8 جولائی، 2015

پاکستان میں بین الاقوامی اور قومی اسٹیبلشمنٹ کا کردار

جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے۔ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کے ساتھ حکمرانی کرتی آئی ہے۔ کبھی تو براہ راست مارشل لاؤں اور فوجی حکومتوں کے ذریعے اور کبھی سولئین چہروں کے پیچھے چھپ کر۔ حقیقی اقتدار فوجی جنتا کے پاس ہی رہا ہے۔ درمیان میں بھٹو نے اسے چیلنج ضرور کیا اور عوام میں سیاسی شعور کی ایک لہر دوڑا دی۔ بھٹو نے پاکستان کے لئے بہت سی گراں قدر خدمات انجام دیں جو کہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اور مستقبل میں جب کبھی کوئی با مقصد تحریک چلے گی اسے جلا بخشتی رہیں گی۔ پاکستان کی کم و بیش گزشتہ پینتالیس سال کی سیاست بھٹو کے گرد ہی گھومتی رہی ہے۔ پاکستان کو اپنا نام نہاد جمہوری چہرہ رکھنے کے لئے انتخابات بھی کروانے پڑتے تھے اور بے اختیار سولئین حکومتیں بھی بنتی رہیں۔ اصل اختیارات مقتدر حلقوں کے پاس ہی رہتے تھے۔ جبکہ قومی مقتدر حلقوں کو بین الاقوامی پشت پناہی حاصل رہی- بھٹو کو پاکستانی مقتدر حلقوں نے ایک طرح کے عدالتی قتل کے ذریعے منظر سے ہٹا دیا۔ بھٹو کی جانشین ان کی بیٹی بینظیر کو بھی وسیع تر عوامی حمایت حاصل رہی۔ بالآخر بینظیر کو بھی دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا۔ 
قومی مقتدر حلقوں نے اچھی خاصی طاقت پکڑ لی اور اس قابل ہو گئی کہ انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکے۔ قومی مقتدر حلقے بھٹو کی پیپلز پارٹی کو منظر سے غائب کرنے کی کوشش کر تے رہے۔ پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لئے ہر جائز آور ناجائز حربہ استعمال کی گیا۔ میڈیا اور عدالتیں جانب دارانہ رویہ اختیار کرتی رہیں۔ بینظیر کے شوہر آصف علی زرداری کو بدترین انتقام، کردار کشی اور جھوٹے مقدموں میں الجھائے رکھا۔ اب صورتحال بالخصوص پنجاب یہ ہے کہ ہر برائی، بیہودگی اور کرپشن کا ذمہ دار زرداری ہے۔ یہ کردار قومی مقتدر حلقوں کی پشت پناہی کے ساتھ بکاؤ، بے ضمیر اور انتہائی جانبدار میڈیا ادا کرتا رہا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ آمریت کے بد ترین انتقام کا شکار، گیارہ سال سے زائد عرصہ جیلوں میں گزارنے والا زرداری ولن ہے اور طاقتور مقتدر حلقوں کی ڈگڈگی پر ناچنے والے ہیرو ہیں۔ کم از کم پنجاب میں یہ تصور عام ہے کہ زرداری کھا گیا۔ میڈیا زدہ لوگ یہ بھی نہیں سوچتے کہ 1977 کے بعد پنجاب میں تو پیپلز پارٹی کی حکومت بننے ہی نہیں دی گئی تو پنجاب کو زرداری کیسے کھا گیا۔ اس نے کھایا ہو گا تو سندھ کو۔ اور سندھی ان کا ووٹ کے ذریعے احتساب کریں۔ مگر سندھی ہر الیکشن میں پیپلز پارٹی کو پہلے سے زیادہ ووٹ دے کر عزت بخشتے ہیں۔ 
۲۰۰۱ کے ۹/۱۱ کے بعد بین الاقوامی افق پر ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں کہ جنہوں نے پاکستان کے اندر بھی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ اب روس تقسیم کو گیا۔ امریکہ واحد سپر پاور رہ گیا۔ طالبان اور القائدہ جیسی دہشتگرد مسلح تنظیمیں معرض وجود میں آ گئیں جن سے پوری دنیا خطرہ محسوس کرنے لگی۔ اب پاکستان میں دنیا کی دلچسپی طالبان مخالف قوتوں میں پیدا ہوئی۔ شروع سے قائم ہونے والے ملا ملٹری اتحاد کو بھر پور موقع دیا گیا کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کریں۔ چنانچہ ۲۰۰۲ کے انتخابات میں ملا ملٹری الائینس کی حکومت قائم کر دی گئی۔ 
واضع رہے کہ پاکستان میں حکومت سازی کا کام قومی اسٹیبلشمنٹ ہی کرتی رہی جسے بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمائت حاصل ہوتی تھی۔ اب ۲۰۰۲ کے بعد بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ نے حکومت سازی کے بنیادی فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ قومی اسٹیبلشمنٹ ان فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ دار ٹھہری۔ اب بین الاقوامی سطح پر یہ تصور راسخ ہونے لگا کہ لبرل قوتیں ہی دہشت گردی کا مقابلہ کر سکتی ہیں اور دیگر تمام قوتیں تو کسی نہ کسی حوالے سے دہشت گردی اور طالبان کی ہی حامی و مددگار ہیں۔ ان میں ہماری ملٹری ایسٹیبلشمنٹ کے بنائے ہوئے تمام تزویراتی اثاثے شامل ہیں۔ اب ۲۰۰۸ کا الیکشن آتا ہے۔ اب بین الاقوامی ایسٹیبلشمنٹ کا خطے کے عمومی اور پاکستان کے خصوصی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے لبرل کی حکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔ قومی ایسٹیبلشمنٹ نے یہ فیصلہ دباؤ کے تحت با دل نا خواستہ قبول کیا۔ بینظیر کو جو نا جائز طور پر انتخاب کے لُئے نا اہل قرار دیا گیا تھا انہیں اہل قرار دے دیا گیا۔ اسفندیار ولی کو امریکہ کا دورہ کروا کر طالبان مخالف کردار ادا کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ مگر انتخابی مہم کے دوران بینظیر کو شہید کر دیا گیا۔ اب ۲۰۰۸ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے واضع اکثریت کے ساتھ جیتنے کے آثار پیدا ہو گیے۔ اب قومی اسٹیبلشمنٹ کی کوشش تھی کہ پیپلز پارٹی واضع اکثریت حاصل نہ کر سکے۔ چنانچہ پیپلز پارٹی کے مخالف ووٹ کو تقسیم سے بچانے کے لئے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف سے بائی کاٹ کروایا گیا، پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو نقصان پہنچانے کے لئے آزاد امیدوار کھڑے کئے گئے اور دیگر روائتی انتظامی حربے استعمال کئے گُیے۔ یوں پیپلز پارٹی جو واضع اکثریت حاصل کر سکتی تھی وہ محض اکثریتی پارٹی بن سکی۔ 342 کے قومی اسمبلی کے ایوان میں پیپلز پارٹی کی 124سیٹیں تھیں جبکہ وہ 180 سیٹیں حاصل کرکے ایک مضبوط لبرل حکومت بنا سکتی تھی۔ اب پیپلز پارٹی کو اپنی اکثریت بنانے کے لئے متعدد پارٹیوں سے اتحاد کرنا پڑا۔ جن میں ایم کیو ایم، اے این پی، جے یو آئی ایف، فاٹا کے ارکان اور کچھ چھوٹی پارٹیاں بھی شامل تھیں۔ اس طرح ایک کمزور حکومت پیپلز پارٹی کے حوالے کی گئی۔ اس کمزور حکومت کو مزید بے بس رکھنے کے لئے جانبدار عدلیہ اور بے رحم میڈیا کو پیچھے لگا دیا گیا۔ مگر پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ سوئلین حکومت اور صدر زرداری نے پانچ سال پورے کر کے ایک ریکارڈ قائم کر دیا۔
۲۰۱۳ کے انتخابات میں بھی حکومت سازی کے فیصلے اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ نے نافظ کروائے۔ 
اب صورتحال یہ ہے کہ آئندہ فیصلے بھی بین الاقوامی ایسٹیبلشمنٹ نے ہی کرنے ہیں۔ اگر لبرل حکومت مفاد میں ہوئی تو اس کا بندوبست چنداں مشکل نہیں ہو گا. اب لبرل پیپلز پارٹی عوام کے پاس جانے سے گریزاں ہے۔ شاید صرف جوڑ توڑ پر انحصار کرنا چاہتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر چھوٹے بڑے شہر و قصبے میں جائے، عوام سے رابطہ کرے۔ اپنی اصل طاقت پر بھروسہ کرے۔ اگلے انتخابات میں حیران کن چیزیں دیکھنے کو ملیں گی اور ایسا بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے ہو گا۔

تلاش کیجئے