ثابت ہو گیا کہ ہمارا مینڈیٹ جعلی نہیں، اصلی ہے"؛ جب "مینڈیٹ" دینے والوں نے خود تصدیق فرما دی ہے تو نواز شریف کے اس دعوے کو مسترد کرنے کی جرات بهلا کون کرسکتا ہے؟.
کون نہیں جانتا کہ نواز شریف اور افتخار چوہدری دونوں کو، ان کے دعوے کے مطابق، انکوائری کمیشن میں بیٹهے جس تین رکنی "اللہ" نے "سرخرو" کیا ہے، 2013 میں اسی کی "آر اوز" نامی "مخلوق" نے ہی اس "مینڈیٹ" کا پکا بندوبست کیا تها ..
اسی حوالے سے عمران خان کی جانب سے کمیشن کی رپورٹ پر آمنا و صدقنا کہنا البتہ اس "اصل مک مکا" کی کہانی بهی بیان کئے جا رہا ہے، جس کا اہتمام "قومی مفاد" کے دیرینہ ٹهیکے داروں نے دھرنے کے اختتامی ایام میں کر دیا تها ...
اور جس کی روشنی میں خان صاحب نے سب سے پہلے میاں صاحب کے استعفے کی شرط واپس لے کر اس جوڈیشل کمیشن پر صاد فرما لیا، جس کی پیشکش میاں صاحب نام نہاد "لانگ مارچ" اور دھرنے کے آغاز سے پہلے ہی انہیں کر چکے تھے ..
دھرنے کو لپیٹ دینے کیلئے خان کو البتہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے معصوم بچوں پر بیتی قیامت نے "باعزت پسپائی" کی راہ سجهائی ..
بعدازاں ریحام خان کی شکل میں "نئے پاکستان" کے بنی گالہ پہنچ جانے سے "تبدیلی" کی رفتار کچھ اس قدر تیز ہوتی گئی کہ پہلے سینیٹ الیکشن میں نواز لیگ کے ساتھ "سیٹ ایڈجسٹمنٹ"؛ پهر قومی اسمبلی میں "باعزت واپسی" اور بالآخر نواز شریف کی تنخواہ دار عدالت پر مشتمل "انکوائری کمیشن" کے فیصلے کو "آنکھیں بند کر کے تسلیم" کر لینے کے پیشگی اعلان کی شکل میں "قومی مفاد" والوں کی پروردہ دونوں پارٹیوں کے مابین "عقد مفادیہ" کی واضح علامات کے سامنے آنے کے باوجود میلوں ٹهیلوں کے عادی "یوتهیوں" اور ہمیشہ بے پر کی اڑا کر "رزق حلال" کے متلاشی "اینکروں" کی تفریح طبع کیلئے "فرینڈلی فائرنگ" کا دوطرفہ سلسلہ ساتھ ساتھ جاری رکهنا البتہ طرفین کی "پیشہ ورانہ مجبوری" سمجھا جانا چاہئے ..
قارئین کرام؛ یہ اسی "اصیل مک مکا" کا ہی کرشمہ سمجھا جائے کہ خان اعظم نے انکوائری کمیشن کے سامنے، دهرنا بازی کے دوران اپنے بلند آہنگ دعووں کے برعکس، نہ تو اس بد ترین انتخابی دھاندلی کے ماسٹر مائنڈ افتخار چوہدری کو فریق بنایا اور نہ ہی اس کے مقرر کردہ ریٹرننگ افسران پر کوئی اعتراض داخل کیا بلکہ نجم سیٹھی کی کمیش کے روبرو پیشی کے موقع پر پینتیس پنکچرز والی المشہور دڈیو سنوا کر اس پر جرح کی ضرورت بهی محسوس نہ گئی بلکہ گواہ کے طور پر اپنا نام درج کرانے کے باوجود خان نے خود وہاں پیش ہونا ہی ضروری نہ جانا؛ حد یہ ہے کہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی زیرنگرانی کام کرنے والے "سپیشل الیکشن سیل" جیسے اہم اور ناقابل تردید شواہد پر اصرار سے بهی گریز کیا گیا ...
اندریں حالات؛ ہمارے سینئر دوست اور معروف تاریخ دان و تجزیہ نگار جناب پروفیسر محمد یوسف اعوان کی یہ رائے کیا زمینی حقائق کے قریب قریب نہیں لگتی کہ "آئندہ انتخابات میں (اگر یہ رونما ہو سکے تو) نواز لیگ اور سونامی لیگ "فطری اتحادی" کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں"؟؟..
خواتین و حضرات؛ درج بالا سطور میں بریکٹس میں درج "شرط" راقم الحروف کے ذاتی "اندیشہ ہائے دور و دراز" پر استوار ہے ....