30 جولائی، 2015

ملک اسحاق کیس؛ ایک نیا معمہ..!!

کہیں اس درندے کی وجہ سے ڈرون کا سلسلہ پنجاب میں بهی تو شروع نہیں ہونے والا تها؟؟.
"عدالتی قتل" کا درخشاں ریکارڈ رکهنے والی ریاست میں ماورائے عدالت قتل یوں تو کوئی غیر معمولی بات نہیں سمجھی جانی چاہئے اور وہ بهی اس صوبے میں، جس کی "پولیس گردی" چند ماہ قبل ماڈل ٹاؤن لاہور میں 15 معصوم جانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے علاوہ اسی سب سے بڑے صوبے کے گورنر کے پولیس سے تعلق رکھنے والے اپنے محافظ کے ہاتھوں دن دہاڑے وفاقی دارالحکومت میں قتل جیسے "شاندار" ریکارڈ کی حامل چلی آرہی ہو ..
لیکن مظفرگڑھ میں رسوائے زمانہ دہشت گرد ملک اسحاق کی "دو طرفہ فائرنگ" کے نتیجے میں اپنے دو بیٹوں سمیت درجن بھر ساتھیوں کے ساتھ ہلاکت کی کہانی، چند عوامل کی بناء پر "سنسنی خیز ڈرامہ" ہی محسوس ہو رہی ہے ...
1. نام نہاد "ضرب عضب" کے باوجود سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی جیسی کالعدم تنظیمیں تاحال "تذویراتی اثاثہ جات" کی مراعات سے مستفید ہو رہی ہیں ..
2. لشکر جھنگوی کا سربراہ یہی ملک اسحاق مادر پدر آزاد عدلیہ سے بار بار "ریلیف" حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ صوبہ پنجاب پر گذشتہ 35 برس سے عملاً قابض چلے آ رہے شرفائے البنجاب کا اتنا زیادہ "چہیتا" رہا ہے کہ اس کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونے کے باوجود اس کا خاندان بعینہ اسی طرح حکومت پنجاب کے ماہانہ بهاری وظائف سمیت دیگر مراعات سے مستفید ہو رہا ہے، جیسے سلمان تاثیر کا قاتل سزائے موت سنائے جانے کے باوجود نام نہاد "خادم اعلیٰ" کی مہربانیوں سے پھانسی کی کال کوٹھڑی میں بھی "فائیو سٹار زندگی" کے مزے لے رہا ہے ..
اندریں حالات؛ اگر "پولیس مقابلہ" کی خبر سچی بهی ہے تو اس کے پس منظر میں اس نامی گرامی بدمعاش پر عالمی برادری کی اعلان کردہ کسی بهاری "ہیڈ منی" کے ساتھ ساتھ شاید خیبر پختون خواہ کے بعد پنجاب میں بهی "عوام دوست" ڈرون کی آمد کے خدشات کارفرما ہو سکتے ہیں ....
ہو سکتا ہے قارئین؛ کہ ہمارے پیارے "شرفاء" کو خبردار کر دیا گیا ہو کہ اگر ملک اسحاق جیسے خطرناک دہشت گرد کا بندوبست نہ کیا گیا تو "ڈرون زدگی" کا سلسلہ پنجاب میں بھی شروع کیا جاسکتا ہے اور پهر اپنے صوبے کو "بدنامی" سے بچانے کیلئے اپنے "تذویراتی اثاثہ" کی قربانی کا کڑوا گھونٹ بهرنا ان کی مجبوری بن گئی ہو؛ جن کی "پالتو" عدالت عرصہ دراز سے انہی کے اشارے پر (یا دہشت گردوں کی طرف سے انتقامی کارروائی کے خوف سے) ملک اسحاق جیسے ان کے "ضمانت کاروں" کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی سے عملاً معذور چلی آرہی ہو؟؟..
مکمل تحریر >>

امریکہ، ایران معاہدہ اور جنم لینے والے سوالات

کچھ سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی جارہی ہے مگر جواب اطمینان بخش نہیں ہیں اور یہ کوشش مزید سوالات کو جنم دے رہی ہے؟
ابتدائی طور پر مندرجہ ذیل نقاط پر غور کی ضرورت ہے۔
۱- انقلاب ایران 1979 سے پہلے شہنشاہ ایران مشرق وسطی اور خطے کے ممالک میں امریکی تھانیدار سمجھا جاتا تھا۔ ایران چونکہ ایک واضع طور پر شیعہ مسلمانوں کی اکثریتی آبادی کا قابل ذکر ملک ہے، اس لئے دنیا بھر بالخصوص پاک و ہند کے شیعہ مسلک کے پیروکار ایران کی طرف دیکھتے ہیں اور اسے ہی اپنا مذہبی قبلہ قرار دیتے ہیں۔ شہنشاہ کے زمانے میں وہی ان کا ہیرو تھا۔
۲- ایران کا ایک تاریخی پس منظر بھی ہے جو اہم ترین ہے۔ ایرانیوں نے سلطنت فارس قائم کی تھی اور گردونواح کے تمام ممالک و اقوام پر طویل عرصہ حکومت کی تھی۔ اس لحاظ سے بھی جدید اقوام عالم میں شہنشاہ ایران کو ایک خاص اہمیت اور اعتماد حاصل تھا۔
۳- ایرانی عوام نے شہنشاہ ایران کے جبرواستبداد کے خلاف طویل جدوجہد کی۔ یہ جدوجہد سالہا سال جاری رہی۔ اس کی قیادت تودہ پارٹی (جو ایک روس نواز سوشلسٹ پارٹی تھی) اور مجاہدین خلق (جو جمہوریت نواز تھے) کرتے رہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر علی شریعتی (جو ایک ترقی پسند دانشور تھے) نے اپنا ایک موثر کردار ادا کیا۔ انہوں نے شیعہ عقائد کی زبردست انقلابی تشریحات کیں، شہنشاہ کو یزید عصر قرار دیا۔ نوجوانوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات کو شہنشاہ کے خلاف متحرک کر دیا۔ ان میں بالخصوص تہران، شیراز اور مشہد کی یونیورسٹیوں کا کردار بہت اہم تھا۔ ایرانی عوام نے لاتعداد شہادتیں قبول کیں، ڈاکٹر علی شریعتی بھی شہید ہو گئے۔ شہنشاہ نے اپنی تنظیم ساوک کی مدد سے بیشمار انقلابی رہنماؤں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنایا، تہران اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر نہتے عوام پر ٹینک چڑھا دئیے، ہیلی کاپٹروں کے ذریعے جلوسوں پر گولیاں برسائیں۔ مگر انقلابی ٹحریک دن بدن زور پکڑتی گئی۔
۴- شہنشاہ ملک چھوڑ کر بھاگ گیا اور اس کے بھاگنے کے بعد ایران کے ہر دلعزیز مذہبی راہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی فرانس سے پیراشوٹ کی طرح نازل ہوئے۔ اب انہوں نے انقلاب کی قیادت سنبھال لی۔ ایرانی عوام نے ان کا عظیم الشان استقبال کیا اور اپنی تمام امیدوں کا مرکز قرار دے دیا۔
۵- امام خمینی نے امریکہ کو شیطان بزرگ قرار دے دیا۔ پورا ایران امریکہ مخالف نعروں سے گونجنے لگا۔ ہر طرف ایک ہی نعرہ تھا۔"مرگ بر امریکہ، مرگ پر روسیا، مرگ بر صدام، ضد اسلام" اور "رہبر رہبر خمینی رہبر" یہ نعرے پاکستان کی شیعہ آبادی نے سالہا سال تک خوب خوب لگائے۔ اور ایران کے ایک نئے دور کے ساتھ امیدیں وابسطہ کر لیں۔
۶۔ شہنشاہ اب امریکہ کے لئے بیکار تھا، اسے امریکہ نے اپنے ہاں پناہ تک نہ دی۔ وہ بالآخر مصر میں اپنی زندگی کے باقی ایام پورے کرکے اس جہان فانی سے اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
۷۔ ایران میں ایک عبوری حکومت تشکیل پائی، جس میں انقلاب میں حصہ لینے والی تمام قوتوں کو نمائندگی دی گئی۔ ایران کے پہلے صدر کا نام بنی صدر تھا جن کا تعلق مجاہدین خلق سے تھا۔ ڈاکٹر علی شریعتی کی تصانیف و کتب کے اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمے ہونے لگے۔ ایک نئے اسلامی آئین کی تیاری شروع کی گئی۔ امام خمینی نے آئین کی بنیاد اپنے مذہبی فلسفے "ولایت فقیہہ" کو قرار دے دیا اور ایک ملک گیر عوامی ریفرنڈم کے ذریعے منظور کروا کر نافذ کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریفرنڈم میں سوال پوچھا گیا کہ "کیا آپ ایران میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں؟ جواب ہاں یا ناں میں دیں" اگر جواب ہاں میں ہوا تو اس کا مطلب ہو گا کہ آپ کو "ولایت فقہہ" پر مبنی امام خمینی کا تجویز کردہ آئین منظور ہے۔ یوں 97 فیصد ووٹوں کی واضع ترین اکثریت نے "ہاں" میں جواب دے دیا۔ معلوم نہیں کہ وہ تین فیصد کون تھے جنہوں نے "ناں" میں ووٹ دینے کی جسارت کی۔
۸۔ اب آئین کی منظوری کے بعد نئے سرے سے حکومت تشکیل پانے لگی۔ شیعہ فقہ کے مذہبی علوم کے ماہرین کے علاوہ کوئی بھی حکومتی عہدے یا رکنیت کا اہل ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ ملک کا اعلی ترین اور با اختیار عہدہ "رہبر" کا تھا۔ اس کے نیچے بارہ رکنی "شوری نگہبان " قرار پائی۔ اس طرح تودہ پارٹی اور مجاہدین خلق کی مکمل چھٹی ہو گئی۔ ڈاکٹر علی شریعتی کی کتابوں کے ترجمے بند کر دئیے گئے اور بتدریج عملی طور پر پابندی لگا دی گئی۔ تب سے ایران میں ڈاکٹر شریعتی کی کتابیں نایاب ہیں۔
۹۔ اب امریکہ نے انقلاب ایران کے بعد ایران کی طرف سے مایوس ہو کر مشرق وسطی اور خطے کی تھانیداری سعودی شہنشاہیت کو سونپ دی۔ ایران امریکہ و اسرائیل کی مخالفت کرتا رہا، ایٹمی پروگرام شروع کیا، امریکہ نے ایران پر معاشی پابندیاں لگوا دیں۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف بڑھ چڑھ کر بیان بازی کرنے لگے۔
۱۰- امریکہ نے عراق پر قبضہ کر لیا جو کہ ایران کا ہمسایہ ملک ہے۔ دیکھنے میں متواتر آیا کہ ایران کی طرف سے کوئی مزاحمت نہ ہوئی اور نہ ہی امریکہ کو ایران کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت کا خدشہ ہوا۔ حتی کہ امریکہ کے بحری جہاز خلیج فارس میں سے عراق کی جانب بلا خوف و خطر گزرتے رہے، ایران کی آبنائے ہرمز میں سے اور ایران کی مشہور بندرگاہ "بندر عباس" کو ایک طرح سے ٹکرا کر گزرتے رہے اور مسلسل گزر رہے ہیں۔ نقشہ ملاحظہ فرما لیں، سب کچھ واضع ہے۔ اب ایک طرف تو عملی طور پر ایران کی طرف سے مزاحمت کا کوئی خطرہ تک نہیں ہے اور دوسری طرف دونوں ملکوں کی طرف سے مخالفانہ بیانات کی ایسی انتہا ہے کہ گویا اب تیسری عالمی جنگ ہونے جا رہی ہے، معاشی پابندیاں بھی ہیں۔ خدا جانے پردے کے پیچھے کیا تھا اور ہے؟ سمجھ سے بالاتر ہے۔
۱۱-ادھر سعودی عرب اور اس کی ہمنوا خلیجی ریاستوں کی ریاستی اور غیر ریاستی قوتوں کی ہر طرح کی پشت پناہی نے دہشت گرد تنظیموں کو جنم دیا۔ ان تنظیموں میں القائدہ، طالبان اور داعش شامل ہیں۔ یہ سب مسلکی اعتبار سے سعودی عرب کے ہی قریب تر ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس میں امریکہ بھی ملوث ہے۔ ہو سکتا ہے یہ بھی کچھ حد تک درست ہو یا محض ابتدائی طور پر درست ہو مگر ان کا مسلکی اعتبار سے تو امریکہ سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ دھماکے کرنے والے اور جنت کے لالچ میں خودکش حملہ آور تو ایک خاص مسلک کے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ امریکہ تو کسی خودکش حملہ آور کو جنت کا لالچ نہیں دے سکتا۔ ایران کی پوزیشن بڑی واضع ہے کہ وہ تو خودکش حملوں کو حرام کی موت قرار دیتا ہے۔
۱۲- دہشتگردوں اور خودکش حملہ آوروں نے پورے خطے بلکہ پوری دنیا میں خوف مسلط کر دیا ہے۔ اس خوف سے امریکہ بھی محفوظ نہیں ہے۔ اس تناظر میں امریکہ اور اس کے صنعتی اتحادی ممالک ایران کے ساتھ سمجھوتہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ایران کا حال یہ ہے کہ اس کی ایک نسل امریکہ کو شیطان بزرگ کہتے کہتے اور مرگ بر امریکہ کے نعرے لگاتے لگاتے اللہ کو پیاری ہو چکی ہے، دوسری نسل کے بال سفید ہو چکے ہیں اور اب تیسری نسل شیطآن بزرگ سے عہد و پیمان باندھنے جارہی ہے۔ جہاں تک ایران کے ایٹمی پروگرام اور ایٹم بم بنانے کا تعلق ہے، اس میں ایران نے کونسا معرکہ مار لیا ہے؟ پاکستان میں تو بھٹو شہید نے محض دو اڑھائی سال میں ایٹمی پروگرام کو ایسی مضبوط بنیاد فراہم کر دی تھی کہ اسے شہید تو کروا دیا گیا مگر ایٹمی پروگرام کو ختم نہ کیا جا سکا۔ ایران کو ایٹم بم بنانے کے لئے آخر کتنی دہائیاں درکار تھیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ پردے کے پیچھے کیا ہو رہا تھا کہ ہم تو صرف بھڑھکیں سن سن کر خوش ہوتے رہے۔
۱۳۔ اب سوال یہ ہے کہ کہیں مشرق وسطی اور خطے میں کہیں کوئی نیا توازن تو قائم کرنے کی ضرورت نہیں پڑ گئی؟ کہیں سعودی عرب اور ایران میں توازن تو درکار نہیں ہے؟ کہیں دونوں کو بیک وقت استعمال تو نہیں کیا جانے والا؟ اس طرح کے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں جن کے جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
۱۴۔ اہل عقل و دانش غور کریں، راہنمائی کریں۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے حقائق کی روشنی میں غور کریں۔ اپنے اپنے محدود مسلکوں اور عقیدوں کی جھکڑ بندیوں سے باہر نکلیں۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ کہ مومن وہ ہے جو عقل سے کام لیتا ہے اور غور و فکر کرتا ہے۔
مکمل تحریر >>

28 جولائی، 2015

KNOWLEDGE AND OCEAN

All water of ocean is connected. There are no barriers. no boundaries and no separations among them. We have named them with nearby pieces of land/ continents/ islands etc for the purpose of identifying them as Indian Ocean. Atlantic Ocean (North and South), Pacific Ocean (North and South) etc.
All Seas are part of Ocean. Those bodies of water which separated from the seas and Oceans as a result of ever ongoing geological changes are no more seas though they are still known with their previous names. Thus Caspian Sea, Dead Sea are no more seas. They are just lakes. They are no more part of large body of water, the Ocean.
Knowledge is like Ocean. There must not be any barriers among different so called branches of Knowledge. It prospers and expands only if it is one, only when it is not separated. Specialisations and sub-specialisations are meaningless if they are not part and parcel of main Ocean of Knowledge. 
Therefore one must maintain his freedom and independence to learn. When somebody fixes himself with some specific religious sect, religion, political party etc and stops looking around, his learning stops and ultimately ends with total death. One must follow the principles and must not affix himself with systems. If principles remain alive, they can evolve better and more better systems. Everything in the Universe is based on "movement and expansion".
فریب نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرہ کائنات
مکمل تحریر >>

کمرشل ڈیماکریسی..!!

گلوبل اکانومی کے دورِ میں ’’خالص مال‘‘ کا لیبل ہی کامیاب تجارت کی ضمانت قرار پایا، لہٰذا ’’کرایہ کیلئے خالی‘‘ مملکت خداداد کو ہر قسم کی ’’نیشنلسٹ’’ملاوٹ سے پاک کرنا ضروری سمجھا گیا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے بهٹو جیسے نیشنلسٹ کو راستے سے ہٹانے کے بعد، ’’ساہوکار‘‘ نے بھٹو کی جلاوطن بیٹی کو بهی "این آر او" کے ٹریپ میں پھنسا کر وطن لوٹنے کی ترغیب دی، جسے چوکیداروں نے اپنے ’’اثاثہ جات‘‘ کی مدد سے اس کے شہید بابا کے پاس بھجوادیا۔ 
بعدازاں بھٹو کے داماد کو اپنے عظیم سُسر اور قابل فخر اہلیہ کے نقوش ہائے پا پر چلتے دیکھ کرعالمی بنئے نے اپنے اُس کارندے کو ’’بحال‘‘ کرا کے مرد حُر کے سر پر لابٹھایا، جس نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے انوکھے لاڈلے اور پنجاب والے ہی شاطر محافظ اعظم کی مدد سے مسلسل 5 برس تک اسے اس طرح زچ کئے رکھا کہ وہ اپنے ایجنڈہ پر کھل کر کام نہ کرسکے۔ 
یہ’’انصاف‘‘ بھی خواتین و حضرات، آپ خود کرلیجئے کہ ساہوکار سے لے کر اس کے مقامی ایجنٹ اور محافظین سے لے کر منصفین؛ نیز کرایہ کے جہادیوں جیسے ’’اثاثہ جات‘‘ سب کا اکلوتا اور متفقہ ’’انتخاب‘‘، اس رینٹڈ اسٹیٹ کا منیجر اگر عدلیہ، نادرا، کرکٹ بورڈ، اوگرا، پیمرا، الیکشن کمیشن اور اے جی آفس جیسے تمام ریاستی اداروں کو ’’حسب منشاء‘‘ چلانے کی غرض سے ان کے ساتھ کھلواڑ کرتا پھرے یا عُمرہ کا ثواب باجماعت حاصل کرنے کے ’’نیک ارادے‘‘ سے 300 مسافروں کی گنجائش والی کمرشل فلائٹ کو اپنے اہل خانہ سمیت 60 افراد کیلئے سرکاری خرچے پر چارٹر کرکے اپنے مربی خادم الحرمین و شریفین کی زیارت کو چلا جائے یا پھر قومی ائیر لائن کی مسافر فلائٹ کو عام مسافروں سے خالی کراکے اپنی نواسی کی تقریب نکاح کے شرکاء کو سرکاری خرچ پر مقام تقریب تک پہنچاتا پهرے؛ تو کسی کو اس میں میخ من نکالنے کی بھلا کیا ضرورت ہے کیونکہ’’کھیلن کو چاند‘‘ اگر ’’انوکھا لاڈلا‘‘ نہ مانگے تو اس پر اور کس کا حق ہے بهلا؟؟..
ذرا سوچئے کہ جب ’’الباکستان‘‘ نامی مملکت خداداد کی وجۂ پیدائش ہی خطے میں عالمی ساہوکار کے کاروباری اور تذویراتی مفادات کی ’’کرایہ پر نگہبانی‘‘ ٹھہری تو اس بزنس کیلئے اپنے آزمودہ ’’منیجر‘‘ کا انتخاب المریکہ نامی ساہوکار اور اس کے السعودیہ نامی انوسٹر کا صوابدیدی اختیار بنتا تو ہے، بالخصوص جب وہ مقامی دلال ’’السعودیہ‘‘ کا محبوب و مرغوب ہونے کے علاوہ طالبان نامی اس کے موبائل کریڈٹ آفیسرز کی ’’ضمانت‘‘ جیسی اہم ترین کوالفکیشن پر بھی پورا اُترتا ہو؟ جس کی ترجیحی اہلیت میں ’’سیکورٹی رسک‘‘ پارٹی کے خلاف چوکیدار کی اکلوتی چوائس ہونے کی خوبی بهی شامل حال رہی ہو اور ’’ایوان عدل‘‘ سمیت تمام تر ریاستی اداروں کو تن تنہا خرید لینے کا وسیع تر اضافی تجربہ بھی صرف اسی کے پاس ثابت ہوتا ہو؟؟؟..
مکمل تحریر >>

جمہوری نوٹنکی..!

ملکی تاریخ کے متنازعہ ترین بن جانے والے انتخابات 2013 کے حوالے سے نام نہاد "جوڈیشل کمیشن" کی تازہ رپورٹ پر میڈیا اور پبلک میں جاری رنگ برنگے تبصرہ جات نے ہمیں اپنا ایک پرانا تجزیہ یاد دلا دیا؛ جسے پڑهنے کے بعد آپ بھی شاید میری طرح اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ محولہ بالا انتخابات اور ماضی کے اسی طرح کے الیکشنز میں واحد فرق یہ رہا کہ اس بار "قومی مفاد" کی نگرانی کا فریضہ "خفیہ والوں" کی جگہ "آنکھوں پر پٹی" والوں نے "ازخود" سنبهال لیا تها اور یہ اسی "مادر پدر آزاد عدلیہ" کی ہی ناتجربہ کاری کا کرشمہ ہے کہ اتنی جلدی سب "راز" بهی تیزی سے افشا ہوتے چلے جا رہے ہیں، ورنہ قومی مفاد کے اصل نگہبانوں کے کام تو بڑے "پکے" ہوا کرتے ہیں ...
لیجئے قارئین گرامی؛ پڑهنے کے بعد خود فیصلہ کرتے رہئے .....
ہماری ’’نظریاتی سرحدوں کی محافظ‘‘ ہوشیار ایجنسی نے 1988 تا 1996 کامل چار انتخابات کے دوران ’’قومی مفاد‘‘ پر مبنی اپنے’’فرائض منصبی‘‘ کی ادائیگی کے دوران جس تندہی اور یکسوئی کے ساتھ، میڈیا سمیت سیاسی و مذہبی شہ سواروں کی خرید و فروخت میں بھرپور مہارت دکھائی، اُس کی ایک جھلک عدالتی تاریخ کے متنازعہ ترین جج افتخار چودھری کی طرف سے شہرۂ آفاق اصغر خان کیس کی مجبوراََ شنوائی کے بعد سنائے گئے اُس ادھورے فیصلے میں دیکھی جاسکتی ہے، جس میں ’’الراشی و مرتشی کلا ہُما فی النار‘‘ کے واضح حُکم کی صریحاََ خلاف ورزی کرتے ہوئے، خریدنے والوں کی نشاندہی کر کے انہیں تو مُجرم ٹھہرایا گیا لیکن حق نمک کی ادائیگی کیلئے بکنے والے کی پردہ پوشی کرتے ہوئے، اس کی تیسری وزارت عظمیٰ کی راہ ہموار کرکے بے گناہ قوم کو ’’فی النار‘‘ کی سزا سُنادی گئی۔
ضیاء الحق کی معشوقہ پی این اے کی طرز پر 9 گماشتوں کی وہی گنتی پورے کرتے ہوئے آئی جے آئی بروزن آئی ایس آئی کے بانی مبانی اور فاتح جلال آباد جنرل حمید گُل کی زندہ رُوح ہی نہیں بلکہ موصوف کے رُوحانی شاگرد سبھی آج تک آنجناب کے ’’قومی مفاد‘‘ کی نگرانی جیسے اہم ترین فریضہ کی ادائیگی میں تن، من دھن سے مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں بلکہ اب تو انہیں انتخابی نتائج کی تدوین میں ’’آزاد عدلیہ‘‘ سمیت اپنے اثاثہ جات طالبان کی تیکنیکی معاونت بھی حاصل ہوگئی ہے؛ جن کی مہارت کا تازہ ترین نمونہ ابھی مئی 2013 میں ہونے والے تاریخ کے ’’شفاف ترین‘‘ انتخابات کے دوران سامنے آچکا ہے۔
اس طرح؛ ضیاء الحق کے اسلامی مارشل لاء اور جنرل مشرف کی روشن خیال آمریت کے درمیانی وقفے میں قوم کو 1988، 1990،1993 اور 1996 میں ’’جمہوری تماشہ‘‘ کی ایکشن اور سسپنس سے بھرپور چار ایپی سوڈز سے محظوظ ہونے کا موقع ملا۔۔ اسے حُسن اتفاق کہئے یا بھٹو شہید جیسے ذہین سیاست دان سے نمٹنے کا تلخ تجربہ کہ خاکیوں نے 1979 میں بھٹو سے جان چھڑانے کے بعد چند اہم ’’معاملات‘‘ کو اپنی ’’ریڈ بُک‘‘ کا لازمی حصہ بنالیا ..
ایک تو پنجاب اور سینٹ میں پی پی پی کو اکثریت لینے کی اجازت کبھی نہیں دی جائے گی۔ دوسرا یہ کہ بھٹو کی ذہین جان نشین کے مقابلے میں اکثریتی صوبہ پنجاب سے ایک ’’قومی لیڈر‘‘تراش کر، جی ایچ کیو کے ’’سیاسی اثاثہ‘‘ کے طور پر اس کی گرومنگ کیلئے رائٹ ونگ کے میڈیا سمیت مُلا ملٹری نیچرل الائنس کے ساتھ ساتھ اپنی گماشتہ عدلیہ جیسے تمام وسائل کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لایا جاتا رہے گا۔
اور پهر ’’قومی مفاد‘‘ کے اس عظیم الشان پراجیکٹ کی مکمل ذمہ داری اور نگرانی ’’دنیا کی نمبر ون‘‘ ایجنسی کے سپرد کر دی گئی، جس پر کامیابی سے عمل درآمد آج تک جاری ہے ....
مکمل تحریر >>

"اصلی مینڈیٹ اور اصل مک مکا".!

ثابت ہو گیا کہ ہمارا مینڈیٹ جعلی نہیں، اصلی ہے"؛ جب "مینڈیٹ" دینے والوں نے خود تصدیق فرما دی ہے تو نواز شریف کے اس دعوے کو مسترد کرنے کی جرات بهلا کون کرسکتا ہے؟. 
کون نہیں جانتا کہ نواز شریف اور افتخار چوہدری دونوں کو، ان کے دعوے کے مطابق، انکوائری کمیشن میں بیٹهے جس تین رکنی "اللہ" نے "سرخرو" کیا ہے، 2013 میں اسی کی "آر اوز" نامی "مخلوق" نے ہی اس "مینڈیٹ" کا پکا بندوبست کیا تها .. 
اسی حوالے سے عمران خان کی جانب سے کمیشن کی رپورٹ پر آمنا و صدقنا کہنا البتہ اس "اصل مک مکا" کی کہانی بهی بیان کئے جا رہا ہے، جس کا اہتمام "قومی مفاد" کے دیرینہ ٹهیکے داروں نے دھرنے کے اختتامی ایام میں کر دیا تها ...
اور جس کی روشنی میں خان صاحب نے سب سے پہلے میاں صاحب کے استعفے کی شرط واپس لے کر اس جوڈیشل کمیشن پر صاد فرما لیا، جس کی پیشکش میاں صاحب نام نہاد "لانگ مارچ" اور دھرنے کے آغاز سے پہلے ہی انہیں کر چکے تھے ..
دھرنے کو لپیٹ دینے کیلئے خان کو البتہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے معصوم بچوں پر بیتی قیامت نے "باعزت پسپائی" کی راہ سجهائی ..
بعدازاں ریحام خان کی شکل میں "نئے پاکستان" کے بنی گالہ پہنچ جانے سے "تبدیلی" کی رفتار کچھ اس قدر تیز ہوتی گئی کہ پہلے سینیٹ الیکشن میں نواز لیگ کے ساتھ "سیٹ ایڈجسٹمنٹ"؛ پهر قومی اسمبلی میں "باعزت واپسی" اور بالآخر نواز شریف کی تنخواہ دار عدالت پر مشتمل "انکوائری کمیشن" کے فیصلے کو "آنکھیں بند کر کے تسلیم" کر لینے کے پیشگی اعلان کی شکل میں "قومی مفاد" والوں کی پروردہ دونوں پارٹیوں کے مابین "عقد مفادیہ" کی واضح علامات کے سامنے آنے کے باوجود میلوں ٹهیلوں کے عادی "یوتهیوں" اور ہمیشہ بے پر کی اڑا کر "رزق حلال" کے متلاشی "اینکروں" کی تفریح طبع کیلئے "فرینڈلی فائرنگ" کا دوطرفہ سلسلہ ساتھ ساتھ جاری رکهنا البتہ طرفین کی "پیشہ ورانہ مجبوری" سمجھا جانا چاہئے ..
قارئین کرام؛ یہ اسی "اصیل مک مکا" کا ہی کرشمہ سمجھا جائے کہ خان اعظم نے انکوائری کمیشن کے سامنے، دهرنا بازی کے دوران اپنے بلند آہنگ دعووں کے برعکس، نہ تو اس بد ترین انتخابی دھاندلی کے ماسٹر مائنڈ افتخار چوہدری کو فریق بنایا اور نہ ہی اس کے مقرر کردہ ریٹرننگ افسران پر کوئی اعتراض داخل کیا بلکہ نجم سیٹھی کی کمیش کے روبرو پیشی کے موقع پر پینتیس پنکچرز والی المشہور دڈیو سنوا کر اس پر جرح کی ضرورت بهی محسوس نہ گئی بلکہ گواہ کے طور پر اپنا نام درج کرانے کے باوجود خان نے خود وہاں پیش ہونا ہی ضروری نہ جانا؛ حد یہ ہے کہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی زیرنگرانی کام کرنے والے "سپیشل الیکشن سیل" جیسے اہم اور ناقابل تردید شواہد پر اصرار سے بهی گریز کیا گیا ...
اندریں حالات؛ ہمارے سینئر دوست اور معروف تاریخ دان و تجزیہ نگار جناب پروفیسر محمد یوسف اعوان کی یہ رائے کیا زمینی حقائق کے قریب قریب نہیں لگتی کہ "آئندہ انتخابات میں (اگر یہ رونما ہو سکے تو) نواز لیگ اور سونامی لیگ "فطری اتحادی" کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں"؟؟..
خواتین و حضرات؛ درج بالا سطور میں بریکٹس میں درج "شرط" راقم الحروف کے ذاتی "اندیشہ ہائے دور و دراز" پر استوار ہے ....
مکمل تحریر >>

"جو بچا تها، وہ لٹانے کیلئے آئے ہیں"..!!

تاحیات بلکہ واہیات "چیپ جسٹس" افتخار چوہدری کی طرف سے سیاست میں آنے کا اعلان ..
چودھری صاحب؛ قوم پوچھتی ہے کہ آپ سیاست میں کب نہیں تهے، جناب؟؟.
حضور والی؛ سیاست میں تو آپ اس وقت سے باقاعدگی سے "ان" ہیں، جب اکتوبر 2006 میں نشتر ہال پشاور میں ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی سپانسرشب پر منعقدہ "وکلاء کنونشن" میں آپ کی سربراہی میں "میریا ڈھول سپاہیا، تینوں رب دیاں رکهاں" کی دهن پر گنگنائے گئے نئے عدالتی ترانہ "جسٹس فار آل" کی گونج میں اسٹیل ملز کی نج کاری رُکوانے کے اعلان کی صورت میں جنرل مشرف کو چیلنج کیا گیا تھا کہ "الباکستان میں امریکی مفادات کا ٹهیکہ اب چودھری کو مل گیا ہے" ..
اور پهر امریکہ بہادر اور ہماری ہوشیار ایجنسی کے اس وقت سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی سرپرستی میں آپ کے سیاسی عروج کا وہ دور شروع ہوتا ہے، جس نے بالآخر آپ کو ملک کی عدالتی تاریخ کا متنازعہ ترین جج بنا کر ثابت کر دیا کہ آپ سے بڑا "سیاست دان" کم از کم مملکت خداداد میں تو کوئی پیدا ہی نہیں ہوا ہوگا ...
چودھری جی خاطر جمع رکهئے؛ آپ کی زندگی بهر کی "سیاسی معرکہ آرائیاں" یہ بهول بهلکڑ قوم بهی بهلائے نہیں بهول پائے گی ...
حضور والی؛ آپ کے چند ایک سیاسی کارہائے نمایاں تو قوم کے بچے بچے کو ازبر ہیں؛ مثال کے طور پر یہ کہ
1. آپ کی سیاسی چابک دستیوں کا آغاز اس وقت ہوتا ہے، جب فیصل آباد پنجاب کا ایک راجپوت نوجوان حیدرآباد سے قانون کی ڈگری لینے کے علاوہ اپنے والد کی کوئٹہ میں ملازمت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلوچستان کا ڈومیسائل بھی حاصل کر لیتا ہے اور پهر چند سال کی ناکام ترین وکالت کے بعد لابنگ، چمچہ گیری اور رشوت ستانی کے زور پر پہلے بلوچستان ہائی کورٹ کی ججی اور پهر چیف جسٹسی ہتھیانے میں کامیاب ہو جاتا ہے ..
2. آپ کی سیاسی کامرانیوں کا سنہری دور البتہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب آمر وقت جنرل مشرف کی "سیاسی سرپرستی" میں آپ کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی ججی اور بالآخر چیف جسٹس آف پاکستان کی خلعت فاخرہ نصیب ہوگئی ..
3. سیاست کی شاہراہ پر کامیاب سفر کے دوران آپ کا یادگار "سنگ میل" وہ اعزاز ہے، جب بحیثیت چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال سے اپنے سیکنڈ ڈویژن ایف ایس سی خلف الرشید کو پہلے میڈیکل کالج میں داخلہ اور ایم بی بی ایس کے امتحانات میں کامیابی اور پهر ضروری مدت ملازمت کی شرط پوری کئے بغیر محکمہ صحت میں بطور سیکشن آفیسر ترقی دلوانے جیسے ٹھوس الزامات کے تحت اپنے خلاف دائر جوڈیشل ریفرنس کا قانونی بنیاد پر سامنا کرنے کی بجائے، آپ نام نہاد "سول سوسائٹی" کی مدد سے اپنی معزولی کو انتہائی کامیابی سے انتقامی کارروائی ثابت کرنے کے بعد اسی سول سوسائٹی (درحقیقت ہوشیار ایجنسی) کی رہنمائی میں "عدلیہ آزادی تحریک" کا ڈرامہ رچا کر "قومی ہیرو" بن جاتے ہیں ..
4. اس سے بڑی سیاسی کامیابی عدالتی تاریخ کے کس جج کی قسمت میں کہاں لکھی ہوگی کہ اپنے دیرینہ مربی امریکہ بہادر، اس کے کارندہ "محافظین" اور البنجابی پارٹی سب آپ کی اتاری گئی خلعت کو دوبارہ آپ کے زیب تن کرنے کے "جہاد عظیم" میں متحد ہو جاتے ہیں ..
5. جی ہاں؛ اس امر کی داد نہ دینا بهی بہرحال زیادتی کہلائے گی کہ "بحالی" کے بعد آپ نے بهی کبهی "این آر او کیس" تو کبهی "میمو گیٹ اسکینڈل" جیسی سیاسی ڈرامہ بازی کے ذریعے منتخب حکومت اور منتخب صدر مملکت کے خلاف "آئینی سازش گری" کی صورت میں اپنے تینوں "محسنین" کا حق نمک بهرپور طریقے سے ادا کر کے "کامل وفاداری" کا ثبوت فراہم کرنے میں کسر کوئی نہیں چھوڑی تھی ..
6. ہم سب کے پیارے "چیپ جسٹس"؛ آپ کا سب سے بڑا "سیاسی کارنامہ" تو آنے والی نسل در نسل کیلئے چراغ راہ کی حیثیت میں زندہ جاوید رہے گا، کہ الیکشن 2013 کے دوران، کس عیاری بلکہ ڈھٹائی سے جناب نے خود اپنے طے کردہ عدالتی ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنے ماتحت ججوں کو ریٹرننگ افسران تعینات کر دیا اور پهر اس سے بڑی بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کی بجائے ان "آر اوز" کی میٹنگز خود بلا کر انہیں اپنے چہیتے طالبان کے "ضامن" کو بہرصورت جتوانے کی قابل تقلید منصوبہ بندی بهی مکمل کرلی ..
اندریں حالات چودھری جی؛ آپ کی "پجاری" یہ "قوم" آپ کے ساتھ اگلے پچھلے سارے حساب "بے باک" کرنے کیلئے اس دن کی بے چینی سے منتظر ہے، جب آپ "دیوتا" کا چغہ اتار کر "جسٹس پارٹی" کی شکل میں سامنے آئیں گے اور اس دن آپ کی رہی سہی "عزت" کے عالی شان جنازے کو کاندھا دینا، انشاء اللہ ہر چھوٹے بڑے کیلئے بہت بڑے اعزاز کی بات سمجهی جائے گی ...
اک واری تو قابو تے آ؛ انتشار چودھری..!!
مکمل تحریر >>

14 جولائی، 2015

"تبدیلی" تمہاری؛ "انقلاب" ہمارا .!!

"نرم انقلاب نہ آیا تو قوم خونی انقلاب کیلئے تیار رہے"؛ حمزہ شہباز کے نام "میٹرو سب سڈی" کا بهاری چیک سائن کرنے کے بعد "خادم اعلیٰ" کی پند و نصائح
"قوم تبدیلی کیلئے تیار رہے، نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی گئی ہے"؛ ریحام خان کیلئے پشاوری چپل کا آرڈر جاری کرنے کے بعد "خان اعظم" کا تبلیغی خطاب
.... جون آف آرک کی رُوح احتجاج کر رہی ہے کہ بھائی لوگو، یہ کیسا "انقلاب‘‘ ہے جو جاتی عُمرا کے شاہی محلات سے پھوٹ کر ماتحت سرکاری افسران کی بیگمات کو ورغلاتا اور اپنی زوجیت میں لیتا ہوا ماڈل ٹاؤن پہنچ کر چودہ پندرہ معصوم انسانوں کے خون سے جا ولیمہ رچاتا ہے؟
باراک اوبامہ کی "تبدیلی" تو امریکی تاریخ میں پہلے باقاعدہ نیگرو کو بنا گئی سُپر پاور کا صدر اور وہ بھی ایک افریقی تارک الوطن کو، لیکن ہماری ’’تبدیلی" نے جیمز گولڈ سمتھ جیسے ارب پتی کی دامادی میں پرورش پائی اور ایک عرصہ تک افتخار چودھری نامی "شاہکار" کی حمایت کا اشتہار بنی پھرتی رہی؟
جی ہاں، لینن گراڈ اور سٹالن گراڈ دونوں صدقے واری جارہے ہیں بیک وقت اسلام آباد ڈی چوک والے وی آئی پی ’’انقلابی کنٹینر‘‘ کے ساتھ ساتھ امارات ائیر لائنز میں سوار درجنوں "انقلابیوں" کی جانب سے ڈیڑھ دو سو مسافروں کو یرغمال بنانے جیسی ’انقلابی‘ حکمت عملی پر؟؟
چیئرمین ماؤزے تنگ بے شک سخت ترین ریاستی و موسمی سختیوں کا مہینوں مقابلہ کرنے والے لاکھوں انقلابی سپاہیوں کے ہزاروں میل کی مسافت پیدل طے کرنے کو "لانگ ماچ" کا نام دیتا پھرے اور ان کٹھن مراحل میں کام آجانے والے ’’قائد انقلاب‘‘ کے دو جوان بیٹوں کی قربانی کو ہی "کامیابی کا راز" جتلاتا رہے۔ لیکن ہم بس اتنا جانتے ہیں کہ لانگ مارچ، لانگ مارچ ہی ہوتا ہے بھلے جسٹس چودھری نامی امریکیوں اور خاکیوں کے مُشترکہ کارندے کی ’بحالی‘‘ کیلئے، انہی امریکیوں اور خاکیوں کی مشترکہ ڈارلنگ کی جانب سے فوج کی سرپرستی میں پجیروز اور پراڈوز پر سوار لاہور تا گوجرانوالہ پہنچا ہو یا پنجاب حکومت کی طرف سے بچھائے گئے ریڈ کارپٹس کے راستے، فائیو سٹار کنٹینر پر سوار لاہور سے اسلام آباد پہنچایا گیا ہو۔
جی ہاں خواتین و حضرات؛ ’’سونامی‘‘ کی لہروں پر سوار خان اعظم کا لانگ مارچ تو طارق جمیل کی منجدھار میں پھنسنے کے بعد "نئے پاکستان" کا نام اختیار کر کے، طاہرالقادری کے’’میجک شوز‘‘ جیسے انجام سے جا دوچار ہوا اور ایمپائر کی انگلی پر ناچتے ناچتے بالآخر "ریحام" کے ساتھ جا ہم آغوش ہوا؛
دیکھنا اب یہ ہے کہ خادم اعلیٰ کا "نرم انقلاب" بهی موصوف کو کسی نئی "ہنی" یا "تہمینہ درانی" کے "نرم وصال" کا تحفہ دیتا ہے یا نہیں؟؟.
مکمل تحریر >>

12 جولائی، 2015

کرۂ ارض کا بادشاہ King of the Planet

اے حضرت انسان! بیکراں کائنات کی وسعتوں کو دیکھ، کرۂ ارض کی رنگینیوں کو دیکھ، اپنے گرد و نواح پر غور کر، قسم قسم کے درخت، پودے، پھل، سبزیاں، رنگا رنگ سبزے کو دیکھ، ہر طرف رنگ ہی رنگ، خوبصورتی ہی خوبصورتی، کہیں حد نظر سبزہ ہی سبزہ، کہیں صحراؤں کی وسعتیں، 
اور پھر کوہستانی نظارے، معدنیات سے مالامال پہاڑ، ان پر کہیں برف کی سفید چادر، کہیں طویل القامت درخت، قسم قسم کے ان گنت ذائقوں والے میوے۔ 
اور جانوروں کو دیکھ، ان کی قسموں پر غور کر، ان کی نسلیں شمار کر، یہ تمہیں کیا کیا مہیا کرتے ہیں، سفید میٹھا دودھ، گوشت، سواری، بار برداری، کھیتی باڑی، ان کے خوبصورت رنگ شمار کر۔
اور رنگ رنگا پرندوں پر غور کر، ان کے رنگوں کو دیکھ، ان کی چہچہاہٹ پر غور کر، ان کی آوازوں کے ترنم کو سن، ہواؤں کی موسیقی پر غور کر۔
اور پانی کے ذخیرے، میدانوں، پہاڑوں، ریگستانوں کے بیچ میں سے بہتے دریا، ندیاں، نالے، چشمے، آبشاریں، زیر زمین پانی کے ذخیرے، بارش کی صورت میں برستا پانی اور ان پانیوں میں مچھلیاں، قسم قسم کی مخلوق،
اور سمندروں کی طرف نگاہ دوڑا، حد نظر تک پانی ہی پانی، اس پانی میں قسم قسم کی سمندری مخلوق، ہیرے، جواہرات، موتی۔
کرۂ ارض کے اوپر، نیچے، ارد گرد خوراک ہی خوراک، قسم قسم کی خوراک، قسم قسم کے پھل، لاتعداد قسموں کی سبزیاں، گوشت، دودھ، سمندری خوراک کی فراوانی اور پانی کی فراوانی۔ 
اور اے حضرت انسان! تیرے پاس عقل ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے۔ تو کائنات کے پوشیدہ قوانین دریافت کر سکتا ہے۔ مزید خوراک پیدا کر سکتا ہے، خوراک کے انبار لگا سکتا ہے۔ 
حیرت ہے کہ تجھے بھوک کا سامنا ہے، تجھے پانی نہیں ملتا۔ اپنی صلاحیتوں کا مثبت استعمال کر، ارتقاء کی جانب رواں دواں کائناتی عمل میں اپنا حصہ ڈال۔ تو کس راہ پر چل پڑا ہے، قتل و غارت اور وہ بھی اپنوں کا، جنگ و جدال اور وہ بھی انسانوں کے خلاف، تو کیا مذہبوں، فرقوں، رنگوں، قوموں کے جھگڑے لے بیٹھا ہے، ان میں الجھ کے رہ گیا ہے، کائنات کے ارتقاء نے تمہارا انتظار نہیں کرنا، وہ تو ہو ہی رہا ہے اور ہوتا ہی رہے گا۔ البتہ تو پیچھے رہ گیا ہے۔ زندگی رواں دواں ہے، پرانے درخت کی جگہ نئے درخت لے رہے ہیں، بوڑھے جانوروں کی جگہ مزید خوبصورت جوان جانور لے رہے ہیں۔ 
اور پھر دیکھ دادے دادی اور نانے نانی کی جگہ گنگناتے، نئی خوبصورتیوں کے ساتھ، تازہ امنگوں کے ساتھ چھلانگیں لگاتے ہوئے ان کے بیٹے، بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں موجود ہیں۔ زندگی ہر دم جواں ہے، خوب سے خوب تر ہے اور خوب ترین کی طرف گامزن ہے۔ 
سمجھتے ہیں ناداں اسے بے ثبات
ابھرتا ہے مٹ مٹ کے نقش حیات
اس لئے اے شہنشاہ ارض! اے دو ٹانگوں والے جانور! انسان بن انسان۔ اپنے حصے کی زندگی بھرپور طریقے سے گزار۔ ایک دوسرے کے کام آ۔ محبت کے گیت گا۔ کائنات کی وسعتوں کے لطف اٹھا۔ دیکھ! نہ تو جانور اور نہ ہی پرندے رزق جمع کرتے ہیں اور نہ ہی وہ کبھی بھوکے مرتے ہیں۔ تو بھی ذخیرہ اندوزی چھوڑ دے۔ انسان بن۔ کہ تو تو شہنشاہ ارض ہے۔ تیری ذمہ داری تو کرۂ ارض کا تحفظ ہے نہ کہ بربادی۔
مکمل تحریر >>

کیا BRICS ممالک کسی قسم کااقتصادی دھماکہ کر پائیں گے؟؟.

گذشتہ دنوں روسی شہر اوفا میں، شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے ایک روز پہلے پاکستان نے وزیر اعظم نواز شریف کی نمائندگی میں دُنیا کے پانچ بڑے ترقی پذیر ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کے ایجنڈہ پر استوار تیزی سے ابھرتی نئی تنظیم BRICS کے اچلاس میں بطور مبصرشرکت کی، جس میں بطور مکمل رُکن پاکستان کی شمولیت کا بہرحال دُور دُور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ تنظیم کیا ہے اور عالمی سیاست یا اقتصادی پالیسیوں پر کس قدر اثر انداز ہوسکتی ہے؛ نیز یہ بھی کہ اس نئی گیم میں ہمارا ملک کہاں کھڑا ہے؟؟ 
قارئین گرامی؛ تھرڈ ولڈ کا خواب تو خیر بھٹو کے ساتھ ہی چکنا چور ہوگیا تھا لیکن پوسٹ بھٹو پاکستان کی طرف سے امریکی جہاد افغانستان کے دوران سوویت یونین کے خلاف امریکی چھاؤنی کا کردار ادا کرتے ہوئے دُنیا کو "سنگل سُپر پاور" کا تحفہ دینے کے بعد اگر غیر جانبدار تحریک NAM، اسلامی ممالک کی تنظیم OIC اور جنوبی ایشا کی علاقائی تعاون تنظیم SAARC جیسے فورمز پاکستان کو،اقوام عالم میں تو درکنار علاقائی سطح پر انڈیا کے مقابلے میں ہی سہی،کسی بھی قسم کا مقام نہ دلا سکے تو ایسے میں ہمارے ”ازلی دُشمن“ بھارت نے جس طرح دنیا بھر میں اپنی جغرافیائی اہمیت کے علاوہ اقتصادی طاقت منوانے کا سفر مسلسل جاری رکھا. جس کا ایک نمونہ اُس کی طرف سے اپنے اقتصادی و تذویراتی حریف چائنہ سمیت روس، برازیل اور ساؤتھ افریقہ کے ساتھ مل کر اقتصادی تعاون کی تنظیم BRICS کے قیام کی شکل میں دیکھا جاسکتاہے .. 
کہنے کو تو ”برکس“ ایک نیا فورم ہی کہلائے گا لیکن درحقیقت یہ گذشتہ چند برس سے قائم BRIC نامی ڈھیلے ڈھالے غیر رسمی اتحاد کی توسیعی شکل ہے، جس میں پہلے سے شامل چار ممالک برازیل(B)، رشیا(R)، انڈیا(I) اورچائنہ(C)کے بعد نئی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت کے طور پر ساؤتھ افریقہ(S) کی شمولیت نے اسے نئی معنویت عطا کرکے ناصرف باقاعدہ اتحاد کی شکل دے دی ہے بلکہ اس کے تحت قائم کئے جارہے BRICS بینک کو، بقول شخصے عالمی مالیاتی فنڈ یعنی IMF اورورلڈ بینک کے متبادل کے طور پربھی پیش کیا جارہا ہے۔ 
پچاس ارب ڈالر کے سرمایہ سے قائم کئے جارہے ”برکس بینک“ میں پانچوں رُکن ممالک ”ویٹو“ جیسی کسی قسم کی اجارہ داری سے بچنے کیلئے برابر مقدارکی سرمایہ کاری کے ذمہ دار ہوں گے اور آئندہ سات برس کے دوران ہر ملک دس ارب ڈالر مساوی طور پر فراہم کرنے کا ذمہ دار ہوگا؛ جبکہ اس کے چند برس بعد بینک کاسرمایہ بڑھا کر دوگنا کردیا جائے گا۔
اعلان کے مطابق نئے بینک یا مالیاتی ادارے کا ہیڈ کوارٹر چین کے شہر شنگھائی میں ہوگا جبکہ اس کا ایک علاقائی دفتر جنوبی افریقہ میں بھی قائم کیا جارہا ہے۔ ابتدائی پانچ برس کی مدت کیلئے بینک کے صدر کا انتخاب انڈیا سے کیا جائے گا جبکہ یہ ادارہ باقاعدہ بورڈ آف گورنرز کے ماتحت کام کرے گا۔ یہ بینک 2016 سے ترقیاتی قرضی جات کے اجراء کا آغاز بھی کررہا ہے۔ اسی طرح 100 ارب ڈالر کی مالیت پر مبنی ایک ریزرو فنڈ بھی قائم کیا جارہا ہے۔ جبکہ انڈیا کی طرف سے پہلے پانچ برس تک کیلئے BRICS بینک کی صدارت سنبھالنا تنظیم میں اس کی اہمیت و افادیت کا واضح مظہر سمجھا جانا چاہئے۔ 
اپنے دیرینہ حریف روس کو جی ایٹ G8 سے نکال بھگانے میں کامیاب امریکہ کیلئے یقینی طور پر تشویش ناک اورعالمی اقتصادی دوڑ میں ’گیم چینجر' ثابت ہوسکنے والے اہم ترین اقدامات اٹھانے والے برکس ممالک کی افتتاحی کانفرنس گذشتہ برس برازیل کے شہر فورٹیلیزیا میں منعقدہ ہوئی جبکہ ُاسی سال رُکن ممالک جنوبی امریکہ کے ممالک کے ساتھ اسی قسم کی مشترکہ سرگرمی کے اقدامات تلاشنے کیلئے برازیلیا میں بھی سر جوڑ ے دکھائی دئیے۔ روسی شہر اوفا میں چند روز قبل منعقدہ نئی سربراہی کانفرنس بھی بہت سے اہم فیصلوں اور اعلانات کی وجہ سے خاصی اہمیت کی حامل رہی؛ جس کے فوراََ بعد اسی شہر میں شنگھائی اقتصادی تعاون کونسل کا اہم اجلاس منعقد ہوا۔ 
دوستو اور ساتھیو؛ اس بات کا فیصلہ تو وقت کرتا رہے گا کہ BRICS کا نیا مالیاتی ادارہ اقوام عالم کی سب سے بڑی اور مؤثر تنظیم اقوام متحدہ UN کے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کے مقابلے کے دعوے پر کس حد تک پورا اُترتا ہے لیکن امریکہ یونائیٹڈ نیشنز میں جس قسم کی مناپلی اور من مانی کی تاریخ رکھتا ہے، اس کے پیش نظر برکس نامی یہ تنظیم آبادی کے لحاظ سے بھارت اور چین جیسے دنیا کے سب سے بڑے ممالک اور چین و روس جیسی عالمی طاقتوں کے ساتھ، بہرحال امریکہ بہادر کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت ضرور رکھتی ہے۔
گنجان آباد اور کثیر النسل ریاست بھارت کی دگرگوں معیشت کو اگرچہ سابق بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ جیسا ماہر اقتصادیات بھی سنبھالا دینے میں کامیاب نہ ہوسکا، لیکن پہلی برکس کانفرنس میں بھارتی وزیر اعظم ناریندر مودی کے اس بیان سے مجوزہ بینک سے بندھی توقعات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ”اس کانفرنس کے نتیجے میں لامحدود امکانات پر کام کا آغاز ہوسکے گا“۔ جبکہ مذکورہ کانفرنس کے میزبان ملک برازیل کی صدرجیلما روسیف کا یہ معنی خیز بیان امریکہ سمیت بہت سوں کے کان کھڑا کردینے کیلئے کافی تھا کہ ”برکس بینک کا قیام بکھرے ہوئے عالمی اقتصادی ڈھانچے کوازسر نو جوڑ کر اپنے قدموں پر لا کھڑا کردینے کی سمت ایک اہم قدم ثابت ہوگا کیونکہ یہ بینک رُکن ممالک کے ترقیاتی پراجیکٹس کی فنڈنگ کیلئے کثیر سرمایہ وقف کرے گا“۔ 
عالمی اقتصایات کے میدان میں برکس کی کارکردگی بارے درست تعین تو اقتصادی امور کے ماہرین کا کام ہے لیکن اس تنظیم کے BRIC ممالک یعنی برازیل، رشیا، انڈیا اور چائنہ کی اہمیت کا اندازہ ان مالیاتی اشاریوں کی روشنی میں لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ برس ان کے حصے میں گلوبل آؤٹ پُٹ کا ایک چوتھائی سے زائد حصہ آیا تھا جبکہ آئندہ دہائی بارے اس شراکت کی مقدار بڑھ کر ایک تہائی تک جا پہنچنے کی پیشین گوئی کی جا رہی ہے۔برکس کے اہم ترین ملک چین سے متعلق اندازہ ہے کہ وہ اس عرصہ میں دُنیا کی سب سے بڑی معیشت بن چکی ہوگی جبکہ اس دہائی میں آبادی کے حساب سے چائنہ کا کم و بیش ہم پلہ انڈیا اپنے وسائل اور کثیر افرادی قوت کے بل بوتے پر آج کے مقابلے میں کہیں آگے جاتا دکھائی دیتا ہے۔ 1980 کے بعد کی اقتصادی تبدیلیوں کے تناظر میں کہا جاتا ہے کہ اگر عالمی GDP میں اُس برس چین اور بھارت کی مجموعی شراکت 5 فیصد سے کم تھی تو گذشتہ سال یہ کہیں بڑھ کر 20 فیصدسے بھی زائد پہنچ گئی تھی۔
ساتھیو! ایک طرف اگر ہمار ادیرینہ ”حریف“ انڈیااتنی لمبی چھلانگیں مارتا دکھائی دے رہا ہے تو دوسری طرف ہماری حالت یہ ہے کہ اگرچہ ہمیں سابق زرداری دور میں قومی امنگوں کے عین مطابق آئی ایم ایف کے چنگل سے چُھٹکارہ کی خوشخبری سُنادی گئی تھی، لیکن ہمیں موجودہ حکومت کے زما م کار سنبھالنے کے کچھ عرصہ بعد سامنے آنے وہ خبر بہت اچھی طرح یاد ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کو ڈیرھ دو برس کے وقفے کے بعد پھرسے آئی ایم ایف سے اُس کی شرائط پر قرضہ لینا پڑگیا ہے۔
پیارے قارئین؛ اگر ہم موضوع ہٰذا تک محدود رہیں تو چین و روس جیسے الگ الگ سوچ اور نظریات رکھنے والے ممالک کے علاوہ انڈیا کی چین کے ساتھ علی الاعلان مخاصمت کے باوجود BRICS میں ان سب کی اکٹھے شمولیت لیکن پاکستان کے اس میں شامل نہ ہو سکنے کا دھچکہ اپنی جگہ؛ گذشتہ برس کی ایک اور بُری خبر یہ بھی رہی کہ زرداری دورمیں کیا گیا، تُرکمانستان سے براستہ افغانستان و پاکستان، انڈیا پہنچنے والی گیس پائپ لائن کا TAPI نامی وہ معاہدہ جس میں سے گذرنے والی گیس کا ایک بڑا حصہ پاکستان کو ملنا تھا، اب پاکستان کواس میں سے عملی طور پرخارج کرنے کے بعد TAI تک محدود ہوگیا ہے کیونکہ نئے معاہدہ کے مطابق پاکستان کو گیس تو بالکل نہیں، صرف راہداری کے نام پر بس برائے نام رقم ہی مل سکے گی۔ ..............سُنتا جا، شرماتا جا
مکمل تحریر >>

10 جولائی، 2015

طالبان و داعش؛ ڈرون اور ہماری ضرب عضب.!

حکیم اللہ محسود کے ڈرون کی نذر ہونے پر ہمارے پیارے خان عمران خان اور چودھری نثار خان جس کے گلے لگے دهاڑیں مار مار کر روتے پائے گئے، طالبان کا سابق ترجمان اور داعش کا حالیہ سینئر کمانڈر وہ شاہد اللہ شاہد بهی اب اپنے ساتھیوں سمیت ننگرہار افغانستان کے علاقے اچن میں داغے گئے تازہ ترین "ڈرون" کی زد میں آگیا ..
یقین جانئے قارئین؛ ہمیں مذکورہ بالا ہر دو خان صاحبان کی "بے وفائی" پر خاصی حیرت ہو رہی ہے کیونکہ طالبان ہوں یا داعش کے جنگجو، ہماری نگاہ میں "مملکت خداداد" کی "تذویراتی گہرائی" میں ہر دو میں سے کسی کا مقام بهی "ہائی ویلیو پراڈکٹ" کی حیثیت میں کسی بهی طرح دوسرے سے کم نہیں ...
جی ہاں خواتین و حضرات؛ سال ڈیڑھ پہلے جب ریاست الباکستان کی جانب سے طالبان کے خلاف "ضرب عضب" کا سٹیج سجایا جا رہا تھا تو ہم نے آپ کو اسی سمے آگاہ کر دیا تها کہ طالبان کا چیپٹر حکیم اللہ محسود کی ڈرون زدگی اور اس کے بعد ہمارے ان "اثاثہ جات" کی پہلے براستہ "مذاق رات" جہاد شام و بحرین کیلئے بھرتی اور باقیماندہ کی شمالی وزیرستان سے اندرون ملک اور افغانستان کی محفوظ کمین گاہوں تک منتقلی کے ساتھ فی الحال بند کر دیا گیا ہے، جبکہ "کاروبار جہاد" میں خصوصی مہارت رکهنے والی اس ریاست کے نئے "پراڈکٹ" کا نام "داعش" کے سوا کچھ نہیں ..
وہ تو اللہ بهلا کرے، ہماری "سونامی" کا کہ اسلام آباد پر جس کی چڑهائی کا زور توڑنے کیلئے ہمارے "ضامن" کے ضمانت کاروں کو بلا پیشگی منصوبہ بندی اور شاید اپنے سرپرستوں کی اجازت کے بغیر ہی، پشاور کے ننھے فرشتوں کے خون سے ہولی کھیلنے کیلئے اچانک پهر سے منظر عام پر آنا ہڑا ..
شاہد اللہ شاہد کی ڈرون زدگی کے ساتھ "لیک" ہونے والی یہ خبر بھی ریاست الباکستان کی اپنے اس نسل کے تذویراتی اثاثہ جات کے ساتھ بهرپور "وفاداری" کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ موصوف کے ٹھکانے سے پاکستانی شناختی کارڈ کے علاوہ پاکستان کا باقاعدہ پاسپورٹ بهی برآمد ہوا ہے جبکہ اس کے پاس موجود پاکستانی کرنسی یہ ظاہر کرتی ہے کہ آنجناب شیخ مقبول کے شناختی نام سے گاہے بگاہے اپنے سابق "مہربان" ملک کو میزبانی کا شرف بجشتے رہتے تھے ...
دوستو اور ساتھیو؛ طالبان کے سابق ترجمان پر گرے تازہ ڈرون کا "سانحہ" اگرچہ پاکستان میں نہیں افغانستان میں رونما ہوا ہے، بہرحال اس نے ہمارے اس "تهیسز" کی خاصی حد تک تصدیق ضرور کر دی ہے کہ "ضرب عضب" کے باوجود اب تک مارے گئے تقریباً تمام "ہائی پروفائل" دہشت گرد امریکی ڈرون ہی کی نذر ہوئے ہیں؛ جبکہ ہزاروں معصوم پاکستانیوں کے قتل عام کے بهیانک جرائم میں ملوث شاہد اللہ شاہد جیسے خطرناک دہشت گردوں کو افغانستان فرار ہونے کا موقع فراہم کرنا بجائے خود ریاست کی "حکمت عملی" پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ...
اس حوالے سے بهی ہم وقتاً فوقتاً اپنے قارئین کی وساطت سے اربابِ بست و کشاد کے سامنے کچھ "حساس" قسم کے نکات و سوالات اٹھائے کی جرات کرتے رہے ہیں ... مثلاً ہم نے ایک بار لکھا کہ ......
آپریشن "ضرب عضب" کے آغاز میں تاخیر پر عام پاکستانی کے ذہن میں سر اٹھانے والے اس سوال کو "سازشی نظریہ" کہہ کر نظر انداز نہیں کر دینا چاہئے کہ کہیں ’’ریاست‘‘ مذاق رات نامی کھیل کی پردہ پوشی میں 60,000 پاکستانیوں کے قاتل اپنے تذویراتی اثاثہ جات کی’’محفوظ مقامات‘‘ پر منتقلی کا انتظار تو نہیں کرتی رہی؟؟ جبکہ پاک فوج کے سابق ترجمان جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے سلسلے میں جنرل کیانی کی جس ’’ہچکچاہٹ‘‘ کا انکشاف کیا ہے، موجودہ آرمی چیف بھی تادیر کم و بیش اسی ’’حکمت عملی‘‘ پر کاربند رہے۔؟؟.
جبکہ "ضرب عضب" کے آغاز سے اب تک ہمارا یہ مخمصہ کبهی دور نہ ہو سکا کہ آخر آئے روز کی اخباری خبروں کے مطابق اب تک جو ہزاروں دہشت گرد وزیرستان میں مارے گئے ہیں، وہ کیا کسی "نوری مخلوق" سے تعلق رکهتے ہیں کہ نہ کسی کا کوئی نام پتہ، نہ ہی کوئی فوٹیج بلکہ جائے تدفین تک بھی صیغۂ غائب میں ...
اس حوالے سے بهی ہماری طرف سے بار بار کہا جاتا رہا کہ ...
کیا قوم اتنا پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ جن سینکڑوں گوریلوں کی فضائی حملوں کے نتیجے میں ہلاکت کے دعوے کئے جارہے ہیں، اُن میں سے کسی ایک ڈیڈ باڈی کی تصویر بھی میڈیا کو ریلیز کیوں نہیں کی جاسکی؟؟.
ہم اپنے اس شبے کا اظہار بھی اشاروں کنایوں میں بارہا کر چکے ہیں کہ ضربِ عضب میں کام آنے والے دہشت گردوں بارے میڈیا کو جاری کی جارہی اطلاعات میں غیر معمولی مبالغے کا عنصر شامل ہے، ورنہ ان کامیاب "ٹارگٹس" سمیت شہید ہونے والے فوجی جوانوں اور افسروں کے نام پتے جاری کرنے میں کوئی مصلحت بڑے بڑوں کی سمجھ و فہم سے بالا ہے ..
علاوہ ازیں یہ بهی ہم پوچھتے رہے کہ شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان کے متحارب گروہوں کے کمانڈروں اور جہادیوں سمیت ازبکستان اسلامک موومنٹ اور ترکمانستان اسلامک موومنٹ سے تعلق رکھنے والے گوریلوں کی شناخت اور ان کی قیادت بارے تفصیلی اور قابل اعتماد اطلاعات سے قوم اور میڈیا دونوں کو محروم کیوں رکھا جارہا ہے؟؟.
آپریشن ضربِ عضب کے آغاز میں غیر معمولی تاخیر تو ہمارے علاوہ پوری قوم کیلئے بهی دائمی الجھن کا باعث رہا ہی ہے، اسی لئے ہم نے ایک بار دست سوال کچھ یوں بهی دراز کیا کہ ...
پیارے "شریفین"، آپریشن میں غیر معمولی تاخیر کی وجہ سے، شمالی وزیرستان میں موجود 10,000 دہشت گردوں میں سے 8,000 کے فرار ہو جانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟؟۔
ابھی ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہے تھے کہ یہ سابق آرمی چیف جنرل کیانی کی دہشت گرد طالبان کے ساتھ خصوصی "وابستگی" تھی یا پاک فوج کا عمومی مزاج، جس نے بقول جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس، انہیں شمالی وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ رُکوانے پر مجبور کیا؛ کہ نجم سیٹھی کے ایک انکشاف کے مطابق کیانی کو سوات آپریشن میں بھی ہکچکاہٹ کے بعد بامر مجبوری ہی جانا پڑا؟؟۔
دریں اثناء آپریشن حرب ضرب کے آغاز سے ہفتہ بھر قبل ہزاروں عسکریت پسندوں کے شمالی وزیرستان سے بھیس بدل کر فرار پونے کی خبر نے اس شُبہ کی تصدیق کردی تهی کہ جنرل شریف اور وزیر اعظم شریف پر مشتمل موجودہ طالبان نواز "سیٹ اپ" نے "مذاق رات" نامی ڈرامہ بازی کی آڑ میں میں بہت سا قیمتی وقت اپنے "بھائی بندوں" کو محفوظ ٹھکانوں تک "یجرت" کے بھرپور مواقع کی فراہمی کیلئے ضائع کردیا ...
آخری لیکن اہم ترین سوال اس ضمن میں قارئین گرامی؛ ہمارے ایک دوست کے الفاظ میں کچھ یوں بنے گا کہ ...
صرف اڑھائی ہزار مربع میل کے علاقہ پر ایک سال سے جاری جنگ کب ختم ہو گی؟. علاقہ چاروں اطراف سے گھیرے میں ہے؛ ہر ماہ ہزاروں اہم ملیٹنٹس مارے جاتے ہیں. بے پناہ ٹھکانے تباہ ہو چکے ہیں، تیس ہزار فوجی، دنیا کی بہترین ائیر فورس، امریکی ڈرون اور سیٹلائٹ کی مدد، ایمونیشن سنسرز، GPS، جدید میزائیل، ٹینک وغیرہ؛ نیز شہری آبادی کو بھی نکال دیا ہے، لیکن پھر بھی کچھ نہیں معلوم یہ جنگ کب ختم ہو گی.؟؟. شاید اس جنگ کو تین سال مزید طول دیا جائے گا تاکہ موجودہ طالبان نواز "سیٹ اپ" کی مدت بآسانی پایہ تکمیل تک پہنچائی جا سکے؛ نیز یہ کہ وار آن ٹیرر کے نام پر "ڈالرز" کی آمد آمد کا منافع بخش کاروبار بهی جاری و ساری رہے؟؟؟.
مکمل تحریر >>

بلاول بھٹو ہے؟ یا صرف زرداری؟؟

کیا بھٹو بننے کے لئے بھٹو کا بیٹا،بیٹی، پوتا، پوتی، نواسا یا نواسی ہونا ضروری ہے؟؟؟
اور وہ لوگ جو یہ سوال اٹھاتے ہیں وہ کم از کم بھٹو کی عظمت کا تو اقرار کر لیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بھٹو ایک سوچ اور نظریے کا نام ہے نہ کہ کوئی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد ہے کہ جس میں حصہ داری کے لئے خونی رشتہ ہونا ضروری ہو۔
دوسری بات کہ بلاول تو بھٹو کا نواسہ ہے، بینظیر کا بیٹا ہے، اگر پوتا ہوتا تو وارث بن جاتا۔ تو اے اہل اسلام! ذرا یہ تو بتانے کی زحمت کیجییگا کہ امام حسنؓ اور امام حسینؓ تو علیؓ کے بیٹے تھے، رسولﷺ کے نواسے تھے وہ رسولﷺ کی نسبت سے کیوں جانے جاتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ وہ رسول کے نقش قدم پر ویسے ہی چلے جیسے علیؓ اور فاطمہؓ بنت رسول چلے اس طرح ان کی نسبت رسول کے ساتھ مضبوط ٹھہری۔ 
تیسری بات کہ ہم درود بھیجتے ہیں ابراہیم اور آل ابراہیم پر، محمد اور آل محمد ﷺ پر۔ تو اگر آل سے مراد خون کا رشتہ ہے تو خون کا رشتہ تو ابو لہب کا بھی ابراہیم سے ثابت ہے تو کیا ہم ابو لہب پر (معاذاللہ) درود بھیجنے کی جراءت کر سکتے ہیں جبکہ قرآن  پاک میں تو ابو لہب پر لعنت ثابت ہے۔ اس لیے آل کا مطلب ہے سچا پیروکار، اس کا تعلق خون کے رشتے سے ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ البتہ سچا پیروکار ہونا لازم ہے۔ اور اگر کسی سچے پیروکار کا خون کا رشتہ بھی ہے تو زیادہ فخر کی بات ہے۔
چوتھی بات کہ لوگ بھی توقع رکھتے ہیں کہ مشکل وقت میں اپنے اباءواجداد کے وارث ہر قسم کی قربانی پیش کریں گے اور اگر نہیں کریں گے تو اپنے اباءواجداد کی طرح قابل تحریم قرار نہیں پائیں گے۔ امام حسن وحسینؓ نے اپنے عمل سے سچے پیروکار ہونے کا ثبوت دیا۔
اب اگر بلاول بھٹو اور بینظیر کی طرح اپنی قابلیت ثابت کرے گا، قربانی کے وقت قربانی پیش کرے گا تو یقینی طور پر بھٹو کہلائے گا۔ عام طور پر بھی دیکھا گیا ہے کہ جن کے بزرگوں نے قربانیان دی ہوتی ہیں وہی بوقت ضرورت قربانی دیتے ہیں۔ اس لیے لوگوں کو بلاول، بختاور اور آصفہ سے محبت بھی ہو گی اور توقعات بھی ہوں گی۔ اچھی وراثت فخر کی بات ہوتی ہے۔ اس لیے وراثت کی سیاست کے طعنے دینے والوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ اگر بلاول کے نانا نے قربانی دی ہے اور اس کی والدہ نے اس کے نانا کے نقش قدم پر چلتے ہوے قربانی دی ہے تو بلاول فخر کیوں نہ کرے۔
مکمل تحریر >>

8 جولائی، 2015

جاتی امرا اسٹیٹ؛ احتسابی فرشتوں کیلئے سدرۃ المنتہیٰ ..!

قومی اخبارات میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ نے المشہور "ازخود نوٹس" کے تحت "نیب" سے سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کی "کرپشن" کے جن 150 ہائی پروفائل کیسز کی فائلیں منگوائی ہیں، ان میں "کارروائی" ڈالنے کی غرض سے شریف برادران کے خلاف ساڑھے بارہ کروڑ روپے کی لاگت سے لاہور شہر سے جاتی امرا محلات تک سڑک کی تعمیر میں "گھپلے" کا کیس شامل کیا گیا ہے؛ 
اس خبر نے راقم الحروف کو سندھ حکومت کے خلاف موجودہ یکطرفہ احتسابی مہم کے آغاز میں اپنے ایک دوست کا یہ بے ساختہ تبصرہ یاد دلا دیا کہ "ہمارے منصفین کے احتسابی پر جاتی امرا اسٹیٹ کے مین گیٹ تک پہنچتے ہی جل اٹھتے ہیں" ..
میاں برادران کے زیر بار احسان افتخار چوہدری کی جانشین عدلیہ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ اس کا دائرہ کار "بڑے چور" کی کمین گاہ سے باہر تک ہی محدود ہے، ورنہ ہمارے خاکی اور سفید فام "محتسبین" جس "میگا کرپشن" کی تلاش میں پی پی پی دور کے وزرائے اعظم سمیت موجودہ سندھ حکومت کے گھروں میں تاک جھانک کر کے وقت ضائع کر رہے ہیں، اس کے "کهرے" تو اندھے کو بهی جاتی امرا کی اس محفوظ چار دیواری کے اندر تک جاتے واضح دکهائی دیتے ہیں ...
لیکن وانصیبا کہ شرفائے پنجاب کے ہیرے جواہرات سے لدے پهدے یہ پر تعیش رہائشی محلات ہمارے ہر رنگ و نسل کے محتسبین اور منصفین کیلئے "علاقہ غیر" ٹهہرے کہ نہ تهی ان کی رسائی وہاں تک ... ٰ
اسی لئے تو قارئین گرامی، موجودہ احتسابی ڈرامے میں "غیر جانبداری" کا رنگ بھرنے کیلئے شرفائے جاتی امرا کے خلاف ایک ایسے کیس کا انتخاب کیا گیا ہے، جس کا پهندہ بوقت ضرورت ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی پر مامور چند بیوروکریٹس یا انجنئیرز کے گلے میں فٹ کیا جاسکے، بالکل ویسے جیسے ماڈل ٹاؤن فائرنگ کیس کی بلا، حکم دینے والے حکومتی عہدیداروں کی بجائے احکامات کی تعمیل کرنے والے پولیس افسران کے سر ڈالنے کے بعد انہیں بهی سزا سے اس طرح صاف بچا لیا گیا ہے، جیسے اپنے سیاسی مخالف گورنر کے قتل کیلئے استعمال کئے گئے اپنے کارندے ممتاز قادری کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کے باوجود ناصرف "محفوظ" رکها جا رہا ہے بلکہ قتل کے ثابت شدہ اس خطرناک مجرم کیلئے جیل میں پر تکلف اور پر تعیش سہولیات کا بندوبست بھی باقاعدگی سے اور مسلسل کیا جا رہا ہے ...
مکمل تحریر >>

پاکستان میں بین الاقوامی اور قومی اسٹیبلشمنٹ کا کردار

جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے۔ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کے ساتھ حکمرانی کرتی آئی ہے۔ کبھی تو براہ راست مارشل لاؤں اور فوجی حکومتوں کے ذریعے اور کبھی سولئین چہروں کے پیچھے چھپ کر۔ حقیقی اقتدار فوجی جنتا کے پاس ہی رہا ہے۔ درمیان میں بھٹو نے اسے چیلنج ضرور کیا اور عوام میں سیاسی شعور کی ایک لہر دوڑا دی۔ بھٹو نے پاکستان کے لئے بہت سی گراں قدر خدمات انجام دیں جو کہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اور مستقبل میں جب کبھی کوئی با مقصد تحریک چلے گی اسے جلا بخشتی رہیں گی۔ پاکستان کی کم و بیش گزشتہ پینتالیس سال کی سیاست بھٹو کے گرد ہی گھومتی رہی ہے۔ پاکستان کو اپنا نام نہاد جمہوری چہرہ رکھنے کے لئے انتخابات بھی کروانے پڑتے تھے اور بے اختیار سولئین حکومتیں بھی بنتی رہیں۔ اصل اختیارات مقتدر حلقوں کے پاس ہی رہتے تھے۔ جبکہ قومی مقتدر حلقوں کو بین الاقوامی پشت پناہی حاصل رہی- بھٹو کو پاکستانی مقتدر حلقوں نے ایک طرح کے عدالتی قتل کے ذریعے منظر سے ہٹا دیا۔ بھٹو کی جانشین ان کی بیٹی بینظیر کو بھی وسیع تر عوامی حمایت حاصل رہی۔ بالآخر بینظیر کو بھی دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا۔ 
قومی مقتدر حلقوں نے اچھی خاصی طاقت پکڑ لی اور اس قابل ہو گئی کہ انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکے۔ قومی مقتدر حلقے بھٹو کی پیپلز پارٹی کو منظر سے غائب کرنے کی کوشش کر تے رہے۔ پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لئے ہر جائز آور ناجائز حربہ استعمال کی گیا۔ میڈیا اور عدالتیں جانب دارانہ رویہ اختیار کرتی رہیں۔ بینظیر کے شوہر آصف علی زرداری کو بدترین انتقام، کردار کشی اور جھوٹے مقدموں میں الجھائے رکھا۔ اب صورتحال بالخصوص پنجاب یہ ہے کہ ہر برائی، بیہودگی اور کرپشن کا ذمہ دار زرداری ہے۔ یہ کردار قومی مقتدر حلقوں کی پشت پناہی کے ساتھ بکاؤ، بے ضمیر اور انتہائی جانبدار میڈیا ادا کرتا رہا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ آمریت کے بد ترین انتقام کا شکار، گیارہ سال سے زائد عرصہ جیلوں میں گزارنے والا زرداری ولن ہے اور طاقتور مقتدر حلقوں کی ڈگڈگی پر ناچنے والے ہیرو ہیں۔ کم از کم پنجاب میں یہ تصور عام ہے کہ زرداری کھا گیا۔ میڈیا زدہ لوگ یہ بھی نہیں سوچتے کہ 1977 کے بعد پنجاب میں تو پیپلز پارٹی کی حکومت بننے ہی نہیں دی گئی تو پنجاب کو زرداری کیسے کھا گیا۔ اس نے کھایا ہو گا تو سندھ کو۔ اور سندھی ان کا ووٹ کے ذریعے احتساب کریں۔ مگر سندھی ہر الیکشن میں پیپلز پارٹی کو پہلے سے زیادہ ووٹ دے کر عزت بخشتے ہیں۔ 
۲۰۰۱ کے ۹/۱۱ کے بعد بین الاقوامی افق پر ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں کہ جنہوں نے پاکستان کے اندر بھی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ اب روس تقسیم کو گیا۔ امریکہ واحد سپر پاور رہ گیا۔ طالبان اور القائدہ جیسی دہشتگرد مسلح تنظیمیں معرض وجود میں آ گئیں جن سے پوری دنیا خطرہ محسوس کرنے لگی۔ اب پاکستان میں دنیا کی دلچسپی طالبان مخالف قوتوں میں پیدا ہوئی۔ شروع سے قائم ہونے والے ملا ملٹری اتحاد کو بھر پور موقع دیا گیا کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کریں۔ چنانچہ ۲۰۰۲ کے انتخابات میں ملا ملٹری الائینس کی حکومت قائم کر دی گئی۔ 
واضع رہے کہ پاکستان میں حکومت سازی کا کام قومی اسٹیبلشمنٹ ہی کرتی رہی جسے بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمائت حاصل ہوتی تھی۔ اب ۲۰۰۲ کے بعد بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ نے حکومت سازی کے بنیادی فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ قومی اسٹیبلشمنٹ ان فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ دار ٹھہری۔ اب بین الاقوامی سطح پر یہ تصور راسخ ہونے لگا کہ لبرل قوتیں ہی دہشت گردی کا مقابلہ کر سکتی ہیں اور دیگر تمام قوتیں تو کسی نہ کسی حوالے سے دہشت گردی اور طالبان کی ہی حامی و مددگار ہیں۔ ان میں ہماری ملٹری ایسٹیبلشمنٹ کے بنائے ہوئے تمام تزویراتی اثاثے شامل ہیں۔ اب ۲۰۰۸ کا الیکشن آتا ہے۔ اب بین الاقوامی ایسٹیبلشمنٹ کا خطے کے عمومی اور پاکستان کے خصوصی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے لبرل کی حکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔ قومی ایسٹیبلشمنٹ نے یہ فیصلہ دباؤ کے تحت با دل نا خواستہ قبول کیا۔ بینظیر کو جو نا جائز طور پر انتخاب کے لُئے نا اہل قرار دیا گیا تھا انہیں اہل قرار دے دیا گیا۔ اسفندیار ولی کو امریکہ کا دورہ کروا کر طالبان مخالف کردار ادا کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ مگر انتخابی مہم کے دوران بینظیر کو شہید کر دیا گیا۔ اب ۲۰۰۸ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے واضع اکثریت کے ساتھ جیتنے کے آثار پیدا ہو گیے۔ اب قومی اسٹیبلشمنٹ کی کوشش تھی کہ پیپلز پارٹی واضع اکثریت حاصل نہ کر سکے۔ چنانچہ پیپلز پارٹی کے مخالف ووٹ کو تقسیم سے بچانے کے لئے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف سے بائی کاٹ کروایا گیا، پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو نقصان پہنچانے کے لئے آزاد امیدوار کھڑے کئے گئے اور دیگر روائتی انتظامی حربے استعمال کئے گُیے۔ یوں پیپلز پارٹی جو واضع اکثریت حاصل کر سکتی تھی وہ محض اکثریتی پارٹی بن سکی۔ 342 کے قومی اسمبلی کے ایوان میں پیپلز پارٹی کی 124سیٹیں تھیں جبکہ وہ 180 سیٹیں حاصل کرکے ایک مضبوط لبرل حکومت بنا سکتی تھی۔ اب پیپلز پارٹی کو اپنی اکثریت بنانے کے لئے متعدد پارٹیوں سے اتحاد کرنا پڑا۔ جن میں ایم کیو ایم، اے این پی، جے یو آئی ایف، فاٹا کے ارکان اور کچھ چھوٹی پارٹیاں بھی شامل تھیں۔ اس طرح ایک کمزور حکومت پیپلز پارٹی کے حوالے کی گئی۔ اس کمزور حکومت کو مزید بے بس رکھنے کے لئے جانبدار عدلیہ اور بے رحم میڈیا کو پیچھے لگا دیا گیا۔ مگر پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ سوئلین حکومت اور صدر زرداری نے پانچ سال پورے کر کے ایک ریکارڈ قائم کر دیا۔
۲۰۱۳ کے انتخابات میں بھی حکومت سازی کے فیصلے اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ نے نافظ کروائے۔ 
اب صورتحال یہ ہے کہ آئندہ فیصلے بھی بین الاقوامی ایسٹیبلشمنٹ نے ہی کرنے ہیں۔ اگر لبرل حکومت مفاد میں ہوئی تو اس کا بندوبست چنداں مشکل نہیں ہو گا. اب لبرل پیپلز پارٹی عوام کے پاس جانے سے گریزاں ہے۔ شاید صرف جوڑ توڑ پر انحصار کرنا چاہتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر چھوٹے بڑے شہر و قصبے میں جائے، عوام سے رابطہ کرے۔ اپنی اصل طاقت پر بھروسہ کرے۔ اگلے انتخابات میں حیران کن چیزیں دیکھنے کو ملیں گی اور ایسا بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے ہو گا۔
مکمل تحریر >>

4 جولائی، 2015

پانچ جولائی1977 ایک طویل رات

یہ وہ رات ہے جس کی صبح طلوع ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اس رات کو جمہوریت پر، روشنی پر، آزادی پر، آئین پر شب خون مارا گیا۔ ایسی تاریک رات چھائی کہ آزادی کے متوالے صبح کی روشنی کو ترس گئے۔ انھیں جیلوں میں قید کیا گیا، کوڑے مارے گئے، پھانسی دی گئی، مگر یہ حق کے راہی ایسے سخت جان نکلے کہ ڈٹے رہے، اپنا سفر جاری رکھا، پھانسی گھاٹ سے علم اٹھا اٹھا کر عشاق کے قافلے نکلتے رہے۔ چند ایک دفعہ صبح کی امید پیدا ہوئی مگر مشکل سے دس فیصد روشنی ہی دیکھ پائے تھے کہ پھر پانچ جولائی کی تاریکی چھا گئی اور تاریک تر ہوتی گئی۔ اس رات کے بیشمار تحفے ہیں۔ جن میں شامل ہیں، فرقہ واریت کا فروغ، ملائیت کا غلبہ، دہشت گرد تنظیمیں، دھماکے، خود کش حملے، قتل و غارت گری، خون کی ہولی، ضمیر فروشی، قلم فروشی، لسانیت، بوری بند لاشیں، کلاشنکوف کلچر، ہیروئن اور طرح طرح کے نشے، جھوٹ کی فراوانی، بدترین غلامی، راہ حق کے راہیوں کی بد ترین کردار کشی، ولی کو شیطان اور شیطان کو ولی ثابت کرنے کے فن کا عروج۔ تاریکی ہے کہ دور ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ گویا یہ تاریخ کی طویل ترین راتوں میں سے ایک ثابت ہو رہی ہے۔
مگر کوئی روشنی کا راستہ نہ روک سکا ہے اور نہ روک سکے گا۔ ہر سیاہ رات کا مقدر ایک روشن اور حسین و جمیلُ صبح کے سوا کچھ اور نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہو گا۔ اس لئے اے آزادی کے متوالو! بڑھے چلو، اپنے حصے کی شمعیں جلاتے رہو۔ بہادری کے ساتھ، جوانمردی کے ساتھ، یقین محکم کے ساتھ منزل کی جانب رواں دواں رہو۔ فتح تمہارا ہی مقدر ہے۔ حیات جاوداں کی راہ یہی ہے۔ 
اقبالؒ کہتے ہیں:
ہوا ہے گو تند و تیز، مگر چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جسے حق نے دئیے ہیں انداز خسروانہ
پانچ جولائی کی مسلط کردہ رات میں اپنی جانوں اور خون کا نذرانہ پیش کرنے والے بہادروں کو سلام۔ قافلۂ حق کے سالار بھٹو شہید کو سلام، شہید رانی بینظیر کو سلام، ہزاروں نامور اور گمنام شہیدوں کو سلام۔ رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو۔ ہم پر امید ہیں۔
مکمل تحریر >>

3 جولائی، 2015

"مملکت خداداد الباکستان".!

مجهے بہت اچھی طرح یاد ہے مئی 2013 کی وہ رات جب عام انتخابات کے نتائج کے عین درمیان نصف شب 11 بج کر 35 منٹ پ ہمارے "شریف البنجاب" شاہی خاندان کے جلو میں جاتی امرا کے محلات کی بالکونی سے بوساطت "جیو نیوز" دیدار عام کیلئے نمودار ہوئے .. اور ولی عہد اول المعروف بہ "خادم اعلیٰ" کی جانب سے کئے گئے "اعلان فتح" کے بعد شہنشاہ معظم نے "مفتوح" قوم کو دو تہائی واضح اکثریت کی "پیشگی مبارکباد" پیش کرتے ہوئے، انتخابات کے حتمی نتائج سے بہت پہلے ہی "وزارت عظمیٰ" کا حلف غیر رسمی طور پر گویا "ازخود" اٹھا کر دنیا بهر کو حیران کر دیا ..
جی ہاں؛ بادشاہ سلامت کے اسی اعلان کی لاج رکهنے کیلئے ہمارے پیارے "فخرو بائی" کے الیکشن کمیشن نے شاید اپنے روحانی گرو انتشار چودھری کے اشارہ ابرو پر انتخابی نتائج کے تیزی سے جاری سلسلے کو، اس کے بعد مسلسل آٹھ گھنٹے تک روکے رکها اور اس دوران معمولی اکثریت سے جیتنے والے "شریف جاتی امرا" کی نشستوں کو کم از کم دوگنا کر دیا گیا ...
اندریں حالات قارئین کرام؛ اگر الیکشن کمیشن ڈالے گئے ووٹوں میں سے کم از کم 40 فیصد کو خود "جعلی" تسلیم کرنے کے باوجود اسے دھاندلی کی بجائے "بد انتظامی" قرار دینے پر بضد ہو اور خان اعظم کو سرخ بتی کے پیچھے لگانے والا "عدالتی کمیشن" بهی الیکشن کمیشن کی زبان میں یہ فیصلہ کر دے کہ "اس بد انتظامی کی ذمہ داری کسی طرح بھی نواز لیگ پر عائد نہیں کی جاسکتی"؛ تو سوچئے پهر آپ اور ہم کر بهی کیا سکتے ہیں؟؟.
مکمل تحریر >>

1 جولائی، 2015

"سہیلی بوجھ پہیلی".!

اگر کو ئی ساتھی بوجھ لے کہ "حق و صداقت" پر مبنی درج ذیل تازہ ترین بیانات ہمارے کس "صادق و امین فرشتہ" کے ہیں؛ تو بقول مرزا غالب "حج کا ثواب نذر کروں گا، حضور کی"..
1. "قومی خزانہ لوٹنے والوں کا احتساب ہونا چاہئے" .. 
ہمارے سر پر تو سمدهی کے بیان حلفی کے باوجود، ہماری میگا کرپشن کے ہر کیس میں ٹیکنیکل گراونز پر ہمیں "بلا احتساب" کلین چٹ دینے والی "مادر پدر آزاد عدلیہ" کا بهرپور سایہ موجود ہے، یعنی "سیاں بئے کوتوال اب ڈر کاہے کا" ...
2. "اب ترقیاتی منصوبوں میں پیسہ کهانے کا رجحان باقی نہیں رہا" ..
"چھوٹے" نے بندوبست ہی اتنا پکا کر رکها ہے کہ نندی پور پاور پراجیکٹ ہو.، انفراسٹرکچر کے منصوبے ہوں، میٹرو بس ہو یا پھر اورنج ٹرین؛ ہمیں ہمارا ففٹی پرسنٹ شئیر ٹینڈر کهلنے کے ساتھ ہی مل جایا کرتا ہے؛ بعد میں ٹهیکے داروں سے حساب کتاب کون کرتا پھرے ...
3. "ووٹ لینے کیلئے کبهی غلط وعدے نہیں کئے" ..
وہ تو 2013 کے الیکشن میں "چھوٹے اور خواجہ سرا سیالکوٹی" دونوں کی زبان بار بار پھسلتی رہی کہ لوڈشیڈنگ پر 6 ماہ کے اندر اندر قابو پانے کے مسلسل وعدے کرتے رہے ...
4. "محب وطن فوج کے خلاف بیان بازی غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے" ..
البتہ یہ فوج اس وقت "غیر محب وطن" ہوکر ہمیں اپنے خلاف بیان بازی بلکہ سب و شتم پر مجبور کر دیتی ہے؛ جب یہ ہماری حکومت گرادے اور سیاست سے لاتعلقی کے دس سالہ معاہدہ کے تحت ہمیں باہر بھجوانے کے بعد ہمارے بهول جانے کے باوجود، اس "معاہدہ" کی یاد تازہ کر کے ہمیں چهیڑتی بهی رہے ...
5. "قوم صبر کرے؛ لوڈشیڈنگ پر 2017 سے پہلے قابو نہیں پایا جاسکتا" ..
جی ہاں؛ اسی قسم کا "صبر" جو وہ بجلی و گیس کی نایابی کے باوجود ماہانہ بنیاد پر ان کے بڑھتے ہوئے نرخ اور سال رواں کے نئے بجٹ میں 320 ارب روپے کے نئے ٹیکسز کی صورت میں عام آدمی کی روزمرہ ہر ضرورت کی قیمت بڑهنے پر پہلے ہی کرتی چلی آرہی ہے ...
آپ یہاں اپنے تنخواہ دار "میڈیا پروفیشنلز" سے "گپ شپ" لگا رہے تھے؛ اس یقین دہانی کے بعد کہ موصوف کی ڈھٹائی اور "کذب بیانی" کی نشاندہی کرنے والا کوئی مائی کا لعل محفل میں موجود نہیں ...
مکمل تحریر >>

نفرت نہیں، محبت ہماری منزل ہے۔

زندگی آج تو کس طرف آگئی
صبح کی سیپیا روشنی چھوڑ کر
مدھ بھری شام کی کاشنی چھوڑ کر
اس کے مکھڑے کی میٹھی نمی چھوڑ کر
زندگی آج تو کس طرف آگئی
چھوڑیں نفرت و غصہ کی کہانیاں، چھوڑیں یہ لڑائی جھگڑے، چھوڑیں یہ بحث و تکرار، چھوڑیں یہ جنگ و جدال، چھوڑیں یہ تو تو میں میں۔
آؤ ہم سب ایک ہو جائیں۔ جنگ کے ترانے چھوڑ کر محبت کے گیت گائیں، ہنسیں اور ہنسائیں، مسکرائیں، ایک دوسرے کو محبت کی نگاہ سے دیکھیں، اگلی دنیا کے افسانے چھوڑ کر اس جہنم زار کو جنت بنائیں۔ محفلیں سجائیں، کہانیاں سنائیں، ہیر گائیں، یوسف زلیخا کی کہانی سنائیں۔ 
ہم سب ایک ہی تو ہیں، ہر ایک کا ایک سر، دو کان، دو آنکھیں، ایک چہرہ، ایک زبان، دو بازو، دو ہاتھ، دو ٹانگیں، دو پاؤں۔ کسی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور سب ایک ہی طرح پیدا ہوتے ہیں۔ ایک ہی طرح اس دنیا سے رخت سفر باندھتے ہیں، سب چھ فٹ زمین کے نیچے چلے جاتے ہیں۔ کوئی یہاں ہمیشہ رہا ہے اور نہ رہے گا۔ 
زندگی ایک نعمت ہے۔ ہنسی خوشی گزاریں، زندگی جسم کی خواہش کے سوا کچھ نہیں،خون میں خون کی گردش کے سوا کچھ نہیں۔آؤ مل کر کائنات کے ارتقاء کو تیز رفتاری سے آگے بڑھائیں۔ ستاروں پہ کمندیں ڈالیں۔ ایک دوسرے کے دکھ بانٹیں۔ پیچیدہ بیماریوں کے علاج تلاش کریں، غربت کا خاتمہ کریں۔ سیلابوں، سنامیوں، زلزلوں اور دیگر آفتوں کے آگے بند باندھیں۔ 
تاریخ سے سبق حاصل کریں. غور کریں۔ کون زندہ باد ہے؟ چرواہا ابراہیمؑ یا بادشاہ نمرود، چرواہا موسیؑ یا فرعون، محمد ﷺ یا ابو جہل، اور پاکستان کے حوالے سے بھٹو اور بینظیر یا ایوب، یحییٰ، مشرف، ضیا۔ اس لئے زندہ باد والوں کا راستہ اپنائیں۔ 
امن اور محبت کی شاہراہ پر چلیں، جنگوں اور نفرتوں سے کبھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ 
ٹینک آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
جنگ تو خود ایک مسُلہ ہے
جنگ کیا مسائل کا حل دے گی
آگ اور خون آج دے گی
بھوک اور افلاس کل دے گی
اس لئے اے شریف انسانو! 
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
میرے اور آپ کی چولہوں میں، 
آگ جلتی رہے تو بہتر ہے
کائنات کی وسعتوں پر غور کریں، جنگلوں اور پہاڑوں کی رنگا رنگی پر غور کریں۔ پرندوں کی آزادی اور خوبصورتی کو دیکھیں۔ 
آؤ اصول نبھائیں جذبات کی جگہ، اصول نبھائیں احساسات کی جگہ، اصول نبھائیں مفادات کی طرح۔ گل و گلزار کی باتیں کریں، زلف و رخسار کی باتیں کریں۔ آؤ انسان بن جائیں، انس و محبت کی راہ پر چلیں۔ 
انسانیت زندہ باد،محبت پائندہ باد
مکمل تحریر >>

تلاش کیجئے