5 ستمبر، 2015

کوئی حماقت سی حماقت..!!

مجهے یقین ہے کہ چرچل آج زندہ ہوتا تو اپنے شہرہ آفاق قول کہ "جنگ جیسا نازک کام جرنیلوں کے بھروسے پر نہیں چهوڑا جاسکتا" میں "جرنیلوں" کے بعد "ایٹمی سائنس دانوں" کا اضافہ ضرور کرتا۔۔
خواتین و حضرات؛ بقول سابق فضائیہ چیف ائیر مارشل اصغر خان انڈیا کے خلاف ہر جنگ خود چهیڑ کر ہربار منہ کی کهانے والے "سورماؤں" کے بعد نام نہاد سائنسدان بهی شاہراہ حماقت پر بگٹٹ رواں دواں ہوگئے۔۔
قوم کو 1965میں معلوم نہیں کونسی جیتی جنگ کے جشن فتح کے نشے میں مست پا کر، عالمی سطح پر تسلیم شدہ سائنسی معیار کی رو سے "ایٹمی ٹیکنیشن" سے زیادہ مقام نہ رکهنے والے ثمر مبارک مند کو ایک اور ایٹمی ٹیکنیشن اور خود ساختہ "محسن پاکستان" عبدالقدیر خان سے ہتھ جوڑی کے بعد الباکستان سے دس گنا بڑی طاقت انڈیا کے ساتھ پنجہ آزمائی کا شوق جا چرایا فرماتے ہیں "بهارت ہمارے مقابلے میں کچھ بھی نہیں؛ ہمارے پاس سینکڑوں ایٹم بم موجود ہیں، چند سیکنڈ میں پورے بهارت کو نیست و نابود کر دیں گے"... ایتهے رکھ
بندہ پچهے "پتر جی؛ 1971 میں تو چلئے آپ کے پاس ایٹم بم نہیں تها، یہ سیاچن اور کارگل کی معرکہ آرائیوں میں نیست و نابود ہونے سے کون بچا اور وہ بهی امریکہ بہادر کی منت سماجت کے بعد..؟؟"
جی ہاں؛ وہی امریکہ بہادر جس کے ترلے کرنے کے بعد "معاہدہ تاشقند" کی شرمناک شرائط تسلیم کر کے آپ 1965 میں بمشکل ملک بچانے میں کامیاب ہو سکے تهے اور اسی لئے ہرسال 6 ستمبر کو آپ "یومِ فتح" کی بجائے "یومِ دفاع" کا درست نام دینے کے باوجود اپنے تئیں "جشن فتح" کا سماں پیدا کر کے خوشیاں منا کر خود کو بے وقوف بنا رہے ہوتے ہو؛ ورنہ ساری دنیا جانتی ہے کہ اگر جنگ خدانخواستہ 18 ویں دن میں داخل ہو جاتی تو ملک کا بچنا محال تھا ..
ثمر مبارک مند بهی شاید ہمارے سورماؤں کی طرح اس "خوش فہمی" میں مبتلا دکهائی دیتے ہیں کہ بهارت پورے کا پورا آنکھیں بند کئے سورہا ہے کہ ہم جب چاہیں، اسے غفلت میں جا لیں گے اور وہ ہمارے حملے کی اطلاع پاتے ہی ہم سے پہلے ہی ہم پر چڑھ نہیں دوڑے گا ...
ثمر مبارک کو اب کون جا سمجھائے کہ "حضور؛ ایٹم بم کا استعمال بچوں کا کھیل نہیں اور اگر خدانخواستہ اس کی کبهی نوبت آ بهی جاتی ہے تو انڈیا پاکستان جیسے دس ممالک کو اکٹھے صفحہء ہستی سے مٹانے جتنی اہٹمی و حربی صلاحیت ضرور رکهتا ہوگا" ....
جنگ کهیڈ نہیں ہوندی ٹیکنیشناں دی

تلاش کیجئے