قومی اخبارات میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ نے المشہور "ازخود نوٹس" کے تحت "نیب" سے سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کی "کرپشن" کے جن 150 ہائی پروفائل کیسز کی فائلیں منگوائی ہیں، ان میں "کارروائی" ڈالنے کی غرض سے شریف برادران کے خلاف ساڑھے بارہ کروڑ روپے کی لاگت سے لاہور شہر سے جاتی امرا محلات تک سڑک کی تعمیر میں "گھپلے" کا کیس شامل کیا گیا ہے؛
اس خبر نے راقم الحروف کو سندھ حکومت کے خلاف موجودہ یکطرفہ احتسابی مہم کے آغاز میں اپنے ایک دوست کا یہ بے ساختہ تبصرہ یاد دلا دیا کہ "ہمارے منصفین کے احتسابی پر جاتی امرا اسٹیٹ کے مین گیٹ تک پہنچتے ہی جل اٹھتے ہیں" ..
میاں برادران کے زیر بار احسان افتخار چوہدری کی جانشین عدلیہ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ اس کا دائرہ کار "بڑے چور" کی کمین گاہ سے باہر تک ہی محدود ہے، ورنہ ہمارے خاکی اور سفید فام "محتسبین" جس "میگا کرپشن" کی تلاش میں پی پی پی دور کے وزرائے اعظم سمیت موجودہ سندھ حکومت کے گھروں میں تاک جھانک کر کے وقت ضائع کر رہے ہیں، اس کے "کهرے" تو اندھے کو بهی جاتی امرا کی اس محفوظ چار دیواری کے اندر تک جاتے واضح دکهائی دیتے ہیں ...
لیکن وانصیبا کہ شرفائے پنجاب کے ہیرے جواہرات سے لدے پهدے یہ پر تعیش رہائشی محلات ہمارے ہر رنگ و نسل کے محتسبین اور منصفین کیلئے "علاقہ غیر" ٹهہرے کہ نہ تهی ان کی رسائی وہاں تک ... ٰ
اسی لئے تو قارئین گرامی، موجودہ احتسابی ڈرامے میں "غیر جانبداری" کا رنگ بھرنے کیلئے شرفائے جاتی امرا کے خلاف ایک ایسے کیس کا انتخاب کیا گیا ہے، جس کا پهندہ بوقت ضرورت ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی پر مامور چند بیوروکریٹس یا انجنئیرز کے گلے میں فٹ کیا جاسکے، بالکل ویسے جیسے ماڈل ٹاؤن فائرنگ کیس کی بلا، حکم دینے والے حکومتی عہدیداروں کی بجائے احکامات کی تعمیل کرنے والے پولیس افسران کے سر ڈالنے کے بعد انہیں بهی سزا سے اس طرح صاف بچا لیا گیا ہے، جیسے اپنے سیاسی مخالف گورنر کے قتل کیلئے استعمال کئے گئے اپنے کارندے ممتاز قادری کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کے باوجود ناصرف "محفوظ" رکها جا رہا ہے بلکہ قتل کے ثابت شدہ اس خطرناک مجرم کیلئے جیل میں پر تکلف اور پر تعیش سہولیات کا بندوبست بھی باقاعدگی سے اور مسلسل کیا جا رہا ہے ...
اس خبر نے راقم الحروف کو سندھ حکومت کے خلاف موجودہ یکطرفہ احتسابی مہم کے آغاز میں اپنے ایک دوست کا یہ بے ساختہ تبصرہ یاد دلا دیا کہ "ہمارے منصفین کے احتسابی پر جاتی امرا اسٹیٹ کے مین گیٹ تک پہنچتے ہی جل اٹھتے ہیں" ..
میاں برادران کے زیر بار احسان افتخار چوہدری کی جانشین عدلیہ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ اس کا دائرہ کار "بڑے چور" کی کمین گاہ سے باہر تک ہی محدود ہے، ورنہ ہمارے خاکی اور سفید فام "محتسبین" جس "میگا کرپشن" کی تلاش میں پی پی پی دور کے وزرائے اعظم سمیت موجودہ سندھ حکومت کے گھروں میں تاک جھانک کر کے وقت ضائع کر رہے ہیں، اس کے "کهرے" تو اندھے کو بهی جاتی امرا کی اس محفوظ چار دیواری کے اندر تک جاتے واضح دکهائی دیتے ہیں ...
لیکن وانصیبا کہ شرفائے پنجاب کے ہیرے جواہرات سے لدے پهدے یہ پر تعیش رہائشی محلات ہمارے ہر رنگ و نسل کے محتسبین اور منصفین کیلئے "علاقہ غیر" ٹهہرے کہ نہ تهی ان کی رسائی وہاں تک ... ٰ
اسی لئے تو قارئین گرامی، موجودہ احتسابی ڈرامے میں "غیر جانبداری" کا رنگ بھرنے کیلئے شرفائے جاتی امرا کے خلاف ایک ایسے کیس کا انتخاب کیا گیا ہے، جس کا پهندہ بوقت ضرورت ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی پر مامور چند بیوروکریٹس یا انجنئیرز کے گلے میں فٹ کیا جاسکے، بالکل ویسے جیسے ماڈل ٹاؤن فائرنگ کیس کی بلا، حکم دینے والے حکومتی عہدیداروں کی بجائے احکامات کی تعمیل کرنے والے پولیس افسران کے سر ڈالنے کے بعد انہیں بهی سزا سے اس طرح صاف بچا لیا گیا ہے، جیسے اپنے سیاسی مخالف گورنر کے قتل کیلئے استعمال کئے گئے اپنے کارندے ممتاز قادری کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کے باوجود ناصرف "محفوظ" رکها جا رہا ہے بلکہ قتل کے ثابت شدہ اس خطرناک مجرم کیلئے جیل میں پر تکلف اور پر تعیش سہولیات کا بندوبست بھی باقاعدگی سے اور مسلسل کیا جا رہا ہے ...