5 ستمبر، 2015

کوئی حماقت سی حماقت..!!

مجهے یقین ہے کہ چرچل آج زندہ ہوتا تو اپنے شہرہ آفاق قول کہ "جنگ جیسا نازک کام جرنیلوں کے بھروسے پر نہیں چهوڑا جاسکتا" میں "جرنیلوں" کے بعد "ایٹمی سائنس دانوں" کا اضافہ ضرور کرتا۔۔
خواتین و حضرات؛ بقول سابق فضائیہ چیف ائیر مارشل اصغر خان انڈیا کے خلاف ہر جنگ خود چهیڑ کر ہربار منہ کی کهانے والے "سورماؤں" کے بعد نام نہاد سائنسدان بهی شاہراہ حماقت پر بگٹٹ رواں دواں ہوگئے۔۔
قوم کو 1965میں معلوم نہیں کونسی جیتی جنگ کے جشن فتح کے نشے میں مست پا کر، عالمی سطح پر تسلیم شدہ سائنسی معیار کی رو سے "ایٹمی ٹیکنیشن" سے زیادہ مقام نہ رکهنے والے ثمر مبارک مند کو ایک اور ایٹمی ٹیکنیشن اور خود ساختہ "محسن پاکستان" عبدالقدیر خان سے ہتھ جوڑی کے بعد الباکستان سے دس گنا بڑی طاقت انڈیا کے ساتھ پنجہ آزمائی کا شوق جا چرایا فرماتے ہیں "بهارت ہمارے مقابلے میں کچھ بھی نہیں؛ ہمارے پاس سینکڑوں ایٹم بم موجود ہیں، چند سیکنڈ میں پورے بهارت کو نیست و نابود کر دیں گے"... ایتهے رکھ
بندہ پچهے "پتر جی؛ 1971 میں تو چلئے آپ کے پاس ایٹم بم نہیں تها، یہ سیاچن اور کارگل کی معرکہ آرائیوں میں نیست و نابود ہونے سے کون بچا اور وہ بهی امریکہ بہادر کی منت سماجت کے بعد..؟؟"
جی ہاں؛ وہی امریکہ بہادر جس کے ترلے کرنے کے بعد "معاہدہ تاشقند" کی شرمناک شرائط تسلیم کر کے آپ 1965 میں بمشکل ملک بچانے میں کامیاب ہو سکے تهے اور اسی لئے ہرسال 6 ستمبر کو آپ "یومِ فتح" کی بجائے "یومِ دفاع" کا درست نام دینے کے باوجود اپنے تئیں "جشن فتح" کا سماں پیدا کر کے خوشیاں منا کر خود کو بے وقوف بنا رہے ہوتے ہو؛ ورنہ ساری دنیا جانتی ہے کہ اگر جنگ خدانخواستہ 18 ویں دن میں داخل ہو جاتی تو ملک کا بچنا محال تھا ..
ثمر مبارک مند بهی شاید ہمارے سورماؤں کی طرح اس "خوش فہمی" میں مبتلا دکهائی دیتے ہیں کہ بهارت پورے کا پورا آنکھیں بند کئے سورہا ہے کہ ہم جب چاہیں، اسے غفلت میں جا لیں گے اور وہ ہمارے حملے کی اطلاع پاتے ہی ہم سے پہلے ہی ہم پر چڑھ نہیں دوڑے گا ...
ثمر مبارک کو اب کون جا سمجھائے کہ "حضور؛ ایٹم بم کا استعمال بچوں کا کھیل نہیں اور اگر خدانخواستہ اس کی کبهی نوبت آ بهی جاتی ہے تو انڈیا پاکستان جیسے دس ممالک کو اکٹھے صفحہء ہستی سے مٹانے جتنی اہٹمی و حربی صلاحیت ضرور رکهتا ہوگا" ....
جنگ کهیڈ نہیں ہوندی ٹیکنیشناں دی
مکمل تحریر >>

ہمت دکھاؤ راحیل شریف! ہم تمہارے ساتھ ہیں..؛

تاریخ میں سچ کے لمحے جھوٹ کی صدیوں پر بھاری ہوتے ہیں۔ یہ لمحے بہت نادر ہوتے ہیں، کسی کسی کو میسر آتے ہیں۔ جو ان لمحوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ امر ہو جاتے ہیں۔ یہ لمحے روایات بدلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ 
آج ہمارا پیارا ملک تاریخ کے دو راہے پر کھڑا ہے۔ ہم بد ترین دہشت گردی کا شکار ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ ہم اسلام آباد میں درجنوں مدرسے بند کرکے یوم دفاع منا رہے ہیں۔ لیکن وہ کونسی مجبوری ہے کہ ہم ان مشکوک مدرسوں کو بند نہیں کر سکتے۔ 
ہماری سرحدوں پر، ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر مسلسل فائرنگ ہوتی رہتی ہے جس سے قیمتی جانیں ضائع ہوتی رہتی ہیں، مویشی ہلاک ہو جاتے ہیں، عمارات، فصلیں اور باغات تباہ ہو جاتے ہیں۔ اس فائرنگ پر ہمیں ایک ہی خبر بار بار سننے کو ملتی ہے کہ "بھارت نے بلااشتعال فائرنگ کر دی، ہمارے جوانوں نے منہ توڑ جواب دے کر بھارتی توپیں خاموش کر دیں" ہمارے شہری مر رہے ہیں مگر دنیا خاموش ہے، سوزان رائس کہتی ہیں کہ پاکستان دہشت گردی بند کر دے، بھارت فائرنگ نہیں کرے گا۔ سوزان رائس کی بات ایک طرف، ہمارے دوست ممالک بھی خاموش ہیں۔ کبھی کسی نے بھارتی جارحیت کی مذمت نہیں کی۔ ہمالیہ سے اونچی دوستی کا دعوی کرنے والا چین خاموش ہے، مسلم اُمّہ کی رٹ لگانے والے ہمارے عرب دوست خاموش ہیں، ہمارا ہمسایہ ایران خاموش ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے دوست بھی یہی سمجھتے ہیں کہ یہ سب دہشت گردی کے جواب میں ہو رہا ہے۔ ساری دنیا ہم پر دہشت گردی کے الزامات لگاتی رہتی ہے۔ 
ہمارا دعوی ہے کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ہم دنیا کی بہترین فوج ہیں۔ دنیا سوال اٹھا رہی ہے کہ ہم دو سال سے زائد عرصہ میں شمالی وزیرستان کا ساڑھے تین مربع میل علاقہ آزاد نہیں کروا سکے، دنیا سوال اٹھا رہی ہے کہ آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ کرنے والے افغانستان سے اسلحہ و بارود سمیت چلے، متعدد فوجی چوکیاں کامیابی سے عبور کیں، دو دن پشاور کی کسی مسجد میں امام مسجد کے مہمان رہے، سکول کے راستے میں آنے والی دو فوجی چیک پوسٹیں کامیابی سے عبور کیں اور سکول کے معصوم بچوں کا قتل عام کرنے لگے۔ دنیا ہماری محب وطن فوج کے کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ 
میڈیا پر دہشت گردوں کے حامیوں کا قبضہ ہے اور ان کا خوف طاری ہے، عدالتیں دہشت گردوں کے خوف سے کانپ رہی ہیں اور ان قاتلوں کے حق میں فیصلے کر رہی ہیں۔ 
دہشت گردی کے خلاف جنگ انتہائی خوفناک ہے، ہمارے 70000 سے زائد بیگناہ شہری دہشتگردوں اور خود کش حملہ آوروں کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں، ہمارے فوجی افسر اور جوان ان دہشت گردوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر چکے ہیں، پولیس کے سینکڑوں افسر و سپاہی اپنے قومی فرائض انجام دیتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔ اور بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ایسی مذہبی تنظیمیں اور راہنما موجود ہیں جو دہشت گردوں کے ہاتھوں مرنے والوں کو شہید ماننے انکاری ہیں اور دہشتگردوں اور طالبان کو ہیرو قرار دیتے نہیں تھکتے۔،
ہماری جنگ عسکری سے کہیں زیادہ نظریاتی ہے۔ جو لوگ نظریاتی طور پر دہشت گردوں کے خلاف ہیں اور دہشتگردوں کے بدترین نشانے پر ہیں، وہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ سیاسی اور مذہبی قوتیں غنیمت ہیں جو دہشت گردوں کو بر سر عام للکارتی ہیں۔ یہ جنگ نظریاتی ہے، نظریاتی محاذ اہم ہے۔ نظریاتی محاذ پر بہادری سے لڑتے ہوئے جنہوں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں، وہ اعلی ترین قومی اعزازات کے مستحق ہیں۔ جس طرح عسکری جنگ لڑنے والے بہادروں کو اعلی ترین فوجی و قومی اعزازات سے نوازا جاتا ہے، اسی طرح ضرورت اس امر کی ہے کہ ان نظریاتی شہیدوں کی قربانی کا بھرپور اعتراف کیا جائے تا کہ قوم ان کے نقش قدم پر چلتی ہوئی دہشتگردوں کے خلاف صف آرا ہو اور دہشتگردوں کے حامیوں کی گز گز لمبی زبانیں خاموش ہوں۔ 
نظریاتی محاذ کی سب سے بڑی شہید بینظیر بھٹو ہیں جو اعلی ترین قومی اعزاز کی مستحق ہیں، اس راہ حق کے شہیدوں میں سلمان تاثیر، شہباز بھٹی، بشیر احمد بلور، سانحہ کارساز کراچی، لیاقت باغ راولپنڈی اور دیگر سینکڑوں شہدا شامل ہیں۔ پاک فوج کے شہدا سر آنکھوں پر مگر 70000 سویلین شہدا کو یاد رکھنا چاہئے، ان کا بھی کوئی یوم شہدا منانا چاہئے۔ بینظیر بھٹو شہید اور دیگر شہدا کے ایام شہادت قومی سطح پر منائے جانے چاہئیں۔ ایک زبردست نظریاتی و عسکری اتحاد کی ضرورت ہے، قوم نے ملا ملٹری اتحاد کی تباہ کاریاں دیکھ لیں، اب لبرل ملٹری اتحاد کی ضرورت ہے۔ یہ قوم کی ضرورت ہے، ملک کی ضرورت ہے۔ 
محترم راحیل شریف صاحب! اہم فیصلے کی گھڑی ہے۔ ایوب، یحی، مشرف، ضیا کی راہ چھوڑ دیجئے۔ ملک پر قبضہ کرنے کی سوچ چھوڑ دیجئے، دہشتگردی کے مخالفین کے ساتھ اتحاد بنا کر تاریخ کا رخ موڑ دیجئے۔ 
ہم جانتے ہیں کہ یہ مشکل فیصلہ ہے مگر کسی نہ کسی کو تو کرنا ہے، آج نہیں تو کل کرنا ہے۔ آپ ہی ہمت کیجئے، اپنے خاندان کو ملنے والے نشان حیدر کی لاج رکھُیے۔ آپ کے پیشرو ایوب، یحیی، مشرف، ضیا اور دیگر تو تاریخ کے گمنام قبرستان کا حصہ بن چکے۔ آپ امر ہو جائیے۔ 
قدم بڑھاؤ، ہمت دکھاؤ راحیل شریف! ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد
مکمل تحریر >>

4 ستمبر، 2015

بوٹ پالش کروا لو، پرانے نویں بنڑوا لو..!!

جی ہاں خواتین و حضرات؛ بقول سپریم کورٹ بهارت کو اصل خطرہ جن کی حربی صلاحیت سے نہیں بلکہ رئیل اسٹیٹ بزنس کی مہارت سے لاحق ہے کہ کہیں "ان" کا ڈی ایچ اے پھیلتا پھیلتا امرتسر تک نہ پہنچ جائے؛ رئیل اسٹیٹ اور دلیہ سازی جیسے شعبوں میں کامرانیوں کے جھنڈے گاڑنے کے بعد اب وہ "صنعت بوٹ پالش" میں نت نئے ماہرین فن کی نوک پلک سنوارنے میں نئے نئے ریکارڈ قائم کئے جارہے ہیں ..
یوں تو اپنے "آجرین" کے سامنے "نمبر ٹانگنے" کا مقابلہ وطن عزیز کے تقریباً تمام صحافیوں کے علاوہ نواز شریف اور عمران خان جیسے "تراشیدہ" سیاست دانوں کے درمیان بهی کافی دنوں سے جاری و ساری ہے، اور اب تک "تجربہ کار" نواز شریف کا پلہ اس میدان میں بظاہر بهاری دکهائی دے رہا تھا لیکن "مہربانوں" کی جانب سے سندھ کو فتح کر کے موصوف کی جھولی میں ڈال دینے کے وعدوں کا خود کو اہل و حق دار ثابت کرنے کیلئے اندرون سندھ پہنچنے والا "خان اعظم"، حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا کے مصداق اب شریف البنجاب کو کہیں پیچھے چھوڑتا محسوس ہورہا ہے ..
شوکت خانم ہسپتال کیلئے بیرون ملک سے بھجوائے گئے تین ملین ڈالرز کا حساب کتاب مانگنے کے "جرم" میں فنڈنگ کرنے والے کو دھکے اور گالیاں دے کر بنی گالہ پیلیس سے باہر پهنکوانے والا کرپٹ خان شکار پور میں بیٹھ کر خاکیوں کی زبان میں "سندھ کو سب صوبوں سے زیادہ کرپٹ" کہتا نظر آتا ہے تو کندھ کوٹ پہنچ کر "ازخود اختیارات" کے تحت "رینجرز کو کرپشن کے خلاف کارروائی" کی ترغیب مزید دے کر کرپٹ ترین جرنیلوں سے شاباش وصول کرنے کی بھونڈی کوشش کرتے ہوئے بهول جاتا ہے کہ وہ خیبر پختون خوا کے سابق وزیر صحت شوکت یوسفزئی کو اس کی تسلیم شدہ کرپشن پر نہیں بلکہ صوبائی محکمہ صحت کیلئے ادویات اور آلات جراحی کی سپلائی کے ٹهیکے پارٹی کے جنرل سیکرٹری ترین کی کمپنی کی بجائے (وزیر موصوف کی) اپنی پسندیدہ کمپنیوں کو دینے پر معزول کر چکا ہے ...
اور تو اور کنفیوزڈ خان کو حسبِ عادت یہ بهی یاد نہ رہا کہ رینجرز سمیت تمام دفاعی اداروں کے فرائض منصبی صرف "دہشت گردی کا قلع قمع اور امن و امان کی بحالی" تک محدود ہیں اور نا ملکی آئین اور ناہی سندھ حکومت کی طرف سے فراہم کردہ مینڈیٹ کی رو سے کرپشن کے خلاف، خالص انتظامیہ کے دائرہ کار میں آنے والے تمام تر اقدامات رینجرز کی ذمہ داری میں کسی بھی طرح شمار کئے جاسکتے ہیں ...
مکمل تحریر >>

3 ستمبر، 2015

منطقی انجام..!!

"ضربِ سندھ (المعروف کراچی آپریشن) کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا"؛ خاکی شریف کے ساتھ سفید شریف کا مکمل اتفاق ..
جی ہاں؛ آپ بالکل درست سمجھ رہے ہیں، بعینہ وہی "منطقی انجام"، بهکے بنگالیوں سے جان چھڑانے کیلئے جس تک "آپریشن مشرقی پاکستان" کو پہنچایا گیا تها .. نئے ہوں یا پرانے یہ "اجڈ" سندهی بهلا بنگالیوں سے اچهے ہیں ..؟؟
نہ ہم اپنے پالتو دہشت گردوں کو ختم کر سکتے ہیں اور نہ ہی خود بنائے "ازلی دشمن" کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں؛ چلو تاریخ ہمیں دنیا کے نقشے پر "بنگلہ دیش" کے بعد ایک اور نئے ملک "سندھو دیش" کے بانی مبانی کے طور پر تو یاد رکهے گی نا ..
کیا کریں؛ ہم روزانہ کے حساب سے درجنوں "نامعلوم" دہشت گردوں کو ٹی وی چینلز پر پرانی وڈیوز اور نئی پریس ریلیزز چلا چلا کر "کیفرکردار" تک پہنچا دیتے ہیں لیکن ہمارا "پالنہار" امریکہ بہادر ہے کہ مان کر ہی نہیں دیتا کہ ہم دہشت گردی کے خاتمے میں واقعی سنجیدہ ہیں، پس آئے روز معاوضے کی قسط روک دیتا ہے ...
اور ازل سے ہمارا ویری بهارت ہے کہ منہ توڑ جواب کی ہماری بلند آہنگ دھمکیوں کا اس پر ذرا سا بھی اثر نہیں پڑتا؛ آئے دن لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی جوانوں سمیت نہتے شہریوں کو نشانہ بنانے سے باز ہی نہیں رہتا ...
اندریں حالات ہمارے پیارے الباکستانیو؛ آپ خود فیصلہ کر لو کہ ہمارے پاس سندھ کو الگ کر دینے کے علاوہ کرنے کا اور کام رہ ہی کیا جاتا ہے، آخر ہم نے اپنی بهاری تنخواہیں بهی تو حلال کرنا ہیں ...
باقی اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے اس "انتباہ" سے ہمارے سندھو دیش بنانے کے "نیشنل ایکشن پلان" پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا کہ "ریاست باقی رہے گی تو ادارے بهی رہیں گے"...
ہمیں تو جو بهی اچها نہیں لگے گا، اسے بنگالیوں کی طرح علیٰحدگی پر مجبور کرتے رہیں گے ............. تا آنکہ رہے نام اللہ کا
مکمل تحریر >>

نہ بجلی،نہ گیس اور اب پٹرول بھی نایاب؟

ہم عوام بھی کتنے بھولے بھالے ہیں جو دوسروں کی باتوں میں آجاتے ہیں اورہر نئی قیادت سے اُمیدوں کے پہاڑ پر پہنچ جاتے ہیں۔لیکن اللہ بھلا کرے ہمارے حکمرانوں کا،وہ جلد ہی پہاڑ سے منہ کے بل ایسادھکا د یتے ہیں کہ اس کے زخم مندمل ہو بھی جائیں مگرنشان باقی رہ جاتے ہیں۔ہمارے حکمران یا توعوام کی حالت زار سے بے خبر ہیں یا پھر جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں جو انہیں ہر بحران کی خبرکئی دنوں بعدخبر ہوتی ہے اور پھرحسب سابق وہی نام نہاد   ”ایکشن“لیا جاتاہے جس میں اصل ذمہ دار کو توبچالیا جاتا ہے جبکہ چند ایک کو معطل کیا جاتاہے وہ بھی کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ جب معاملہ ٹھنڈا ہوتاہے تمام تر سہولیات اور بقایا جات کی ادائیگی کیساتھ بحال ہو جاتے ہیں۔
ابھی عوام کو بجلی،گیس کی ”جدائی“بھولنے بھی نہ پائی تھی کہ حکومت نے پٹرول کا ایسا جھٹکا دیا ہے کہ لوگوں نانی یاد کروا دی ہے۔پٹرول کی اتنی ”قدروقیمت“ہوگئی ہے کہ اب پٹرول کے حصول کے لیے بھی سفارش کروانی پڑ رہی ہے،پمپ مالکان سرعام منہ مانگی قیمت وصول کر رہے ہیں اگرآپ کسی کی شکایت حکام بالا سے کر بھی دیں تو وہ بھی کچھ نہیں کریں گے کیونکہ ان کو بھی ان کا ”حصہ“پہنچتا ہے۔اوّل تو پٹرول پمپ مالکان بھی آج کل حکومت کی طرح بات سننے کو تیار نہیں اور اگر آمادہ ہو بھی جاتے ہیں تو کئی گنا قیمت وصول کرکے حکومت کی ’بیک ڈور ڈپلومیسی‘کی طرح ”بیک ڈور“سے ہی مستفید فرمائیں گے،دوسرا زیادہ تر تو پٹرول پمپ بند ہیں جو کھلے ہیں ان پر لوگوں کی ”دیوار چین“آپ کو دور سے ہی نظر آئے گی۔پٹرول کا اگر یہی پرسان حال رہا تو مستقبل قریب میں مانگنے والا گدا گر بھی شائد یہی صدا لگایا کرے:اللہ کے نا م پر تھوڑا سا پٹرول دے دے رے بابا۔یا اللہ کے نام پہ دس روپے دیدے اللہ تجھے پٹرول دے۔
لوگ اس قدر ذلیل و خوار ہورہے ہیں کہ ہر سڑک پرآپ کو”پٹرول کے متاثرین“ملیں گے کوئی موٹر سائیکل کو سڑک پر پیدل گھسیٹتا ہوا ساتھ بیوی بچے بیچارے مارچ کرتے ہوئے،تو کوئی گاڑی کو دھکا لگاتا ہوا،کوئی بے بسی کے عالم میں سڑک کنارے کھڑا کسی مسیحا کا انتظار کرتے ہوئے،جدھر جاؤہر چوک،چوراہے پر پٹرول کے ہی چرچے ملیں گے۔دہشت گردی کے خطرے کی بدولت پہلے ہی طلباء کا کافی تعلیمی نقصان ہو رہا تھا اب پٹرول کی قلت کے باعث سکول وین والوں نے بھی جواب د یدیا ہے،مریض راستوں میں دم توڑ رہے ہیں،گاڑیوں سے پٹرول چوری ہو رہا ہے،وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔
میری اعلیٰ حکومتی عہدیداران سے التماس ہے کہ زبانی جمع خرچ کی بجائے ایسے عملی اقدامات کیے جائے جس سے جتنی جلدی ممکن ہو ایسے باربار جنم لینے والے بحرانوں اور جگ ہنسائی سے بچا جا سکے،اور پیچارے عوام کوبھی سکھ کا سانس نصیب ہوسکے۔
مکمل تحریر >>

2 ستمبر، 2015

قدم بڑھاؤ راحیل شریف‘عوام تمہارے ساتھ ہے

گذشتہ چند سالوں سے وطن عزیز میں دہشت گردی،فرقہ واریت اور ٹارگٹ کلنگ پورے عروج پر رہی ہے جس سے ہر اک محب ِوطن شہری اور امن کا داعی پریشان تھا مگرجب چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے حلف اٹھایا توان کے خاندانی پس منظر کو دیکھتے ہوئے اور ان کے پہلے ہی خطاب(جس میں انہوں نے پاکستان کواندرونی وبیرونی خطرات سے پاک کرنے کا اعادہ کیا تھا)سے ہرانسان دوست اورپاک سر زمین سے محبت و عقیدت رکھنے والے کے دل میں یہ اُمید پیدا ہوئی کہ شائد ہم بھی ایک ایسے معاشرے کو پروان چڑھتا ہوا دیکھ سکیں گے جس میں انسانیت کی قدر کی جا ئے گی اورنہ کہ ایسے معاشرے میں جہاں اسے جس کاجی چاہا جانوروں کی طرح، سڑکوں اور چوراہوں پر ذبح نہیں کیا جائے گا،جہاں اس وطن کے معصوم پھولوں کو محض صرف سکول سے دور رکھنے کی غرض سے نہیں مسل دیا جائے گا،یا بیچارے غریب،بھوک کے ماروں مزدوروں کو صرف پیسوں کی حرص کی بدولت زندہ نہیں جلادیا جائے گا۔
حالات جیسے بھی ہوں ہم سب کے انفرادی و اجتماعی فرائض ہیں جواس ملک کا شہری ہوتے ہوئے ہم سے ہمارے مثبت کردار کو ادا کرنے کا تقاضا کرتے ہیں اور اگراب کی بار بھی ہم اپنا مثبت حصہ ڈالنے سے قاصر رہ گئے تو شائد آئندہ ہمیں موقع نہ ملے اور ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کوستی رہیں۔پاکستان آرمی نے جہاں ”آپریشن ضربِ عضب“میں دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے وہاں اندرون ِملک بھی ملک دشمنو ں کا صفایا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھ رہی ہے۔مگر افسوس در افسوس کہ ہماری سیاسی قیادت نے ہمیشہ دوغلے پن اور منافقت کی پالیسی کو اپنایا ہے۔جہاں اپنا مفاد نظر آتا ہے وہاں سب اکٹھے ہو جا تے ہیں اور اس نام نہاد’’مفاہمت‘‘کو جمہوریت کا ”حسن“قرار دیتے ہیں اور جہاں مفادات کو ذرا سی ٹھیس پہنچنے لگتی ہے تو ”جمہوریت کو خطرہ‘‘ قرار دے کر عوام کو طرح طرح کی ”گولیاں“دیتے ہیں۔جب آرمی ”آپریشن ضرب ِعضب“ کرے تو صحیح جب’’کراچی آپریشن“ہو تو غلط۔واہ جی واہ!یعنی ”میٹھا میٹھا ام ام،کڑوا کڑوا تھو کوڑی“۔یا ہمارے جمہوریت کاراگ الاپنے والے لیڈروں کی مثال ایک ایسی عورت کی سی ہے جو اپنے شادی شدہ بیٹے کو اکثر ان الفاظ میں لعن طعن کیا کرتی تھی”میرا بیٹا اتنا بُرا ہے کہ جوکماتاہے اپنی بیوی کو لاکر دیتا ہے،اس سے اچھا تو میرا داماد ہے جو کما تا ہے لاکر میری بیٹی کو دیتا ہے۔“یعنی آرمی باقی سارے کام کرے تو صحیح اورلٹیروں کی کرپشن پکڑے تو غلط۔۔۔۔
محترم جنرل راحیل شریف صاحب!ان سیاستدانوں کو چھوڑیں یہ نہ خود کچھ کرتے اور نہ کرنے دیتے ہیں۔قوم اب آپ کی طرف دیکھ رہی ہے،اس ملک میں حقیقی جمہوریت کیلئے،امن وخوشحالی کیلئے اوراس قوم کی کھوئی ہوئی خوشیوں کو واپس لانے کیلئے ہر محب وطن پاکستانی آپ کے ساتھ ہے آپ جو کر رہے ہیں،اس پرڈٹے رہیں اوراب موقع ملا ہے کہ ایک بار اس ملک کے ”گند“کو صاف کر دیں جو برسوں سے پڑامختلف”بیماریاں“پھیلا رہا ہے،اس ”گند“نے اس قوم سے اس کے بنیادی حقوق کوبھی اس سے دور کر دیا ہے۔ روز روز کے رونے سے ایک بار کا رونا بہترہوتا ہے۔آرمی چیف صاحب کے کرپشن کے خلاف حالیہ آپریشن کے بعدجنرل راحیل شریف کی عوامی مقبولیت اپنی آخری حدوں کوچھو رہی ہے جس کے بعداب یہ ہر اک پاکستانی کا نعرہ بنتاجارہاہے:
”قدم بڑھاؤ راحیل شریف‘عوام تمہارے ساتھ ہے“

مکمل تحریر >>

سامراجی ایجنڈہ پر مسلط کی گئی "شریف" حکومت..!

کاٹ کر زبان میری مجهے کہہ رہا تھا وہ
اب تمہیں اجازت ہے حال دل سنانے کی
سابق صدر زرداری کی حکومت کے خلاف لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، کرپشن، نااہلی، دہشت گردی اور سرحدوں کے عدم تحفظ سمیت سفارت کاری میں ناکامی جیسے الزامات کی لفاظی پر پروپیگنڈہ کرنے والے تمام عناصر کو عدلیہ اور فوج کی جانب سے سامراجی ایجنڈہ پر مسلط کی گئی "شریف" حکومت کے اڑھائی برس میں ہی ان تمام "اصطلاحات" کے درست ترین معانی سمجھ آچکے ہیں، اب صرف آصف زرداری کی فہم و فراست کا اعتراف باقی ہے، جس کی مدد سے وہ ناصرف پانچ برس تک ریاستی گاڑی کو نا ہموار شاہراہ پر دھکیلتا رہا؛ بلکہ "قومی مفاد" کے نام پر غلیظ کهیل کهیلنے والے شاطر خاکیوں، انتشار چودھری کی مادر پدر آزاد عدلیہ اور عیار شرفاء کی پنجاب حکومت کی گھناؤنی مشترکہ سازشوں کے باوجود چند اہم کامیابیاں بهی حاصل کرلیں۔
1. 1973 کے آئین کی اصل حالت کے قریب قریب بحالی، جس کا سب سے بڑا فائدہ نواز شریف نے تیسری مرتبہ وزیراعظم بن کر اٹھایا
2. خارجہ پالیسی کا چین و روس کی جانب میجر ٹویسٹ، جس کی مدد سے موجودہ شریف ریجیم امریکہ اور مغربی بلاک کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہی ہے
3. رسوائے زمانہ آئی ایم ایف کے چنگل سے چھٹکارہ، شرفاء نے اپنی نالائقی اور کاروباری مفادات کی خاطر جس کے شکنجے میں ملک و قوم کو دوبارہ جکڑ دیا
..... شدت درد میں کمی نہ آئی ذرا بھی
درد، درد ہی رہا الٹا بهی لکها سیدھا بهی لکها
مکمل تحریر >>

نظریاتی لوگ قابل فخر ہیں۔۔!

نظریاتی لوگ قابل قدر ہوتے ہیں، با وفا ہوتے ہیں، مستقل مزاج ہوتے ہیں، اپنے نظریات کے لئے تن، من اور دہن کی بازی لگا دیتے ہیں۔ نفع و نقصان اور سود و زیاں سے بالا تر ہوتے ہیں۔ صاحب الرائے ہونا بہت اہم ہے۔ لیکن رائے منطقی ہونی چاہیے اور ذاتی مفادات سے آزاد ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ 
نظریاتی لوگوں کا دوست، ساتھی، ہمنوا ان کا ہم خیال ہوتا ہے۔ ہم خیالی کا رشتہ سب رشتوں سے مضبوط ہوتا ہے۔ جوش ملیح آبادی نے اپنے زبردست ہم خیال اور شاگرد خاص مصطفیٰ زیدی کی موت پر لکھا تھا کہ آج زیدی کے بھائی، بہن اور دیگر خونی اور دنیاوی رشتہ دار اپنے اپنے رشتوں کے نقصان پر رو رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ وہ کیا کریں، ان کا صدمہ سب سے گہرا ہے۔ لکھتے ہیں، میرا من کا رفیق جدا ہو گیا۔
تیری موت نے غم کی لے دی
زیدی زیدی کہاں ہے بیٹا زیدی
نظریاتی لوگوں میں بلا کی قوت برداشت ہوتی ہے اور مناسب سمجھوتے بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ہم خیال بھی نہ ہو، مخالف الخیال ہو اور ان پر نافذ ہو کر ان کے نظریات کے خلاف اور اپنے نظریات کے حق میں استعمال کرنا چاہیتو پھر ایسے شخص کا کوئی بھی مقام و مرتبہ ہو وہ نا قابل برداشت اور قابل نفرت بن جاتا ہے۔ دوسروں کو اپنے مقاصد اور انا کے لئے استعمال کرنا سراسر بد معاشی، غنڈہ گردی اور نوسر بازی کیزمریمیں آتا ہے۔ آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہیاور اپنے نظریات سے وفاعظیم ترین جذبہ ہے۔
 غالب نے کہا ہے۔
وفاداری، بشرط استواری، اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں، کعبہ میں گاڑو برہمن کو

مکمل تحریر >>

دہشت گردی میں جنگی صنعت اور ملا گردی کا کردار

جنگی صنعت، دہشتگردی، فرقہ واریت اور بین الاقوامی تجارتی راہداری کی حفاظت کا 
آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
اگر دنیا میں جنگ کا خاتمہ ہو جائے تو اسلحہ سازی کے کارخانے بند ہو جائیں گے۔ کیا اسلحہ کے سوداگر ایسا چاہیں گے؟
اگر دنیا میں نفرتیں ختم ہو جائیں تو اسلحہ کون خریدے گا؟
اگر فرقہ وارانہ مدارس بند ہو جائیں تو نفرت کون پھیلائے گا؟ واضع رہے کہ تمام فرقوں کے مدارس میں دوسروں کے خلاف نفرت پھیلائی جاتی ہے۔ اسلامی دنیا بالخصوص پاکستان میں کوئی مدرسہ اسلامی یا مسلمانوں کا نہیں ہے، سب کے سب کسی نہ کسی فرقے کے ہیں جہاں نفرت اور احساس برتری کی تربیت دی جاتی ہے۔ کوئی مسجد، کوئی عبادت گاہ ایسی نہیں جو سب کے لئے ہو۔
جب تک فرقہ وارانہ مدرسے موجود رہیں گے، دہشتگرد پیدا ہوتے رہیں گے۔ 
پاکستان میں تو دہشتگردی بھی ایک اہم انڈسٹری بن چکی ہے۔
اس لیا عوام الناس کو بیدار ہونا پڑے گا۔ نفرت ختم کرنا ہو گی۔ ایک دوسرے کا احترام کرنا ہو گا۔ اسلحے کا استعمال ترک کرنا ہو گا۔ اسلحے کی فیکٹریاں بند کروانا ہوں گی۔
مکمل تحریر >>

دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری ہے۔۔!

ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ یہ جنگ ہماری ہے۔ کیونکہ چوکوں، چوراہوں میں، مسجدوں میں، امام بارگاہوں، سکولوں میں، ہسپتالوں میں، درباروں اور  بازاروں میں غرضیکہ پاکستان میں ہر جگہ دہشتگرد بمباروں اور خودکش حملہ آوروں کے ہاتھو ں بے گناہ پاکستانی ہی مارے جا رہے ہیں، لیکن طالبان کے ہمدرد مختلف توجیحات کے ذریعے اسے پاکستان کی جنگ ماننے کو  تیار نہ تھے۔ 
یہ جنگ عسکری سے زیادہ نظریاتی جنگ ہے جس میں طالبان کے نظریات سے اختلاف رکنیے والے سیاستدانوں، مذہبی رہنماؤں اور فوج اور نیوی کے افسروں، جوانوں، پولیس اور رینجرز کے جوانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ انتہا یہ ہے کہ سکول کے بچوں کو بد ترین طریقے سے مارا گیا۔ 
اب اگر قوم نے بالخصوص پارلیمانی پارٹیوں نے متفقہ طور پر مان لیا ہے کہ یہ ہماری جنگ ہے تو یہ بین مان لیں کہ اس جنگ کا محاذ عسکری سے زیادہ نظریاتی ہے۔ اور جن غیر عسکری شخصیتوں نے طالبان کو للکارتے ہوئے باہدری کے ساتہ جام شہادت نوش کیا ہے، انہیں قومی ہیرو قرار دیتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا جائے کیونکہ وہ پوری قوم کے لیے باعث فخر ہیں۔ ان میں سر فہرست شہید محترمہ بینظیر بٹوو ہیں۔ ان میں بشیر احمد بلور، سلمان تاثیر، شہباز بھٹی اور بے شمار شہدا شامل ہیں۔ بھارت کے خلاف جنگوں میں بہادری کے ساتھ جام شہادت نوش کرنے والے اور نشان حیدر جیسے اعلیٰ ترین تمغے حاصل کرنے والے ہمیشہ کے لئے قابل صد احترام اور سر آنکھوں پر، لیکن دہشت گردی کی جنگ میں جام شہادت نوش کرنے والے فوجی افسروں، جوانوں، پولیس، رینجرز کے افسروں، جوانوں اور سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں کو اعلیٰ ترین قومی اعزازات دے کر قومی اتحاد کو مضبوط کیا جائے۔ ان کی تصویریں ٹی وی چینلوں پر دکھائی جائیں۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کی سب سے بڑی شہادت بینظیر بھٹو  نے پیش کی ہے۔ وہ نظریاتی محاذ کی سب سے بہادر شہید ہیں۔ ان کی شہادت صرف اپنی پارٹی کے لئے نہیں بلکہ پوری قوم کے لئے ہے۔ وہ بین الاقوامی راہنما تھیں، وہ پاکستان کی قابل فخر شناخت تھیں۔ انہیں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بہادری کے ساتھ جام شاردت نوش کرنے پر "نشان حیدر" دیا جائے۔

مکمل تحریر >>

جہالت کیا ہے۔۔۔؟

جہالت پڑھا لکھا نہ ہونا نہیں ہے، ہرگز بھی نہیں ہے۔ جہالت ان پڑھ ہونا بھی نہیں ہے۔ جہالت لا علم ہونا بھی نہیں ہے۔
جہالت ہٹ دھرمی کا نام ہے۔ سچائی واضع ہونے کے باوجود اسے نہ ماننا جہالت ہے۔ کسی مفاد کے نقصان کے ڈر سے سچائی کو نا ماننا جہالت ہے۔ سچائی واضع ہو جانے کے باوجود اپنے قبائلی یا خاندانی عقائد و رسومات کے ساتھ جڑے رہنا جہالت ہے۔ فرسودہ رسومات کا دفاع کرنا جہالت ہے۔ چنانچہ عمر بن ہشام، جسے ابوالحکمت یعنی حکمت کا باپ کہا جاتا تھا، اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے، اپنے سرداری نظام کے خاتمے کے ڈر سے، کنیزوں اور غلاموں کو حقوق نہ دینے کی وجہ سے، بلا وجہ میں نہ مانوں کی رٹ لگائے رکھنے کی وجہ سے ابو جہل کہلایا۔ یعنی جہالت کا باپ۔
مکمل تحریر >>

تلاش کیجئے