"آزاد" بنچ اور "شتر بے مہار" بار دونوں کڑی آزمائش میں !۔۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اکیسویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے والی لاہور بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان کی استدعا پر فوجی عدالتوں کے خلاف سٹے آرڈر دینے سے انکار کرتے ہوئے کامل 15 روز کیلئے سماعت ملتوی کرکے واضح کردیا کہ پارلیمنٹ کو زرداری دور کی اٹھارویں ترمیم میں ترمیم مزید کیلئے مجبور کرنے والی چودھری عدالت اس کیس کو بالآخر "پارلیمنٹ کے اختیارات" کے نام پر خارج کرنے والی ہے ۔۔ جیسا کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے سینئر بیوروکریٹس کی ترقی کو کالعدم قرار دینے والی یہ عدالت چند ماہ قبل نوازشریف کے ایسے فیصلے پر یہ فیصلہ صادر فرما چکی ہے کہ"ہم حکومت کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرسکتے" ۔۔
"آئین وہ ہے، جو ہم کہتے ہیں" جیسا فرعونی اعلان کرنے والے افتخار چودھری کی یہ عدالت تو خیر پارلیمان کے بعد اب مسلح افواج کے سامنے بھی ایک بار پھر ہتھیار ڈالنے ہی والی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ آئین میں کسی معزول جج کی بحالی کی گنجائش نہ ہونے کے باوجود چودھری کو بذور بحال کرانے والے ہمارے وکیل بھائی ڈوگر کورٹ کی طرح اب اس چودھری کورٹ کے خلاف بھی کوئی جاندار تحریک بپا کر پاتے ہیں یا ان کی "وکلا گردی" صرف پیپلز پارٹی کے دور میں ہی جادو دکھانے کی اہلیت رکھا کرتی ہے؟؟۔