قوانین فطرت کی روشنی میں اقوام عالم کے عروج و زوال کے منفرد شارح
علامہ المشرقی کے نزدیک اگر افراد کے کسی بے ہنگم ہجوم کو ڈسپلن کی عملی تربیت کے
ذریعے ہی ایک "قوم" کے قالب میں ڈھالا جا سکتا ہے تو اس قوم کو ترقی کی
منازل طے کراتے ہوئے "عالمی برادری" کا جزو بنا کر، تسخیر کائنات کے ذریعے "القائے
ربانی" کی منزل مقصود تک پہنچانے کیلئے ضروری ہے کہ اس کی قیادت سکالرز اور
سائنسدانوں کے ہاتھ میں ہو .. لیکن حیرت ہوتی ہے جب اچهے خاصے سمجھ دار بلکہ "سیزنڈ"
قسم کے تجزیہ نگار، جینوئن سکالرز کو قوم کی رہنمائی کے قابل تسلیم کرنے سے انکار
کرتے دکهائی دے رہے ہوں .. محمد
اظہارالحق روز نامہ "دنیا" میں 4 جون 14 کو چھپے اپنے کالم میں عمران
خان، طاہرالقادری اور ایدھی کو قیادت کیلئے بوجوہ نااہل ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ
بالکل غیر ضروری طور پر، علامہ المشرقی کے شہرہ آفاق داماد اور "کومیلا ماڈل"
و "اورنگی پائلٹ پراجیکٹ" کے ذریعے پوری دُنیا پر ثابت کرنے والے کہ پسے
ہوئے غریب کو بھی اپنے قدموں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے اور اس کارنامے پر سیکنڈے
نیوین سکالرز کی جانب سے "نوبل پرائز" کیلئے نامزدگی، فلپائن کے سب سے
بڑے اعزاز اور امریکی یونیورسٹیز سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریز حاصل کرنے والے، مصنف
ہفت زبان ڈاکٹر اختر حمید خان کو "سربراہ قوم" بنانے کو بے نتیجہ قرار
دے کر شاید یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ قوم کو، قسمت کا لکھا سمجھ کر، ان کے "بین
السطور" ممدوح میاں نواز شریف کو ہمیشہ کیلئے برداشت کرنا ہی ہوگا؟؟