30 جولائی، 2015

امریکہ، ایران معاہدہ اور جنم لینے والے سوالات

کچھ سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی جارہی ہے مگر جواب اطمینان بخش نہیں ہیں اور یہ کوشش مزید سوالات کو جنم دے رہی ہے؟
ابتدائی طور پر مندرجہ ذیل نقاط پر غور کی ضرورت ہے۔
۱- انقلاب ایران 1979 سے پہلے شہنشاہ ایران مشرق وسطی اور خطے کے ممالک میں امریکی تھانیدار سمجھا جاتا تھا۔ ایران چونکہ ایک واضع طور پر شیعہ مسلمانوں کی اکثریتی آبادی کا قابل ذکر ملک ہے، اس لئے دنیا بھر بالخصوص پاک و ہند کے شیعہ مسلک کے پیروکار ایران کی طرف دیکھتے ہیں اور اسے ہی اپنا مذہبی قبلہ قرار دیتے ہیں۔ شہنشاہ کے زمانے میں وہی ان کا ہیرو تھا۔
۲- ایران کا ایک تاریخی پس منظر بھی ہے جو اہم ترین ہے۔ ایرانیوں نے سلطنت فارس قائم کی تھی اور گردونواح کے تمام ممالک و اقوام پر طویل عرصہ حکومت کی تھی۔ اس لحاظ سے بھی جدید اقوام عالم میں شہنشاہ ایران کو ایک خاص اہمیت اور اعتماد حاصل تھا۔
۳- ایرانی عوام نے شہنشاہ ایران کے جبرواستبداد کے خلاف طویل جدوجہد کی۔ یہ جدوجہد سالہا سال جاری رہی۔ اس کی قیادت تودہ پارٹی (جو ایک روس نواز سوشلسٹ پارٹی تھی) اور مجاہدین خلق (جو جمہوریت نواز تھے) کرتے رہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر علی شریعتی (جو ایک ترقی پسند دانشور تھے) نے اپنا ایک موثر کردار ادا کیا۔ انہوں نے شیعہ عقائد کی زبردست انقلابی تشریحات کیں، شہنشاہ کو یزید عصر قرار دیا۔ نوجوانوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات کو شہنشاہ کے خلاف متحرک کر دیا۔ ان میں بالخصوص تہران، شیراز اور مشہد کی یونیورسٹیوں کا کردار بہت اہم تھا۔ ایرانی عوام نے لاتعداد شہادتیں قبول کیں، ڈاکٹر علی شریعتی بھی شہید ہو گئے۔ شہنشاہ نے اپنی تنظیم ساوک کی مدد سے بیشمار انقلابی رہنماؤں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنایا، تہران اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر نہتے عوام پر ٹینک چڑھا دئیے، ہیلی کاپٹروں کے ذریعے جلوسوں پر گولیاں برسائیں۔ مگر انقلابی ٹحریک دن بدن زور پکڑتی گئی۔
۴- شہنشاہ ملک چھوڑ کر بھاگ گیا اور اس کے بھاگنے کے بعد ایران کے ہر دلعزیز مذہبی راہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی فرانس سے پیراشوٹ کی طرح نازل ہوئے۔ اب انہوں نے انقلاب کی قیادت سنبھال لی۔ ایرانی عوام نے ان کا عظیم الشان استقبال کیا اور اپنی تمام امیدوں کا مرکز قرار دے دیا۔
۵- امام خمینی نے امریکہ کو شیطان بزرگ قرار دے دیا۔ پورا ایران امریکہ مخالف نعروں سے گونجنے لگا۔ ہر طرف ایک ہی نعرہ تھا۔"مرگ بر امریکہ، مرگ پر روسیا، مرگ بر صدام، ضد اسلام" اور "رہبر رہبر خمینی رہبر" یہ نعرے پاکستان کی شیعہ آبادی نے سالہا سال تک خوب خوب لگائے۔ اور ایران کے ایک نئے دور کے ساتھ امیدیں وابسطہ کر لیں۔
۶۔ شہنشاہ اب امریکہ کے لئے بیکار تھا، اسے امریکہ نے اپنے ہاں پناہ تک نہ دی۔ وہ بالآخر مصر میں اپنی زندگی کے باقی ایام پورے کرکے اس جہان فانی سے اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
۷۔ ایران میں ایک عبوری حکومت تشکیل پائی، جس میں انقلاب میں حصہ لینے والی تمام قوتوں کو نمائندگی دی گئی۔ ایران کے پہلے صدر کا نام بنی صدر تھا جن کا تعلق مجاہدین خلق سے تھا۔ ڈاکٹر علی شریعتی کی تصانیف و کتب کے اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمے ہونے لگے۔ ایک نئے اسلامی آئین کی تیاری شروع کی گئی۔ امام خمینی نے آئین کی بنیاد اپنے مذہبی فلسفے "ولایت فقیہہ" کو قرار دے دیا اور ایک ملک گیر عوامی ریفرنڈم کے ذریعے منظور کروا کر نافذ کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریفرنڈم میں سوال پوچھا گیا کہ "کیا آپ ایران میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں؟ جواب ہاں یا ناں میں دیں" اگر جواب ہاں میں ہوا تو اس کا مطلب ہو گا کہ آپ کو "ولایت فقہہ" پر مبنی امام خمینی کا تجویز کردہ آئین منظور ہے۔ یوں 97 فیصد ووٹوں کی واضع ترین اکثریت نے "ہاں" میں جواب دے دیا۔ معلوم نہیں کہ وہ تین فیصد کون تھے جنہوں نے "ناں" میں ووٹ دینے کی جسارت کی۔
۸۔ اب آئین کی منظوری کے بعد نئے سرے سے حکومت تشکیل پانے لگی۔ شیعہ فقہ کے مذہبی علوم کے ماہرین کے علاوہ کوئی بھی حکومتی عہدے یا رکنیت کا اہل ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ ملک کا اعلی ترین اور با اختیار عہدہ "رہبر" کا تھا۔ اس کے نیچے بارہ رکنی "شوری نگہبان " قرار پائی۔ اس طرح تودہ پارٹی اور مجاہدین خلق کی مکمل چھٹی ہو گئی۔ ڈاکٹر علی شریعتی کی کتابوں کے ترجمے بند کر دئیے گئے اور بتدریج عملی طور پر پابندی لگا دی گئی۔ تب سے ایران میں ڈاکٹر شریعتی کی کتابیں نایاب ہیں۔
۹۔ اب امریکہ نے انقلاب ایران کے بعد ایران کی طرف سے مایوس ہو کر مشرق وسطی اور خطے کی تھانیداری سعودی شہنشاہیت کو سونپ دی۔ ایران امریکہ و اسرائیل کی مخالفت کرتا رہا، ایٹمی پروگرام شروع کیا، امریکہ نے ایران پر معاشی پابندیاں لگوا دیں۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف بڑھ چڑھ کر بیان بازی کرنے لگے۔
۱۰- امریکہ نے عراق پر قبضہ کر لیا جو کہ ایران کا ہمسایہ ملک ہے۔ دیکھنے میں متواتر آیا کہ ایران کی طرف سے کوئی مزاحمت نہ ہوئی اور نہ ہی امریکہ کو ایران کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت کا خدشہ ہوا۔ حتی کہ امریکہ کے بحری جہاز خلیج فارس میں سے عراق کی جانب بلا خوف و خطر گزرتے رہے، ایران کی آبنائے ہرمز میں سے اور ایران کی مشہور بندرگاہ "بندر عباس" کو ایک طرح سے ٹکرا کر گزرتے رہے اور مسلسل گزر رہے ہیں۔ نقشہ ملاحظہ فرما لیں، سب کچھ واضع ہے۔ اب ایک طرف تو عملی طور پر ایران کی طرف سے مزاحمت کا کوئی خطرہ تک نہیں ہے اور دوسری طرف دونوں ملکوں کی طرف سے مخالفانہ بیانات کی ایسی انتہا ہے کہ گویا اب تیسری عالمی جنگ ہونے جا رہی ہے، معاشی پابندیاں بھی ہیں۔ خدا جانے پردے کے پیچھے کیا تھا اور ہے؟ سمجھ سے بالاتر ہے۔
۱۱-ادھر سعودی عرب اور اس کی ہمنوا خلیجی ریاستوں کی ریاستی اور غیر ریاستی قوتوں کی ہر طرح کی پشت پناہی نے دہشت گرد تنظیموں کو جنم دیا۔ ان تنظیموں میں القائدہ، طالبان اور داعش شامل ہیں۔ یہ سب مسلکی اعتبار سے سعودی عرب کے ہی قریب تر ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس میں امریکہ بھی ملوث ہے۔ ہو سکتا ہے یہ بھی کچھ حد تک درست ہو یا محض ابتدائی طور پر درست ہو مگر ان کا مسلکی اعتبار سے تو امریکہ سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ دھماکے کرنے والے اور جنت کے لالچ میں خودکش حملہ آور تو ایک خاص مسلک کے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ امریکہ تو کسی خودکش حملہ آور کو جنت کا لالچ نہیں دے سکتا۔ ایران کی پوزیشن بڑی واضع ہے کہ وہ تو خودکش حملوں کو حرام کی موت قرار دیتا ہے۔
۱۲- دہشتگردوں اور خودکش حملہ آوروں نے پورے خطے بلکہ پوری دنیا میں خوف مسلط کر دیا ہے۔ اس خوف سے امریکہ بھی محفوظ نہیں ہے۔ اس تناظر میں امریکہ اور اس کے صنعتی اتحادی ممالک ایران کے ساتھ سمجھوتہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ایران کا حال یہ ہے کہ اس کی ایک نسل امریکہ کو شیطان بزرگ کہتے کہتے اور مرگ بر امریکہ کے نعرے لگاتے لگاتے اللہ کو پیاری ہو چکی ہے، دوسری نسل کے بال سفید ہو چکے ہیں اور اب تیسری نسل شیطآن بزرگ سے عہد و پیمان باندھنے جارہی ہے۔ جہاں تک ایران کے ایٹمی پروگرام اور ایٹم بم بنانے کا تعلق ہے، اس میں ایران نے کونسا معرکہ مار لیا ہے؟ پاکستان میں تو بھٹو شہید نے محض دو اڑھائی سال میں ایٹمی پروگرام کو ایسی مضبوط بنیاد فراہم کر دی تھی کہ اسے شہید تو کروا دیا گیا مگر ایٹمی پروگرام کو ختم نہ کیا جا سکا۔ ایران کو ایٹم بم بنانے کے لئے آخر کتنی دہائیاں درکار تھیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ پردے کے پیچھے کیا ہو رہا تھا کہ ہم تو صرف بھڑھکیں سن سن کر خوش ہوتے رہے۔
۱۳۔ اب سوال یہ ہے کہ کہیں مشرق وسطی اور خطے میں کہیں کوئی نیا توازن تو قائم کرنے کی ضرورت نہیں پڑ گئی؟ کہیں سعودی عرب اور ایران میں توازن تو درکار نہیں ہے؟ کہیں دونوں کو بیک وقت استعمال تو نہیں کیا جانے والا؟ اس طرح کے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں جن کے جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
۱۴۔ اہل عقل و دانش غور کریں، راہنمائی کریں۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے حقائق کی روشنی میں غور کریں۔ اپنے اپنے محدود مسلکوں اور عقیدوں کی جھکڑ بندیوں سے باہر نکلیں۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ کہ مومن وہ ہے جو عقل سے کام لیتا ہے اور غور و فکر کرتا ہے۔

تلاش کیجئے