حکیم اللہ محسود کے ڈرون کی نذر ہونے پر ہمارے پیارے خان عمران خان اور چودھری نثار خان جس کے گلے لگے دهاڑیں مار مار کر روتے پائے گئے، طالبان کا سابق ترجمان اور داعش کا حالیہ سینئر کمانڈر وہ شاہد اللہ شاہد بهی اب اپنے ساتھیوں سمیت ننگرہار افغانستان کے علاقے اچن میں داغے گئے تازہ ترین "ڈرون" کی زد میں آگیا ..
یقین جانئے قارئین؛ ہمیں مذکورہ بالا ہر دو خان صاحبان کی "بے وفائی" پر خاصی حیرت ہو رہی ہے کیونکہ طالبان ہوں یا داعش کے جنگجو، ہماری نگاہ میں "مملکت خداداد" کی "تذویراتی گہرائی" میں ہر دو میں سے کسی کا مقام بهی "ہائی ویلیو پراڈکٹ" کی حیثیت میں کسی بهی طرح دوسرے سے کم نہیں ...
جی ہاں خواتین و حضرات؛ سال ڈیڑھ پہلے جب ریاست الباکستان کی جانب سے طالبان کے خلاف "ضرب عضب" کا سٹیج سجایا جا رہا تھا تو ہم نے آپ کو اسی سمے آگاہ کر دیا تها کہ طالبان کا چیپٹر حکیم اللہ محسود کی ڈرون زدگی اور اس کے بعد ہمارے ان "اثاثہ جات" کی پہلے براستہ "مذاق رات" جہاد شام و بحرین کیلئے بھرتی اور باقیماندہ کی شمالی وزیرستان سے اندرون ملک اور افغانستان کی محفوظ کمین گاہوں تک منتقلی کے ساتھ فی الحال بند کر دیا گیا ہے، جبکہ "کاروبار جہاد" میں خصوصی مہارت رکهنے والی اس ریاست کے نئے "پراڈکٹ" کا نام "داعش" کے سوا کچھ نہیں ..
وہ تو اللہ بهلا کرے، ہماری "سونامی" کا کہ اسلام آباد پر جس کی چڑهائی کا زور توڑنے کیلئے ہمارے "ضامن" کے ضمانت کاروں کو بلا پیشگی منصوبہ بندی اور شاید اپنے سرپرستوں کی اجازت کے بغیر ہی، پشاور کے ننھے فرشتوں کے خون سے ہولی کھیلنے کیلئے اچانک پهر سے منظر عام پر آنا ہڑا ..
شاہد اللہ شاہد کی ڈرون زدگی کے ساتھ "لیک" ہونے والی یہ خبر بھی ریاست الباکستان کی اپنے اس نسل کے تذویراتی اثاثہ جات کے ساتھ بهرپور "وفاداری" کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ موصوف کے ٹھکانے سے پاکستانی شناختی کارڈ کے علاوہ پاکستان کا باقاعدہ پاسپورٹ بهی برآمد ہوا ہے جبکہ اس کے پاس موجود پاکستانی کرنسی یہ ظاہر کرتی ہے کہ آنجناب شیخ مقبول کے شناختی نام سے گاہے بگاہے اپنے سابق "مہربان" ملک کو میزبانی کا شرف بجشتے رہتے تھے ...
دوستو اور ساتھیو؛ طالبان کے سابق ترجمان پر گرے تازہ ڈرون کا "سانحہ" اگرچہ پاکستان میں نہیں افغانستان میں رونما ہوا ہے، بہرحال اس نے ہمارے اس "تهیسز" کی خاصی حد تک تصدیق ضرور کر دی ہے کہ "ضرب عضب" کے باوجود اب تک مارے گئے تقریباً تمام "ہائی پروفائل" دہشت گرد امریکی ڈرون ہی کی نذر ہوئے ہیں؛ جبکہ ہزاروں معصوم پاکستانیوں کے قتل عام کے بهیانک جرائم میں ملوث شاہد اللہ شاہد جیسے خطرناک دہشت گردوں کو افغانستان فرار ہونے کا موقع فراہم کرنا بجائے خود ریاست کی "حکمت عملی" پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ...
اس حوالے سے بهی ہم وقتاً فوقتاً اپنے قارئین کی وساطت سے اربابِ بست و کشاد کے سامنے کچھ "حساس" قسم کے نکات و سوالات اٹھائے کی جرات کرتے رہے ہیں ... مثلاً ہم نے ایک بار لکھا کہ ......
آپریشن "ضرب عضب" کے آغاز میں تاخیر پر عام پاکستانی کے ذہن میں سر اٹھانے والے اس سوال کو "سازشی نظریہ" کہہ کر نظر انداز نہیں کر دینا چاہئے کہ کہیں ’’ریاست‘‘ مذاق رات نامی کھیل کی پردہ پوشی میں 60,000 پاکستانیوں کے قاتل اپنے تذویراتی اثاثہ جات کی’’محفوظ مقامات‘‘ پر منتقلی کا انتظار تو نہیں کرتی رہی؟؟ جبکہ پاک فوج کے سابق ترجمان جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے سلسلے میں جنرل کیانی کی جس ’’ہچکچاہٹ‘‘ کا انکشاف کیا ہے، موجودہ آرمی چیف بھی تادیر کم و بیش اسی ’’حکمت عملی‘‘ پر کاربند رہے۔؟؟.
جبکہ "ضرب عضب" کے آغاز سے اب تک ہمارا یہ مخمصہ کبهی دور نہ ہو سکا کہ آخر آئے روز کی اخباری خبروں کے مطابق اب تک جو ہزاروں دہشت گرد وزیرستان میں مارے گئے ہیں، وہ کیا کسی "نوری مخلوق" سے تعلق رکهتے ہیں کہ نہ کسی کا کوئی نام پتہ، نہ ہی کوئی فوٹیج بلکہ جائے تدفین تک بھی صیغۂ غائب میں ...
اس حوالے سے بهی ہماری طرف سے بار بار کہا جاتا رہا کہ ...
کیا قوم اتنا پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ جن سینکڑوں گوریلوں کی فضائی حملوں کے نتیجے میں ہلاکت کے دعوے کئے جارہے ہیں، اُن میں سے کسی ایک ڈیڈ باڈی کی تصویر بھی میڈیا کو ریلیز کیوں نہیں کی جاسکی؟؟.
ہم اپنے اس شبے کا اظہار بھی اشاروں کنایوں میں بارہا کر چکے ہیں کہ ضربِ عضب میں کام آنے والے دہشت گردوں بارے میڈیا کو جاری کی جارہی اطلاعات میں غیر معمولی مبالغے کا عنصر شامل ہے، ورنہ ان کامیاب "ٹارگٹس" سمیت شہید ہونے والے فوجی جوانوں اور افسروں کے نام پتے جاری کرنے میں کوئی مصلحت بڑے بڑوں کی سمجھ و فہم سے بالا ہے ..
علاوہ ازیں یہ بهی ہم پوچھتے رہے کہ شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان کے متحارب گروہوں کے کمانڈروں اور جہادیوں سمیت ازبکستان اسلامک موومنٹ اور ترکمانستان اسلامک موومنٹ سے تعلق رکھنے والے گوریلوں کی شناخت اور ان کی قیادت بارے تفصیلی اور قابل اعتماد اطلاعات سے قوم اور میڈیا دونوں کو محروم کیوں رکھا جارہا ہے؟؟.
آپریشن ضربِ عضب کے آغاز میں غیر معمولی تاخیر تو ہمارے علاوہ پوری قوم کیلئے بهی دائمی الجھن کا باعث رہا ہی ہے، اسی لئے ہم نے ایک بار دست سوال کچھ یوں بهی دراز کیا کہ ...
پیارے "شریفین"، آپریشن میں غیر معمولی تاخیر کی وجہ سے، شمالی وزیرستان میں موجود 10,000 دہشت گردوں میں سے 8,000 کے فرار ہو جانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟؟۔
ابھی ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہے تھے کہ یہ سابق آرمی چیف جنرل کیانی کی دہشت گرد طالبان کے ساتھ خصوصی "وابستگی" تھی یا پاک فوج کا عمومی مزاج، جس نے بقول جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس، انہیں شمالی وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ رُکوانے پر مجبور کیا؛ کہ نجم سیٹھی کے ایک انکشاف کے مطابق کیانی کو سوات آپریشن میں بھی ہکچکاہٹ کے بعد بامر مجبوری ہی جانا پڑا؟؟۔
دریں اثناء آپریشن حرب ضرب کے آغاز سے ہفتہ بھر قبل ہزاروں عسکریت پسندوں کے شمالی وزیرستان سے بھیس بدل کر فرار پونے کی خبر نے اس شُبہ کی تصدیق کردی تهی کہ جنرل شریف اور وزیر اعظم شریف پر مشتمل موجودہ طالبان نواز "سیٹ اپ" نے "مذاق رات" نامی ڈرامہ بازی کی آڑ میں میں بہت سا قیمتی وقت اپنے "بھائی بندوں" کو محفوظ ٹھکانوں تک "یجرت" کے بھرپور مواقع کی فراہمی کیلئے ضائع کردیا ...
آخری لیکن اہم ترین سوال اس ضمن میں قارئین گرامی؛ ہمارے ایک دوست کے الفاظ میں کچھ یوں بنے گا کہ ...
صرف اڑھائی ہزار مربع میل کے علاقہ پر ایک سال سے جاری جنگ کب ختم ہو گی؟. علاقہ چاروں اطراف سے گھیرے میں ہے؛ ہر ماہ ہزاروں اہم ملیٹنٹس مارے جاتے ہیں. بے پناہ ٹھکانے تباہ ہو چکے ہیں، تیس ہزار فوجی، دنیا کی بہترین ائیر فورس، امریکی ڈرون اور سیٹلائٹ کی مدد، ایمونیشن سنسرز، GPS، جدید میزائیل، ٹینک وغیرہ؛ نیز شہری آبادی کو بھی نکال دیا ہے، لیکن پھر بھی کچھ نہیں معلوم یہ جنگ کب ختم ہو گی.؟؟. شاید اس جنگ کو تین سال مزید طول دیا جائے گا تاکہ موجودہ طالبان نواز "سیٹ اپ" کی مدت بآسانی پایہ تکمیل تک پہنچائی جا سکے؛ نیز یہ کہ وار آن ٹیرر کے نام پر "ڈالرز" کی آمد آمد کا منافع بخش کاروبار بهی جاری و ساری رہے؟؟؟.
یقین جانئے قارئین؛ ہمیں مذکورہ بالا ہر دو خان صاحبان کی "بے وفائی" پر خاصی حیرت ہو رہی ہے کیونکہ طالبان ہوں یا داعش کے جنگجو، ہماری نگاہ میں "مملکت خداداد" کی "تذویراتی گہرائی" میں ہر دو میں سے کسی کا مقام بهی "ہائی ویلیو پراڈکٹ" کی حیثیت میں کسی بهی طرح دوسرے سے کم نہیں ...
جی ہاں خواتین و حضرات؛ سال ڈیڑھ پہلے جب ریاست الباکستان کی جانب سے طالبان کے خلاف "ضرب عضب" کا سٹیج سجایا جا رہا تھا تو ہم نے آپ کو اسی سمے آگاہ کر دیا تها کہ طالبان کا چیپٹر حکیم اللہ محسود کی ڈرون زدگی اور اس کے بعد ہمارے ان "اثاثہ جات" کی پہلے براستہ "مذاق رات" جہاد شام و بحرین کیلئے بھرتی اور باقیماندہ کی شمالی وزیرستان سے اندرون ملک اور افغانستان کی محفوظ کمین گاہوں تک منتقلی کے ساتھ فی الحال بند کر دیا گیا ہے، جبکہ "کاروبار جہاد" میں خصوصی مہارت رکهنے والی اس ریاست کے نئے "پراڈکٹ" کا نام "داعش" کے سوا کچھ نہیں ..
وہ تو اللہ بهلا کرے، ہماری "سونامی" کا کہ اسلام آباد پر جس کی چڑهائی کا زور توڑنے کیلئے ہمارے "ضامن" کے ضمانت کاروں کو بلا پیشگی منصوبہ بندی اور شاید اپنے سرپرستوں کی اجازت کے بغیر ہی، پشاور کے ننھے فرشتوں کے خون سے ہولی کھیلنے کیلئے اچانک پهر سے منظر عام پر آنا ہڑا ..
شاہد اللہ شاہد کی ڈرون زدگی کے ساتھ "لیک" ہونے والی یہ خبر بھی ریاست الباکستان کی اپنے اس نسل کے تذویراتی اثاثہ جات کے ساتھ بهرپور "وفاداری" کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ موصوف کے ٹھکانے سے پاکستانی شناختی کارڈ کے علاوہ پاکستان کا باقاعدہ پاسپورٹ بهی برآمد ہوا ہے جبکہ اس کے پاس موجود پاکستانی کرنسی یہ ظاہر کرتی ہے کہ آنجناب شیخ مقبول کے شناختی نام سے گاہے بگاہے اپنے سابق "مہربان" ملک کو میزبانی کا شرف بجشتے رہتے تھے ...
دوستو اور ساتھیو؛ طالبان کے سابق ترجمان پر گرے تازہ ڈرون کا "سانحہ" اگرچہ پاکستان میں نہیں افغانستان میں رونما ہوا ہے، بہرحال اس نے ہمارے اس "تهیسز" کی خاصی حد تک تصدیق ضرور کر دی ہے کہ "ضرب عضب" کے باوجود اب تک مارے گئے تقریباً تمام "ہائی پروفائل" دہشت گرد امریکی ڈرون ہی کی نذر ہوئے ہیں؛ جبکہ ہزاروں معصوم پاکستانیوں کے قتل عام کے بهیانک جرائم میں ملوث شاہد اللہ شاہد جیسے خطرناک دہشت گردوں کو افغانستان فرار ہونے کا موقع فراہم کرنا بجائے خود ریاست کی "حکمت عملی" پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ...
اس حوالے سے بهی ہم وقتاً فوقتاً اپنے قارئین کی وساطت سے اربابِ بست و کشاد کے سامنے کچھ "حساس" قسم کے نکات و سوالات اٹھائے کی جرات کرتے رہے ہیں ... مثلاً ہم نے ایک بار لکھا کہ ......
آپریشن "ضرب عضب" کے آغاز میں تاخیر پر عام پاکستانی کے ذہن میں سر اٹھانے والے اس سوال کو "سازشی نظریہ" کہہ کر نظر انداز نہیں کر دینا چاہئے کہ کہیں ’’ریاست‘‘ مذاق رات نامی کھیل کی پردہ پوشی میں 60,000 پاکستانیوں کے قاتل اپنے تذویراتی اثاثہ جات کی’’محفوظ مقامات‘‘ پر منتقلی کا انتظار تو نہیں کرتی رہی؟؟ جبکہ پاک فوج کے سابق ترجمان جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے سلسلے میں جنرل کیانی کی جس ’’ہچکچاہٹ‘‘ کا انکشاف کیا ہے، موجودہ آرمی چیف بھی تادیر کم و بیش اسی ’’حکمت عملی‘‘ پر کاربند رہے۔؟؟.
جبکہ "ضرب عضب" کے آغاز سے اب تک ہمارا یہ مخمصہ کبهی دور نہ ہو سکا کہ آخر آئے روز کی اخباری خبروں کے مطابق اب تک جو ہزاروں دہشت گرد وزیرستان میں مارے گئے ہیں، وہ کیا کسی "نوری مخلوق" سے تعلق رکهتے ہیں کہ نہ کسی کا کوئی نام پتہ، نہ ہی کوئی فوٹیج بلکہ جائے تدفین تک بھی صیغۂ غائب میں ...
اس حوالے سے بهی ہماری طرف سے بار بار کہا جاتا رہا کہ ...
کیا قوم اتنا پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ جن سینکڑوں گوریلوں کی فضائی حملوں کے نتیجے میں ہلاکت کے دعوے کئے جارہے ہیں، اُن میں سے کسی ایک ڈیڈ باڈی کی تصویر بھی میڈیا کو ریلیز کیوں نہیں کی جاسکی؟؟.
ہم اپنے اس شبے کا اظہار بھی اشاروں کنایوں میں بارہا کر چکے ہیں کہ ضربِ عضب میں کام آنے والے دہشت گردوں بارے میڈیا کو جاری کی جارہی اطلاعات میں غیر معمولی مبالغے کا عنصر شامل ہے، ورنہ ان کامیاب "ٹارگٹس" سمیت شہید ہونے والے فوجی جوانوں اور افسروں کے نام پتے جاری کرنے میں کوئی مصلحت بڑے بڑوں کی سمجھ و فہم سے بالا ہے ..
علاوہ ازیں یہ بهی ہم پوچھتے رہے کہ شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان کے متحارب گروہوں کے کمانڈروں اور جہادیوں سمیت ازبکستان اسلامک موومنٹ اور ترکمانستان اسلامک موومنٹ سے تعلق رکھنے والے گوریلوں کی شناخت اور ان کی قیادت بارے تفصیلی اور قابل اعتماد اطلاعات سے قوم اور میڈیا دونوں کو محروم کیوں رکھا جارہا ہے؟؟.
آپریشن ضربِ عضب کے آغاز میں غیر معمولی تاخیر تو ہمارے علاوہ پوری قوم کیلئے بهی دائمی الجھن کا باعث رہا ہی ہے، اسی لئے ہم نے ایک بار دست سوال کچھ یوں بهی دراز کیا کہ ...
پیارے "شریفین"، آپریشن میں غیر معمولی تاخیر کی وجہ سے، شمالی وزیرستان میں موجود 10,000 دہشت گردوں میں سے 8,000 کے فرار ہو جانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟؟۔
ابھی ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہے تھے کہ یہ سابق آرمی چیف جنرل کیانی کی دہشت گرد طالبان کے ساتھ خصوصی "وابستگی" تھی یا پاک فوج کا عمومی مزاج، جس نے بقول جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس، انہیں شمالی وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ رُکوانے پر مجبور کیا؛ کہ نجم سیٹھی کے ایک انکشاف کے مطابق کیانی کو سوات آپریشن میں بھی ہکچکاہٹ کے بعد بامر مجبوری ہی جانا پڑا؟؟۔
دریں اثناء آپریشن حرب ضرب کے آغاز سے ہفتہ بھر قبل ہزاروں عسکریت پسندوں کے شمالی وزیرستان سے بھیس بدل کر فرار پونے کی خبر نے اس شُبہ کی تصدیق کردی تهی کہ جنرل شریف اور وزیر اعظم شریف پر مشتمل موجودہ طالبان نواز "سیٹ اپ" نے "مذاق رات" نامی ڈرامہ بازی کی آڑ میں میں بہت سا قیمتی وقت اپنے "بھائی بندوں" کو محفوظ ٹھکانوں تک "یجرت" کے بھرپور مواقع کی فراہمی کیلئے ضائع کردیا ...
آخری لیکن اہم ترین سوال اس ضمن میں قارئین گرامی؛ ہمارے ایک دوست کے الفاظ میں کچھ یوں بنے گا کہ ...
صرف اڑھائی ہزار مربع میل کے علاقہ پر ایک سال سے جاری جنگ کب ختم ہو گی؟. علاقہ چاروں اطراف سے گھیرے میں ہے؛ ہر ماہ ہزاروں اہم ملیٹنٹس مارے جاتے ہیں. بے پناہ ٹھکانے تباہ ہو چکے ہیں، تیس ہزار فوجی، دنیا کی بہترین ائیر فورس، امریکی ڈرون اور سیٹلائٹ کی مدد، ایمونیشن سنسرز، GPS، جدید میزائیل، ٹینک وغیرہ؛ نیز شہری آبادی کو بھی نکال دیا ہے، لیکن پھر بھی کچھ نہیں معلوم یہ جنگ کب ختم ہو گی.؟؟. شاید اس جنگ کو تین سال مزید طول دیا جائے گا تاکہ موجودہ طالبان نواز "سیٹ اپ" کی مدت بآسانی پایہ تکمیل تک پہنچائی جا سکے؛ نیز یہ کہ وار آن ٹیرر کے نام پر "ڈالرز" کی آمد آمد کا منافع بخش کاروبار بهی جاری و ساری رہے؟؟؟.