3 اکتوبر، 2014

موبائل فون اور قوانین

Karl Benz کو آج دنیا بھر میں نافذالعمل ٹریفک قوانین کا وہم و گماں بھی نہ ہو اہو گا، لیکن دنیا کی پہلی Automobile ایجاد کرنے کے بعداس کے استعمال اور پھر بے دریغ استعمال سے پیدا شدہ مسائل کے حل اور روک تھام کے لئے دنیا بھرمیں تمام ممالک نے قانون سازی کی اور بالاخر آج آپ دنیا کے کسی بھی خطہ میں چلے جائیں آپ کو سڑک پر خواہ آپ پیدل ہوں یا سوار ہر دو صورتوں میں آپ مروجہ قوانین کی زد میں رہتے ہیں جبکہ آپ کی ان قوانین سے غفلت آپ کے ذاتی نقصان کے علاو ہ دیگر سفر کرنے والے افراد کے نقصان کا باعث بنتی ہے، اور آپکو قانونی کاروائی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، الغرض Karl Benz کی ایجاد کے بعدایک مؤثر ٹریفک قانون بنانے کی ضرورت پیش آئی۔ Wright Brothers کی ایجاد کے بعد پوری دنیا کو آج ہوا نوردی کے قوانین پر عمل پیرا ہونا پڑا،سوال صرف یہ کہ Martin Cooperنے ٹیلی فون کو موبائل کر کہ جو کارنامہ انجام دیا یقیناقابل ستائش ہے لیکن کیا موبائل فون بنانے سے لے کر استعمال کرنے اور استعمال کرنے کے لئے خدمات فراہم کرنے تک کے نافذالعمل قوانین موبائل فون کے خواص کے لحاظ سے قابل قبول ہیں؟؟؟ پاکستان کی حد تک بات کریں تونہیں بالکل نہیں بالخصوص موبائل فون کے منفی استعمال کی روک تھام کے لئے کوئی قابل ذکر قانون نافذالعمل نہیں بلکہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے کیا موبائل فون کے صارف کے لئے ضروری نہیں ہونا چاہیے کہ وہ خریدو فروخت کے وقت ان تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرے جو ایک گاڑی خریدتے وقت پورے کئے جاتے ہیں، کیا موبائل فون کے صارف کو بالکل حکومت سے اسی طرح لائسنس حاصل نہیں کرنا چاہیے جیسے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ ٹیسٹ دیا جاتا ہے اور ترتیب وار اور مہارت کو دیکھتے ہوئے لرننگ، یا L.T.Vاور H.T.Vڈرائیونگ لائسنس جاری کئے جاتے ہیں ایک خاص عمر سے پہلے ڈرائیونگ کی اجازت نہیں ہوتی تو موبائل فون کے استعمال کے لئے ایسی کوئی خاص عمر کی حد مقرر کیوں نہیں، اگرموبائل فون قوانین ضروری نہیں ہیں تو ٹریفک قوانین کیوں ضروری ہیں؟ اس کا ایک جواب یہ ملتا ہے کہ ٹریفک قوانین کی عدم موجودگی میں جانی نقصان کا احتمال ہوتا ہے گویاباالفاظ دیگر ٹریفک قوانین ہمیں زندہ رکھنے میں معاون ہیں۔ لیکن موبائل فون قوانین کی عدم موجودگی میں جانی نقصان کا تواحتمال شائد اسقدر نہیں تاہم مذہبی، تہذیبی، ثقافتی،ادبی اور شدید علمی نقصانات کے خدشات لاحق ہیں اور آئے روز اس کی ایک آدھ مثال دیکھنے اور پڑھنے کو مل جاتی ہے جن سے کسی صاحب نظر کو انکار نہیں،دوران سفر اکثر پولیس ناکوں کے دوران اگر کوئی مہذب پولیس والا ہو توگاڑی کی دستاویزات کے علاوہ سفر کے مقاصد بھی پوچھتا ہے جیسے کہاں سے آرہے ہیں ؟کہاں جا رہے ہیں؟ تم تو سرگودھا کے رہائشی ہوآزاد کشمیر میں کیا خاص کام درپیش ہے ؟اور ایسے متعلقہ سوالات پوچھنا ان کی ذمہ داری ہے اور جیسے ان سوالات کا جواب دینا ایک عام شہری کا اخلاقی فرض ہے ، بالکل ایسے ہی ایک موبائل فون صارف کو بھی چند ضروری سوالات کہ تسلی بخش جواب دینے پر ہی موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔جیسے کم از کم چار وجوہات ایسی بتاؤ جو ثابت کرتی ہوں کہ آپ کو موبائل فون استعمال کرنا چاہیے۔حال ہی میں پاکستان میں موبائل فون کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہوئی یعنی تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کی خدمات کی فراہمی کے لائسنس کی نیلامی جس کے بعد ہر تھری جی یا فور جی سروس سپورٹڈ موبائل فون کے حامل شخص کو انٹر نیٹ تک تیز ترین رسائی ممکن ہو جائے گی لیکن اس کی مثال بالکل ایسی ہی نہیں ہے جیسے کسی ناقص گاڑی کو فٹنس سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا جائے کہ جا کر لوگوں کی زندگی سے کھیلو بجا طور پرتھری جی اور فور جی سروسز کا آغازشعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے لیکن یہ سوال ابھی بھی موجود ہے کیا لائسنس کی فراہمی کا بنیادی مقصدیہ تھا کہ بس یہ سروس استعمال کی جائے؟ اور یقیناًیہی ہوا ہو گاکیونکہ آپ کی الیکٹرانک لائبریریوں کی تعداد آپ کے سامنے ہے اور دن بدن جو اضافہ ہو رہا ہے اس سے بھی آپ بخوبی واقف ہیں، آپ ایک چھوٹے سے چھوٹے سروے اور بڑے سے بڑے سروے کے نتائج کا موازنہ کریں تو بڑی حد تک یہی مماثلت ملے گی کہ پاکستان میں تھری جی، اور فور جی کی سروسز کاروباری طبقہ کویا ایک محدود علم و ادب سے لگاؤ رکھنے والا طبقہ چھوڑ کرباقی تمام کی ترجیحات صرف سوشل میڈیا تک محدود ہیں،سوشل میڈیا بھی انفارمیشن کے حصول کا ایک ذریعہ ہے لیکن انٹر نیٹ پر صرف سوشل میڈیا ہی حصول علم کا ذریعہ نہیں ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے اس کا حل کیا ہے ؟ چونکہ موبائل فون کے استعمال پر کبھی قانون سازی نہیں ہو گی اور کبھی ہو گی اگر تو اس وقت جب یہ معاشرہ کو کانوں تک ڈبو چکا ہو گا۔ہم کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچنے کی بجائے اگر اپنے اپنے اختیا رات کو استعمال کریں تو یقیناًکسی حد تک بہتری آسکتی ہے میڈیا کاہماری زندگی میں بڑی حد تک عمل دخل ہے لیکن اتنا نہیں جتنا ہمارا اپنے گھر والوں کی زندگی میں،قصور صرف ہمارا ہے کہ ہم نے اپنے جائز اختیارات کا استعمال بالکل معدوم کر دیا ہے بلکہ میں یہ کہنے میں شائد حق بجانب ہوں کہ ہم نے صرف رشتوں کو برائے نام تک محدود کر دیا ہے یا اگر کسی حد تک دلچسپی ہے تو وہ بھی انتہائی سنگین نوعیت پر جا کر ہم اپنے چند اختیارات کو استعمال کرتے ہیں وہ بھی مجبوراً، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو نام نہاد پرائیویسی ہمارے بچوں کو بے حیا اور نام نہاد آزادی انہیں بے راہ روی میں مبتلا نہ کر پاتی ۔اگرآپ اپنے اس رشتہ دار کو جو کسی وسط ایشائی ، یورپی یا کسی بھی بیرون ملک میں کام کرتا ہے توآپ کے بچے کا ماموں یا چاچو ہونے کے ناطے اسے وہاں سے آپ کے بچے جس کی عمر سترہ سال سے کم ہواس کے لئے موبائل فون بطور تحفہ لے آئے اسے بھی موبائل فون کے ساتھ ہی چلتا کر دیں، کیونکہ اگر آپ سمجھتے کہ موبائل فون واقعی کوئی سود مند آلہ ہے تو آپ خود اپنے بچے خرید کر دے سکتے تھے۔اور جب تک آپ یہ نہیں سمجھتے کہ اب ہمارا بچہ اپنے نفع و نقصان کو پہچاننے لگا ہے اس وقت تک اجازت نہ دیں اور اگر آپ میں اس قسم کی اخلاقی جرات کا فقدان ہو تو کم ازکم آپ کو پھر اس موبائل فون کے فیچرز سے مکمل واقفیت ہونی چاہیے جو آپکا بچہ استعمال کررہا ہو، اور اس نام نہاد پرائیویسی کے پردے میں اپنے بچے کی زندگی اور مستقبل تباہ نہ کریں اس کی موبائل فون سے متعلقہ اور دیگر بھی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھیں اور یاد رہے یہاں میری مراد بچہ سے بچی نہ لی جائے صرف بچہ اور وہ بھی اس وقت تک جب تک آپ اس کو بچہ سمجھتے ہوں س کے بعد آپ کی ذمہ داری ختم تو نہیں ہوتی البتہ کم ہو جاتی ہے اور بچی کو موبائل فون کے استعمال کی اجازت دینے سے پہلے موبائل فون کا مطلب جان لیں موبائل فون کا اصل مطلب ایک ایسے لفظ سے واضع ہوتا ہے جو ایک ناشائستہ Termکی شکل اختیار کر چکا ہے جس کے استعمال سے میں قاصر ہوں لیکن ایک اور معانی میں موبائل کو حرکت پذیر کہا جاتا ہے یعنی ایک جگہ نہ رکنے والا ، موبائل فون ان افراد کی ضرورت ہوا جو ایک جگہ نہیں رکتے بالعموم مرد حضرات کا تعلق اسی شعبہ سے ہوتا ہے اور اگر کوئی لڑکی (لڑکی سے مرادبچی نہ لیا جائے) یعنی سوشل ورکر، ڈاکٹر، نرس، یا دیگر کوئی بھی شعبہ جس میں وہ گھر سے باہر اکثر وقت گزارتی ہو تو یقیناًکوئی قباحت نہیں تاہم سکول اور کالج میں لڑکیوں اور لڑکوں کے موبائل فون کے استعمال پر مکمل پابندی لگانی چاہیے۔

ایکسپریس بلاگ میں اور
جولائی17 بروز جمعرات کشمیر ایکسپریس میں

تلاش کیجئے