صدر اوباما کے دورہ بهارت کو کاونٹر کرنے کیلئے، کسی سول عہدہ دار کی جگہ آرمی چیف کی چین یاترا نے ثابت کردیا کہ پاک فوج سلامتی پالیسی کے بعد اب خارجہ امور بهی کلی طور پر اپنے کنٹرول میں لے چکی ہے، اس کا سیدها مطلب یہ ہے کہ ہم نے برضا و رغبت، باامر مجبوری 1973 کے سول آئین پر 1951 کے آرمی ایکٹ کی بالا دستی کو بالآخر تسلیم کر ہی لیا .. موجودہ "جمہوری حکومت" نے "قوم" کو یہ حقیقت ویسے اس وقت ہی باور کرادی تهی، جب اس نے "دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان" کی آڑ میں سول عدلیہ پر فوجی افسران کے اپر ہینڈ کو آئینی جواز فراہم کرنے کی غرض سے منظور کرائی گئی اکیسویں آئینی ترمیم میں یہ شاہکار شق خود شامل کرائی تهی کہ "کسی کیس میں سول قوانین کے ساته تصادم کی صورت میں فوجی عدالت کا فیصلہ حتمی تصور ہوگا" .. اس نیم مارشل لائی "نظام انصاف" نے دور حاضر کے صلاح الدین ایوبی، ہمارے موجودہ "چیف" کے پیش رو جنرل کیانی کی مادر پدر آزاد چیف جسٹس افتخار چودهری کو دی گئی اس"شٹ اپ کال" کی یاد تازہ کردی، جس کے بعد بلوچ مسنگ پرسنز کیس میں آئی ایس آئی چیف کو حاضر ہونے پر مجبور کر دینے کے چودهری کے تمام دعوے ہوا میں اڑ گئے تهے .. اس موقع پر اپنی کسی تحریر میں ہم نے اپنے پڑهنے والوں کو یاد دلایا تها کہ"مملکت خداداد" کا ہر آرمی چیف اپنے جائننگ پیپرز میں جس دستاویز کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹهایا کرتا ہے، وہ 1973 کا رائج الوقت قومی آئین نہیں، بلکہ 1951 کا آرمی ایکٹ یعنی "پاک فوج" کا خود ساختہ آئین ہے .. ہمارا دعویٰ آج بهی یہی ہے، جسے شک ہو بڑے شوق سے تحقیق کرتا پهرے ..