3 اکتوبر، 2014

آخرآزادی ہی کیوں؟؟؟

آپ زندگی کی بنیادی ضروریات اور شدید خواہشات کی ایک فہرست بنائیں پھر اگر میں آپ کواس فہرست کو ایک مختصر سے جملے میں بیان کرنے کو کہوں تو وہ جملہ یہ ہو گا"میں خوش رہنا چاہتا ہوں"اور یہ ایک جملہ محض پانچ الفاظ یا اٹھارہ حروف کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اس میں ایک عالمگیرصداقت پنہاں ہے ، انسان گود سے گور تک کا سفرایک اس خواب کی تعبیر کی تگ و دو میں گزار کر رخصت ہو جاتا ہے، کوئی کامیاب ہوتا ہے اور کوئی ناکام اور کوئی کامیاب ہو کر بھی ناکام ہی رہتا ہے، کیونکہ وہ یہ ہی نہیں جان پاتا کہ خوشی ہوتی کیا ہے،یقین جانیئے خوش ہونا ہی اصل زندگی ہے ، کسی کی غلامی میں زندہ تو رہا جا سکتا ہے لیکن ایسا کوئی مائی کا لعل پیدا نہیں ہو سکا جو با شعور ہواور یہ ثابت کر پائے کہ کسی کی غلامی میں خوش بھی رہا جا سکتا ہے، جیسے جسم روح کے لئے برتن کی حیثیت رکھتا ہے جس کے بغیر روح کا وجوداس دنیا میں عدم ہو جاتا ہے بالکل ایسے ہی آزادی خوشی کا برتن ہے جس کے بغیر خوشی کو سمیٹا نہیں جا سکتا۔آزادی ایک ایسی کیفیت ہے جس کا آج تک کوئی نعم البدل دریافت نہیں ہو سکا، اقومِ حال یا اقوامِ ماضی کے احوال کا جائزہ لینے پر ایک حیرت انگیز حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ عالم انسانی کا کوئی بھی فرد یا قوم ساری زندگی یا تو آزادی حاصل کرنے میں گزاردیتے ہیں یاحاصل کرنے کے بعد اُس آزادی کو برقرار رکھنے میں ۔لیکن برصغیر پاک و ہندکی اقوام اس حقیقت کو ماننے کے لئے عملی طور پرتیار نہیں کہ اصل نعمت نعمت کا حصول نہیں بلکہ حصول کے بعد اس کا مسلسل قیام ہوتا ہے ۔فرنگی نے انہیں دو اور پھر تین الگ ملک دینے کے بعد بھی ان اقوام کے درمیان ہزارہا میدان جنگ بنا دئیے کہ مبادا یہ الگ ہو کر بھی خوش نہ ہو جائیں اور ہمیں بھول جائیں، ان کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا، دونوں ممالک پاک و ہند میں وہ ایک ایسا نظام چھوڑ گیا جس سے وہ اپنی مرضی سے حکومتوں کی سرپرستی کرتا رہے۔ معروف مقولہ ہے کہ قابل رحم ہے وہ شخص جس کا کوئی دوست نہیں لیکن وہ بد بخت ہے جسکا کوئی دشمن بھی نہیں، اور یہاں پاک و ہند کو پیدائشی دشمنیاں بھی نصیب ہوئیں اور انہیں فرنگی کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہمیں جاگتے رہنے کا موقع بھی فراہم کر گیالیکن اس کے بر عکس یہ اونگھنے کی قسمیں کھائے بیٹھے ہیں، تاریخ شاہد ہے کہ کسی معاشرہ، خاندان، اور قوم کو سب سے زیادہ نقصان اس کے اپنے ہی افراد نے پہنچایا بیرونی قوتیں اس وقت دخل انداز ہوئیں جب یہ معاشرہ،خاندان یا قوم فرقہ واریت کا شکار ہو کراپنا اتحاد کھو کر صرف افراد کی شکل میں باقی رہ گئے، پاک و ہند کا بنیادی مسئلہ ان پر قابض ان کے اپنے ہی صرف 5%لوگ ہیں جو اغیار کے دست راست اور ذاتی مفاد پرست ہیں، جنہوں نے سوچی سمجھی سازش کے تحت اصل وسائل کو خرد برد کرنے کے لئے نام نہاد خود درآمدہ مسائل کھڑے کر رکھے ہیں جن میں کشمیر سر فہرست پھر دہشت گردی اور اسی طرح کے دیگر سنگین مسائل جو خود اپناندہ ہیں،اور کس مہارت سے دونوں ممالک کی عوام کو بیوقوف بنانے کا کارنامہ سر انجام دے رہے ہیں کہ ذرا دیکھئے پاک و ہند کی کھوکھلی حکمراں ملاقاتیں جن میں کشمیری قیادت کی معنی خیز عدم موجودگی ان ملاقاتوں کی حقیقت بیان کر رہی ہے، جبکہ کشمیر مسئلہ نہیں ہے بلکہ کشمیر میں قیام امن اصل مسئلہ ہے جو کشمیری عوام کی عدم موجودگی و عدم رضا مندی نہیں طے پا سکتا، جہاں کشمیری عوام کی 99%اکثریت نظریہ امن کی قائل ہے، خواہشمند کبھی بھی نہیں ہے کہ محض کشمیر کو تنازعہ بناتے ہوئے دونوں ممالک کی عوام ایٹمی جنگ کے خطرات کے سائے تلے زندگی گزاریں اور اس مد میں ضائع کیا جانے والا ہر سال 80%بجٹ امریکہ و یورپ سے ہتھیاروں کی خریداری کی وجہ سے دونوں ممالک کی 65%سے زائدعوام خط غربت سے بھی نیچے زندگی کی سانسیں لینے پر مجبور ہوں، اور 5%قابض اقلیت سوچی سمجھی سازش کے تحت بجٹ کا غلط استعمال کر کہ عوام کو ترقی و خوشحالی سے قوسوں دور کئے ہوئے ہیں، دونوں ممالک کا معاشی مسئلہ اگر حل کر دیا جائے بجٹ کو اگر صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو دونوں ممالک ایشیاء بلکہ پوری دنیا میں بہترین معاشی قوت کے طور پر جانے جا سکتے ہیں، اور ہر دو صورتوں میں کشمیر کا فائدہ ہے، کشمیری کبھی نہیں چاہتے کہ دونوں ممالک پر قابض 5%اقلیت کشمیریوں کے نام پر 95%عوام کا بجٹ خود پرستی اور مادیت پرستی کی بھینٹ چڑھاتے رہیں۔دونوں ممالک کی عوام کو چاہیے کہ خود کو دھوکے سے نکالیں جبھی وہ خوشحالی کے لئے کچھ کر سکیں گے، اس سلسلہ میں انہیں سب سے پہلے جامع پالیسی برائے حکومت و حکمراں وضع کرنی پڑے گی جہاں حقوق و فرائض کا اور اختیارات (عام شہری کی زندگی پر اثر انداز ہونے والے عوامل )کا واضع تعین ہو، وہ سارے وسائل جو حکومتیں بیرونی و نام نہاد مسائل پر ضائع کر دیتی رہی ہیں انہیں اصل و بنیادی مسائل کے حل کے لئے بروئے کار لایا جائے، خاصا مشکل لیکن ممکن کام ہے، اس کے لئے ضرورت صرف شعورکی ہے نہ کہ سر زمین کی جو 63سال پہلے تھی، تب جنگ سر زمین کے لئے لڑی گئی تھی اب جنگ محض 5%قابض اقلیت کے خلاف ہے، دونوں ممالک میں ایک طبقہ محض روٹی کے لئے جدوجہد کر رہا ہے اور دوسرا طبقہ عیش و عشرت کی دوڑ میں غرق ہے، جس کی وجہ سے دونوں ممالک میں کرپشن کے سونامی وارننگ الارمز بج رہے ہیں، یہ ایک سازش کے تحت عوام کو حتی کے ایک ہی خاندان کے افراد کو بھی دو طبقاتی نظام (یعنی امیر اور غریب)میں الجھادیا گیا ہے، جس کی بدولت آج ٹیکس چوری کر کر کے سرمایہ دارانہ نظام فروغ پا رہا ہے، جہاں بے انصافی ، میرٹ کی پامالی ، رشوت ، مادیت پرستی و ذاتی مفاد پرستی کی سر پرستی کی گئی، اس سب سے نجات کے لئے ایک ریاستی آئین و قانون مرتب کیا جائے جس میں ریاست کے باشندوں کے بین الاقوامی حقوق و فرائض کی خلاف ورزی اور مذہبی قوانین کی خلاف ورزی پر باقاعدہ ٹھوس اور واضع شق موجود ہوں، ایک مؤثر نظام محصول رائج کیا جائے جہاں بآسانی ٹیکس چوری نہ ہو، اور خلاف ورزی کے مرتکب افراد پر مقدمہ چلا کر ریکوری و سزا تک نگرانی کرنے کے لئے خود مختار ادارے بنائے جائیں، عدالتیں اور قانون فراہم کرنے والے ادارے آزاد ، خود مختار اور عوام کے مکمل نمائندہ ہوں، جبکہ انتظامیہ قطعاً غیر سیاسی ہو، عوام کو قومی یکجہتی و ملی وحدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان مسائل سے نمٹنا ہو گا جو محض ایک مخصوص طبقہ کی عیاشیوں کے لئے انہیں تباہی کے دھانے پر لا کر کھڑا کئے ہوئے ہیں، اپنی تعلیمی پالیسی پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے جہاں تعلیم کا مقصد محض رزق کے حصول تک محدود ہو گیا ہے، ترمیم کر کے تعلیمی پالیسی کو عملی بنایا جائے، یعنی ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ لاقانونیت کے خلاف لڑو لیکن عملاً ہمیں ایسا ماحول فراہم کیا جاتا ہے کہ" کتابی باتیں" جیسی کئی ضرب الامثال دریافت ہو گئی ہیں،عام شہری سمجھتا ہے کہ مجھے ملک سے کیا لینا دینا ویسے بھی میرے اکیلے کچھ کرنے سے کیا ہو گا جس وجہ سے جنہوں نے حقیقتاً دودھ ڈالا ہوتا ہے صبح انکا بھی پانی ہو چکا ہوتا ہے، کرپشن کرتے ہوئے دیکھ کر خاموش رہنا بھی ایک قسم کی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے،یہاں کرپشن کرنے والے سے حصہ طلب کیا جاتا ہے، ایک ایسی تعلیمی پالیسی جو مطلقاً عملی ہو،مثلاً پڑھایا تو جاتا ہے کہ اگر آپ کے سامنے سڑک پر کسی حادثہ میں کوئی زخمی ہو جائے تو اس کی امداد کرو اسکی جان بچانے کی کوشش کرو تو عملاً اس بات کی ترغیب نہ دی جائے کہ جائے حادثہ سے دور رہو یہ تمہارا نہیں پولیس کااور انتظامیہ کا کام ہے،خواہ مخواہ تھانہ کچہری کے جھنجٹ میں الجھ جاؤ گے، یعنی عملی طور پر تعلیمی پالیسی کی نفی ہو رہی ہے، یا سادہ الفاظ میں کہا جا رہا ہے کہ کتابوں میں جو لکھا جاتا ہے اسکو صرف پڑھنا چاہیے نہ کہ اس پر عمل پیرا ہوکر وقت کا ضیاع کیا جائے، تھانہ کچہری کلچر میں تبدیلی اشد ضرورت بن چکی ہے، کہ جومظلوم کی پناہ گاہ ہونی چاہیے وہاں ایک عام آدمی خالی جیب اور بناء تعلق جانے سے ڈرتا ہے، عوام میں دولت کے حصول کے لئے منفی مقابلہ کا رجحان پیدا کر کہ اتحاد و یکجہتی کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے، اس سلسلہ میں دولت کی منصفانہ تقسیم کی اکاؤنٹبلیٹی کے ادارہ کی بنیاد رکھی جائے جو غیر جانبدار رہ کر اثاثہ جات و آمدنی کی تحقیق کرے اور عوام کو جواب دہ ہو، عوام کا" اصل مسئلہ کشمیر ہوسکتا تھا "اگر ہر دور کے حکمراں نسل در نسل اور بھیس بدل بدل کر کبھی حکومت کبھی اپوزیشن، کبھی اتحاد اور کبھی مخالفت کے لبادے اوڑھ کر عوام کا معاشی استحصال نہ کرتے ، میں حیران ہوں کہ عوام اپنے مُردوں کو تو کوؤں اور مردارخوروں کو تو نہیں کھانے دیتے مگر خود کو اور اپنے زندہ و جاوید ملک کو کیسے ان کے حوالے کر رکھا ہے؟ معیار زندگی کو میڈیا کی مدد سے اس قدر بھیانک شکل دی جا چکی ہے کہ عام آدمی کا زندہ رہنا محال ہو گیا ہے ، معاش کے بعد دوسرا مسئلہ اجتماعی مفاد کی بجائے ذاتی مفادپرستی ہے جس کی وجہ یہ نام نہاد حکمران ہیں،جو جان بوجھ کر میرٹ پامال کرتے ہیں، رشوت عام کرتے ہیں کہ عوام آپس میں الجھ کر اسی میدان جنگ میں بر سر پیکار رہیں، اور وہ اپنے وسیع تر مفاد میں، تاہم ملکی سلامتی کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ اپنی اپنی جگہ ترقی کرنی چاہیے بلکہ اس سلسلہ میں بھی پاک و ہند مثبت پیش رفت اقوام عالم کو تنبہیہ کرنے کو کافی ہو گی کے یہ خطہ ناقابل تسخیر ہے، کبھی کبھار کشمیر میں قیام امن پر بات چیت کے لئے پاک و ہند حکمران ملاقاتوں میں کشمیری قیادت کی عدم شمولیت کشمیریوں کو بھی کھٹکتی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ کشمیریوں کے بغیر کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے، اور یہ ہی قانون عالم ہیں اور قانون فطرت و قدرت بھی ،ایسی ملاقاتیں معنی خیز ہیں،کیونکہ کشمیر لاکھوں مربع میل محض ایک زمین کے ٹکڑے کا نام نہیں جہاں پاک و ہند کے حکمران پٹواری خسرہ نمبر گن گنا کربٹوارہ کر دیں گے۔ یہ وہ سحر ، وہ قہر اور وہ شرو شرارت ہے ، کہ جس کو دیکھ کر سمجھ کر ہم کبھی ، سرسر کو صبا ء اور ظلمت کو ضیاء نہیں کہہ سکتے ۔کشمیر ایک وژن کا نام ہے، کشمیر ایک نظریہ کا نام ہے، کشمیر ایک جنون کا نام ہے، کشمیر ایک مذہب کا نام ہے، کشمیر لاکھوں کروڑوں کشمیریوں کی خوشیوں کی کنجی ہے۔حرف آخر دونوں ممالک کے بنیادی مسائل معاش اور اتحاد ویکجہتی میں کمی اور کشمیر میں قیام امن تک کا حل صرف عوام کے پاس ہے نہ کہ حکمرانوں کے پاس اور نہ اقوام عالم کے پاس کیونکہ اگر وہ مخلص ہوتے تو آج اس مسئلہ کی عمر نصف صدی سے زائد نہ ہوتی اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسے مسائل صرف عوام نے حل کئے ہیں، ذرا سوچئیے اگر حکمران اپنے ملک سے مخلص ہوں تو کوئی ایسی وجہ نہیں کہ کشمیر میں امن کا قیام ممکن نہ ہو، لیکن کشمیر میں امن کا قیام حکمرانوں کے اور امریکہ و یورپ کے پیٹ پر لات کے مترادف ہے، کہ اگر یہ مسئلہ حل ہو گیا تو ہم کھائیں گے کیا اور کہاں سے امریکہ و یورپ سوچ رہے ہیں کہ پھر وہ ہتھیار کس کو بیچیں گے انہیں اپنی اسلحہ ساز اندسٹری ڈوبتی ہوئی نظر آ رہی ہے، اور حکمران یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر کشمیر میں قیام امن کا مسئلہ حل ہو گیا تو معاشی مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا اور جب معاشی مسئلہ حل ہو جائے تو کوئی مسئلہ باقی نہیں رہتاکیونکہ معاشی طور پر مستحکم ممالک میں کرپشن ، فراڈ، ڈکیتی، اغواء، چوری، رشوت، نا انصافی جیسے مسائل نہ ہونے کے برابر ہوئے ہیں۔تو ایسی صورت میں حکمرانوں کو سوئیس اثاثہ جات پریشان کرتے ہیں کہ ان کا کیا ہو گا۔

24 جولائی اور 2 اگست کشمیر ایکسپریس میں

تلاش کیجئے