ملکی تاریخ کے متنازعہ ترین بن جانے والے انتخابات 2013 کے حوالے سے نام نہاد "جوڈیشل کمیشن" کی تازہ رپورٹ پر میڈیا اور پبلک میں جاری رنگ برنگے تبصرہ جات نے ہمیں اپنا ایک پرانا تجزیہ یاد دلا دیا؛ جسے پڑهنے کے بعد آپ بھی شاید میری طرح اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ محولہ بالا انتخابات اور ماضی کے اسی طرح کے الیکشنز میں واحد فرق یہ رہا کہ اس بار "قومی مفاد" کی نگرانی کا فریضہ "خفیہ والوں" کی جگہ "آنکھوں پر پٹی" والوں نے "ازخود" سنبهال لیا تها اور یہ اسی "مادر پدر آزاد عدلیہ" کی ہی ناتجربہ کاری کا کرشمہ ہے کہ اتنی جلدی سب "راز" بهی تیزی سے افشا ہوتے چلے جا رہے ہیں، ورنہ قومی مفاد کے اصل نگہبانوں کے کام تو بڑے "پکے" ہوا کرتے ہیں ...
لیجئے قارئین گرامی؛ پڑهنے کے بعد خود فیصلہ کرتے رہئے .....
ہماری ’’نظریاتی سرحدوں کی محافظ‘‘ ہوشیار ایجنسی نے 1988 تا 1996 کامل چار انتخابات کے دوران ’’قومی مفاد‘‘ پر مبنی اپنے’’فرائض منصبی‘‘ کی ادائیگی کے دوران جس تندہی اور یکسوئی کے ساتھ، میڈیا سمیت سیاسی و مذہبی شہ سواروں کی خرید و فروخت میں بھرپور مہارت دکھائی، اُس کی ایک جھلک عدالتی تاریخ کے متنازعہ ترین جج افتخار چودھری کی طرف سے شہرۂ آفاق اصغر خان کیس کی مجبوراََ شنوائی کے بعد سنائے گئے اُس ادھورے فیصلے میں دیکھی جاسکتی ہے، جس میں ’’الراشی و مرتشی کلا ہُما فی النار‘‘ کے واضح حُکم کی صریحاََ خلاف ورزی کرتے ہوئے، خریدنے والوں کی نشاندہی کر کے انہیں تو مُجرم ٹھہرایا گیا لیکن حق نمک کی ادائیگی کیلئے بکنے والے کی پردہ پوشی کرتے ہوئے، اس کی تیسری وزارت عظمیٰ کی راہ ہموار کرکے بے گناہ قوم کو ’’فی النار‘‘ کی سزا سُنادی گئی۔
ضیاء الحق کی معشوقہ پی این اے کی طرز پر 9 گماشتوں کی وہی گنتی پورے کرتے ہوئے آئی جے آئی بروزن آئی ایس آئی کے بانی مبانی اور فاتح جلال آباد جنرل حمید گُل کی زندہ رُوح ہی نہیں بلکہ موصوف کے رُوحانی شاگرد سبھی آج تک آنجناب کے ’’قومی مفاد‘‘ کی نگرانی جیسے اہم ترین فریضہ کی ادائیگی میں تن، من دھن سے مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں بلکہ اب تو انہیں انتخابی نتائج کی تدوین میں ’’آزاد عدلیہ‘‘ سمیت اپنے اثاثہ جات طالبان کی تیکنیکی معاونت بھی حاصل ہوگئی ہے؛ جن کی مہارت کا تازہ ترین نمونہ ابھی مئی 2013 میں ہونے والے تاریخ کے ’’شفاف ترین‘‘ انتخابات کے دوران سامنے آچکا ہے۔
اس طرح؛ ضیاء الحق کے اسلامی مارشل لاء اور جنرل مشرف کی روشن خیال آمریت کے درمیانی وقفے میں قوم کو 1988، 1990،1993 اور 1996 میں ’’جمہوری تماشہ‘‘ کی ایکشن اور سسپنس سے بھرپور چار ایپی سوڈز سے محظوظ ہونے کا موقع ملا۔۔ اسے حُسن اتفاق کہئے یا بھٹو شہید جیسے ذہین سیاست دان سے نمٹنے کا تلخ تجربہ کہ خاکیوں نے 1979 میں بھٹو سے جان چھڑانے کے بعد چند اہم ’’معاملات‘‘ کو اپنی ’’ریڈ بُک‘‘ کا لازمی حصہ بنالیا ..
ایک تو پنجاب اور سینٹ میں پی پی پی کو اکثریت لینے کی اجازت کبھی نہیں دی جائے گی۔ دوسرا یہ کہ بھٹو کی ذہین جان نشین کے مقابلے میں اکثریتی صوبہ پنجاب سے ایک ’’قومی لیڈر‘‘تراش کر، جی ایچ کیو کے ’’سیاسی اثاثہ‘‘ کے طور پر اس کی گرومنگ کیلئے رائٹ ونگ کے میڈیا سمیت مُلا ملٹری نیچرل الائنس کے ساتھ ساتھ اپنی گماشتہ عدلیہ جیسے تمام وسائل کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لایا جاتا رہے گا۔
اور پهر ’’قومی مفاد‘‘ کے اس عظیم الشان پراجیکٹ کی مکمل ذمہ داری اور نگرانی ’’دنیا کی نمبر ون‘‘ ایجنسی کے سپرد کر دی گئی، جس پر کامیابی سے عمل درآمد آج تک جاری ہے ....