گذشتہ دنوں روسی شہر اوفا میں، شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے ایک روز پہلے پاکستان نے وزیر اعظم نواز شریف کی نمائندگی میں دُنیا کے پانچ بڑے ترقی پذیر ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کے ایجنڈہ پر استوار تیزی سے ابھرتی نئی تنظیم BRICS کے اچلاس میں بطور مبصرشرکت کی، جس میں بطور مکمل رُکن پاکستان کی شمولیت کا بہرحال دُور دُور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ تنظیم کیا ہے اور عالمی سیاست یا اقتصادی پالیسیوں پر کس قدر اثر انداز ہوسکتی ہے؛ نیز یہ بھی کہ اس نئی گیم میں ہمارا ملک کہاں کھڑا ہے؟؟
قارئین گرامی؛ تھرڈ ولڈ کا خواب تو خیر بھٹو کے ساتھ ہی چکنا چور ہوگیا تھا لیکن پوسٹ بھٹو پاکستان کی طرف سے امریکی جہاد افغانستان کے دوران سوویت یونین کے خلاف امریکی چھاؤنی کا کردار ادا کرتے ہوئے دُنیا کو "سنگل سُپر پاور" کا تحفہ دینے کے بعد اگر غیر جانبدار تحریک NAM، اسلامی ممالک کی تنظیم OIC اور جنوبی ایشا کی علاقائی تعاون تنظیم SAARC جیسے فورمز پاکستان کو،اقوام عالم میں تو درکنار علاقائی سطح پر انڈیا کے مقابلے میں ہی سہی،کسی بھی قسم کا مقام نہ دلا سکے تو ایسے میں ہمارے ”ازلی دُشمن“ بھارت نے جس طرح دنیا بھر میں اپنی جغرافیائی اہمیت کے علاوہ اقتصادی طاقت منوانے کا سفر مسلسل جاری رکھا. جس کا ایک نمونہ اُس کی طرف سے اپنے اقتصادی و تذویراتی حریف چائنہ سمیت روس، برازیل اور ساؤتھ افریقہ کے ساتھ مل کر اقتصادی تعاون کی تنظیم BRICS کے قیام کی شکل میں دیکھا جاسکتاہے ..
کہنے کو تو ”برکس“ ایک نیا فورم ہی کہلائے گا لیکن درحقیقت یہ گذشتہ چند برس سے قائم BRIC نامی ڈھیلے ڈھالے غیر رسمی اتحاد کی توسیعی شکل ہے، جس میں پہلے سے شامل چار ممالک برازیل(B)، رشیا(R)، انڈیا(I) اورچائنہ(C)کے بعد نئی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت کے طور پر ساؤتھ افریقہ(S) کی شمولیت نے اسے نئی معنویت عطا کرکے ناصرف باقاعدہ اتحاد کی شکل دے دی ہے بلکہ اس کے تحت قائم کئے جارہے BRICS بینک کو، بقول شخصے عالمی مالیاتی فنڈ یعنی IMF اورورلڈ بینک کے متبادل کے طور پربھی پیش کیا جارہا ہے۔
پچاس ارب ڈالر کے سرمایہ سے قائم کئے جارہے ”برکس بینک“ میں پانچوں رُکن ممالک ”ویٹو“ جیسی کسی قسم کی اجارہ داری سے بچنے کیلئے برابر مقدارکی سرمایہ کاری کے ذمہ دار ہوں گے اور آئندہ سات برس کے دوران ہر ملک دس ارب ڈالر مساوی طور پر فراہم کرنے کا ذمہ دار ہوگا؛ جبکہ اس کے چند برس بعد بینک کاسرمایہ بڑھا کر دوگنا کردیا جائے گا۔
اعلان کے مطابق نئے بینک یا مالیاتی ادارے کا ہیڈ کوارٹر چین کے شہر شنگھائی میں ہوگا جبکہ اس کا ایک علاقائی دفتر جنوبی افریقہ میں بھی قائم کیا جارہا ہے۔ ابتدائی پانچ برس کی مدت کیلئے بینک کے صدر کا انتخاب انڈیا سے کیا جائے گا جبکہ یہ ادارہ باقاعدہ بورڈ آف گورنرز کے ماتحت کام کرے گا۔ یہ بینک 2016 سے ترقیاتی قرضی جات کے اجراء کا آغاز بھی کررہا ہے۔ اسی طرح 100 ارب ڈالر کی مالیت پر مبنی ایک ریزرو فنڈ بھی قائم کیا جارہا ہے۔ جبکہ انڈیا کی طرف سے پہلے پانچ برس تک کیلئے BRICS بینک کی صدارت سنبھالنا تنظیم میں اس کی اہمیت و افادیت کا واضح مظہر سمجھا جانا چاہئے۔
اپنے دیرینہ حریف روس کو جی ایٹ G8 سے نکال بھگانے میں کامیاب امریکہ کیلئے یقینی طور پر تشویش ناک اورعالمی اقتصادی دوڑ میں ’گیم چینجر' ثابت ہوسکنے والے اہم ترین اقدامات اٹھانے والے برکس ممالک کی افتتاحی کانفرنس گذشتہ برس برازیل کے شہر فورٹیلیزیا میں منعقدہ ہوئی جبکہ ُاسی سال رُکن ممالک جنوبی امریکہ کے ممالک کے ساتھ اسی قسم کی مشترکہ سرگرمی کے اقدامات تلاشنے کیلئے برازیلیا میں بھی سر جوڑ ے دکھائی دئیے۔ روسی شہر اوفا میں چند روز قبل منعقدہ نئی سربراہی کانفرنس بھی بہت سے اہم فیصلوں اور اعلانات کی وجہ سے خاصی اہمیت کی حامل رہی؛ جس کے فوراََ بعد اسی شہر میں شنگھائی اقتصادی تعاون کونسل کا اہم اجلاس منعقد ہوا۔
دوستو اور ساتھیو؛ اس بات کا فیصلہ تو وقت کرتا رہے گا کہ BRICS کا نیا مالیاتی ادارہ اقوام عالم کی سب سے بڑی اور مؤثر تنظیم اقوام متحدہ UN کے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کے مقابلے کے دعوے پر کس حد تک پورا اُترتا ہے لیکن امریکہ یونائیٹڈ نیشنز میں جس قسم کی مناپلی اور من مانی کی تاریخ رکھتا ہے، اس کے پیش نظر برکس نامی یہ تنظیم آبادی کے لحاظ سے بھارت اور چین جیسے دنیا کے سب سے بڑے ممالک اور چین و روس جیسی عالمی طاقتوں کے ساتھ، بہرحال امریکہ بہادر کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت ضرور رکھتی ہے۔
گنجان آباد اور کثیر النسل ریاست بھارت کی دگرگوں معیشت کو اگرچہ سابق بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ جیسا ماہر اقتصادیات بھی سنبھالا دینے میں کامیاب نہ ہوسکا، لیکن پہلی برکس کانفرنس میں بھارتی وزیر اعظم ناریندر مودی کے اس بیان سے مجوزہ بینک سے بندھی توقعات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ”اس کانفرنس کے نتیجے میں لامحدود امکانات پر کام کا آغاز ہوسکے گا“۔ جبکہ مذکورہ کانفرنس کے میزبان ملک برازیل کی صدرجیلما روسیف کا یہ معنی خیز بیان امریکہ سمیت بہت سوں کے کان کھڑا کردینے کیلئے کافی تھا کہ ”برکس بینک کا قیام بکھرے ہوئے عالمی اقتصادی ڈھانچے کوازسر نو جوڑ کر اپنے قدموں پر لا کھڑا کردینے کی سمت ایک اہم قدم ثابت ہوگا کیونکہ یہ بینک رُکن ممالک کے ترقیاتی پراجیکٹس کی فنڈنگ کیلئے کثیر سرمایہ وقف کرے گا“۔
عالمی اقتصایات کے میدان میں برکس کی کارکردگی بارے درست تعین تو اقتصادی امور کے ماہرین کا کام ہے لیکن اس تنظیم کے BRIC ممالک یعنی برازیل، رشیا، انڈیا اور چائنہ کی اہمیت کا اندازہ ان مالیاتی اشاریوں کی روشنی میں لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ برس ان کے حصے میں گلوبل آؤٹ پُٹ کا ایک چوتھائی سے زائد حصہ آیا تھا جبکہ آئندہ دہائی بارے اس شراکت کی مقدار بڑھ کر ایک تہائی تک جا پہنچنے کی پیشین گوئی کی جا رہی ہے۔برکس کے اہم ترین ملک چین سے متعلق اندازہ ہے کہ وہ اس عرصہ میں دُنیا کی سب سے بڑی معیشت بن چکی ہوگی جبکہ اس دہائی میں آبادی کے حساب سے چائنہ کا کم و بیش ہم پلہ انڈیا اپنے وسائل اور کثیر افرادی قوت کے بل بوتے پر آج کے مقابلے میں کہیں آگے جاتا دکھائی دیتا ہے۔ 1980 کے بعد کی اقتصادی تبدیلیوں کے تناظر میں کہا جاتا ہے کہ اگر عالمی GDP میں اُس برس چین اور بھارت کی مجموعی شراکت 5 فیصد سے کم تھی تو گذشتہ سال یہ کہیں بڑھ کر 20 فیصدسے بھی زائد پہنچ گئی تھی۔
ساتھیو! ایک طرف اگر ہمار ادیرینہ ”حریف“ انڈیااتنی لمبی چھلانگیں مارتا دکھائی دے رہا ہے تو دوسری طرف ہماری حالت یہ ہے کہ اگرچہ ہمیں سابق زرداری دور میں قومی امنگوں کے عین مطابق آئی ایم ایف کے چنگل سے چُھٹکارہ کی خوشخبری سُنادی گئی تھی، لیکن ہمیں موجودہ حکومت کے زما م کار سنبھالنے کے کچھ عرصہ بعد سامنے آنے وہ خبر بہت اچھی طرح یاد ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کو ڈیرھ دو برس کے وقفے کے بعد پھرسے آئی ایم ایف سے اُس کی شرائط پر قرضہ لینا پڑگیا ہے۔
پیارے قارئین؛ اگر ہم موضوع ہٰذا تک محدود رہیں تو چین و روس جیسے الگ الگ سوچ اور نظریات رکھنے والے ممالک کے علاوہ انڈیا کی چین کے ساتھ علی الاعلان مخاصمت کے باوجود BRICS میں ان سب کی اکٹھے شمولیت لیکن پاکستان کے اس میں شامل نہ ہو سکنے کا دھچکہ اپنی جگہ؛ گذشتہ برس کی ایک اور بُری خبر یہ بھی رہی کہ زرداری دورمیں کیا گیا، تُرکمانستان سے براستہ افغانستان و پاکستان، انڈیا پہنچنے والی گیس پائپ لائن کا TAPI نامی وہ معاہدہ جس میں سے گذرنے والی گیس کا ایک بڑا حصہ پاکستان کو ملنا تھا، اب پاکستان کواس میں سے عملی طور پرخارج کرنے کے بعد TAI تک محدود ہوگیا ہے کیونکہ نئے معاہدہ کے مطابق پاکستان کو گیس تو بالکل نہیں، صرف راہداری کے نام پر بس برائے نام رقم ہی مل سکے گی۔ ..............سُنتا جا، شرماتا جا