3 اکتوبر، 2014

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

کرہءِ ارض پر جتنے بھی مذاہب پائے جاتے ہیں وہ صرف مذہب ہی ہیں اگر چہ چند ایک نے زندگی گزارنے کہ کچھ قواعد و ضوابط بھی وضع کر رکھے ہیں لیکن صرف اسلام کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ یہ نہ صرف مذہب ہے بلکہ ایک مکمل فطری اورعملی ضابطہ حیات بھی ہے اوریہ وہ واحد نظام ہے جو دوران حیات ہی "موت"( جو کہ ایک اٹل حقیقت ہے جس سے روئے زمین پر موجود کسی مذہب کو انکار ممکن نہیں جس کے بعد کی زندگی جس کا عملی مشاہدہ آج تک کسی انسانی آنکھ نے نہیں کیا) کو بھی بالکل بعینہ توازن میں لے کرمرتب کیا گیا جو قطعی طور پر کسی مخلوق کے بس کا روگ نہیں ہو سکتا جس میں نہ تو اس قدر چھوٹ دے دی گئی کہ اشرف المخلوقات تنزلی کے گڑھوں میں پہنچ جائے اور نہ ہی اس قدر قید و بندش کہ روح جسم کو محض ایک پنجرہ تصور کرنے لگے بلکہ شعور جیسی گراں قدر نعمت کے ساتھ نوازااور یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ شعور کے ساتھ ساتھ اس نظام کے مطابق رہنمائی کے لئے تحریری دساطیر اور کم و بیش اپنے ایک لاکھ چوبیس ہزار نمائندے بھیجے یہاں تک کہ ایک کامیاب اور مکمل ضابطہ حیات متعارف نہ کروا دیااورپھر تکمیل نظام "جس میں انسانی فطرت اور ذہنی ہم آہنگی کو مکمل ملحوظ رکھا گیا" کے بعدبلا جبرو اکراہ شعور کو مکمل حق خود ارادیت دے دیا کہ وہ جو چاہے اپنا لے چاہے تو اسی دنیا تک محدودرہے اور چاہے توحیات بعد ازموت کو زیرنظر رکھ کر اعتدال کا متوازن راستہ اختیار کرے جس سے وہ دنیا میں بھی بہتر وقت گزارے اور آخرت میں بھی کامران ہو۔جبکہ شعور کے انتخاب پر واضع تنبیہ کی گئی جس سلسلہ میں جنت کی بشارت اور جہنم کی وعید موجود ہے۔ پھر دور انتخاب چلا چاہتا ہے اور تاابد چلے گا جہاں راز شعور افشا ہو رہے ہیں اور تا ابد ہوں گے پھر قیامت برپا ہو گی اور پھر کامیاب و ناکام کا فیصلہ ہو جائے گا۔تا دم تحریر میں بھی سب کی طرح نہ سہی اکثریت کی طرح تھوڑا مضطرب ضرور ہوں کہ یقناًایک ایسا نظام جس میں ایک ایسی ذات نے انسانی شعور کی کمزوریوں کو جان کر ایک ایسا نظام دے دیا جس میں مکمل انسانی فلاح پوشیدہ ہے تا ہم اگر وہ رحیم و کریم نہ ہوتا تو اپنی مرضی کا نظا م نافذ کرنے کی مکمل قدرت رکھتے ہوئے "طلاق"جیسے ناپسندیدہ ترین عمل کو بھی جائز نہ قرار دیتا، وہ چاہتا تو نماز جنازہ میں بھی سجدے کروا لیا کرتا ۔ میں نے اپنے ناقص علم کے مطابق جو تھوڑی بہت معلومات حاصل کیں کہ نماز جنازہ میں سجدہ کیوں نہیں کیا جاتا تو مجھے جو معلومات میسر آئیں ان سے میں اپنے آپ کو مطمئن نہ کر سکا اور میں ذاتی طور پر اس نتیجہ پر پہنچا (آپ کو اختلاف ہو سکتا ہے مگر یہ میری ذاتی رائے ہے)چونکہ ایک ایسا اعلیٰ اوصاف کا حامل نظام یقیناًانسانی فطرت مد نظررکھتے ہوئے مرتب کیا گیااور سجدہ کو عبادت میں بلاواسطہ تعلق یا رابطہ کاانتہائی مقام حاصل ہے جس میں خوشی کا گہرا عمل دخل ہے اور جیسے اللہ تعالیٰ کو ایک نا پسندیدہ عمل کا جائز ہونا گوارہ ہو سکتا ہے تو انسانی فطرت میں بھی بعض احکامات جو کسی رنجیدہ واقعہ کی صورت میں فرض ہیں چائے کفایہ ہی تو یقیناًروح و شعورغمگین ہوں تو خوشی نہیں موجود رہتی کیونکہ نماز جنازہ میں شائد ہی کوئی بد بخت خوش ہوتا ہوگااور چونکہ عبادت کا انتہائی مقام یعنی سجدہ خوشی کے عنصر کی عدم موجودگی میں نا مکمل رہتا ہے اس لئے اس ذات کریم نے گوارہ نہ کیا کہ غم کی حالت میں سجدے کرواتا۔ اس تمہید کا مقصد قطعاً تبلیغ نہیں بلکہ حالیہ اسرائیلی جارحیت و بربریت کی مثال پیش کرتے ہوئے اصل المیہ کی وضاحت کرنا مقصود ہے جس کا شکار ہو کر آج نظام اسلام کو شدید خدشات لاحق ہیں اور وہ ہے ہمدردی ، بھائی چارہ اور قوت برداشت کی شدید قلت اور خود غرضی ، مادیت پرستی، انا پرستی اورغرور و تکبر کی اجارہ داری ۔اسرائیلی مسلح افواج کا فلسطینی نظام اسلام کے غیر مسلح عمل پیراؤں پردھاوا بولناکوئی نیا المیہ یا واقعہ نہیں ہے ابتدا سے ہی ایسے افراد جن کے شعور کو درست انتخاب کی توفیق میسر نہ ہوئی وہ ہمیشہ ہی ان افراد کے خلاف جن کے شعور نے درست انتخاب کیا یکجا و مسلح ہو کر بر سر پیکار رہے ہیں جس کی تاریخ حق و باطل میں جنگ کے نام سے تعریف کرتی آئی ہے اور جتنا میری فہم میں آیا اس لحاظ سے یا شائد حقیقتاً ایسا ہی ہو کہ ازل سے باطل اور باطل یکجا ہو جاتے رہے اور شائد ہی کوئی ایک مثال آپ پیش کر سکیں کہ باطل اور باطل باہم ایک نہیں ہو ئے لیکن اس کے بر عکس کوئی ایک آدھ مثال ہی موجود ہو گی کہ حق اور حق بھی باطل کے خلاف یکجا ہو ئے ہوں یا زیادہ سے زیادہ دو مثالیں دینے کے بعد آپ کی مثالیں ختم ہو جائیں گی، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو باطل آج جس مقام پر کھڑا ہے اسے دیکھتے ہوئے حق کی دستار سرتقریباًگر جاتی ہے۔ باطل اور باطل نے ملکرباقاعدہ منصوبہ بندی سے حق اور حق کے مابین ہم آہنگی کے عنصر کو ختم کیاجس کے لئے باطل یقیناانتھک محنت کی اور آپس میں باطل نے باطل کو برداشت کیااور بالاخر ایک ایسا شکنجہ بنانے میں کامیاب ہو گئے جس میں حق اور حق کو الگ الگ کر کہ باہم حق کو ہی حق کا حریف بنا کر پیش کر دیااورحق کو حق سے دست و گریباں کر وا کہ باطل و باطل یکجان و یکسو ہو کر دونوں حقوق کا قلعہ قمع کرنے میں مشغول ہو گئے آج کبھی باطل امریکہ کی شکل میں خود کو عراق و افغانستان میں حق بجانب ظاہر کرنے میں مصروف ہے تو کہیں باطل اسرائیل کی شکل میں فلسطین پر ناجائز قبضہ کو عالمی حق تصور کر رہا ہے،کہیں باطل کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بنائے پھرتا ہے، اگر کبھی کوئی حق آواز اٹھانے کی ہمت کرتا بھی ہے تو اسقدر دقیق و لطیف کہ کوئی دوسرا حق اس کا ساتھ دینے کا تصور بھی نہیں کرتا اور پھر ان کے درمیان ذاتی قدورتیں حائل ہو جاتی ہیں، کہیں باطل حق کے مال پر پل کر حق پر ہی غرّا رہا ہے کہ شاہ فیصل اور شاہ عبدالعزیز کے بعدوں کو جرات نہیں پڑتی کہ وہ برائے نام ہی امریکہ کو تیل دیتے ہوئے اسکی ناجائز اولاد اسرائیل کی ناجائز جارحیت پر حق کی حق گوئی کر سکیں، غزہ میں حالیہ شہدائے حق پرجن کی تعداد تا دم تحریر ۹بچوں اور ۶ خواتین سمیت ۷۲ہو چکی ہے فلسطین میں آئے روز پانچ کی بجائے چھے نمازیں باقاعدگی سے ادا کی جا رہی ہیں لیکن کسی اور حق نے غائبانہ نماز جنازہ تک ادا کر کہ یکجہتی کا پیغام نہ پہنچایا یہ تو بعید حق کے کسی نمائندے نے برائے نام تک باطل کی حق کی حق تلفی پراحتجاج کے چند الفاظ سرکاری سطح پربولنے کی ہمت نہ ہوئی، اگر بفرض محال کوئی آواز سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف اٹھتی ہے تو امریکہ کا ایلچی محض ایک لفظ Veto بول کر اس آوازِحق کو باطل کے تلووں تلے روند دیتا ہے اور اس پر عرب لیگ کا مثالی کردار دوہرا کر میں مزید شرمندہ نہیں ہونا چاہتا ، اور صرف یہ ہی نہیں ایک عام مسلمان کا کردار بھی آپ سے عیاں نہیں ہے، اور باطل کس قدر عیاری کے ساتھ حق کو ہی مہرہ بنا کر چال پر چال چل کر حق کو ہی مات دینے میں مصروف ہے اور یہ ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ اب باطل کو از خود حق کے خلاف کسی عملی کاروائی کی ضرورت رہ گئی ہے کیونکہ باطل نے حق میں ہی اتنے باطل پیدا کر دئیے ہیں کہ ہر حق کو دوسرا حق باطل لگ رہا ہے۔ پاکستان بلا شبہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیااسلام ہی دو قومی نظریے کا بنیادی اور مرکزی محرک تھالیکن قیام کے ۶سال بعد ۱۹۵۳ ؁ء میں ہی از سر نو مسلمان کی تعریف کی ضرورت پڑگئی اس سلسلہ میں جسٹس منیر کمیشن قائم کیا گیااور کمیشن نے جو حق ادا کیا ملاحظہ ہو انہوں نے مسلمان کی یہ تعریف کی کہ یہاں حتمی طور پر کسی کومسلمان یا کافر قرار دینا قطعی طور پر ممکن نہیں ہے کیونکہ ہر فرقہ میں مسلمان کی تعریف میں دوسرے فرقے سے تعلق رکھنے والا مسلمان نہیں ہے ازراہ حوالہ میں اس عبارت کا کچھ حصہ نقل کر رہا ہوں

The Munir Commission was originally formed to probe the causes of civil unrest in Pakistan in 1953 because of the Islamists146 demand that Pakistan was formed as an Islamic State and should implement the Islamic law. This report provides an excellent historical, cultural, political, and scriptural perspective of the rationale, original ideology, and how the radicals subsequentlyengineered the ideology of Pakistan as an Islamic State. In doing so the Islamists ceded that parts of the Qur146an prohibiting violence have been abrogated 150 an assertion that demolishes one of the five pillars of Muslim faith. Ironically, the Islamists could not even agree on a common definition of a Muslim
باطل نے حق کو اس حد تک کربناک اذیت سے دو چار کر رکھا ہے جیسے بلی چوہے کو پکڑ کر پھر چھوڑ دیتی ہے پھر پکڑ لیتی ہے پھر چھوڑ کر پھر پکڑتی ہے بعینہ باطل کبھی عراق میں آدھمکتا ہے کبھی افغانستان میں پاکستان کے راستے پہنچ جاتا ہے کبھی پیغمبر اسلام کی گستاخی پر مبنی فلم چلا دیتا ہے کبھی ملالہ کو بہادری کے اعزازات سے نوازتا ہے کبھی عافیہ صدیقی پر فرد جرم عائد کر دیتا ہے،کبھی ریمنڈ ڈیوس جیسے بھیڑیے کی خونخوار درندگی پر جوہن کیری ہمارے میڈیا کو درس حدیث دیتا ہے کبھی امداد کی شکل میں ڈالروں کی بارش کر دیتا ہے کبھی اچانک روک کر اقتصادی بابندیاں تک لگا دیتا ہے کبھی فیفا ایونٹ کی طرف توجہ مبذول کر غزہ میں ایک اور باطل کی پشت پناہی کر رہا ہے۔سوچنا صرف یہ چاہیے کہ" کیا" حق کو اب صرف انتظار کرنا چاہیے کہ کب یہ بلی اور چوہے کا کھیل ختم ہو؟ ایک دور گزرا ہے کہ حق کی امداد کو کوئی حق پرست کبھی محمد بن قاسم، کبھی صلاح الدین ایوبی، کبھی سلطان محمود غزنوی، کبھی طارق بن زیاد اور کبھی محمد علی جناح کی شکل میں کہیں نہ کہیں باطل سے ٹکراتے رہے لیکن چونکہ اب وہ فضائے بدرنہ رہی توفرشتوں نے بھی گردوں سے آنا چھوڑ دیا اب بھی یقیناکوئی مرد حق ہی کبھی نا کبھی حق کی شمع روشن کرے گا لیکن اس کے لئے ماندہ مسلمانوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اس کی آمد کا محض انتظار کرنے کی بجائے انتظام کیا جائے کوئی بدرکی سی کیفیات و جذبات کو بیدار کیا جائے کہ گردوں سے قطاریں چلو نہ لگیں کوئی ایک آدھ ہی آن وارد ہو تا کہ بقول علامہ اقبالؒ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

کشمیر ایکسپریس میں19 جولائی بروز ہفتہ

تلاش کیجئے