28 جولائی، 2015

"جو بچا تها، وہ لٹانے کیلئے آئے ہیں"..!!

تاحیات بلکہ واہیات "چیپ جسٹس" افتخار چوہدری کی طرف سے سیاست میں آنے کا اعلان ..
چودھری صاحب؛ قوم پوچھتی ہے کہ آپ سیاست میں کب نہیں تهے، جناب؟؟.
حضور والی؛ سیاست میں تو آپ اس وقت سے باقاعدگی سے "ان" ہیں، جب اکتوبر 2006 میں نشتر ہال پشاور میں ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی سپانسرشب پر منعقدہ "وکلاء کنونشن" میں آپ کی سربراہی میں "میریا ڈھول سپاہیا، تینوں رب دیاں رکهاں" کی دهن پر گنگنائے گئے نئے عدالتی ترانہ "جسٹس فار آل" کی گونج میں اسٹیل ملز کی نج کاری رُکوانے کے اعلان کی صورت میں جنرل مشرف کو چیلنج کیا گیا تھا کہ "الباکستان میں امریکی مفادات کا ٹهیکہ اب چودھری کو مل گیا ہے" ..
اور پهر امریکہ بہادر اور ہماری ہوشیار ایجنسی کے اس وقت سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی سرپرستی میں آپ کے سیاسی عروج کا وہ دور شروع ہوتا ہے، جس نے بالآخر آپ کو ملک کی عدالتی تاریخ کا متنازعہ ترین جج بنا کر ثابت کر دیا کہ آپ سے بڑا "سیاست دان" کم از کم مملکت خداداد میں تو کوئی پیدا ہی نہیں ہوا ہوگا ...
چودھری جی خاطر جمع رکهئے؛ آپ کی زندگی بهر کی "سیاسی معرکہ آرائیاں" یہ بهول بهلکڑ قوم بهی بهلائے نہیں بهول پائے گی ...
حضور والی؛ آپ کے چند ایک سیاسی کارہائے نمایاں تو قوم کے بچے بچے کو ازبر ہیں؛ مثال کے طور پر یہ کہ
1. آپ کی سیاسی چابک دستیوں کا آغاز اس وقت ہوتا ہے، جب فیصل آباد پنجاب کا ایک راجپوت نوجوان حیدرآباد سے قانون کی ڈگری لینے کے علاوہ اپنے والد کی کوئٹہ میں ملازمت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلوچستان کا ڈومیسائل بھی حاصل کر لیتا ہے اور پهر چند سال کی ناکام ترین وکالت کے بعد لابنگ، چمچہ گیری اور رشوت ستانی کے زور پر پہلے بلوچستان ہائی کورٹ کی ججی اور پهر چیف جسٹسی ہتھیانے میں کامیاب ہو جاتا ہے ..
2. آپ کی سیاسی کامرانیوں کا سنہری دور البتہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب آمر وقت جنرل مشرف کی "سیاسی سرپرستی" میں آپ کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی ججی اور بالآخر چیف جسٹس آف پاکستان کی خلعت فاخرہ نصیب ہوگئی ..
3. سیاست کی شاہراہ پر کامیاب سفر کے دوران آپ کا یادگار "سنگ میل" وہ اعزاز ہے، جب بحیثیت چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال سے اپنے سیکنڈ ڈویژن ایف ایس سی خلف الرشید کو پہلے میڈیکل کالج میں داخلہ اور ایم بی بی ایس کے امتحانات میں کامیابی اور پهر ضروری مدت ملازمت کی شرط پوری کئے بغیر محکمہ صحت میں بطور سیکشن آفیسر ترقی دلوانے جیسے ٹھوس الزامات کے تحت اپنے خلاف دائر جوڈیشل ریفرنس کا قانونی بنیاد پر سامنا کرنے کی بجائے، آپ نام نہاد "سول سوسائٹی" کی مدد سے اپنی معزولی کو انتہائی کامیابی سے انتقامی کارروائی ثابت کرنے کے بعد اسی سول سوسائٹی (درحقیقت ہوشیار ایجنسی) کی رہنمائی میں "عدلیہ آزادی تحریک" کا ڈرامہ رچا کر "قومی ہیرو" بن جاتے ہیں ..
4. اس سے بڑی سیاسی کامیابی عدالتی تاریخ کے کس جج کی قسمت میں کہاں لکھی ہوگی کہ اپنے دیرینہ مربی امریکہ بہادر، اس کے کارندہ "محافظین" اور البنجابی پارٹی سب آپ کی اتاری گئی خلعت کو دوبارہ آپ کے زیب تن کرنے کے "جہاد عظیم" میں متحد ہو جاتے ہیں ..
5. جی ہاں؛ اس امر کی داد نہ دینا بهی بہرحال زیادتی کہلائے گی کہ "بحالی" کے بعد آپ نے بهی کبهی "این آر او کیس" تو کبهی "میمو گیٹ اسکینڈل" جیسی سیاسی ڈرامہ بازی کے ذریعے منتخب حکومت اور منتخب صدر مملکت کے خلاف "آئینی سازش گری" کی صورت میں اپنے تینوں "محسنین" کا حق نمک بهرپور طریقے سے ادا کر کے "کامل وفاداری" کا ثبوت فراہم کرنے میں کسر کوئی نہیں چھوڑی تھی ..
6. ہم سب کے پیارے "چیپ جسٹس"؛ آپ کا سب سے بڑا "سیاسی کارنامہ" تو آنے والی نسل در نسل کیلئے چراغ راہ کی حیثیت میں زندہ جاوید رہے گا، کہ الیکشن 2013 کے دوران، کس عیاری بلکہ ڈھٹائی سے جناب نے خود اپنے طے کردہ عدالتی ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنے ماتحت ججوں کو ریٹرننگ افسران تعینات کر دیا اور پهر اس سے بڑی بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کی بجائے ان "آر اوز" کی میٹنگز خود بلا کر انہیں اپنے چہیتے طالبان کے "ضامن" کو بہرصورت جتوانے کی قابل تقلید منصوبہ بندی بهی مکمل کرلی ..
اندریں حالات چودھری جی؛ آپ کی "پجاری" یہ "قوم" آپ کے ساتھ اگلے پچھلے سارے حساب "بے باک" کرنے کیلئے اس دن کی بے چینی سے منتظر ہے، جب آپ "دیوتا" کا چغہ اتار کر "جسٹس پارٹی" کی شکل میں سامنے آئیں گے اور اس دن آپ کی رہی سہی "عزت" کے عالی شان جنازے کو کاندھا دینا، انشاء اللہ ہر چھوٹے بڑے کیلئے بہت بڑے اعزاز کی بات سمجهی جائے گی ...
اک واری تو قابو تے آ؛ انتشار چودھری..!!

تلاش کیجئے