4 دسمبر، 2014

جنید جمشید سےجنید جمشید "صاحب" تک کا سفر اور واپسی

مشہور شخصیات کو زیر اثر کرنے اور مئوثر تبلیغ کے تبلیغیTactics کا ٹرینڈ تو بن چکا ہے اوراب چونکہ عادت بھی ہو گئی ہے تو تبلیغی جماعت کے Think Tank کو اس بات پر بھی ضرور غور فرمانا چاہیے کہ پاپولر شخصیات کی غلطیاں بھی انہی کی طرح تھوڑا زیادہ مشہور ہو جاتی ہیں اور علما کرام کو معاشرہ میں تعلیمی معیار بالخصوص نظام اسلام سے متعلق اپنی خدمات کا علم تو بخوبی ہوتا ہے جس کی یہ مثال دی جائے کہ ایک شخص حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شان میں نا دانستہ گستاخی کا مرتکب ہو تو دفعہ"جہاد" لگا دیا جائے جبکہ ایک فرقہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ ساتھ ان کے والد گرامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور چند دیگر محترم صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی شان میں قصداً بلکہ باقاعدہ تیاری کر کے (معاذ اللہ) زبان درازی کرے توقانون دانِ اسلام دفعہ "اجتہاد"یا زیادہ سے زیادہ دفعہ"اختلاف"کے زیر تحت فیصلہ صادر فرمائیں اس لئے حتیٰ الامکان کوشش کی جانی چاہیے کہ کسی بھی شخص کو منبر و محراب کا ناخدا مقررکرنے سے پہلےاس شخص کو نظام اسلام سےمتعلق مکمل سوجھ بوجھ اور سابقہ معاشرتی معیارِ معلوماتِ دین بارے مناسب حد تک آگاہ کیا جائے بصورت دیگرکسی شخص کی پاپولیرٹی ان کے گلے پڑسکتی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر کسی کی قیمتی جان ضائع ہو سکتی ہے، تاہم جنید جمشید کو جو جنید جمشید سے جنید جمشید صاحب بن گئے تھےکو اپنی ذات کا محاصبہ کرنا چاہیے۔
اگرچہ کوئی شخص دلی طور پر اور ارادتاً یا قصداً کسی ایسے قول یا فعل کا ارتکاب تو نہ کرے لیکن دیکھنے یا سننے والوں یا دیکھنے یا سننے والوں کو دیکھ یا سن کرمحسوس ہویا باالفاظ دیگر بلکہ باالفاظ درست کسی کو زیادہ مسلمانی چڑھ جائے اور اسکو یاد آ جائےکہ یہ مولوی صاحب کے مطابق گستاخی ہے چاہے انہیں گستاخی کے لغوی معنی کا علم ہے یا نہیں یا شائد مولوی صاحب کی مہربانی سے ان کے ہوتے ہوئے انہیں جاننے کی ضرورت بھی نہیں تو حالات خدانخواستہ حادثات کی صورت اختیار کر لیا کرتے ہیں۔
اور تاریخ اٹھا کر ملاحظہ کی جائے توایسے ماحول میں مولوی صاحب کی اپنی ذات کو مثبت کردار ادا کرنے کے بوجھ سےچھٹکارہ حاصل کرنے میں کامیابی نصیب ہوتی رہی،البتہ دیگر فصائل و فوائد الگ جو معاملہ کی نزاکت اور ماحول کی حساسیت سے بالواسطہ متعلق ہیں۔
سوال پیدا کیا جا رہا ہے کہ مسجد یا مدرسہ میں ایک شخص ایسے بچوں کے ساتھ ایک ایسے فعل کا مرتکب ہوتا ہے جن کا انہیں وہم و گماں تو درکنار مطلق علم بھی نہیں ہوتا، بفرض محال اگر علم ہو بھی جو آجکل مولوی صاحب کا شوق *****ہے چرچےتو عام ہیں تو بھی علم ہونا اس فعل کو بہتر تصور نہیں کرے گا ایسے شخص کے لئے مولوی صاحب کے بیان کردہ قانونِ اسلام میں گستاخی کی کوئی دفعہ موجود ہےیہ کیا یہ مسجد و مدرسہ کے تقدس کے ساتھ اسلامی تعلیمات و اخلاقیات کا تقدس پامال نہیں کیا گیا؟یا اجتہاد پایا جاتا ہے،یا یہ کہ مولوی صاحب اس پر عمل کروانے میں کس قدر مئوثر کردار ادا کر رہے ہیں یا اگر عمل نہیں تو مولوی صاحب وہ والے جو تحفظِ ناموس رسالت کے موقع پر منبر پر مسلح نظر آتے ہیں لیکن احکامات نبویﷺاور اسوہ حسنہ کی اصل صورت واضع کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔
لیکن اسلام واحد نظام ہے جس میں لوگوں کا معیار جانچنے کے لئے بھی کسوٹی موجود ہے کسی کے بھی قول کو رگڑ کر دیکھیں اگر عمل چمکے تو معیاری ہے ورنہ غیر معیاری تو ہے ہی ہے۔
مزید سوال پیدا کر کے مولوی صاحب کی پوزیشن کو مشکوک بنایا جا رہا ہے کہ ملک پاکستان میں آئے روز ایسے واقعات وقوع پذیر ہوا چاہتے ہیں پوچھا جا رہا ہے کہ کیوں ؟ مولوی صاحب اب تک کس محاذ پر مصروفِ عمل ہیں کہ گستاخی کی تعریف یا دفعات ایک عام مسلمان کو بلکہ ہر پاکستانی کو بھی کیوں نہیں بتائی گئیں کہ وہ خدانخواستہ اس فعل کا مرتکب ہو ، اور جذبات مجروح والی نام نہاد تسبیح کے اوراد و وظائف کو افضل درجہ حاصل ہو جائے۔پوزیشن مشکوک بنانے والے سوال کی تفصیل میں الزام لگایا گیا کہ ایسا قصداً کیا جا رہا ہے کہ آئے روز ایسے واقعات کو ذاتی مفادات کے حصول اور بالخصوص مسلکی جنگ میں بطور آلہ کار استعمال کیا جائے، کیونکہ ان کے فہم میں فرقہ واریت کی تعلیم و تربیت اب اس نہج تک ہو چکی ہے کہ ہم کسی بھی وقت ریاست کو بلیک میل کر کے بھاگ دوڑ حاصل کر سکتے ہیں اور ملک کو فرقہ وارانہ نظام کے تحت تقسیم یعنی جیسے سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبر پختونخواہ، اور گلگت بلتستان ہیں ریڈ کلف کی سنت(ریڈ کلف کے عمل کو سنت کہنےپر فتویٰ لگانے کی بجائےسنت کو محض عربی کے لفظ کے طور پر پڑھا اور سمجھا جائے) پر عمل پیرا ہو کر سنی استان، وہابی استان، شیعہ استان، فلانستان ٹمکانستان وغیرہ کی صورت اسلامستان کے نقشے کا ناپاک خواب دیکھا جا رہا ہے۔
جسکی یقیناً عملی تردید سامنے آنی چاہیے کیونکہ فکری ، علمی و عملی طور پر متحد و یکجا پاکستان زیادہ بہترہےاورتردید پیش کرنے کا سنہری موقع جنید جمشید سے متعلقہ واقع اور صورت حالات ہیں جہاں مثبت کردار سے تردید کی جا سکتی ہے۔
ازاں بعد مشترکہ طور پر فرقہ واریت کے خاتمہ کے لئے مئوثر اقدامات کئے جائیں کہ کم از کم تحفظ ناموس رسالت ﷺکے حوالے سے تمام مکاتب فکر کے تحفظات ختم ہو جائیں۔

مکمل تحریر >>

17 نومبر، 2014

قانون بے بس ہے


ہمیں یہ کہنے میں ذرا برابر دقت نہیں ہوتی کہ اس ملک میں قانون نام کی چیز ہی نہیں ہے لیکن مجال ہے جو یہ سوچنا گوارا کرنے کا موقع آیا ہو کہ میرے اپنے اندر کسی قانون نام کی چیز کا وجود ہے، کیا ہم اس قسم کا معاشرہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں کہ جس میں قانون کی بالا دستی قائم رہ سکیتو یہ دونوں جواب منفی میں موصول ہوتے ہیں قانون ایک سوچ کا ایک نظریے کا نام ہے جسے دنیا بھر کے تمام معاشروں کے تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے  با شعورافراد کی نگاہ میں مذہب کے برابر درجہ حاصل ہے جس کی تصدیق معلوم تاریخ میں ایک بھی مثال کانہ ملنا ہے کہ جس میں ثابت ہوتا ہو کہ کوئی معاشرہ نظریۂ قانون سے ناآشنا گزرا ہو حتی کہ "جنگل کا قانون" بھی ایک ضرب المثل کے طور ہی سہی لیکن استعمال ہوتی چلی آئی ہیکہ شیر گھاس نہیں کھاتالیکن بکری کے بچوں کا باپ ایک بکرا ہی ہوتا ہے۔ہمارے ملک سے کون سی حکومت اس ملک سے کتنی مخلص ہے اس کا اندازہ ملک میں سزا پا کر آنے والے افراد کی تربیت، اور فلاح و بہبود کے اداروں کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس ملک میں کسی مجرم کو سدھارنے کے لیے کتنی کاوشیں کی جا رہی ہیں کیونکہ جرائم پر صرف اسی صورت قابو پایا جا سکتا ہے کہ دوران سزا مجرم کو غلطی کا احساس دلایا جائے اور مستقبل میں نہ کرنے کے عہد کو یقینی بنایا جائے جو کہ ایک حد تک ہو جاتا ہے بالخصوص وہ مجرم جو پہلی دفعہ قانون سے سزا پا کر آتے ہیں لیکن ازاں بعد غیر مناسب معاشرتی رویوں کی بدولت جرم کو روکنا ناممکن ہے کہ جب ایک سزا یافتہ مجرم کو کوئی ادارہ ایک قابل عزت شہری تسلیم ہی نہیں کرتا یا اس کو فی الوقت درپیش معاشی مسائل میں کوئی حتی کہ گھر والوں تک کی کوئی امداد نہیں ملتی تو وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو کر مجبوراََ جرائم کا رخ کرتا ہے اور اس شعبے میں اس کا خیر مقدم کرنے والے اس لمحے کو برداشت کر کہ وہاں تک پہنچے ہوتے ہیں جو اس نئے آنے والے کے دل میں سے اس احساس کو ختم کر دیتے ہیں جو دوران سزا اس کے دل میں پیدا ہوا ہوتا ہے "کہ میں نے غلط کیاتھا"
اور اس کے ذمہ داران کون ہیں یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔احساس ہونا ایک رحمتِ خداوندی ہے اور ایک رحمت یافتہ شخص کے ساتھ معاشرے کا یہ منفی برتاؤ بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے۔قانون کی ذمہ داروں کی ذمہ داری ایک حد تک ہوتی ہے ازاں بعد معاشرے کے تمام افراد کو از خود امورمثلِ مذکورہ کی نہ صرف انجام دہی بلکہ خوش اسلوبی سے انجام دہی کو یقینی بنانے کے اقدامات کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرنی چاھیے بلکہ از خودایسی سرگرمیوں میں شمولیت اختیار کرنی چاہیے جن سے ممکن ہو کہ مجرم سزا پانے کے بعد ایسے ماحول میں نہ جائے جس ماحول کا ایک بھی دروازہ جرم کی گلی میں کھلتا ہو۔
لیکن ہم الحفیط و الاماں اس بیچارے احساس یافتہ شخص کو نہ صرف اس گلی کا راستہ دکھانے بلکہ از خود وہاں پر چھوڑ کر آنے کے بندوبست میں بھی کوئی کوتاہی برداشت نہیں فرماتے۔
اور لان میں صبح صبح صبح خیزی کے فوائد پر لیکچر دیتے ہو ئے اپنے بچوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی جرائم کی شرح پر بلاناغہ تبصرہ فرمانا بھی اپنا فرائض منصبی بلکہ اجداد کی سنت سمجھ کر ادائیگی کو باعث تفاخر گردانتے ہیں۔
یقینا قابل تحسین ہو سکتا ہے کہ کسی کے خاندان میں سے کسی نے کبھی بھی جرم کی گلی نہ دیکھی ہو لیکن وہ معاشرہ اور زیادہ قابل رشک ہوتا ہے جس میں ایک مجرم کو دوبارہ جرم کی گلی میں جانے سے روکنے کے مناسب اقدامات اور سب سے بڑھ کر ایسے رویے موجود ہوں۔
الگ المیہ یہ ہیکہ ہمارے معاشرے میں اس پر عمل درآمد تو درکنار اس کے بر عکس اقدامات کی حوصلہ افزائی تک کو ثواب کا درجہ حاصل ہیجو کسی کو ایسا سوچنے تک کی بھی توفیق میسر نہیں آتی۔
مثال کے طور پر ایک استاد کا اگر کسی جرم کی سزا کے دوران احساس بیدار ہو جاتا ہے تو کیا ہمارا معاشرہ ایک سزا یافتہ مجرم سے اپنے بچوں کی تعلیم و تدریس مناسب سمجھتا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟حالانکہ عین ممکن ہے وہ پہلے سے بھی بہتر انداز میں فرائض ادا کرے۔
ایک مجرم کو جب احساس ہو جاتا ہے اور اس احساس کو جب معاشرہ محسوس کر کے قبول نہیں کرتا تب تک ہونے والے کسی قتل، چوری، ڈکیتی، زیادتی بلکہ ہر جرم میں ہمارا کسی نہ کسی قدر و شکل ضرور کنٹریبیوشن ہے,,,,,,,,,اور وہ ایسے کہ اب جب اسی استاد کو معاشی سہارا یعنی نوکری نہیں ملے گی، تو معاشرے میں چوری اور ڈکیتی کی خبریں اخبارات کی زینت بنا کریں گی، ایک سزایافتہ مجرم جس کے احساس ہو جانے کو نظرانداز کر کہ مجرم ہی تصور کر کہ یا عزت دار تصور نہ کر کہ ایک عام آدمی کی طرح امور زندگی کی ادائیگی کا موقع نہ ملے اور نام نہاد شرفاء میں وہ رشتہ داری کے قابل نہ سمجھا جائے تو آئے روز زنا اورزنا بالجبر کے قصے سن سن کے عدالتوں کی دیواریں بھی معاشرے کی بے حسی پر شرمندہ ہوا کرتی ہیں۔ایک غلطی تو سنا ہے خدا بھی معاف کر دیا کرتا ہے۔ لیکن ہمارے رویوں میں گھٹی میں دی جانے والی جہالت کا بدبودار اثر اور ہمارا کھوکھلا معزز و مہذب پن ہمیں مثبت اقدام سے روکے ہوئے ہے۔
قانون مزید اقدامات سے قاصر ہے
مکمل تحریر >>

10 نومبر، 2014

روئے زمیں پر قیام امن ممکن ہے


ایمان امن سے ماخوز ہے لیکن ایمان شائد وہ واحد ماخذ ہے جس کو اخذ کرنا خود ماخذ یعنی امن کی مجبوری تھی۔
کیونکہ امن ممکن تب ہی ہے جب ایمان مکمل ہو۔اور شائد ہر ایک آدمی کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا بلکہ ملائک تک میں سے بھی ہر ایک اپنا ایمان مکمل نہ کر سکا ورنہ ابلیس کو بھی آتے تھے وضو کے فرائض بہت۔
اب ایمان مکمل نہ ہونے کی وجہ سے برائی کسی نہ کسی جگہ کسی نا کسی شکل میں نظر آتی ہے۔ ایمان ایک انٹیرئیر کیفیت کا نام ہے جو ایکسٹرئیر کو کنٹرول کرتی ہے۔ جیسے ایک کار کا انٹرئیر اس کے ایکسٹرئیر کو کنٹرول کرتا ہے جس کے لئے مختلف فنکشن ہیں جیسے گاڑی کے اندرسے سمت تبدیل ہوتی ہے تو باہر والا حصہ سر تسلیم خم کر دیتا ہے اور اگر ایسا نہیں کرتا تو بھیا نک حادثہ نتیجے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ 
اسی طرح انسان کا انٹرئیر یعنی ایمان اس کے ایکسٹرئیر یعنی اعمال کو کنٹرول کرتا ہے۔
ایمان کی بنیادی طور پر چار کیفیات ہیں جن کی مزید اقسام اور درجات ہیں ایک یقین کی اصل کیفیت جن کا ایکسٹرئیر یا اعمال نیک صفت ہوں۔ عام طور پر شعور و لا شعور میں وہ عمل(عبادات کو چھوڑ کر) کسی بھی ایمانی کیفیت والے شخص سے سرزد ہو اور اس عمل کو تین میں سے دو طبقات کی حمایت حاصل ہو تو یہ عمل یقیناً مثبت ہو گا۔ اسی طرح جس عمل کی اکثریت مخالفت کرے منفی ہو گا یہاں بھی عبادات کو الگ رکھ کر عمل کی تعریف کریں۔
اب چونکہ زندگی عبادت کی طرح تو گزاری جا سکتی ہے لیکن عبادت میں ہی گزارنا اکثر مجھ جیسی ناچیزوں کے بس میں نہیں ہوتا۔تو ضرورت پڑتی ہے ایسے ایمان کی جو صرف ایک مہذب و معزز مذہب ہی نہ ہو بلکہ مذہب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فطری نظام زندگی بھی ہو۔تو بے ساختہ دین اسلام پر نظر پڑتی ہے جس میں مذہب کے ساتھ ساتھ ایک ایسا چارٹر دیاگیا جس میں ایسا عمل موجود ہے اور نہ پسند کیا گیاجو بنی نوع انسانیت کے کسی انسان اور کل مخلوق میں سے کسی تخلیق کے لئے باعث تکلیف ہو۔دین اسلام میں موجود ضابطہ حیات میں کوئی واضع اعتراض کی ایک وجہ تک دیگر مذاہب کو نہ مل سکی، اس میں دیگر تمام مذاہب کی نسبت امن اور امن پسندی ہے، بلکہ میں یہ مثال دینے کا موقع قطعاً نہیں کھونا چاہتا کہ دین اسلام کے امن پسند ہونے کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہو گا کہ اس نظام میں معافی کو جہاد سے بھی افضل قرار دیا جس کا عملی ثبوت فتح مکہ پر دیا کہ بدلہ کی طاقت اور حق محفوظ رکھتے ہوئے معاف کر دینے کو پسندیدہ ترین قرار دیا گیا۔اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو کہ انسانیت کی معلوم تاریخ میں سب سے پہلے عورتوں کو مرد کے برابر حقوق دینے کا تصور دین اسلام نے پیش کیا۔
پہلی بار انسانی غلامی کی مخالفت دین اسلام میں سامنے آئی بلکہ دین اسلام کے آئین میں ہر انسان کواس کی پیدائش سے پہلے ہی یہ حق دے دیا گیا کہ کوئی بھی شخص آزاد پیدا ہوتا ہے اور اس کی آزادی غصب کرے کا حق کسی کو حاصل نہیں،دیگر مذاہب میں اگرچہ امن موجود ہے لیکن مذہب اور ضابطہ حیات میں کچھ بنیادی فرق ہیں کہ اگر ان میں سے کسی بھی مذہب پر مکمل عمل پیرا ہو کر امن قائم کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لئے مکمل طور پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے کہ معاشرے کا ہر شخص عبادت میں مصروف رہے۔جبکہ معاشرہ معاش کے بغیر نہیں چل سکتا کہ ایک گھر کے تمام افراد مشغول عبادات رہیں تو ایک ماہ بعد بھوکے مر جائیں گے کیونکہ کوئی مذہب ذریعہ معاش نہیں بتاتا تا وقتیکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہو تو دوبارہ دین اسلام کی جانب نگاہیں اٹھتی ہیں جو نہ صرف عبادات بلکہ حمل سے قبر تک کے طرز زندگی میں معاون و رہنما بنتا ہے جس کے وضع کردہ اصول یا عمل پر کوئی قابل ذکر اعتراض نہیں کیا گیا۔اسلام ہی وہ واحدمذہب ہے جو بیک وقت نظام بھی ہے جبکہ حقیقتاً نظام فطرت کے تا بع ہوتا ہے اور مذہب کسی کے تابع رہنے کو پسند نہیں کرتا اس لئے یہ تابع رکھتا ہے، ایسی دو متضاد قوتوں کو یکجا کرنا صرف اور نظام اسلام کا خاصہ ہے کہ اس نے عبادت کو بھی عین فطری بنایا اورفطرت کو ہی عبادت بنا دیا ایک مثال دینا ضروری سمجھوں گا کہ نماز ایک جسمانی عبادت ہے اور جسمانی مشقت(ورزش) انسانی جسم کو توانا و چست یا صحت مند رکھنے کے لئے از حد ضروری ہے جبکہ نماز ایسی عبادت میں انسان کوفطری و مذہبی فوائد حاصل ہوئے اسی طرح رات کو سونا ایک فطری عمل ہے لیکن دین اسلام میں اسے بھی عبادت بنا دیا گیا۔ کھانا کھانا انسان کا فطری عمل ہے لیکن ایک طریقہ کار متعین کر کے دین اسلام نے اسے بھی عبادت کا درجہ دیا ، اور ازاں بعد انسان کی رہنما ئی ازخود خالق کائنات نے فرمائی جس کے لئے اپنی جانب سے پیامبر پیغام دے کر بھیجے اور انہوں نے وہ آ کر بتایا جو انسان نہ جانتے تھے اور یہاں تک علم بھیجا کہ انسان کو شکوہ نہ رہے کہ لا علم تھے اور انسان کو عقل عطا فرمائی جس سے وہ سوچتا ہے اور اس کو اس قدر وسعت دی کہ جس قدر اس نے بہتر جانا اور بار ہا یہ باور کروایا کہ مجھے تمہاری عبادتوں کی ضرورت نہیں تمہاری عبادتیں میرے کسی کام آنے والی نہیں ہیں اگر رب نے عبادتیں کروانی ہوتی تو ان پانچ ارب انسانوں کی جگہ پانچ ارب فرشتے بنا کر کام چلا لیتا۔اور غور کرنے کو کہا کہ اس عبادت میں بھی تمہارا ہی فائدہ ہے اگر تم غور کرو تو۔ اور اگر انسان کلام الٰہی پر غور کر پائے تو واضع طور پر تمام احکامات کی تہہ میں انسان کا فائدہ ہی پوشیدہ رکھا گیا ہے مثال کے طور پر سوچیں ہمیں روزہ رکھوانے کااللہ تعالیٰ کو کیا ذاتی فائدہ ہو تا ہو گا؟
قیام امن میں معاشرے کے مذہبی پہلوؤ ں کی بجائے فطری اور عملی پہلوؤں کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے، مثلاً معاشرے میں اگر امن قائم کرنا ہو تو جوبنیادی چیز ضرورت پڑتی ہے وہ ہے مساوات یعنی برابری کیونکہ اس کے بغیر موت کے علاوہ کوئی دوائی امن نہیں لا سکتی برابری سے مراد عمر میں برابری سمجھ کر جملہ درگزر نہ کر دیا جائے اس لئے واضع رہے کہ برابری سے مراد معیار زندگی میں برابری ہے۔ جس میں معاشی طور پر برابر ہونا ضروری ہے اور امن قائم کرنے اور قائم رکھنے کے لئے آج کل کے مہذب معاشرے کوئی نہ کوئی حکمت عملی اپناتے نظر آتے ہیں جہاں (چیریٹی) خیرات ، ڈونیشن، سروسز چارجز، پینلٹی اور محصولات جیسی PRECTICES متعارف کروائی گئی ہیں کہ ملک یا معاشرے میں عدم مساوات نہ ہو اور معاشی نظام میں خرابی نہ آسکے لیکن ان میں سے کسی کو بھی مذہبی اہمیت حاصل نہیں لیکن دین اسلام میں معاشرے میں معاشی مساوات برقرار رکھنے کے لئے ایک ایسی پریکٹس متعارف کروائی جس کو عین عبادت کا درجہ دیا گیا بلکہ فرض کر دیا گیا۔اور دین اسلام کا ایک بنیادی رکن بنا دیا گیا۔
دین اسلام کا امن پسند ہونے کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو کہ قیام امن میں درکار ایک جزو یا پریکٹس کے انکار کرنے والوں سے سختی بھی کی اور یہاں تک کہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کے مرتکب افراد کے خلاف اعلان جنگ کا حکم موجود ہے۔ ایمان مکمل اور خالص اسی وقت ہو سکتا ہے جب مذہب اور فطرت میں کوئی عدم مماثلت نہ ہو جو صرف دین اسلام میں ممکن ہے جہاں موت کے بعد کی زندگی ( جس کی تصدیق حال ہی میں جرمن یونیورسٹی Technische Universitatمیں ڈاکٹر برتھولڈ ایکرمین کی سربراہی میں سائنسدانوں کی ایک ریسرچ ٹیم نے بھی کی کہ موت کے بعد بھی ایک زندگی ہے جس کے لئے انہوں نے مختلف مکتب فکر و مذاہب کے 944رضاکار افراد پر کارڈیو پلمونری ریسی ٹیشن (CPR) نامی مشین سے تجربات کئے)کا ایک عالم گیر فلسفہ و تصور دیا جس سے معاشرے میں قیام امن کے لئے درکار بنیادی عناصر میں سے ایک صبر و قناعت کا عنصر پروان چڑھایا۔ اسی طرح سزاو جزا اور اجر و ثواب جیسے اصول وضع کر دئیے جن سے معاشرے میں رواداری ، ہمدردی ، بھائی چارہ، اخوت، عیادت ، خدمت ، معاونت ، عدل و انصاف، حسن سلوک، ادب، صلح رحمی اور رحمدلی جیسے جذبات بیدار کئے جو کسی بھی معاشرے میں قیام امن کے لئے نا گزیر ہوتے ہیں۔
اور اگر معاشرے کو چار ایمانی کیفیات والے افراد کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا جائے تو قیام امن کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
ایک حقیقت کو مان لینا چاہیے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور سات ارب میں اللہ تعالیٰ نے یقیناً اکثریت فکر کرنے والوں کی رکھی ہے جو سوچتے اور سمجھتے ہیں جیسے کسی شخص کے کردار میں موجود خامیوں یا خوبیوں کا تعلق اس کے مذہب اور اس کے نظام سے براہ راست ہوتا ہے۔مثال کے طور پر کوئی شخص پیدائشی چور نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی مشغلے کے طور پر چوری کرتا ہے، سوائے چند ایک جن ایمانی کیفیات والی شخصیات کا ذکر آگے کیا جائے گا معاشرہ اور نظام یعنی رائج ضابطہ حیات اس کو چور یا مجرم بناتے ہیں۔بالکل بعینہ دین اسلام کے ساتھ آجکل دنیا بھر میں انتہا پسندی کا الزام عائد کیا جاتا ہے، لیکن اسلامی تعلیمات میں اس کا اشارتاً بھی ذکر نہیں کیونکہ اگر دین اسلام میں انتہا پسندی ہوتی تو یہ دیگر مذاہب کی طرح مذہبی عبادات اور احکامات تک محدود رہتا عالم انسانی کو ایک مکمل اور فطری ضابطہ حیات نہ بنا کر دیتا۔
لیکن چونکہ دین سے دوری اور ضابطہ کی خلاف ورزی بالکل اس جان بچانے والی دوا کی طرح ہوتی ہے جو غلط استعمال پر یا زائد المعیاد ہو جانے پر جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
پہلے طبقہ یا پہلے ذکر ہونے والے طبقے جسے میں اصل ایمان بھی سمجھتا ہوں اس میں اور اس سے مخالف طبقہ کیفیات میں آپس میں بالکل برابر ہوتے ہیں جہاں ان میں درست اور غلط میں فرق کرنے کے لئے نظریا ت ایگزامن ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک آدمی کی زندگی کا ایک محور ہوتا ہے اور وہ موت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اسی محور کے گرد زندگی گزارتا ہے، اور اپنے ہر عمل کا معاشرے کو یا کم از کم اپنے آپ کو جواب دہ ضرور سمجھتا ہے جہا ں اس نے زندگی گزارنے کے اصول متعین کئے ہوتے ہیں وہ اپنے آپ سے سوال کرتا ہے کہ کیا میرا یہ عمل درست ہے؟ یہاں تک اصل ایمان اور کفر یعنی مخالف طبقے میں مماثلت ہوتی ہے، لیکن اگلا سوال نظریے سے متعلق ہے جو درست اور غلط میں فرق کا باعث ہے کہ
’’ کیامعاشرے کی اکثریت بھی اس عمل کو درست سمجھتی ہے’’؟
اور دوسرے سوال کا جواب بھی مثبت پانے والے یقیناً درست ہوتے ہیں اب تیسر ی قسم کا ذکر کرنے سے پہلے چوتھی قسم کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کیونکہ تیسری قسم کی کیفیات والے لوگ ہی اصل مسائل کا باعث ہیں جبکہ دوسری اور مخالف قسم کا تدارک موجود ہے چوتھی کیفیت ان افراد کی ہوتی ہے جو سرے سے ہی لا علم ہوتے ہیں جن کے دماغ میں درست اور غلط کے تصور نے ابھی جنم ہی نہیں لیا ہوتا، جن کو قرآن پاک میں بد ترین جانور کہا گیا، جو معاشرے پر بوجھ ہوتے ہیں اورکسی سے نظریہ ادھار تک نہیں لیتے ، ایسے افراد اور قسم کے تدارک کے لئے دین اسلام میں علم کے حصول کوبلا تخصیص وبلا تقسیم جنس فرض قرار دیا گیا۔اورآخری قسم ایک درمیانی کیفیت کا نام ہوتا ہے جو غلط اور درست کی درمیانی کیفیت میں مبتلا ہوتے ہیں جیسے مثال کے طور پر ایک مسلمان ہونے کے ناطے میں اپنی زندگی کی محفوظ یاداشت کا جائزہ لینے کے بعد ایک نتیجہ پر پہنچتا ہوں کہ درست یا غلط اور ہر مسلمان بلا شبہ اس ایکسر سائز کے بعد ایک نتیجے پر پہنچتا ہے کہ وہ کامیاب ہے یا وہ ناکام ہے۔ اس نتیجے کے بعد آپ اندازہ لگا لیں کہ اگر آپ اس سروے کے بعد اپنے آپ کو کامیاب تصور کرتے ہیں تو آپ معاشرے کا سرمایہ ہیں اوراندازہ کریں کہ اب اگر تمام افرادآپ جیسے ہوجائیں تو معاشرہ کتنا خوشحال ہو، آپ معاشرے کی حالت دیکھ کر اندازہ لگا لیں کے افراد کس ایمانی کیفیت سے تعلق رکھنے والے ہیں، اور اگر آپ اپنی یاداشت میں محفوظ اعمال کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ افسوس صد افسوس تو آپ یہ تحریر اس سے آگے مت پڑھیے۔ بلکہ میں آپ کی ہدایت کے لئے دعا کرتا ہوں اور آپ میری ہدایت کے لئے دعا کیجئے اور آگے پڑھنے سے پہلے اس تحریر کو آغاز سے پڑھنا شروع کیجئے۔
موجودہ حالات میں دنیا بھر میں بالعموم اور ملت اسلامیہ بالخصوص قیام امن کے حوالے سے بہت نازک دور سے گزر رہے ہیں جس کی وجہ دو بنیادی نظریات کی جنگ درست یا غلط نہیں بلکہ قیام امن میں حائل درست و غلط طبقے کا درمیانی طبقہ ہے جو آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ وہ مذہبی ہے یا سیکولر اگر مذہبی ہے تو کونسا ہے اور اس کا فرقہ کونسا ہے اور کیا اس فرقے کو اس مذہب کے باقی فرقے درست سمجھتے بھی ہیں کہ نہیں ، اور یہ کش مکش کہ وہ سیکولر بھی ہے یا نہیں کیا اسے باقی سکیولر سیکولر سمجھتے بھی ہیں کہ نہیں اس درمیانی کیفیت میں مبتلا لوگ دراصل معاشرے کی ترقی کی رکاوٹ ہوتے ہیں کیونکہ آپ سیکولرز کو بھی اکثر اوقات درست بات کرتے ہوئے سنیں گے جس پہ کسی مذہب کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا اور وہ معاشرے کی بہتری کے لئے کار آمد بھی ہوتی ہے۔دنیا اب چونکہ گلوبل ویلیج کی شکل اختیار کر چکی ہے اور دنیا کے ایک کونے میں کسی ایک شخص یا ایک گروہ کی ایک حرکت سے اگر دنیا کے دوسرے کونے میں کسی شخص یا قوم کے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہے ساری دنیا ایک معاشرے کی صورت ہے جہاں ہر ایک کو لبرل کی طرح سوچنا پڑے گا کیونکہ دنیا میں 14۔2013 کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی سات ارب بارہ کروڑ انیس لاکھ میں سے 23.4% یعنی ایک ارب چھیاسٹھ کروڑپینسٹھ لاکھ چوبیس ہزار چھ سومسلمان ہیں اور باقی76.6% آبادی دیگر 21 مذاہب پر یقین رکھتی ہے جن میں سب سے زیادہ مانا جانے والا مذہب عیسائیت ہے دنیا بھر میں جس کے ماننے والوں کی تعداد 2.1 بیلیئن ہے جو کل آبادی کا 31.5% بنتا ہے۔جبکہ اس وقت دنیا کی نکیل صرف ایک کروڑ بیالیس لاکھ تینتالیس ہزار آٹھ سو یہودیوں نے جو ساری آبادی زیرو اعشاریہ 2فیصد ہیں جو 99.80%آبادی پر بد معاشی کر رہے ہیں۔
وجہ۔۔۔۔ درمیانی کیفیت 
جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیکولرازم اور مذہبیت کے معاملے میں دریا دلی سے کام لینا ہو گا کہ 23.4 فیصد لوگوں کا کہنا باقی 76.6 فیصد لوگ ماننے کے پابند نہیں لیکن اگر 23.4 فیصد اگر قول و فعل میں تضاد ختم کر دیں گے اور ایک آدھ مثال ہی کسی ریاست میں کسی کامیاب معاشرے کی بنا کر پیش کر دیں گے یا ایک آدھ مثالی فلاحی ریاست بنا کر دکھا دیں گے تو کوئی امر مانع نہیں کہ لوگ 0.2فیصد کی بجائے 23.4 فیصد لوگوں کی بات مانیں ۔

خرم شہزاد بیگ
کشمیر ایکسپریس میں 14&15 ستمبر
مکمل تحریر >>

6 نومبر، 2014

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں


ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے يہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
منیر نیازی
مکمل تحریر >>

19 اکتوبر، 2014

محبت ماں ہوتی ہے

مسعود احمد اکاڑوی کی بہت خوبصورت نظم
اور جنید سلیم صاحب کا محبت بھرا انداز
کہ آپ نظر انداز نہیں کر سکیں گے
مکمل تحریر >>

15 اکتوبر، 2014

تحریکِ آزادیِ کشمیر کا ایک نامور مجاہد

 بانی کمانڈر آزاد کشمیر رجمنٹ فورس
 سردار علی اکبر خان

تم ہو اک زندہ و جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو جو ڈھل جاؤ گے
آزادی کی روایت زندہ و جاوید ہوا کرتی ہے ، قومیں اور افراد زندگی دینے والوں کے بعد آزادی دلانے والوں کی قدر کیا کرتے ہیں۔
انیس صد چھیالیس  میں جنت نظیر کے ایک خوبصورت گاؤں میں خوشبودار شخصیت کا مالک ایک خوبرو نوجوان سردار علی اکبر خان تحریک آزادی کا حصہ بنا اور اپنی عسکری و قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا، سرینگر میں شیخ عبداللہ اور چوہدری غلام عباس سے ملاقات میں پونچھ اور باغ کے غیور قبائل کی ترجمانی کرتے ہوئے انہیں عوام کے آزادی کے لئے جذبات و احساسات سے آگاہ کیا، اورغازی ملت سردار محمد ابراہیم خان جو اس وقت متحدہ جموں کشمیر کے رکن اسمبلی تھے سے اہم مشاورت کے بعد براستہ اُڑی واپس آکر اپنے معتبر اور" آزادی پرست"ہم عصروں جن میں پیر سید علی اصغر شاہ آف سیری پیراں، سید حسن شاہ گردیزی، سرداردوست محمد خان آف چوکی، سردار محمد حسین خان آف دھڑے، سردار انور خان آف ٹوپی کلری، سردار محمد شیر خان آف بنی پساری، سردار صلاح محمد خان آف سوانج اور میاں غلام محمد سے انفرادی و اجتماعی مشاورت کے بعد باقاعدہ جنگ آزادی کا آغاز کر دیا۔  سردار علی اکبر خان مرحوم باوجودیکہ متذکرہ بالا احباب سے کم عمرتھے لیکن تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ خداداد قائدانہ، دانشورانہ ، جرات مندانہ اور دلیرانہ صلاحیتوں کی مالک پر سحر شخصیت کے حامل تھے، اور جذبہ آزادی آپ کی رگوں میں خون کا ہم سفر تھا۔تمام احباب سے مشاورت کے بعد مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان کی سرپرستی میں ڈوگرہ راج کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ تحریک کا افتتاحی جلسہ ہڈیٰ باڑی باغ کے مقام پر منعقد کیا گیا جس پر ڈوگرہ افواج کی فائرنگ سے سید خادم حسین نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کرتے ہوئے شہید ہو کر آزادی کے نقشے میں اپنے خون سے رنگ بھر کر عملی تحریک کا آغاز کر دیاجس سلسلہ میں ازاں بعد اسلحہ کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے سردار علی اکبرخان مرحوم ، سردار ولائت خان آف ناڑ شیر علی خان اور دیگر قائدین نے اپنی اپنی بساط کے مطابق درہ آدم خیل سے اسلحہ خرید کر کیپٹن حسین خان آف پونچھ سے ملاقات کی جبکہ اس وقت تک موجودہ تمام آزاد کشمیر میں آزادی کی جنگ شروع ہو چکی تھی اور سردار عبدالقیوم خان کے دست راست کے طور پر میجر ریٹائرڈ سردار محمد ایوب خان نے لوگوں کو منظم کر کے ڈوگرہ افواج کے خلاف عملی جنگ کے لئے تیار کر لیا اور ڈھلی کے مقام پر جہاں سکھ مورچہ بند تھے بڑا معرکہ ہوا جس میں سردار عنائت خان، سردار علی حیدر خان اور مور باز ماگرے شہید ہوئے،اور سکھوں کو شکست دینے سے کافی مقدار میں اسلحہ بھی ہاتھ آگیااس معرکہ کے نتیجے میں مظفر آباد ، دھیرکوٹ اور جہاں جہاں سکھ آباد تھے نقل مکانی شروع کر دی جن کی بغیر کسی قاعدے و قانون کی روشنی کےبھارتی افواج نے با قاعدہ مدد کی۔تحریک کی بھنک پڑتے ہی ڈوگرہ انتظام نے گھر گھر تلاشی لے کر ہر قسم کا آتشیں اسلحہ اور کچی بندوقیں تک ضبط کر لی تھیں تا ہم اس بے قاعدہ جنگ میں کشمیری نوجوانوں کے جتھے صرف تلوار ، خنجر، نیزے اور کلہاڑیوں سے جگہ جگہ حملہ آور ہو کر ڈوگروں پر حملہ آور ہوئے اور ڈوگروں کو شکست دیوار پر لکھی ہوئی نظر آنے لگی تو جان بچا کر راولاکوٹ اور باغ کے سنگھم تولی پیر کے راستے پونچھ شہر کی طرف بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔سردار علی اکبرخان اس وقت نوجوان تھے اور ناڑ شیر علی خان کے تمام قبائل ان کی قیادت میں متحد ہو کر ڈوگرہ راج کے خلاف لڑے جبکہ سردار علی اکبر خان نے عملی طور پرلوگوں کے شانہ بشانہ جنگ میں حصہ لیا۔باقاعدہ جنگِ آزادی کے لئے میجر ریٹائرڈ سردار محمد ایوب خان نے آزاد کشمیر رجمنٹ تیار کر لی جس میں غیور کشمیری محض جذبہ آزادی سے سرشار بلا معاوضہ جوق در جوق بھرتی ہوئے اور سردار علی اکبر خان کمپنی کمانڈر کے طور پر خدمات فراہم کیں بعد ازاں پاکستان مسلح افواج پنجاب رجمنٹ کے عسکری دستے باغ پہنچنا شروع ہو گئے جن میں جنرل عبدالرحیم جو اس وقت لیفٹیننٹ کے فرائض ادا کر رہے تھے شامل رہے پاکستان آرمی کے باقاعدہ کنٹرول سنبھالنے کے بعد سردار علی اکبر خان ڈھلی کے مقام پر کیمپ کمانڈر منتخب کئے گئے اور دور درازمحاذ ہائے جنگ پر جہاں ترسیل کے ذرائع کا نام و نشان تک نہ تھا تک اسلحہ و راشن کے رسد کے فرائض انجام دئیے۔ بھارتی وڈوگرہ افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان آمی کے میجر محمد سلیم نے باغ کے نامور قائدین سے مشاورت کے بعد عام لوگوں کی مدد سے باغ تا حاجی پیر ، بسالی پہاڑ رائیکوٹ تک اپنی مدد آپ کے تحت بنانے کا آغاز کر دیا جس میں قبائل ناڑ شیر علی خان نے سردار علی اکبر خان کی قیادت میں گھر سے خشک روٹیاں ہمراہ لا کراپنے اوزاروں سے تعمیر میں حصہ لیا۔کشمیریوں کی اس تحریک میں افغان مجاہدین نے بھی پاکستان آرمی کے شانہ بشانہ ڈوگرہ تسلط ختم کرنے میں کردار ادا کیااور کشمیری مسلمانوں سے مل کر سرینگر تک ڈوگروں کا تعاقب کیا اس معرکہ میں بے شمار مجاہدین نے جام شہاد ت بھی نوش کیا تا ہم انگریزوں نے مداخلت سے سیز فائر کی کیفیت پیدا کر کہ بھارتی افواج کو موقع فراہم کیا جو 1965 ؁ء میں بھارتی افواج کے حملے نے ثابت کر دیالیکن چونکہ پاکستانی افواج پہلے ہی تمام جنگی محاذوں پر منظم و متحدتھی بلکہ میجر رحمت شاہ نے 647مجاہد بٹالین تیار کی جس نے سردار علی اکبر خان کی قیادت میں بسالی کے محاذ پر دشمن کو شکست فاش سے دوچار کیاتمام اسلحہ چھین لیا گیا اور کمال بہادری سے لڑنے پر آپ کی کمانڈ میں صوبیداراسرائیل خان کو ستارہِ جرات کا اعزاز دیا گیا جبکہ اسی معرکہ میں سابق صدر آزاد کشمیر کرنل شیر احمد خان کے بھتیجے صوبیدار نذر محمد نے جام شہادت نوش کیا، پھر چٹی بٹی کے مقام پر لڑائی کے دوران ڈھلی سے تعلق رکھنے والے مجاہد عبدالرشید خان شہید ہوئے جبکہ دشمن کے سینکڑوں فوجیوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا۔پاکستان کی مسلح افواج نے جب باقاعدہ تمام محاذوں کا انتظام سنبھال لیا تو سردار علی اکبر خان مرحوم نے سیاسی زندگی کا آغاز کیااور سیاست میں سردار علی اکبر خان کو نوابزادہ نصراللہ سے تشبیع دینا مبالغہ نہ ہو گا،آپ کے۔ایچ۔خورشید مرحوم سابق صدر آزاد کشمیر کے قریبی رفقاء میں شماراور غازی ملت اور مجاہد اول جیسی نامور شخصیات کے دست و بازورہے اور دلیر انہ سیاست کا تعارف کروایا جس کی ایک مثال جنرل حیات خان کے بطور صدر آزاد کشمیر کے جلسہ میں بانگ دُھل تقریر میں کہنا کہ جنرل صاحب ہم حکومتیں بناسکتے ہیں تو حکومتیں ہٹا بھی سکتے ہیں۔آپ کی سیاسی صلاحیتوں کا اندازہ صدر آزاد کشمیر کرنل شیر احمد کے جلسہ کی کامیابی سے لگایا جا سکتا ہے جودور افتادہ تولی پیر کے مقام پر منعقد کیا گیا جہاں آمد و رفت کے ذرائع اور وسائل کی عدم موجودگی کے باوجود سردار علی اکبر خان مرحوم کی آواز پردھیرکوٹ تا عباسپور سے عوام کا سمندر امڈ آیا جس جلسہ میں آپ نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض بھی خود انجام دئیے۔ازاں بعد میجر سردار محمد ایوب خان کو ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں قدم رکھنے کا مشورہ دیا اور صف اول کے رفیقوں میں رہ کر سپیکر قانون ساز اسمبلی اور قائم مقام صدر کے مقام تک پہنچایاجہاں سپیکر مرحوم مغفور کے عظیم کارنامے مسلمانوں کے روحانی پیشوا پیر حضرت مہر علی شاہ صاحب کے بعد پہلی مرتبہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرارداد پیش کی جو آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں صد فیصد تائید کے ساتھ منظور کی گئی میں بھی سردار علی اکبر خان مرحوم سمیت میجر ریٹائرڈ سردار محمد ایوب خان کے دیگر رفقاء کا حق ثواب ہے۔سردار علی اکبر خان ماہر جنگی فنون کے ساتھ ساتھ بہترین شکاری اور نشانہ باز تھے اور دیرینہ عمر میں بھی نہایت با ذوق اور شاہانہ زندگی بسر کی اور مثبت و تعمیری فکر کے حامل رہے۔
آپ شیر علی خان آف ناڑ(موجودہ ناڑ شیر علی خان) کے نصب و نسل میں سے تھے چونکہ شیر علی خان مرحوم کی کوئی اولاد نرینہ نہ تھی جبکہ آپ کے دادا سردار گل خان اور والد محترم سردار محمد خان ہی ان کے جانشینوں میں تھے۔
آپ نے طویل بیماری کے بعد دار فانی سے کوچ کیا اور آخری رسومات میں وزیر صحت سردار قمرالزمان سابق وزیر وزیر برقیات ممبر قانون ساز اسمبلی سردار میر اکبر خان اور ضلع بھر کے اعلیٰ افسران ، تاجرو وکلاء برادری، سیاسی و سماجی حلقہ احباب کے علاوہ جید علماء کرام میں گدی نشیں بدھال شریف پیر سید حسین شاہ صاحب ، مولانا امتیاز احمد صدیقی اور دھیر کوٹ ، عباسپور، حویلی، کہوٹہ، بھٹی، بیس بگلہ، تک سے ہزاروں افراد کی شرکت واضع کرتی ہے کہ آپ ہر دل عزیز اوراعلیٰ اخلاق و کردار کے مالک تھے، ناڑ شیر علی خان کا ہر شخص اشکبار تھا۔آپ کو اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔آپ کی تکفین و تدفین بمطابق وصیت کی گئی اور سردار شیر علی خان مرحوم کے مزار سے چند منٹ کے فاصلہ پر سپرد خاک کر دیا گیا لیکن 

تم ہو اک زندہ و جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو جو ڈھل جاؤ گے
 تحریر و ترتیب سردار محمد فرید بیگ
24اکتوبر بروز جمعہ روزنامہ اوصاف میں
مکمل تحریر >>

3 اکتوبر، 2014

آئی ڈی پیز اور وی آئی پیز


لاہور اور راولپنڈی میں کھربوں روپے مالیت کے میٹروبسوں اور ٹرینوں کے وی آئی پی منصوبوں کے افتتاح کے کٹھن مراحل میں مصروف عمل وی آئی پیز نے حالیہ ضرب عضب آپریشن کے آئی ڈی پیز کے لئے مبلغ پچاس کروڑ روپے صرف جن کا نصف پچیس کروڑ ہوتا ہے کا اعلان فرماکر فرائضِ منصبی کی ادائیگی سے فراغت پا چکے ہیں،اب سوچ رہا ہوں پچاس کروڑ روپے پر ماتم کیا جائے یا وی آئی پیز کی سوچ پر یا پھر ان سات لاکھ آئی ڈی پیزکی حالت زار پر، کیا فرق پڑتا اگر انہیں وزیرستان سے نکلنے ہی نہ دیا جاتااور وی آئی پی وارجیٹس سے انہیں بھی ان کے ٹھکانوں میں ہی دھونک دیا جاتا، کیا فرق پڑتا ہے جب انہیں بمشکل انخلاء کی اجازت تو مل گئی لیکن بنوں، کوہاٹ، پشاور یا دیگر مقامات پر پہنچنے پر وی آئی پیز کا رویہ وہ ہی ہے جو ہماری پاک فوج کے جوان آجکل طالبان کیساتھ اپنائے ہوئے ہیں۔تو کیا فرق پڑتا ہے وہ اپنا گھر بار اور مال و متاع چھوڑ کر ننگے پاوئں اس لئے نکلے کے پاک فوج کو کامرانیاں نصیب ہوں، تو کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ چلچلاتی دھوپ میں کھلے آسمان کے نیچے اس لئے ڈیرے جمائے بیٹھے ہیں کہ ہاں طالبان کا خاتمہ ہی ضروری ہے کہ وہ کراچی، لاہور۔۔۔ بلکہ۔۔۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد، پشاور، اور تمام پاکستان کے لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں، تو کیا فرق پڑتا ہے کہ آئی ڈی پیز کو کھانے کو کھانا، پینے کو پانی اور علاج کو معالج میسر نہیں کہ ہاں ان کا جرم عظیم تو یہی ہے کہ وہ وزیرستانی کیوں ہیں، کہ وہ پختون کیوں ہیں، کہ وہ پاکستانی کیوں ہیں تو کیا فرق پڑتاہے۔۔۔۔؟ فرق پڑتا ہے جناب اعلیٰ اور بہت فرق پڑتا ہے کہ اگر ایک عام پاکستانی کے لئے جناب وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان اور وزیر اعظم ہندوستان میں کوئی فرق نہ ہو تو فرق پڑتا ہے، اگر ایک عام پاکستانی چاہے وہ انٹرنلی ڈسپلیسڈ پرسن ہو یا نہ ہو اگر اس کے لئیپاکستانی وزیر داخلہ اور بھارتی وزیر داخلہ میں کوئی خاطر خواہ فرق واضع نہ ہو تو فرق پڑتا ہے۔اور فرق پڑتا ہے جب ایک عام آدمی کا رویہ آئی ڈی پیز کے ساتھ یہ ہو کہ یہ کونسا ہماری وجہ سے ہجرت کر کہ آئے ہیں۔جب کسی ناگہانی موقع پر آئی ڈی پیز (خواہ وہ زلزلہ کا موقع ہو، کوئی سیلاب امڈ آیا ہو، کوئی آپریشن کیا گیا ہو)کے نام پر آنے والی بیرونی امداد وی آئی پیز کی عیاشیوں کے لئے ہمیشہ ناکافی ثابت ہوتی ہو تو فرق پڑتا ہے۔
پاک فوج کا کردار ہمیشہ مدبرانہ رہاچاہے وہ زلزلہ ہو، سیلاب ہو، راہ حق ہو، ضرب عضب ہو یا کوئی دوسرا آپریشن انہوں نے ثابت کیا کہ وہ ہمارے حقیقی وی آئی پیز ہیں۔لیکن ہمارے نام نہاد وی آئی پیز جس سوچ کی پیداوار ہیں جنہیں عرف عام میں سیاستدان کہا جاتا ہے, الیکشنی پرندے الیکشن میں جیت کے اوچھے ہتھکنڈوں سے ان کی سوچ کا آغاز ہو کر پانچ سال تک ٹکے رہنے اور" مال"بنانے کی ترکیبوں کے بعد منجمد ہو جاتا ہے،اس شرمناک فعل سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سوچوں کا معیار کیا ہے اب وفاق خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت پر جان بوجھ کر بوجھ ڈال کر کارکردگی خراب کرنے کے لئے کوشاں ہے اور پی ٹی آئی کی قیادت جان بوجھ کر انجان بنی ہوئی ہے کہ جی وہ ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیاآپریشن سے قبل، وہ جی وفاق سپیشل آئی ڈی پیز کی مد میں ہی کچھ دے تو فرق پڑتا ہے۔
کیا آئی ڈی پیز کی پشاور اور دیگر کیمپوں اور کیمپوں کے علاوہ جہاں آئی ڈی پیز نے پناہ لے رکھی ہے کیا وزیر اعظم صاحب کو ایک دورہ (مختصرہی سہی)نہیں کرنا چاہیے تھا، چلو وہ تو زیادہ وی پی ہیں وزیر داخلہ کو ہی جھوٹے منہ جانا چاہیے تھا، اگر یہ اقدامات نہیں کئے گئے تو فرق تو پڑتا ہے۔
چند روز قبل سابق سربراہ آئی ایس آئی جناب جنرل(ر) حمید گل نے آپریشن سے اور آپریشن کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پرروشنی ڈالی تو سوشل میڈیائی وی آئی پیز نے واویلا مچا نا شروع کر دیا کہ جی وی آئی پیز کا فیصلہ کیا غلط ہو سکتا ہے، لیکن وی آئی پیز بتانا پسند کریں گے کہ کے آئی ڈی پیز کے لئے کئے گئے اقدامات کافی ہیں؟کیا آپریشن سے مراد صرف یہ ہوتا ہے کہ جدید جنگی جہازوں سے دشمن کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا؟ اگر ایسا ہوتا بھی ہو تو کم از کم کسی انٹرنل آپریشن میں یہ حکمتِ عملی نہیں ہوتی کہ صرف جہاز جا کر بمباری کریں اور باقی وی آئی پیز جہاز بنے رہیں۔
حیرانگی ہوتی ہے آئی ایس پی آر کے ذرائع سے درجنوں اور سینکڑوں دہشت گردوں کی ہلاکت کا شور میڈیا دن بھر مچائے رکھتا ہے لیکن کیا وہ سات لاکھ آئی ڈی پیز پاکستانی نہیں ہیں؟آئی ڈی پیز پاکستانی ہیں اور نون وی آئی پی پاکستانیوں سے اپیل ہے کہ رمضان المبارک قریب ہے، وہ لوگ بالخصوص جو کبھی زندگی میں بے سرو سامانی کا چہرہ دیکھ چکے ہیں ضرب عضب کے آئی ڈی پیز کو ہر گز ہر گز نظر انداز نہ کریں اپنی بساط کے مطابق جہاں تک ہو سکے کم ازکم"اگر سمجھتے ہیں کہ اس عیدالفطر پر آپ کے پاس موجود پرانے سوٹ بوٹ سے گزارہ ہو سکتا ہے تو عملاً وہ رقم آئی ڈی پیز فنڈ میں جمع کروا دیں تا کہ آپ کی عید تو اچھی ہو جائے گی ان کا رمضان بھی قدرے بہتر ہو سکے"۔اور وی آئی پیز سے اپیل ہے کہ آج رات کو جب سوئیں تو ایک بار نمرود، فرعون، قارون، اور قیصر و کسریٰ کو ضرور یاد کر لیں۔

 خرم شہزاد بیگ
مکمل تحریر >>

موبائل فون اور قوانین

Karl Benz کو آج دنیا بھر میں نافذالعمل ٹریفک قوانین کا وہم و گماں بھی نہ ہو اہو گا، لیکن دنیا کی پہلی Automobile ایجاد کرنے کے بعداس کے استعمال اور پھر بے دریغ استعمال سے پیدا شدہ مسائل کے حل اور روک تھام کے لئے دنیا بھرمیں تمام ممالک نے قانون سازی کی اور بالاخر آج آپ دنیا کے کسی بھی خطہ میں چلے جائیں آپ کو سڑک پر خواہ آپ پیدل ہوں یا سوار ہر دو صورتوں میں آپ مروجہ قوانین کی زد میں رہتے ہیں جبکہ آپ کی ان قوانین سے غفلت آپ کے ذاتی نقصان کے علاو ہ دیگر سفر کرنے والے افراد کے نقصان کا باعث بنتی ہے، اور آپکو قانونی کاروائی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، الغرض Karl Benz کی ایجاد کے بعدایک مؤثر ٹریفک قانون بنانے کی ضرورت پیش آئی۔ Wright Brothers کی ایجاد کے بعد پوری دنیا کو آج ہوا نوردی کے قوانین پر عمل پیرا ہونا پڑا،سوال صرف یہ کہ Martin Cooperنے ٹیلی فون کو موبائل کر کہ جو کارنامہ انجام دیا یقیناقابل ستائش ہے لیکن کیا موبائل فون بنانے سے لے کر استعمال کرنے اور استعمال کرنے کے لئے خدمات فراہم کرنے تک کے نافذالعمل قوانین موبائل فون کے خواص کے لحاظ سے قابل قبول ہیں؟؟؟ پاکستان کی حد تک بات کریں تونہیں بالکل نہیں بالخصوص موبائل فون کے منفی استعمال کی روک تھام کے لئے کوئی قابل ذکر قانون نافذالعمل نہیں بلکہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے کیا موبائل فون کے صارف کے لئے ضروری نہیں ہونا چاہیے کہ وہ خریدو فروخت کے وقت ان تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرے جو ایک گاڑی خریدتے وقت پورے کئے جاتے ہیں، کیا موبائل فون کے صارف کو بالکل حکومت سے اسی طرح لائسنس حاصل نہیں کرنا چاہیے جیسے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ ٹیسٹ دیا جاتا ہے اور ترتیب وار اور مہارت کو دیکھتے ہوئے لرننگ، یا L.T.Vاور H.T.Vڈرائیونگ لائسنس جاری کئے جاتے ہیں ایک خاص عمر سے پہلے ڈرائیونگ کی اجازت نہیں ہوتی تو موبائل فون کے استعمال کے لئے ایسی کوئی خاص عمر کی حد مقرر کیوں نہیں، اگرموبائل فون قوانین ضروری نہیں ہیں تو ٹریفک قوانین کیوں ضروری ہیں؟ اس کا ایک جواب یہ ملتا ہے کہ ٹریفک قوانین کی عدم موجودگی میں جانی نقصان کا احتمال ہوتا ہے گویاباالفاظ دیگر ٹریفک قوانین ہمیں زندہ رکھنے میں معاون ہیں۔ لیکن موبائل فون قوانین کی عدم موجودگی میں جانی نقصان کا تواحتمال شائد اسقدر نہیں تاہم مذہبی، تہذیبی، ثقافتی،ادبی اور شدید علمی نقصانات کے خدشات لاحق ہیں اور آئے روز اس کی ایک آدھ مثال دیکھنے اور پڑھنے کو مل جاتی ہے جن سے کسی صاحب نظر کو انکار نہیں،دوران سفر اکثر پولیس ناکوں کے دوران اگر کوئی مہذب پولیس والا ہو توگاڑی کی دستاویزات کے علاوہ سفر کے مقاصد بھی پوچھتا ہے جیسے کہاں سے آرہے ہیں ؟کہاں جا رہے ہیں؟ تم تو سرگودھا کے رہائشی ہوآزاد کشمیر میں کیا خاص کام درپیش ہے ؟اور ایسے متعلقہ سوالات پوچھنا ان کی ذمہ داری ہے اور جیسے ان سوالات کا جواب دینا ایک عام شہری کا اخلاقی فرض ہے ، بالکل ایسے ہی ایک موبائل فون صارف کو بھی چند ضروری سوالات کہ تسلی بخش جواب دینے پر ہی موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔جیسے کم از کم چار وجوہات ایسی بتاؤ جو ثابت کرتی ہوں کہ آپ کو موبائل فون استعمال کرنا چاہیے۔حال ہی میں پاکستان میں موبائل فون کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہوئی یعنی تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کی خدمات کی فراہمی کے لائسنس کی نیلامی جس کے بعد ہر تھری جی یا فور جی سروس سپورٹڈ موبائل فون کے حامل شخص کو انٹر نیٹ تک تیز ترین رسائی ممکن ہو جائے گی لیکن اس کی مثال بالکل ایسی ہی نہیں ہے جیسے کسی ناقص گاڑی کو فٹنس سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا جائے کہ جا کر لوگوں کی زندگی سے کھیلو بجا طور پرتھری جی اور فور جی سروسز کا آغازشعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے لیکن یہ سوال ابھی بھی موجود ہے کیا لائسنس کی فراہمی کا بنیادی مقصدیہ تھا کہ بس یہ سروس استعمال کی جائے؟ اور یقیناًیہی ہوا ہو گاکیونکہ آپ کی الیکٹرانک لائبریریوں کی تعداد آپ کے سامنے ہے اور دن بدن جو اضافہ ہو رہا ہے اس سے بھی آپ بخوبی واقف ہیں، آپ ایک چھوٹے سے چھوٹے سروے اور بڑے سے بڑے سروے کے نتائج کا موازنہ کریں تو بڑی حد تک یہی مماثلت ملے گی کہ پاکستان میں تھری جی، اور فور جی کی سروسز کاروباری طبقہ کویا ایک محدود علم و ادب سے لگاؤ رکھنے والا طبقہ چھوڑ کرباقی تمام کی ترجیحات صرف سوشل میڈیا تک محدود ہیں،سوشل میڈیا بھی انفارمیشن کے حصول کا ایک ذریعہ ہے لیکن انٹر نیٹ پر صرف سوشل میڈیا ہی حصول علم کا ذریعہ نہیں ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے اس کا حل کیا ہے ؟ چونکہ موبائل فون کے استعمال پر کبھی قانون سازی نہیں ہو گی اور کبھی ہو گی اگر تو اس وقت جب یہ معاشرہ کو کانوں تک ڈبو چکا ہو گا۔ہم کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچنے کی بجائے اگر اپنے اپنے اختیا رات کو استعمال کریں تو یقیناًکسی حد تک بہتری آسکتی ہے میڈیا کاہماری زندگی میں بڑی حد تک عمل دخل ہے لیکن اتنا نہیں جتنا ہمارا اپنے گھر والوں کی زندگی میں،قصور صرف ہمارا ہے کہ ہم نے اپنے جائز اختیارات کا استعمال بالکل معدوم کر دیا ہے بلکہ میں یہ کہنے میں شائد حق بجانب ہوں کہ ہم نے صرف رشتوں کو برائے نام تک محدود کر دیا ہے یا اگر کسی حد تک دلچسپی ہے تو وہ بھی انتہائی سنگین نوعیت پر جا کر ہم اپنے چند اختیارات کو استعمال کرتے ہیں وہ بھی مجبوراً، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو نام نہاد پرائیویسی ہمارے بچوں کو بے حیا اور نام نہاد آزادی انہیں بے راہ روی میں مبتلا نہ کر پاتی ۔اگرآپ اپنے اس رشتہ دار کو جو کسی وسط ایشائی ، یورپی یا کسی بھی بیرون ملک میں کام کرتا ہے توآپ کے بچے کا ماموں یا چاچو ہونے کے ناطے اسے وہاں سے آپ کے بچے جس کی عمر سترہ سال سے کم ہواس کے لئے موبائل فون بطور تحفہ لے آئے اسے بھی موبائل فون کے ساتھ ہی چلتا کر دیں، کیونکہ اگر آپ سمجھتے کہ موبائل فون واقعی کوئی سود مند آلہ ہے تو آپ خود اپنے بچے خرید کر دے سکتے تھے۔اور جب تک آپ یہ نہیں سمجھتے کہ اب ہمارا بچہ اپنے نفع و نقصان کو پہچاننے لگا ہے اس وقت تک اجازت نہ دیں اور اگر آپ میں اس قسم کی اخلاقی جرات کا فقدان ہو تو کم ازکم آپ کو پھر اس موبائل فون کے فیچرز سے مکمل واقفیت ہونی چاہیے جو آپکا بچہ استعمال کررہا ہو، اور اس نام نہاد پرائیویسی کے پردے میں اپنے بچے کی زندگی اور مستقبل تباہ نہ کریں اس کی موبائل فون سے متعلقہ اور دیگر بھی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھیں اور یاد رہے یہاں میری مراد بچہ سے بچی نہ لی جائے صرف بچہ اور وہ بھی اس وقت تک جب تک آپ اس کو بچہ سمجھتے ہوں س کے بعد آپ کی ذمہ داری ختم تو نہیں ہوتی البتہ کم ہو جاتی ہے اور بچی کو موبائل فون کے استعمال کی اجازت دینے سے پہلے موبائل فون کا مطلب جان لیں موبائل فون کا اصل مطلب ایک ایسے لفظ سے واضع ہوتا ہے جو ایک ناشائستہ Termکی شکل اختیار کر چکا ہے جس کے استعمال سے میں قاصر ہوں لیکن ایک اور معانی میں موبائل کو حرکت پذیر کہا جاتا ہے یعنی ایک جگہ نہ رکنے والا ، موبائل فون ان افراد کی ضرورت ہوا جو ایک جگہ نہیں رکتے بالعموم مرد حضرات کا تعلق اسی شعبہ سے ہوتا ہے اور اگر کوئی لڑکی (لڑکی سے مرادبچی نہ لیا جائے) یعنی سوشل ورکر، ڈاکٹر، نرس، یا دیگر کوئی بھی شعبہ جس میں وہ گھر سے باہر اکثر وقت گزارتی ہو تو یقیناًکوئی قباحت نہیں تاہم سکول اور کالج میں لڑکیوں اور لڑکوں کے موبائل فون کے استعمال پر مکمل پابندی لگانی چاہیے۔

ایکسپریس بلاگ میں اور
جولائی17 بروز جمعرات کشمیر ایکسپریس میں
مکمل تحریر >>

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

کرہءِ ارض پر جتنے بھی مذاہب پائے جاتے ہیں وہ صرف مذہب ہی ہیں اگر چہ چند ایک نے زندگی گزارنے کہ کچھ قواعد و ضوابط بھی وضع کر رکھے ہیں لیکن صرف اسلام کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ یہ نہ صرف مذہب ہے بلکہ ایک مکمل فطری اورعملی ضابطہ حیات بھی ہے اوریہ وہ واحد نظام ہے جو دوران حیات ہی "موت"( جو کہ ایک اٹل حقیقت ہے جس سے روئے زمین پر موجود کسی مذہب کو انکار ممکن نہیں جس کے بعد کی زندگی جس کا عملی مشاہدہ آج تک کسی انسانی آنکھ نے نہیں کیا) کو بھی بالکل بعینہ توازن میں لے کرمرتب کیا گیا جو قطعی طور پر کسی مخلوق کے بس کا روگ نہیں ہو سکتا جس میں نہ تو اس قدر چھوٹ دے دی گئی کہ اشرف المخلوقات تنزلی کے گڑھوں میں پہنچ جائے اور نہ ہی اس قدر قید و بندش کہ روح جسم کو محض ایک پنجرہ تصور کرنے لگے بلکہ شعور جیسی گراں قدر نعمت کے ساتھ نوازااور یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ شعور کے ساتھ ساتھ اس نظام کے مطابق رہنمائی کے لئے تحریری دساطیر اور کم و بیش اپنے ایک لاکھ چوبیس ہزار نمائندے بھیجے یہاں تک کہ ایک کامیاب اور مکمل ضابطہ حیات متعارف نہ کروا دیااورپھر تکمیل نظام "جس میں انسانی فطرت اور ذہنی ہم آہنگی کو مکمل ملحوظ رکھا گیا" کے بعدبلا جبرو اکراہ شعور کو مکمل حق خود ارادیت دے دیا کہ وہ جو چاہے اپنا لے چاہے تو اسی دنیا تک محدودرہے اور چاہے توحیات بعد ازموت کو زیرنظر رکھ کر اعتدال کا متوازن راستہ اختیار کرے جس سے وہ دنیا میں بھی بہتر وقت گزارے اور آخرت میں بھی کامران ہو۔جبکہ شعور کے انتخاب پر واضع تنبیہ کی گئی جس سلسلہ میں جنت کی بشارت اور جہنم کی وعید موجود ہے۔ پھر دور انتخاب چلا چاہتا ہے اور تاابد چلے گا جہاں راز شعور افشا ہو رہے ہیں اور تا ابد ہوں گے پھر قیامت برپا ہو گی اور پھر کامیاب و ناکام کا فیصلہ ہو جائے گا۔تا دم تحریر میں بھی سب کی طرح نہ سہی اکثریت کی طرح تھوڑا مضطرب ضرور ہوں کہ یقناًایک ایسا نظام جس میں ایک ایسی ذات نے انسانی شعور کی کمزوریوں کو جان کر ایک ایسا نظام دے دیا جس میں مکمل انسانی فلاح پوشیدہ ہے تا ہم اگر وہ رحیم و کریم نہ ہوتا تو اپنی مرضی کا نظا م نافذ کرنے کی مکمل قدرت رکھتے ہوئے "طلاق"جیسے ناپسندیدہ ترین عمل کو بھی جائز نہ قرار دیتا، وہ چاہتا تو نماز جنازہ میں بھی سجدے کروا لیا کرتا ۔ میں نے اپنے ناقص علم کے مطابق جو تھوڑی بہت معلومات حاصل کیں کہ نماز جنازہ میں سجدہ کیوں نہیں کیا جاتا تو مجھے جو معلومات میسر آئیں ان سے میں اپنے آپ کو مطمئن نہ کر سکا اور میں ذاتی طور پر اس نتیجہ پر پہنچا (آپ کو اختلاف ہو سکتا ہے مگر یہ میری ذاتی رائے ہے)چونکہ ایک ایسا اعلیٰ اوصاف کا حامل نظام یقیناًانسانی فطرت مد نظررکھتے ہوئے مرتب کیا گیااور سجدہ کو عبادت میں بلاواسطہ تعلق یا رابطہ کاانتہائی مقام حاصل ہے جس میں خوشی کا گہرا عمل دخل ہے اور جیسے اللہ تعالیٰ کو ایک نا پسندیدہ عمل کا جائز ہونا گوارہ ہو سکتا ہے تو انسانی فطرت میں بھی بعض احکامات جو کسی رنجیدہ واقعہ کی صورت میں فرض ہیں چائے کفایہ ہی تو یقیناًروح و شعورغمگین ہوں تو خوشی نہیں موجود رہتی کیونکہ نماز جنازہ میں شائد ہی کوئی بد بخت خوش ہوتا ہوگااور چونکہ عبادت کا انتہائی مقام یعنی سجدہ خوشی کے عنصر کی عدم موجودگی میں نا مکمل رہتا ہے اس لئے اس ذات کریم نے گوارہ نہ کیا کہ غم کی حالت میں سجدے کرواتا۔ اس تمہید کا مقصد قطعاً تبلیغ نہیں بلکہ حالیہ اسرائیلی جارحیت و بربریت کی مثال پیش کرتے ہوئے اصل المیہ کی وضاحت کرنا مقصود ہے جس کا شکار ہو کر آج نظام اسلام کو شدید خدشات لاحق ہیں اور وہ ہے ہمدردی ، بھائی چارہ اور قوت برداشت کی شدید قلت اور خود غرضی ، مادیت پرستی، انا پرستی اورغرور و تکبر کی اجارہ داری ۔اسرائیلی مسلح افواج کا فلسطینی نظام اسلام کے غیر مسلح عمل پیراؤں پردھاوا بولناکوئی نیا المیہ یا واقعہ نہیں ہے ابتدا سے ہی ایسے افراد جن کے شعور کو درست انتخاب کی توفیق میسر نہ ہوئی وہ ہمیشہ ہی ان افراد کے خلاف جن کے شعور نے درست انتخاب کیا یکجا و مسلح ہو کر بر سر پیکار رہے ہیں جس کی تاریخ حق و باطل میں جنگ کے نام سے تعریف کرتی آئی ہے اور جتنا میری فہم میں آیا اس لحاظ سے یا شائد حقیقتاً ایسا ہی ہو کہ ازل سے باطل اور باطل یکجا ہو جاتے رہے اور شائد ہی کوئی ایک مثال آپ پیش کر سکیں کہ باطل اور باطل باہم ایک نہیں ہو ئے لیکن اس کے بر عکس کوئی ایک آدھ مثال ہی موجود ہو گی کہ حق اور حق بھی باطل کے خلاف یکجا ہو ئے ہوں یا زیادہ سے زیادہ دو مثالیں دینے کے بعد آپ کی مثالیں ختم ہو جائیں گی، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو باطل آج جس مقام پر کھڑا ہے اسے دیکھتے ہوئے حق کی دستار سرتقریباًگر جاتی ہے۔ باطل اور باطل نے ملکرباقاعدہ منصوبہ بندی سے حق اور حق کے مابین ہم آہنگی کے عنصر کو ختم کیاجس کے لئے باطل یقیناانتھک محنت کی اور آپس میں باطل نے باطل کو برداشت کیااور بالاخر ایک ایسا شکنجہ بنانے میں کامیاب ہو گئے جس میں حق اور حق کو الگ الگ کر کہ باہم حق کو ہی حق کا حریف بنا کر پیش کر دیااورحق کو حق سے دست و گریباں کر وا کہ باطل و باطل یکجان و یکسو ہو کر دونوں حقوق کا قلعہ قمع کرنے میں مشغول ہو گئے آج کبھی باطل امریکہ کی شکل میں خود کو عراق و افغانستان میں حق بجانب ظاہر کرنے میں مصروف ہے تو کہیں باطل اسرائیل کی شکل میں فلسطین پر ناجائز قبضہ کو عالمی حق تصور کر رہا ہے،کہیں باطل کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بنائے پھرتا ہے، اگر کبھی کوئی حق آواز اٹھانے کی ہمت کرتا بھی ہے تو اسقدر دقیق و لطیف کہ کوئی دوسرا حق اس کا ساتھ دینے کا تصور بھی نہیں کرتا اور پھر ان کے درمیان ذاتی قدورتیں حائل ہو جاتی ہیں، کہیں باطل حق کے مال پر پل کر حق پر ہی غرّا رہا ہے کہ شاہ فیصل اور شاہ عبدالعزیز کے بعدوں کو جرات نہیں پڑتی کہ وہ برائے نام ہی امریکہ کو تیل دیتے ہوئے اسکی ناجائز اولاد اسرائیل کی ناجائز جارحیت پر حق کی حق گوئی کر سکیں، غزہ میں حالیہ شہدائے حق پرجن کی تعداد تا دم تحریر ۹بچوں اور ۶ خواتین سمیت ۷۲ہو چکی ہے فلسطین میں آئے روز پانچ کی بجائے چھے نمازیں باقاعدگی سے ادا کی جا رہی ہیں لیکن کسی اور حق نے غائبانہ نماز جنازہ تک ادا کر کہ یکجہتی کا پیغام نہ پہنچایا یہ تو بعید حق کے کسی نمائندے نے برائے نام تک باطل کی حق کی حق تلفی پراحتجاج کے چند الفاظ سرکاری سطح پربولنے کی ہمت نہ ہوئی، اگر بفرض محال کوئی آواز سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف اٹھتی ہے تو امریکہ کا ایلچی محض ایک لفظ Veto بول کر اس آوازِحق کو باطل کے تلووں تلے روند دیتا ہے اور اس پر عرب لیگ کا مثالی کردار دوہرا کر میں مزید شرمندہ نہیں ہونا چاہتا ، اور صرف یہ ہی نہیں ایک عام مسلمان کا کردار بھی آپ سے عیاں نہیں ہے، اور باطل کس قدر عیاری کے ساتھ حق کو ہی مہرہ بنا کر چال پر چال چل کر حق کو ہی مات دینے میں مصروف ہے اور یہ ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ اب باطل کو از خود حق کے خلاف کسی عملی کاروائی کی ضرورت رہ گئی ہے کیونکہ باطل نے حق میں ہی اتنے باطل پیدا کر دئیے ہیں کہ ہر حق کو دوسرا حق باطل لگ رہا ہے۔ پاکستان بلا شبہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیااسلام ہی دو قومی نظریے کا بنیادی اور مرکزی محرک تھالیکن قیام کے ۶سال بعد ۱۹۵۳ ؁ء میں ہی از سر نو مسلمان کی تعریف کی ضرورت پڑگئی اس سلسلہ میں جسٹس منیر کمیشن قائم کیا گیااور کمیشن نے جو حق ادا کیا ملاحظہ ہو انہوں نے مسلمان کی یہ تعریف کی کہ یہاں حتمی طور پر کسی کومسلمان یا کافر قرار دینا قطعی طور پر ممکن نہیں ہے کیونکہ ہر فرقہ میں مسلمان کی تعریف میں دوسرے فرقے سے تعلق رکھنے والا مسلمان نہیں ہے ازراہ حوالہ میں اس عبارت کا کچھ حصہ نقل کر رہا ہوں

The Munir Commission was originally formed to probe the causes of civil unrest in Pakistan in 1953 because of the Islamists146 demand that Pakistan was formed as an Islamic State and should implement the Islamic law. This report provides an excellent historical, cultural, political, and scriptural perspective of the rationale, original ideology, and how the radicals subsequentlyengineered the ideology of Pakistan as an Islamic State. In doing so the Islamists ceded that parts of the Qur146an prohibiting violence have been abrogated 150 an assertion that demolishes one of the five pillars of Muslim faith. Ironically, the Islamists could not even agree on a common definition of a Muslim
باطل نے حق کو اس حد تک کربناک اذیت سے دو چار کر رکھا ہے جیسے بلی چوہے کو پکڑ کر پھر چھوڑ دیتی ہے پھر پکڑ لیتی ہے پھر چھوڑ کر پھر پکڑتی ہے بعینہ باطل کبھی عراق میں آدھمکتا ہے کبھی افغانستان میں پاکستان کے راستے پہنچ جاتا ہے کبھی پیغمبر اسلام کی گستاخی پر مبنی فلم چلا دیتا ہے کبھی ملالہ کو بہادری کے اعزازات سے نوازتا ہے کبھی عافیہ صدیقی پر فرد جرم عائد کر دیتا ہے،کبھی ریمنڈ ڈیوس جیسے بھیڑیے کی خونخوار درندگی پر جوہن کیری ہمارے میڈیا کو درس حدیث دیتا ہے کبھی امداد کی شکل میں ڈالروں کی بارش کر دیتا ہے کبھی اچانک روک کر اقتصادی بابندیاں تک لگا دیتا ہے کبھی فیفا ایونٹ کی طرف توجہ مبذول کر غزہ میں ایک اور باطل کی پشت پناہی کر رہا ہے۔سوچنا صرف یہ چاہیے کہ" کیا" حق کو اب صرف انتظار کرنا چاہیے کہ کب یہ بلی اور چوہے کا کھیل ختم ہو؟ ایک دور گزرا ہے کہ حق کی امداد کو کوئی حق پرست کبھی محمد بن قاسم، کبھی صلاح الدین ایوبی، کبھی سلطان محمود غزنوی، کبھی طارق بن زیاد اور کبھی محمد علی جناح کی شکل میں کہیں نہ کہیں باطل سے ٹکراتے رہے لیکن چونکہ اب وہ فضائے بدرنہ رہی توفرشتوں نے بھی گردوں سے آنا چھوڑ دیا اب بھی یقیناکوئی مرد حق ہی کبھی نا کبھی حق کی شمع روشن کرے گا لیکن اس کے لئے ماندہ مسلمانوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اس کی آمد کا محض انتظار کرنے کی بجائے انتظام کیا جائے کوئی بدرکی سی کیفیات و جذبات کو بیدار کیا جائے کہ گردوں سے قطاریں چلو نہ لگیں کوئی ایک آدھ ہی آن وارد ہو تا کہ بقول علامہ اقبالؒ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

کشمیر ایکسپریس میں19 جولائی بروز ہفتہ
مکمل تحریر >>

آخرآزادی ہی کیوں؟؟؟

آپ زندگی کی بنیادی ضروریات اور شدید خواہشات کی ایک فہرست بنائیں پھر اگر میں آپ کواس فہرست کو ایک مختصر سے جملے میں بیان کرنے کو کہوں تو وہ جملہ یہ ہو گا"میں خوش رہنا چاہتا ہوں"اور یہ ایک جملہ محض پانچ الفاظ یا اٹھارہ حروف کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اس میں ایک عالمگیرصداقت پنہاں ہے ، انسان گود سے گور تک کا سفرایک اس خواب کی تعبیر کی تگ و دو میں گزار کر رخصت ہو جاتا ہے، کوئی کامیاب ہوتا ہے اور کوئی ناکام اور کوئی کامیاب ہو کر بھی ناکام ہی رہتا ہے، کیونکہ وہ یہ ہی نہیں جان پاتا کہ خوشی ہوتی کیا ہے،یقین جانیئے خوش ہونا ہی اصل زندگی ہے ، کسی کی غلامی میں زندہ تو رہا جا سکتا ہے لیکن ایسا کوئی مائی کا لعل پیدا نہیں ہو سکا جو با شعور ہواور یہ ثابت کر پائے کہ کسی کی غلامی میں خوش بھی رہا جا سکتا ہے، جیسے جسم روح کے لئے برتن کی حیثیت رکھتا ہے جس کے بغیر روح کا وجوداس دنیا میں عدم ہو جاتا ہے بالکل ایسے ہی آزادی خوشی کا برتن ہے جس کے بغیر خوشی کو سمیٹا نہیں جا سکتا۔آزادی ایک ایسی کیفیت ہے جس کا آج تک کوئی نعم البدل دریافت نہیں ہو سکا، اقومِ حال یا اقوامِ ماضی کے احوال کا جائزہ لینے پر ایک حیرت انگیز حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ عالم انسانی کا کوئی بھی فرد یا قوم ساری زندگی یا تو آزادی حاصل کرنے میں گزاردیتے ہیں یاحاصل کرنے کے بعد اُس آزادی کو برقرار رکھنے میں ۔لیکن برصغیر پاک و ہندکی اقوام اس حقیقت کو ماننے کے لئے عملی طور پرتیار نہیں کہ اصل نعمت نعمت کا حصول نہیں بلکہ حصول کے بعد اس کا مسلسل قیام ہوتا ہے ۔فرنگی نے انہیں دو اور پھر تین الگ ملک دینے کے بعد بھی ان اقوام کے درمیان ہزارہا میدان جنگ بنا دئیے کہ مبادا یہ الگ ہو کر بھی خوش نہ ہو جائیں اور ہمیں بھول جائیں، ان کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا، دونوں ممالک پاک و ہند میں وہ ایک ایسا نظام چھوڑ گیا جس سے وہ اپنی مرضی سے حکومتوں کی سرپرستی کرتا رہے۔ معروف مقولہ ہے کہ قابل رحم ہے وہ شخص جس کا کوئی دوست نہیں لیکن وہ بد بخت ہے جسکا کوئی دشمن بھی نہیں، اور یہاں پاک و ہند کو پیدائشی دشمنیاں بھی نصیب ہوئیں اور انہیں فرنگی کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہمیں جاگتے رہنے کا موقع بھی فراہم کر گیالیکن اس کے بر عکس یہ اونگھنے کی قسمیں کھائے بیٹھے ہیں، تاریخ شاہد ہے کہ کسی معاشرہ، خاندان، اور قوم کو سب سے زیادہ نقصان اس کے اپنے ہی افراد نے پہنچایا بیرونی قوتیں اس وقت دخل انداز ہوئیں جب یہ معاشرہ،خاندان یا قوم فرقہ واریت کا شکار ہو کراپنا اتحاد کھو کر صرف افراد کی شکل میں باقی رہ گئے، پاک و ہند کا بنیادی مسئلہ ان پر قابض ان کے اپنے ہی صرف 5%لوگ ہیں جو اغیار کے دست راست اور ذاتی مفاد پرست ہیں، جنہوں نے سوچی سمجھی سازش کے تحت اصل وسائل کو خرد برد کرنے کے لئے نام نہاد خود درآمدہ مسائل کھڑے کر رکھے ہیں جن میں کشمیر سر فہرست پھر دہشت گردی اور اسی طرح کے دیگر سنگین مسائل جو خود اپناندہ ہیں،اور کس مہارت سے دونوں ممالک کی عوام کو بیوقوف بنانے کا کارنامہ سر انجام دے رہے ہیں کہ ذرا دیکھئے پاک و ہند کی کھوکھلی حکمراں ملاقاتیں جن میں کشمیری قیادت کی معنی خیز عدم موجودگی ان ملاقاتوں کی حقیقت بیان کر رہی ہے، جبکہ کشمیر مسئلہ نہیں ہے بلکہ کشمیر میں قیام امن اصل مسئلہ ہے جو کشمیری عوام کی عدم موجودگی و عدم رضا مندی نہیں طے پا سکتا، جہاں کشمیری عوام کی 99%اکثریت نظریہ امن کی قائل ہے، خواہشمند کبھی بھی نہیں ہے کہ محض کشمیر کو تنازعہ بناتے ہوئے دونوں ممالک کی عوام ایٹمی جنگ کے خطرات کے سائے تلے زندگی گزاریں اور اس مد میں ضائع کیا جانے والا ہر سال 80%بجٹ امریکہ و یورپ سے ہتھیاروں کی خریداری کی وجہ سے دونوں ممالک کی 65%سے زائدعوام خط غربت سے بھی نیچے زندگی کی سانسیں لینے پر مجبور ہوں، اور 5%قابض اقلیت سوچی سمجھی سازش کے تحت بجٹ کا غلط استعمال کر کہ عوام کو ترقی و خوشحالی سے قوسوں دور کئے ہوئے ہیں، دونوں ممالک کا معاشی مسئلہ اگر حل کر دیا جائے بجٹ کو اگر صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو دونوں ممالک ایشیاء بلکہ پوری دنیا میں بہترین معاشی قوت کے طور پر جانے جا سکتے ہیں، اور ہر دو صورتوں میں کشمیر کا فائدہ ہے، کشمیری کبھی نہیں چاہتے کہ دونوں ممالک پر قابض 5%اقلیت کشمیریوں کے نام پر 95%عوام کا بجٹ خود پرستی اور مادیت پرستی کی بھینٹ چڑھاتے رہیں۔دونوں ممالک کی عوام کو چاہیے کہ خود کو دھوکے سے نکالیں جبھی وہ خوشحالی کے لئے کچھ کر سکیں گے، اس سلسلہ میں انہیں سب سے پہلے جامع پالیسی برائے حکومت و حکمراں وضع کرنی پڑے گی جہاں حقوق و فرائض کا اور اختیارات (عام شہری کی زندگی پر اثر انداز ہونے والے عوامل )کا واضع تعین ہو، وہ سارے وسائل جو حکومتیں بیرونی و نام نہاد مسائل پر ضائع کر دیتی رہی ہیں انہیں اصل و بنیادی مسائل کے حل کے لئے بروئے کار لایا جائے، خاصا مشکل لیکن ممکن کام ہے، اس کے لئے ضرورت صرف شعورکی ہے نہ کہ سر زمین کی جو 63سال پہلے تھی، تب جنگ سر زمین کے لئے لڑی گئی تھی اب جنگ محض 5%قابض اقلیت کے خلاف ہے، دونوں ممالک میں ایک طبقہ محض روٹی کے لئے جدوجہد کر رہا ہے اور دوسرا طبقہ عیش و عشرت کی دوڑ میں غرق ہے، جس کی وجہ سے دونوں ممالک میں کرپشن کے سونامی وارننگ الارمز بج رہے ہیں، یہ ایک سازش کے تحت عوام کو حتی کے ایک ہی خاندان کے افراد کو بھی دو طبقاتی نظام (یعنی امیر اور غریب)میں الجھادیا گیا ہے، جس کی بدولت آج ٹیکس چوری کر کر کے سرمایہ دارانہ نظام فروغ پا رہا ہے، جہاں بے انصافی ، میرٹ کی پامالی ، رشوت ، مادیت پرستی و ذاتی مفاد پرستی کی سر پرستی کی گئی، اس سب سے نجات کے لئے ایک ریاستی آئین و قانون مرتب کیا جائے جس میں ریاست کے باشندوں کے بین الاقوامی حقوق و فرائض کی خلاف ورزی اور مذہبی قوانین کی خلاف ورزی پر باقاعدہ ٹھوس اور واضع شق موجود ہوں، ایک مؤثر نظام محصول رائج کیا جائے جہاں بآسانی ٹیکس چوری نہ ہو، اور خلاف ورزی کے مرتکب افراد پر مقدمہ چلا کر ریکوری و سزا تک نگرانی کرنے کے لئے خود مختار ادارے بنائے جائیں، عدالتیں اور قانون فراہم کرنے والے ادارے آزاد ، خود مختار اور عوام کے مکمل نمائندہ ہوں، جبکہ انتظامیہ قطعاً غیر سیاسی ہو، عوام کو قومی یکجہتی و ملی وحدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان مسائل سے نمٹنا ہو گا جو محض ایک مخصوص طبقہ کی عیاشیوں کے لئے انہیں تباہی کے دھانے پر لا کر کھڑا کئے ہوئے ہیں، اپنی تعلیمی پالیسی پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے جہاں تعلیم کا مقصد محض رزق کے حصول تک محدود ہو گیا ہے، ترمیم کر کے تعلیمی پالیسی کو عملی بنایا جائے، یعنی ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ لاقانونیت کے خلاف لڑو لیکن عملاً ہمیں ایسا ماحول فراہم کیا جاتا ہے کہ" کتابی باتیں" جیسی کئی ضرب الامثال دریافت ہو گئی ہیں،عام شہری سمجھتا ہے کہ مجھے ملک سے کیا لینا دینا ویسے بھی میرے اکیلے کچھ کرنے سے کیا ہو گا جس وجہ سے جنہوں نے حقیقتاً دودھ ڈالا ہوتا ہے صبح انکا بھی پانی ہو چکا ہوتا ہے، کرپشن کرتے ہوئے دیکھ کر خاموش رہنا بھی ایک قسم کی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے،یہاں کرپشن کرنے والے سے حصہ طلب کیا جاتا ہے، ایک ایسی تعلیمی پالیسی جو مطلقاً عملی ہو،مثلاً پڑھایا تو جاتا ہے کہ اگر آپ کے سامنے سڑک پر کسی حادثہ میں کوئی زخمی ہو جائے تو اس کی امداد کرو اسکی جان بچانے کی کوشش کرو تو عملاً اس بات کی ترغیب نہ دی جائے کہ جائے حادثہ سے دور رہو یہ تمہارا نہیں پولیس کااور انتظامیہ کا کام ہے،خواہ مخواہ تھانہ کچہری کے جھنجٹ میں الجھ جاؤ گے، یعنی عملی طور پر تعلیمی پالیسی کی نفی ہو رہی ہے، یا سادہ الفاظ میں کہا جا رہا ہے کہ کتابوں میں جو لکھا جاتا ہے اسکو صرف پڑھنا چاہیے نہ کہ اس پر عمل پیرا ہوکر وقت کا ضیاع کیا جائے، تھانہ کچہری کلچر میں تبدیلی اشد ضرورت بن چکی ہے، کہ جومظلوم کی پناہ گاہ ہونی چاہیے وہاں ایک عام آدمی خالی جیب اور بناء تعلق جانے سے ڈرتا ہے، عوام میں دولت کے حصول کے لئے منفی مقابلہ کا رجحان پیدا کر کہ اتحاد و یکجہتی کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے، اس سلسلہ میں دولت کی منصفانہ تقسیم کی اکاؤنٹبلیٹی کے ادارہ کی بنیاد رکھی جائے جو غیر جانبدار رہ کر اثاثہ جات و آمدنی کی تحقیق کرے اور عوام کو جواب دہ ہو، عوام کا" اصل مسئلہ کشمیر ہوسکتا تھا "اگر ہر دور کے حکمراں نسل در نسل اور بھیس بدل بدل کر کبھی حکومت کبھی اپوزیشن، کبھی اتحاد اور کبھی مخالفت کے لبادے اوڑھ کر عوام کا معاشی استحصال نہ کرتے ، میں حیران ہوں کہ عوام اپنے مُردوں کو تو کوؤں اور مردارخوروں کو تو نہیں کھانے دیتے مگر خود کو اور اپنے زندہ و جاوید ملک کو کیسے ان کے حوالے کر رکھا ہے؟ معیار زندگی کو میڈیا کی مدد سے اس قدر بھیانک شکل دی جا چکی ہے کہ عام آدمی کا زندہ رہنا محال ہو گیا ہے ، معاش کے بعد دوسرا مسئلہ اجتماعی مفاد کی بجائے ذاتی مفادپرستی ہے جس کی وجہ یہ نام نہاد حکمران ہیں،جو جان بوجھ کر میرٹ پامال کرتے ہیں، رشوت عام کرتے ہیں کہ عوام آپس میں الجھ کر اسی میدان جنگ میں بر سر پیکار رہیں، اور وہ اپنے وسیع تر مفاد میں، تاہم ملکی سلامتی کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ اپنی اپنی جگہ ترقی کرنی چاہیے بلکہ اس سلسلہ میں بھی پاک و ہند مثبت پیش رفت اقوام عالم کو تنبہیہ کرنے کو کافی ہو گی کے یہ خطہ ناقابل تسخیر ہے، کبھی کبھار کشمیر میں قیام امن پر بات چیت کے لئے پاک و ہند حکمران ملاقاتوں میں کشمیری قیادت کی عدم شمولیت کشمیریوں کو بھی کھٹکتی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ کشمیریوں کے بغیر کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے، اور یہ ہی قانون عالم ہیں اور قانون فطرت و قدرت بھی ،ایسی ملاقاتیں معنی خیز ہیں،کیونکہ کشمیر لاکھوں مربع میل محض ایک زمین کے ٹکڑے کا نام نہیں جہاں پاک و ہند کے حکمران پٹواری خسرہ نمبر گن گنا کربٹوارہ کر دیں گے۔ یہ وہ سحر ، وہ قہر اور وہ شرو شرارت ہے ، کہ جس کو دیکھ کر سمجھ کر ہم کبھی ، سرسر کو صبا ء اور ظلمت کو ضیاء نہیں کہہ سکتے ۔کشمیر ایک وژن کا نام ہے، کشمیر ایک نظریہ کا نام ہے، کشمیر ایک جنون کا نام ہے، کشمیر ایک مذہب کا نام ہے، کشمیر لاکھوں کروڑوں کشمیریوں کی خوشیوں کی کنجی ہے۔حرف آخر دونوں ممالک کے بنیادی مسائل معاش اور اتحاد ویکجہتی میں کمی اور کشمیر میں قیام امن تک کا حل صرف عوام کے پاس ہے نہ کہ حکمرانوں کے پاس اور نہ اقوام عالم کے پاس کیونکہ اگر وہ مخلص ہوتے تو آج اس مسئلہ کی عمر نصف صدی سے زائد نہ ہوتی اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسے مسائل صرف عوام نے حل کئے ہیں، ذرا سوچئیے اگر حکمران اپنے ملک سے مخلص ہوں تو کوئی ایسی وجہ نہیں کہ کشمیر میں امن کا قیام ممکن نہ ہو، لیکن کشمیر میں امن کا قیام حکمرانوں کے اور امریکہ و یورپ کے پیٹ پر لات کے مترادف ہے، کہ اگر یہ مسئلہ حل ہو گیا تو ہم کھائیں گے کیا اور کہاں سے امریکہ و یورپ سوچ رہے ہیں کہ پھر وہ ہتھیار کس کو بیچیں گے انہیں اپنی اسلحہ ساز اندسٹری ڈوبتی ہوئی نظر آ رہی ہے، اور حکمران یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر کشمیر میں قیام امن کا مسئلہ حل ہو گیا تو معاشی مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا اور جب معاشی مسئلہ حل ہو جائے تو کوئی مسئلہ باقی نہیں رہتاکیونکہ معاشی طور پر مستحکم ممالک میں کرپشن ، فراڈ، ڈکیتی، اغواء، چوری، رشوت، نا انصافی جیسے مسائل نہ ہونے کے برابر ہوئے ہیں۔تو ایسی صورت میں حکمرانوں کو سوئیس اثاثہ جات پریشان کرتے ہیں کہ ان کا کیا ہو گا۔

24 جولائی اور 2 اگست کشمیر ایکسپریس میں

مکمل تحریر >>

نظریہ جمہوریت درحقیقت

دورہ تاج محل(آگرہ۔بھارت) کے دوران گیسٹ بک پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ریمارکس دئیے کہ
"There are two kinds of people, those that have seen the Taj Mahal and those who haven't.
اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ (بنیادی طور پر) دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جن کا کوئی نظریہ ہوتا ہے اور ایک وہ جن کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہوتا۔اب نظریہ کو جمہوریت کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو پاکستانی عوام کی ایک بڑی اکثریت پر جمہوریت کے معانی و مطلب ہی واضع نہیں ہیں، آپ ایک سادہ لوح ادھیڑ عمر شخص سے ملکی معاملات پر لب کشائی کو کہیں تو وہ صدر ایوب کے دور حکومت کو بہترین قرار دے گا، اور شائد ساتھ ہی جمہوریت کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے بھی ملا دے۔ جمہوریت ایک بہتر نظام ہو سکتا ہے لیکن اس سے قطعاً انکار ممکن نہیں کہ بلا شبہ جمہوریت سے بہتر ین نظام بھی موجود ہیں گو دور حاضر میں ان سے استفادہ نہیں کیا جا رہا انہیں قدیم تصور کر کے ان کے بارے میں خام خیالی ہے کہ وہ قدیم نظام عصر حاضر کے ضروری تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں اوراس سوچ کی کوکھ سے ایک نظریہ (جمہوریت) جنم لیتا ہے جمہوریت کی تعریف کرنے سے قبل دیگر نظام ہائے زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ وہ کیوں ناکام ہوئے یا سمجھے جانے لگے اس کی بیشتر وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن بنیادی وجوہات میں مذہب کا ایک پہلو رہا کہ اسلام کی آمد پر نظریہ زندگی یکسر تبدیل ہو گیااور ایک روشن تاریخ کا آغاز ہوا جہاں تمام موجودہ نظام سابقہ ہو گئے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ نظام نامی نظریہ کا ظہور ہوا کیونکہ قبل ازیں کی تاریخ میں سوائے نمرود، قارون، فرعون، قیصر و قصریٰ اور ایسے لوگوں نے نظام نامی نظریے کی پیدائش پر پابندی لگا رکھی تھی اوراسلام اپنے دور نبوت میں ہی ایک نظام کی حیثیت سے جانا اور مانا جا چکا تھا تا ہم اسے جمہوریت کا سہارا لینے کی ضرورت نہ پڑی شائد اسی لئے دور نبوت میں بلکہ مزید تیرہ سو سال بعد تک بھی عام انتخابات کی ضرورت محسوس نہ ہوئی کیونکہ اگر صرف جمہوریت میں ہی بنی نوح انسانیت کی مکمل فلاح پوشیدہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ قران کریم میں اور پیامبرِ حق اپنی زندگی میں اس کو پوشیدہ نہ رکھ جاتے بلکہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور عام انتخابات کا انعقاد فرماتے۔اگر نہیں تو پھر دور خلافت میں خلفائے راشدین جیسی شخصیات جو ایسے نظام و طرائق وضع کرتے رہے جو بنی نوع انسانیت کے لئے سود مند تھے تو ان میں سے کوئی ضرور جمہوریت کو اپناتا حضرت علیؓ کو باب العلم کہا جاتا ہے انہوں نے بھی نہ تجربہ کیا، حضرت عمرؓبن خطاب بغیر کسی جمہوریت کا سہارا لئے اٹھائیس لاکھ مربع میل پر حکومت کرتے ہیں اور ایسی حکومت کہ اس زریں اور درخشندہ عہد پر کئی غیر مسلم بھی آپ کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے،اور زمانہ عدل فاروقی کی مثالیں دیتے نہیں تھکتا۔خلافت راشدہ کے اختتام پرخلافت عباسیہ کا دور شروع ہوا اور جدت وترقی کے ادوار بھی کہ اسی دور حکومت میں ہارون الرشید جیسے خلفاء بھی بغیر جمہوریت کے شاندار انداز میں حکومت کر گزرے۔ تاہم کم و بیش پانچ سو سال کے اس دورِ حکومت کا خاتمہ منگول فاتح ہلاکو خان نے کیالیکن جمہوریت سے نہیں اور ایسا بھی ہر گز نہیں کہ خلافت عباسیہ "خلافت عباسیہ کی بجائے جمہوریتِ عباسیہ"ہوتی تو ہلاکو خان انہیں شکست نہ دے پاتا۔سکندر اعظم جو ارسطو جیسے معلم کی شاگردی بھی اختیار کرتا ہے لیکن جمہوریت کا سہارا لئے بغیرساری دنیا پر بے داغ حکمرانی کی واحد و عظیم مثال بھی قائم کرتا ہے"۔ سلطان ٹیپو شہید اور اس کے بہادر باپ حیدر علی کا نام دنیا کے غیرت مند حکمرانوں کی تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا، اور کوئی شخص ان کا تعلق جمہوریت سے ثابت نہیں کر سکتا۔الغرض انیسویں صدی کے اواخر تک نظریہ جمہوریت کے بغیر دنیا نہ صرف اچھے طریقہ سے چلتی رہی بلکہ اپنی زندگی کے کئی سنہری ادوار بھی دیکھ آئی، دنیا کی معلوم تاریخ تقریباً پانچ ہزار سال بھر میں نظریہ جمہوریت کی مثال نہیں ملتی اور نہ ہی کسی الہامی کتاب میں ہے اور نہ ہی اور کسی مذہب کی مذہبی کتاب میں اس کا حوالہ ملتا ہے، میں جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ نظریہ جمہوریت نے محض ایک نام نہاد جدت پسندی کی سوچ سے جنم لیا ہے اس لئے اس کی کوئی تابناک تاریخ موجود نہیں ہے تا ہم دیگر اقوام اور مذاہب کے اعتبار سے یہ ایک مؤثر نظریہ ثابت ہو ا لیکن نظریہ جمہوریت دراصل کچھ بنیادی ضروریات کا متقاضی ہے یہ محض ایک لیبل کا نام نہیں کہ یہ کسی بھی نظام پر لگا کر اس کو جمہوریت سمجھنا شروع کر دیا جائے یا اسے کسی بھی اور نظام یا نظریہ کے ساتھ کراس کروا کر تیسرا نظریہ پیدا کروا لیا جائے کہ اس تیسرے پیدا ہونے والے نظریے میں دونوں آبائی نظریات کے کچھ خواص موجود تو ہوں لیکن اس کی عمر بہت کم ہو کیونکہ ہر نا خالص جنس کا قیام قلیل ثابت ہوتا ہے۔اب اسی تناظر میں" اسلامی جمہوری" نظریہ کو دیکھیں تو آپ کے سامنے وطن عزیز ایک لیبارٹری محسوس ہو گا جہاں اسلام اور جمہوریت میں توازن رکھنے کے لئے 67سال سے تجربات کئے جا رہے ہیں چونکہ نظریہ جمہوریت اپنے اندر اسلام کی خصوصیات نہیں رکھتا اور نہ ہی جمہوریت کا دامن اتنا وسیع کہ وہ اسلام یا کسی مذہب کو مکمل طور پر قبول کر سکے اور اسی طرح نہ اسلام کی ابدی اقدار ہی اس کی اجازت دیتی ہیں کہ وہ کوئی بیرونی نظریہ درآمد کرسکے جیسے ایک آدمی بیک وقت مسلمان اور یہودی نہیں ہو سکتا کیونکہ مذہب ایک نظریہ پر یقین کامل کا نام ہوتا ہے اور کوئی بھی شخص ایک ہی وقت میں دو مخالف نظریات کا حامی نہیں ہو سکتا ایسا صرف نظریہ منافقت میں ہی ممکن ہے کہ ایک شخص مسلمان ہونے کے ناطے سود کو حرام سمجھے اور نظریہ جمہوریت سے اجازت لے کر باقاعدہ سودی کاروباربھی کرے۔ایک شخص یا تو مسلمان ہونے کے ناطے ہر سال بمطابق نصاب زکٰوۃ دے سکتا ہے یا نظریہ جمہوریت کی پروانی کے لئے ٹیکس اب اگر وہ دونوں فرائض ادا کرنے کا سوچے گا تو اسے لا محالہ نظریہ منافقت کے تحت جمہوریت کی روشنی میں سودی کاروبار کا سہارا لینا پڑے گا، مثلاً پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کی جاتی ہے کہ شراب کی فروخت سے حاصل ہونے والی کمائی اور ٹیکس کو حرام قرار دیا جائے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صوبہ پنجاب کی اسمبلی ہی اسے اکثریتِ رائے سے مسترد کر دیتی ہے اور بادل نخواستہ منظور ہو بھی جاتی تو قومی اسمبلی میں اس قرارداد کے ساتھ یہی حال ہوتا، سوال یہ نہیں کہ قرارداد مسترد کیوں ہوئی، بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ضرورت تھی کہ یہ قرارداد پیش کر کہ اسمبلی اراکین سے پوچھا جائے کہ یہ غلط ہے یا درست کیا یہ قرآن پاک میں واضع طور پر احکام موجود نہیں؟آپ نہیں سمجھتے کہ 1947میں جب پاکستان یہ کہہ کر بنا دیا گیاکہ ہم مسلمان ہیں ہم تو ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے کیا اس لئے کہ ہمارا رہن سہن ایک سا نہیں۔۔۔۔نہیں اس لئے نہیں کہ ہمارا رہنا سہنا ہمارا کھانا پینا ہماری زبان، ہمارا رنگ، ہمارا طور طریقہ، ہماری ثقافت ایک سی نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف اس لئے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے کیونکہ جو ہما رے مذہب میں حرام ہے وہ اسے جائز سمجھتے ہیں جیسے سود، شراب وغیرہ جبکہ جو ہم حلال سمجھ کر کھاتے ہیں اس گائے کی یہ پوجا کرتے ہیں اور اس کا ذبح کرنا پاپ سمجھتے ہیں جبکہ ہم عیدالاضحیٰ پر اسے ثواب کی نیت سے قربانی کرتے ہیں۔اسی نظریہ اسلام کوعملی طور پربھی نافذ کرنے میں کون سی رکاوٹیں حائل تھیں جو 1956میں اصل نظریہ سے ہٹ کر ایک الگ ہی نظام ترتیب دے کر رائج کرنے کی کوشش کی گئی اور تاحال جاری ہے جس کی بنیاد دو نظریوں پر رکھی گئی ہے جس کی وجہ سے نہ یہاں اصل جمہوریت کی شکل دکھائی دی اور نہ ہی حقیقی معنوں میں اسلام کی، انفرادی طور پر ایک طبقہ حقیقی جمہوریت کا قائل ہے اسی طرح ایک طبقہ انفرادی طور پر صرف اسلام کا قائل ہے کوئی بھی ایسا طبقہ موجود نہیں جو اجتماعی طور پر کسی ایک نظریہ پر کاربند نظر آتا ہواسی وجہ سے آج تک حقیقی اور مکمل جمہوریت قائم نہ ہو سکی اور میرا ذاتی خیال ہے جویقیناًغلط بھی ہو سکتا ہے کہ آئندہ بھی یہ امید رکھنا کوئی زیادہ عقل مندی نہ ہو گی،یا1956میں ایسی کیا خاص ضرورت درپیش تھی کہ ایک مملکت کو چلانے کے لئے ایک نظریہ یا نظام ہونے کی فکر دامن گیر ہوئی کیاایک نظریہ اور نظام موجود نہیں تھا وہی نظریہ جس کو بنیاد بنا کر ہندوستان کا سینہ چاک کر کہ ایک مملکت برآمد کی گئی کیا وہ اسی مملکت کوقائم رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا جودو نظریوں پر مبنی ایک نیا آئین مرتب کیا گیا جو از خود اتنا کھوکھلا اور بودا کہ جس کی روشنی میں اقتدار پرجبری قبضہ کی ایک کھڑکی بلکہ مکمل دروازہ رکھ دیا گیا کہ ایک ادارے کا سربراہ کسی بھی وقت جمہوریت کا عمل روک کر حاکم بن جاتا ہے اور اسی نظام جس کی مدد سے وہ وہاں پہنچتا ہے اپنی مرضی سے اس میں ترمیم و تبدیلی فرماتا ہے بلکہ چاہے تو اس کو معطل کر سکتا ہے بلکہ لکھنے والوں نے لکھا کہ ایک جنرل نے آئین کو موم کی ناک کی طرح توڑا مروڑا اور سیر ہونے تک ترامیم کیں،یہاں تک ہی محدود نہیں اسی آئین کی روشنی میں بننے والی جمہوری حکومتوں نے بھی مختلف ادوار میں اسی آئین کے متعدد حصے غیر مؤثر رکھے اور بعض تا حال معطل ہیں۔اس خطہ کی عوام کی بے حسی کا فائدہ اٹھایا گیایہ بے شعورنہ تھی کہ انہیں پتہ نہ چل سکا کہ کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے اس کی ذہانت اور شعور کا اندازہ لگا لیں کہ صدیوں سے موجود کئی اسلامی ممالک کے بعد اور انتہائی نامساعد حالات میں بننے والا ملک کہ جب یہ بنا تو بنانے والے سوچ رہے تھے کہ ہم اس کو چلائیں گے کیسے اور پھر یہی ملک پچاس سال سے بھی کم عرصہ میں تمام عالم اسلام کی پہلی اور واحد ایٹمی طاقت کے طور پر جانا جانے لگا۔ضرورت تو تھی کہ اپنے اصل نظریہ کو ہی آئین تصور کیا جاتاتو جس تنزلی کا شکار ہم ہوئے آج نہ ہوتے،یقیناًآج ہم اس مقام سے قوسوں آگے پہنچ چکے ہوتے کیونکہ مقام نظام کے مرہون منت ہوتے ہیں۔
اگست16 بروز ہفتہ کشمیر ایکسپریس میں

مکمل تحریر >>

تلاش کیجئے