گلوبل اکانومی کے دورِ میں ’’خالص مال‘‘ کا لیبل ہی کامیاب تجارت کی ضمانت قرار پایا، لہٰذا ’’کرایہ کیلئے خالی‘‘ مملکت خداداد کو ہر قسم کی ’’نیشنلسٹ’’ملاوٹ سے پاک کرنا ضروری سمجھا گیا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے بهٹو جیسے نیشنلسٹ کو راستے سے ہٹانے کے بعد، ’’ساہوکار‘‘ نے بھٹو کی جلاوطن بیٹی کو بهی "این آر او" کے ٹریپ میں پھنسا کر وطن لوٹنے کی ترغیب دی، جسے چوکیداروں نے اپنے ’’اثاثہ جات‘‘ کی مدد سے اس کے شہید بابا کے پاس بھجوادیا۔
بعدازاں بھٹو کے داماد کو اپنے عظیم سُسر اور قابل فخر اہلیہ کے نقوش ہائے پا پر چلتے دیکھ کرعالمی بنئے نے اپنے اُس کارندے کو ’’بحال‘‘ کرا کے مرد حُر کے سر پر لابٹھایا، جس نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے انوکھے لاڈلے اور پنجاب والے ہی شاطر محافظ اعظم کی مدد سے مسلسل 5 برس تک اسے اس طرح زچ کئے رکھا کہ وہ اپنے ایجنڈہ پر کھل کر کام نہ کرسکے۔
یہ’’انصاف‘‘ بھی خواتین و حضرات، آپ خود کرلیجئے کہ ساہوکار سے لے کر اس کے مقامی ایجنٹ اور محافظین سے لے کر منصفین؛ نیز کرایہ کے جہادیوں جیسے ’’اثاثہ جات‘‘ سب کا اکلوتا اور متفقہ ’’انتخاب‘‘، اس رینٹڈ اسٹیٹ کا منیجر اگر عدلیہ، نادرا، کرکٹ بورڈ، اوگرا، پیمرا، الیکشن کمیشن اور اے جی آفس جیسے تمام ریاستی اداروں کو ’’حسب منشاء‘‘ چلانے کی غرض سے ان کے ساتھ کھلواڑ کرتا پھرے یا عُمرہ کا ثواب باجماعت حاصل کرنے کے ’’نیک ارادے‘‘ سے 300 مسافروں کی گنجائش والی کمرشل فلائٹ کو اپنے اہل خانہ سمیت 60 افراد کیلئے سرکاری خرچے پر چارٹر کرکے اپنے مربی خادم الحرمین و شریفین کی زیارت کو چلا جائے یا پھر قومی ائیر لائن کی مسافر فلائٹ کو عام مسافروں سے خالی کراکے اپنی نواسی کی تقریب نکاح کے شرکاء کو سرکاری خرچ پر مقام تقریب تک پہنچاتا پهرے؛ تو کسی کو اس میں میخ من نکالنے کی بھلا کیا ضرورت ہے کیونکہ’’کھیلن کو چاند‘‘ اگر ’’انوکھا لاڈلا‘‘ نہ مانگے تو اس پر اور کس کا حق ہے بهلا؟؟..
ذرا سوچئے کہ جب ’’الباکستان‘‘ نامی مملکت خداداد کی وجۂ پیدائش ہی خطے میں عالمی ساہوکار کے کاروباری اور تذویراتی مفادات کی ’’کرایہ پر نگہبانی‘‘ ٹھہری تو اس بزنس کیلئے اپنے آزمودہ ’’منیجر‘‘ کا انتخاب المریکہ نامی ساہوکار اور اس کے السعودیہ نامی انوسٹر کا صوابدیدی اختیار بنتا تو ہے، بالخصوص جب وہ مقامی دلال ’’السعودیہ‘‘ کا محبوب و مرغوب ہونے کے علاوہ طالبان نامی اس کے موبائل کریڈٹ آفیسرز کی ’’ضمانت‘‘ جیسی اہم ترین کوالفکیشن پر بھی پورا اُترتا ہو؟ جس کی ترجیحی اہلیت میں ’’سیکورٹی رسک‘‘ پارٹی کے خلاف چوکیدار کی اکلوتی چوائس ہونے کی خوبی بهی شامل حال رہی ہو اور ’’ایوان عدل‘‘ سمیت تمام تر ریاستی اداروں کو تن تنہا خرید لینے کا وسیع تر اضافی تجربہ بھی صرف اسی کے پاس ثابت ہوتا ہو؟؟؟..