اب یہ سیاسی اختیارات کے استعمال سے خاندانی کاروبار کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی دینے کی "حکمت عملی" ہے یا اپنی مربی عالمی طاقتوں کے کسی خفیہ ایجنڈے کی پردہ پوشی کی کوشش، جنرل ضیاء کے یہ روحانی فرزند عسکری اور (اس بار) عدالتی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے جب بهی برسر اقتدار آئے، الباکستان کی قسمت کے مالک جرنیلوں کی ماری قوم کو ہر روز ایک نیا کانٹہ چبهونے کی جستجو میں ہی رہتے ہیں اور پهر اپنی لگائی ٹیسوں کا احساس مٹانے کیلئے آئے دن نیا تماشہ بهی انہی کی زنبیل سے برآمد ہوا کرتا ہے .. اب کی بار تو یہ خاصے تجربہ کار بلکہ سیانے بهی ثابت ہو رہے ہیں .. پہلے عوام کی توجہ بجلی و پٹرولیم مصنوعات کی قلت اور نرخوں میں ہفتہ وار اضافے اور علی النتیجہ روز بروز بڑهتی مہنگائی سے ہٹانے کیلئے کبهی خاکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مصنوعی پنگہ بازی اور کبهی طالبان کے ساتھ "مذاق رات" کا سہارا لیا جاتا رہا .. اور اب شاید عوام کو دکهایا گیا "دہشت گردی کے خاتمہ" کا خواب بهلانے کی خاطر انہیں پٹرول کے مصنوعی بحران اور اس پر متعلقہ وزراء کے مابین اختلافات کا حیرت انگیز ڈرامہ رچایا گیا ہے .. خود دیکھ لیجئے کہ پٹرول کرائسس کے سامنے آتے ہی سزا یافتہ اور گرفتار دہشت گردوں کے "بلیک وارنٹس" اور انہیں تختہ دار پر لٹکانے کا سلسلہ پس منظر میں جانے کے بعد یکدم تهم سا نہیں گیا، پس زندہ جنرل مشرف کے "قاتلوں" کو کیفر کردار تک پہنچانا ہی شاید جس کا مطمع نظر تها .. دیکهتے ہیں پٹرول ایشو کے بعد پردہ ظہور سے نیا کیا "ہنگامہ" جهلکتا ہے؟.