا انتظام سنبھال لیا تو سردار علی اکبر خان مرحوم نے سیاسی زندگی کا آغاز کیااور سیاست میں سردار علی اکبر خان کو نوابزادہ نصراللہ سے تشبیع دینا مبالغہ نہ ہو گا،آپ کے۔ایچ۔خورشید مرحوم سابق صدر آزاد کشمیر کے قریبی رفقاء میں شماراور غازی ملت اور مجاہد اول جیسی نامور شخصیات کے دست و بازورہے اور دلیر انہ سیاست کا تعارف کروایا جس کی ایک مثال جنرل حیات خان کے بطور صدر آزاد کشمیر کے جلسہ میں بانگ دُھل تقریر میں کہنا کہ جنرل صاحب ہم حکومتیں بناسکتے ہیں تو حکومتیں ہٹا بھی سکتے ہیں۔آپ کی سیاسی صلاحیتوں کا اندازہ صدر آزاد کشمیر کرنل شیر احمد کے جلسہ کی کامیابی سے لگایا جا سکتا ہے جودور افتادہ تولی پیر کے مقام پر منعقد کیا گیا جہاں آمد و رفت کے ذرائع اور وسائل کی عدم موجودگی کے باوجود سردار علی اکبر خان مرحوم کی آواز پردھیرکوٹ تا عباسپور سے عوام کا سمندر امڈ آیا جس جلسہ میں آپ نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض بھی خود انجام دئیے۔ازاں بعد میجر سردار محمد ایوب خان کو ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں قدم رکھنے کا مشورہ دیا اور صف اول کے رفیقوں میں رہ کر سپیکر قانون ساز اسمبلی اور قائم مقام صدر کے مقام تک پہنچایاجہاں سپیکر مرحوم مغفور کے عظیم کارنامے مسلمانوں کے روحانی پیشوا پیر حضرت مہر علی شاہ صاحب کے بعد پہلی مرتبہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرارداد پیش کی جو آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں صد فیصد تائید کے ساتھ منظور کی گئی میں بھی سردار علی اکبر خان مرحوم سمیت میجر ریٹائرڈ سردار محمد ایوب خان کے دیگر رفقاء کا حق ثواب ہے۔سردار علی اکبر خان ماہر جنگی فنون کے ساتھ ساتھ بہترین شکاری اور نشانہ باز تھے اور دیرینہ عمر میں بھی نہایت با ذوق اور شاہانہ زندگی بسر کی اور مثبت و تعمیری فکر کے حامل رہے۔
آپ شیر علی خان آف ناڑ(موجودہ ناڑ شیر علی خان) کے نصب و نسل میں سے تھے چونکہ شیر علی خان مرحوم کی کوئی اولاد نرینہ نہ تھی جبکہ آپ کے دادا سردار گل خان اور والد محترم سردار محمد خان ہی ان کے جانشینوں میں تھے۔
آپ نے طویل بیماری کے بعد دار فانی سے کوچ کیا اور آخری رسومات میں وزیر صحت سردار قمرالزمان سابق وزیر وزیر برقیات ممبر قانون ساز اسمبلی سردار میر اکبر خان اور ضلع بھر کے اعلیٰ افسران ، تاجرو وکلاء برادری، سیاسی و سماجی حلقہ احباب کے علاوہ جید علماء کرام میں گدی نشیں بدھال شریف پیر سید حسین شاہ صاحب ، مولانا امتیاز احمد صدیقی اور دھیر کوٹ ، عباسپور، حویلی، کہوٹہ، بھٹی، بیس بگلہ، تک سے ہزاروں افراد کی شرکت واضع کرتی ہے کہ آپ ہر دل عزیز اوراعلیٰ اخلاق و کردار کے مالک تھے، ناڑ شیر علی خان کا ہر شخص اشکبار تھا۔آپ کو اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔آپ کی تکفین و تدفین بمطابق وصیت کی گئی اور سردار شیر علی خان مرحوم کے مزار سے چند منٹ کے فاصلہ پر سپرد خاک کر دیا گیا لیکن
تم ہو اک زندہ و جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو جو ڈھل جاؤ گے
تم کوئی شام کا سورج ہو جو ڈھل جاؤ گے
تحریر و ترتیب سردار محمد فرید بیگ
24اکتوبر بروز جمعہ روزنامہ اوصاف میں