اے حضرت انسان! بیکراں کائنات کی وسعتوں کو دیکھ، کرۂ ارض کی رنگینیوں کو دیکھ، اپنے گرد و نواح پر غور کر، قسم قسم کے درخت، پودے، پھل، سبزیاں، رنگا رنگ سبزے کو دیکھ، ہر طرف رنگ ہی رنگ، خوبصورتی ہی خوبصورتی، کہیں حد نظر سبزہ ہی سبزہ، کہیں صحراؤں کی وسعتیں،
اور پھر کوہستانی نظارے، معدنیات سے مالامال پہاڑ، ان پر کہیں برف کی سفید چادر، کہیں طویل القامت درخت، قسم قسم کے ان گنت ذائقوں والے میوے۔
اور جانوروں کو دیکھ، ان کی قسموں پر غور کر، ان کی نسلیں شمار کر، یہ تمہیں کیا کیا مہیا کرتے ہیں، سفید میٹھا دودھ، گوشت، سواری، بار برداری، کھیتی باڑی، ان کے خوبصورت رنگ شمار کر۔
اور رنگ رنگا پرندوں پر غور کر، ان کے رنگوں کو دیکھ، ان کی چہچہاہٹ پر غور کر، ان کی آوازوں کے ترنم کو سن، ہواؤں کی موسیقی پر غور کر۔
اور پانی کے ذخیرے، میدانوں، پہاڑوں، ریگستانوں کے بیچ میں سے بہتے دریا، ندیاں، نالے، چشمے، آبشاریں، زیر زمین پانی کے ذخیرے، بارش کی صورت میں برستا پانی اور ان پانیوں میں مچھلیاں، قسم قسم کی مخلوق،
اور سمندروں کی طرف نگاہ دوڑا، حد نظر تک پانی ہی پانی، اس پانی میں قسم قسم کی سمندری مخلوق، ہیرے، جواہرات، موتی۔
کرۂ ارض کے اوپر، نیچے، ارد گرد خوراک ہی خوراک، قسم قسم کی خوراک، قسم قسم کے پھل، لاتعداد قسموں کی سبزیاں، گوشت، دودھ، سمندری خوراک کی فراوانی اور پانی کی فراوانی۔
اور اے حضرت انسان! تیرے پاس عقل ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے۔ تو کائنات کے پوشیدہ قوانین دریافت کر سکتا ہے۔ مزید خوراک پیدا کر سکتا ہے، خوراک کے انبار لگا سکتا ہے۔
حیرت ہے کہ تجھے بھوک کا سامنا ہے، تجھے پانی نہیں ملتا۔ اپنی صلاحیتوں کا مثبت استعمال کر، ارتقاء کی جانب رواں دواں کائناتی عمل میں اپنا حصہ ڈال۔ تو کس راہ پر چل پڑا ہے، قتل و غارت اور وہ بھی اپنوں کا، جنگ و جدال اور وہ بھی انسانوں کے خلاف، تو کیا مذہبوں، فرقوں، رنگوں، قوموں کے جھگڑے لے بیٹھا ہے، ان میں الجھ کے رہ گیا ہے، کائنات کے ارتقاء نے تمہارا انتظار نہیں کرنا، وہ تو ہو ہی رہا ہے اور ہوتا ہی رہے گا۔ البتہ تو پیچھے رہ گیا ہے۔ زندگی رواں دواں ہے، پرانے درخت کی جگہ نئے درخت لے رہے ہیں، بوڑھے جانوروں کی جگہ مزید خوبصورت جوان جانور لے رہے ہیں۔
اور پھر دیکھ دادے دادی اور نانے نانی کی جگہ گنگناتے، نئی خوبصورتیوں کے ساتھ، تازہ امنگوں کے ساتھ چھلانگیں لگاتے ہوئے ان کے بیٹے، بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں موجود ہیں۔ زندگی ہر دم جواں ہے، خوب سے خوب تر ہے اور خوب ترین کی طرف گامزن ہے۔
سمجھتے ہیں ناداں اسے بے ثبات
ابھرتا ہے مٹ مٹ کے نقش حیات
اس لئے اے شہنشاہ ارض! اے دو ٹانگوں والے جانور! انسان بن انسان۔ اپنے حصے کی زندگی بھرپور طریقے سے گزار۔ ایک دوسرے کے کام آ۔ محبت کے گیت گا۔ کائنات کی وسعتوں کے لطف اٹھا۔ دیکھ! نہ تو جانور اور نہ ہی پرندے رزق جمع کرتے ہیں اور نہ ہی وہ کبھی بھوکے مرتے ہیں۔ تو بھی ذخیرہ اندوزی چھوڑ دے۔ انسان بن۔ کہ تو تو شہنشاہ ارض ہے۔ تیری ذمہ داری تو کرۂ ارض کا تحفظ ہے نہ کہ بربادی۔