ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ یہ جنگ ہماری ہے۔ کیونکہ چوکوں، چوراہوں میں، مسجدوں میں، امام بارگاہوں، سکولوں میں، ہسپتالوں میں، درباروں اور بازاروں میں غرضیکہ پاکستان میں ہر جگہ دہشتگرد بمباروں اور خودکش حملہ آوروں کے ہاتھو ں بے گناہ پاکستانی ہی مارے جا رہے ہیں، لیکن طالبان کے ہمدرد مختلف توجیحات کے ذریعے اسے پاکستان کی جنگ ماننے کو تیار نہ تھے۔
یہ جنگ عسکری سے زیادہ نظریاتی جنگ ہے جس میں طالبان کے نظریات سے اختلاف رکنیے والے سیاستدانوں، مذہبی رہنماؤں اور فوج اور نیوی کے افسروں، جوانوں، پولیس اور رینجرز کے جوانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ انتہا یہ ہے کہ سکول کے بچوں کو بد ترین طریقے سے مارا گیا۔
اب اگر قوم نے بالخصوص پارلیمانی پارٹیوں نے متفقہ طور پر مان لیا ہے کہ یہ ہماری جنگ ہے تو یہ بین مان لیں کہ اس جنگ کا محاذ عسکری سے زیادہ نظریاتی ہے۔ اور جن غیر عسکری شخصیتوں نے طالبان کو للکارتے ہوئے باہدری کے ساتہ جام شہادت نوش کیا ہے، انہیں قومی ہیرو قرار دیتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا جائے کیونکہ وہ پوری قوم کے لیے باعث فخر ہیں۔ ان میں سر فہرست شہید محترمہ بینظیر بٹوو ہیں۔ ان میں بشیر احمد بلور، سلمان تاثیر، شہباز بھٹی اور بے شمار شہدا شامل ہیں۔ بھارت کے خلاف جنگوں میں بہادری کے ساتھ جام شہادت نوش کرنے والے اور نشان حیدر جیسے اعلیٰ ترین تمغے حاصل کرنے والے ہمیشہ کے لئے قابل صد احترام اور سر آنکھوں پر، لیکن دہشت گردی کی جنگ میں جام شہادت نوش کرنے والے فوجی افسروں، جوانوں، پولیس، رینجرز کے افسروں، جوانوں اور سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں کو اعلیٰ ترین قومی اعزازات دے کر قومی اتحاد کو مضبوط کیا جائے۔ ان کی تصویریں ٹی وی چینلوں پر دکھائی جائیں۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کی سب سے بڑی شہادت بینظیر بھٹو نے پیش کی ہے۔ وہ نظریاتی محاذ کی سب سے بہادر شہید ہیں۔ ان کی شہادت صرف اپنی پارٹی کے لئے نہیں بلکہ پوری قوم کے لئے ہے۔ وہ بین الاقوامی راہنما تھیں، وہ پاکستان کی قابل فخر شناخت تھیں۔ انہیں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بہادری کے ساتھ جام شاردت نوش کرنے پر "نشان حیدر" دیا جائے۔