نظریاتی لوگ قابل قدر ہوتے ہیں، با وفا ہوتے ہیں، مستقل مزاج ہوتے ہیں، اپنے نظریات کے لئے تن، من اور دہن کی بازی لگا دیتے ہیں۔ نفع و نقصان اور سود و زیاں سے بالا تر ہوتے ہیں۔ صاحب الرائے ہونا بہت اہم ہے۔ لیکن رائے منطقی ہونی چاہیے اور ذاتی مفادات سے آزاد ہونا بھی بہت ضروری ہے۔
نظریاتی لوگوں کا دوست، ساتھی، ہمنوا ان کا ہم خیال ہوتا ہے۔ ہم خیالی کا رشتہ سب رشتوں سے مضبوط ہوتا ہے۔ جوش ملیح آبادی نے اپنے زبردست ہم خیال اور شاگرد خاص مصطفیٰ زیدی کی موت پر لکھا تھا کہ آج زیدی کے بھائی، بہن اور دیگر خونی اور دنیاوی رشتہ دار اپنے اپنے رشتوں کے نقصان پر رو رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ وہ کیا کریں، ان کا صدمہ سب سے گہرا ہے۔ لکھتے ہیں، میرا من کا رفیق جدا ہو گیا۔
تیری موت نے غم کی لے دی
زیدی زیدی کہاں ہے بیٹا زیدی
نظریاتی لوگوں میں بلا کی قوت برداشت ہوتی ہے اور مناسب سمجھوتے بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ہم خیال بھی نہ ہو، مخالف الخیال ہو اور ان پر نافذ ہو کر ان کے نظریات کے خلاف اور اپنے نظریات کے حق میں استعمال کرنا چاہیتو پھر ایسے شخص کا کوئی بھی مقام و مرتبہ ہو وہ نا قابل برداشت اور قابل نفرت بن جاتا ہے۔ دوسروں کو اپنے مقاصد اور انا کے لئے استعمال کرنا سراسر بد معاشی، غنڈہ گردی اور نوسر بازی کیزمریمیں آتا ہے۔ آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہیاور اپنے نظریات سے وفاعظیم ترین جذبہ ہے۔
غالب نے کہا ہے۔
وفاداری، بشرط استواری، اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں، کعبہ میں گاڑو برہمن کو