تاریخ میں سچ کے لمحے جھوٹ کی صدیوں پر بھاری ہوتے ہیں۔ یہ لمحے بہت نادر ہوتے ہیں، کسی کسی کو میسر آتے ہیں۔ جو ان لمحوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ امر ہو جاتے ہیں۔ یہ لمحے روایات بدلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
آج ہمارا پیارا ملک تاریخ کے دو راہے پر کھڑا ہے۔ ہم بد ترین دہشت گردی کا شکار ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ ہم اسلام آباد میں درجنوں مدرسے بند کرکے یوم دفاع منا رہے ہیں۔ لیکن وہ کونسی مجبوری ہے کہ ہم ان مشکوک مدرسوں کو بند نہیں کر سکتے۔
ہماری سرحدوں پر، ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر مسلسل فائرنگ ہوتی رہتی ہے جس سے قیمتی جانیں ضائع ہوتی رہتی ہیں، مویشی ہلاک ہو جاتے ہیں، عمارات، فصلیں اور باغات تباہ ہو جاتے ہیں۔ اس فائرنگ پر ہمیں ایک ہی خبر بار بار سننے کو ملتی ہے کہ "بھارت نے بلااشتعال فائرنگ کر دی، ہمارے جوانوں نے منہ توڑ جواب دے کر بھارتی توپیں خاموش کر دیں" ہمارے شہری مر رہے ہیں مگر دنیا خاموش ہے، سوزان رائس کہتی ہیں کہ پاکستان دہشت گردی بند کر دے، بھارت فائرنگ نہیں کرے گا۔ سوزان رائس کی بات ایک طرف، ہمارے دوست ممالک بھی خاموش ہیں۔ کبھی کسی نے بھارتی جارحیت کی مذمت نہیں کی۔ ہمالیہ سے اونچی دوستی کا دعوی کرنے والا چین خاموش ہے، مسلم اُمّہ کی رٹ لگانے والے ہمارے عرب دوست خاموش ہیں، ہمارا ہمسایہ ایران خاموش ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے دوست بھی یہی سمجھتے ہیں کہ یہ سب دہشت گردی کے جواب میں ہو رہا ہے۔ ساری دنیا ہم پر دہشت گردی کے الزامات لگاتی رہتی ہے۔
ہمارا دعوی ہے کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ہم دنیا کی بہترین فوج ہیں۔ دنیا سوال اٹھا رہی ہے کہ ہم دو سال سے زائد عرصہ میں شمالی وزیرستان کا ساڑھے تین مربع میل علاقہ آزاد نہیں کروا سکے، دنیا سوال اٹھا رہی ہے کہ آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ کرنے والے افغانستان سے اسلحہ و بارود سمیت چلے، متعدد فوجی چوکیاں کامیابی سے عبور کیں، دو دن پشاور کی کسی مسجد میں امام مسجد کے مہمان رہے، سکول کے راستے میں آنے والی دو فوجی چیک پوسٹیں کامیابی سے عبور کیں اور سکول کے معصوم بچوں کا قتل عام کرنے لگے۔ دنیا ہماری محب وطن فوج کے کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔
میڈیا پر دہشت گردوں کے حامیوں کا قبضہ ہے اور ان کا خوف طاری ہے، عدالتیں دہشت گردوں کے خوف سے کانپ رہی ہیں اور ان قاتلوں کے حق میں فیصلے کر رہی ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ انتہائی خوفناک ہے، ہمارے 70000 سے زائد بیگناہ شہری دہشتگردوں اور خود کش حملہ آوروں کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں، ہمارے فوجی افسر اور جوان ان دہشت گردوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر چکے ہیں، پولیس کے سینکڑوں افسر و سپاہی اپنے قومی فرائض انجام دیتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔ اور بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ایسی مذہبی تنظیمیں اور راہنما موجود ہیں جو دہشت گردوں کے ہاتھوں مرنے والوں کو شہید ماننے انکاری ہیں اور دہشتگردوں اور طالبان کو ہیرو قرار دیتے نہیں تھکتے۔،
ہماری جنگ عسکری سے کہیں زیادہ نظریاتی ہے۔ جو لوگ نظریاتی طور پر دہشت گردوں کے خلاف ہیں اور دہشتگردوں کے بدترین نشانے پر ہیں، وہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ سیاسی اور مذہبی قوتیں غنیمت ہیں جو دہشت گردوں کو بر سر عام للکارتی ہیں۔ یہ جنگ نظریاتی ہے، نظریاتی محاذ اہم ہے۔ نظریاتی محاذ پر بہادری سے لڑتے ہوئے جنہوں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں، وہ اعلی ترین قومی اعزازات کے مستحق ہیں۔ جس طرح عسکری جنگ لڑنے والے بہادروں کو اعلی ترین فوجی و قومی اعزازات سے نوازا جاتا ہے، اسی طرح ضرورت اس امر کی ہے کہ ان نظریاتی شہیدوں کی قربانی کا بھرپور اعتراف کیا جائے تا کہ قوم ان کے نقش قدم پر چلتی ہوئی دہشتگردوں کے خلاف صف آرا ہو اور دہشتگردوں کے حامیوں کی گز گز لمبی زبانیں خاموش ہوں۔
نظریاتی محاذ کی سب سے بڑی شہید بینظیر بھٹو ہیں جو اعلی ترین قومی اعزاز کی مستحق ہیں، اس راہ حق کے شہیدوں میں سلمان تاثیر، شہباز بھٹی، بشیر احمد بلور، سانحہ کارساز کراچی، لیاقت باغ راولپنڈی اور دیگر سینکڑوں شہدا شامل ہیں۔ پاک فوج کے شہدا سر آنکھوں پر مگر 70000 سویلین شہدا کو یاد رکھنا چاہئے، ان کا بھی کوئی یوم شہدا منانا چاہئے۔ بینظیر بھٹو شہید اور دیگر شہدا کے ایام شہادت قومی سطح پر منائے جانے چاہئیں۔ ایک زبردست نظریاتی و عسکری اتحاد کی ضرورت ہے، قوم نے ملا ملٹری اتحاد کی تباہ کاریاں دیکھ لیں، اب لبرل ملٹری اتحاد کی ضرورت ہے۔ یہ قوم کی ضرورت ہے، ملک کی ضرورت ہے۔
محترم راحیل شریف صاحب! اہم فیصلے کی گھڑی ہے۔ ایوب، یحی، مشرف، ضیا کی راہ چھوڑ دیجئے۔ ملک پر قبضہ کرنے کی سوچ چھوڑ دیجئے، دہشتگردی کے مخالفین کے ساتھ اتحاد بنا کر تاریخ کا رخ موڑ دیجئے۔
ہم جانتے ہیں کہ یہ مشکل فیصلہ ہے مگر کسی نہ کسی کو تو کرنا ہے، آج نہیں تو کل کرنا ہے۔ آپ ہی ہمت کیجئے، اپنے خاندان کو ملنے والے نشان حیدر کی لاج رکھُیے۔ آپ کے پیشرو ایوب، یحیی، مشرف، ضیا اور دیگر تو تاریخ کے گمنام قبرستان کا حصہ بن چکے۔ آپ امر ہو جائیے۔
قدم بڑھاؤ، ہمت دکھاؤ راحیل شریف! ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد