ہم عوام بھی کتنے بھولے بھالے ہیں جو دوسروں کی باتوں میں آجاتے ہیں اورہر نئی قیادت سے اُمیدوں کے پہاڑ پر پہنچ جاتے ہیں۔لیکن اللہ بھلا کرے ہمارے حکمرانوں کا،وہ جلد ہی پہاڑ سے منہ کے بل ایسادھکا د یتے ہیں کہ اس کے زخم مندمل ہو بھی جائیں مگرنشان باقی رہ جاتے ہیں۔ہمارے حکمران یا توعوام کی حالت زار سے بے خبر ہیں یا پھر جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں جو انہیں ہر بحران کی خبرکئی دنوں بعدخبر ہوتی ہے اور پھرحسب سابق وہی نام نہاد ”ایکشن“لیا جاتاہے جس میں اصل ذمہ دار کو توبچالیا جاتا ہے جبکہ چند ایک کو معطل کیا جاتاہے وہ بھی کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ جب معاملہ ٹھنڈا ہوتاہے تمام تر سہولیات اور بقایا جات کی ادائیگی کیساتھ بحال ہو جاتے ہیں۔
ابھی عوام کو بجلی،گیس کی ”جدائی“بھولنے بھی نہ پائی تھی کہ حکومت نے پٹرول کا ایسا جھٹکا دیا ہے کہ لوگوں نانی یاد کروا دی ہے۔پٹرول کی اتنی ”قدروقیمت“ہوگئی ہے کہ اب پٹرول کے حصول کے لیے بھی سفارش کروانی پڑ رہی ہے،پمپ مالکان سرعام منہ مانگی قیمت وصول کر رہے ہیں اگرآپ کسی کی شکایت حکام بالا سے کر بھی دیں تو وہ بھی کچھ نہیں کریں گے کیونکہ ان کو بھی ان کا ”حصہ“پہنچتا ہے۔اوّل تو پٹرول پمپ مالکان بھی آج کل حکومت کی طرح بات سننے کو تیار نہیں اور اگر آمادہ ہو بھی جاتے ہیں تو کئی گنا قیمت وصول کرکے حکومت کی ’بیک ڈور ڈپلومیسی‘کی طرح ”بیک ڈور“سے ہی مستفید فرمائیں گے،دوسرا زیادہ تر تو پٹرول پمپ بند ہیں جو کھلے ہیں ان پر لوگوں کی ”دیوار چین“آپ کو دور سے ہی نظر آئے گی۔پٹرول کا اگر یہی پرسان حال رہا تو مستقبل قریب میں مانگنے والا گدا گر بھی شائد یہی صدا لگایا کرے:اللہ کے نا م پر تھوڑا سا پٹرول دے دے رے بابا۔یا اللہ کے نام پہ دس روپے دیدے اللہ تجھے پٹرول دے۔
لوگ اس قدر ذلیل و خوار ہورہے ہیں کہ ہر سڑک پرآپ کو”پٹرول کے متاثرین“ملیں گے کوئی موٹر سائیکل کو سڑک پر پیدل گھسیٹتا ہوا ساتھ بیوی بچے بیچارے مارچ کرتے ہوئے،تو کوئی گاڑی کو دھکا لگاتا ہوا،کوئی بے بسی کے عالم میں سڑک کنارے کھڑا کسی مسیحا کا انتظار کرتے ہوئے،جدھر جاؤہر چوک،چوراہے پر پٹرول کے ہی چرچے ملیں گے۔دہشت گردی کے خطرے کی بدولت پہلے ہی طلباء کا کافی تعلیمی نقصان ہو رہا تھا اب پٹرول کی قلت کے باعث سکول وین والوں نے بھی جواب د یدیا ہے،مریض راستوں میں دم توڑ رہے ہیں،گاڑیوں سے پٹرول چوری ہو رہا ہے،وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔
میری اعلیٰ حکومتی عہدیداران سے التماس ہے کہ زبانی جمع خرچ کی بجائے ایسے عملی اقدامات کیے جائے جس سے جتنی جلدی ممکن ہو ایسے باربار جنم لینے والے بحرانوں اور جگ ہنسائی سے بچا جا سکے،اور پیچارے عوام کوبھی سکھ کا سانس نصیب ہوسکے۔