4 جولائی، 2015

پانچ جولائی1977 ایک طویل رات

یہ وہ رات ہے جس کی صبح طلوع ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اس رات کو جمہوریت پر، روشنی پر، آزادی پر، آئین پر شب خون مارا گیا۔ ایسی تاریک رات چھائی کہ آزادی کے متوالے صبح کی روشنی کو ترس گئے۔ انھیں جیلوں میں قید کیا گیا، کوڑے مارے گئے، پھانسی دی گئی، مگر یہ حق کے راہی ایسے سخت جان نکلے کہ ڈٹے رہے، اپنا سفر جاری رکھا، پھانسی گھاٹ سے علم اٹھا اٹھا کر عشاق کے قافلے نکلتے رہے۔ چند ایک دفعہ صبح کی امید پیدا ہوئی مگر مشکل سے دس فیصد روشنی ہی دیکھ پائے تھے کہ پھر پانچ جولائی کی تاریکی چھا گئی اور تاریک تر ہوتی گئی۔ اس رات کے بیشمار تحفے ہیں۔ جن میں شامل ہیں، فرقہ واریت کا فروغ، ملائیت کا غلبہ، دہشت گرد تنظیمیں، دھماکے، خود کش حملے، قتل و غارت گری، خون کی ہولی، ضمیر فروشی، قلم فروشی، لسانیت، بوری بند لاشیں، کلاشنکوف کلچر، ہیروئن اور طرح طرح کے نشے، جھوٹ کی فراوانی، بدترین غلامی، راہ حق کے راہیوں کی بد ترین کردار کشی، ولی کو شیطان اور شیطان کو ولی ثابت کرنے کے فن کا عروج۔ تاریکی ہے کہ دور ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ گویا یہ تاریخ کی طویل ترین راتوں میں سے ایک ثابت ہو رہی ہے۔
مگر کوئی روشنی کا راستہ نہ روک سکا ہے اور نہ روک سکے گا۔ ہر سیاہ رات کا مقدر ایک روشن اور حسین و جمیلُ صبح کے سوا کچھ اور نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہو گا۔ اس لئے اے آزادی کے متوالو! بڑھے چلو، اپنے حصے کی شمعیں جلاتے رہو۔ بہادری کے ساتھ، جوانمردی کے ساتھ، یقین محکم کے ساتھ منزل کی جانب رواں دواں رہو۔ فتح تمہارا ہی مقدر ہے۔ حیات جاوداں کی راہ یہی ہے۔ 
اقبالؒ کہتے ہیں:
ہوا ہے گو تند و تیز، مگر چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جسے حق نے دئیے ہیں انداز خسروانہ
پانچ جولائی کی مسلط کردہ رات میں اپنی جانوں اور خون کا نذرانہ پیش کرنے والے بہادروں کو سلام۔ قافلۂ حق کے سالار بھٹو شہید کو سلام، شہید رانی بینظیر کو سلام، ہزاروں نامور اور گمنام شہیدوں کو سلام۔ رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو۔ ہم پر امید ہیں۔

تلاش کیجئے