5 ستمبر، 2015

کوئی حماقت سی حماقت..!!

مجهے یقین ہے کہ چرچل آج زندہ ہوتا تو اپنے شہرہ آفاق قول کہ "جنگ جیسا نازک کام جرنیلوں کے بھروسے پر نہیں چهوڑا جاسکتا" میں "جرنیلوں" کے بعد "ایٹمی سائنس دانوں" کا اضافہ ضرور کرتا۔۔
خواتین و حضرات؛ بقول سابق فضائیہ چیف ائیر مارشل اصغر خان انڈیا کے خلاف ہر جنگ خود چهیڑ کر ہربار منہ کی کهانے والے "سورماؤں" کے بعد نام نہاد سائنسدان بهی شاہراہ حماقت پر بگٹٹ رواں دواں ہوگئے۔۔
قوم کو 1965میں معلوم نہیں کونسی جیتی جنگ کے جشن فتح کے نشے میں مست پا کر، عالمی سطح پر تسلیم شدہ سائنسی معیار کی رو سے "ایٹمی ٹیکنیشن" سے زیادہ مقام نہ رکهنے والے ثمر مبارک مند کو ایک اور ایٹمی ٹیکنیشن اور خود ساختہ "محسن پاکستان" عبدالقدیر خان سے ہتھ جوڑی کے بعد الباکستان سے دس گنا بڑی طاقت انڈیا کے ساتھ پنجہ آزمائی کا شوق جا چرایا فرماتے ہیں "بهارت ہمارے مقابلے میں کچھ بھی نہیں؛ ہمارے پاس سینکڑوں ایٹم بم موجود ہیں، چند سیکنڈ میں پورے بهارت کو نیست و نابود کر دیں گے"... ایتهے رکھ
بندہ پچهے "پتر جی؛ 1971 میں تو چلئے آپ کے پاس ایٹم بم نہیں تها، یہ سیاچن اور کارگل کی معرکہ آرائیوں میں نیست و نابود ہونے سے کون بچا اور وہ بهی امریکہ بہادر کی منت سماجت کے بعد..؟؟"
جی ہاں؛ وہی امریکہ بہادر جس کے ترلے کرنے کے بعد "معاہدہ تاشقند" کی شرمناک شرائط تسلیم کر کے آپ 1965 میں بمشکل ملک بچانے میں کامیاب ہو سکے تهے اور اسی لئے ہرسال 6 ستمبر کو آپ "یومِ فتح" کی بجائے "یومِ دفاع" کا درست نام دینے کے باوجود اپنے تئیں "جشن فتح" کا سماں پیدا کر کے خوشیاں منا کر خود کو بے وقوف بنا رہے ہوتے ہو؛ ورنہ ساری دنیا جانتی ہے کہ اگر جنگ خدانخواستہ 18 ویں دن میں داخل ہو جاتی تو ملک کا بچنا محال تھا ..
ثمر مبارک مند بهی شاید ہمارے سورماؤں کی طرح اس "خوش فہمی" میں مبتلا دکهائی دیتے ہیں کہ بهارت پورے کا پورا آنکھیں بند کئے سورہا ہے کہ ہم جب چاہیں، اسے غفلت میں جا لیں گے اور وہ ہمارے حملے کی اطلاع پاتے ہی ہم سے پہلے ہی ہم پر چڑھ نہیں دوڑے گا ...
ثمر مبارک کو اب کون جا سمجھائے کہ "حضور؛ ایٹم بم کا استعمال بچوں کا کھیل نہیں اور اگر خدانخواستہ اس کی کبهی نوبت آ بهی جاتی ہے تو انڈیا پاکستان جیسے دس ممالک کو اکٹھے صفحہء ہستی سے مٹانے جتنی اہٹمی و حربی صلاحیت ضرور رکهتا ہوگا" ....
جنگ کهیڈ نہیں ہوندی ٹیکنیشناں دی
مکمل تحریر >>

ہمت دکھاؤ راحیل شریف! ہم تمہارے ساتھ ہیں..؛

تاریخ میں سچ کے لمحے جھوٹ کی صدیوں پر بھاری ہوتے ہیں۔ یہ لمحے بہت نادر ہوتے ہیں، کسی کسی کو میسر آتے ہیں۔ جو ان لمحوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ امر ہو جاتے ہیں۔ یہ لمحے روایات بدلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ 
آج ہمارا پیارا ملک تاریخ کے دو راہے پر کھڑا ہے۔ ہم بد ترین دہشت گردی کا شکار ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ ہم اسلام آباد میں درجنوں مدرسے بند کرکے یوم دفاع منا رہے ہیں۔ لیکن وہ کونسی مجبوری ہے کہ ہم ان مشکوک مدرسوں کو بند نہیں کر سکتے۔ 
ہماری سرحدوں پر، ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر مسلسل فائرنگ ہوتی رہتی ہے جس سے قیمتی جانیں ضائع ہوتی رہتی ہیں، مویشی ہلاک ہو جاتے ہیں، عمارات، فصلیں اور باغات تباہ ہو جاتے ہیں۔ اس فائرنگ پر ہمیں ایک ہی خبر بار بار سننے کو ملتی ہے کہ "بھارت نے بلااشتعال فائرنگ کر دی، ہمارے جوانوں نے منہ توڑ جواب دے کر بھارتی توپیں خاموش کر دیں" ہمارے شہری مر رہے ہیں مگر دنیا خاموش ہے، سوزان رائس کہتی ہیں کہ پاکستان دہشت گردی بند کر دے، بھارت فائرنگ نہیں کرے گا۔ سوزان رائس کی بات ایک طرف، ہمارے دوست ممالک بھی خاموش ہیں۔ کبھی کسی نے بھارتی جارحیت کی مذمت نہیں کی۔ ہمالیہ سے اونچی دوستی کا دعوی کرنے والا چین خاموش ہے، مسلم اُمّہ کی رٹ لگانے والے ہمارے عرب دوست خاموش ہیں، ہمارا ہمسایہ ایران خاموش ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے دوست بھی یہی سمجھتے ہیں کہ یہ سب دہشت گردی کے جواب میں ہو رہا ہے۔ ساری دنیا ہم پر دہشت گردی کے الزامات لگاتی رہتی ہے۔ 
ہمارا دعوی ہے کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ہم دنیا کی بہترین فوج ہیں۔ دنیا سوال اٹھا رہی ہے کہ ہم دو سال سے زائد عرصہ میں شمالی وزیرستان کا ساڑھے تین مربع میل علاقہ آزاد نہیں کروا سکے، دنیا سوال اٹھا رہی ہے کہ آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ کرنے والے افغانستان سے اسلحہ و بارود سمیت چلے، متعدد فوجی چوکیاں کامیابی سے عبور کیں، دو دن پشاور کی کسی مسجد میں امام مسجد کے مہمان رہے، سکول کے راستے میں آنے والی دو فوجی چیک پوسٹیں کامیابی سے عبور کیں اور سکول کے معصوم بچوں کا قتل عام کرنے لگے۔ دنیا ہماری محب وطن فوج کے کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ 
میڈیا پر دہشت گردوں کے حامیوں کا قبضہ ہے اور ان کا خوف طاری ہے، عدالتیں دہشت گردوں کے خوف سے کانپ رہی ہیں اور ان قاتلوں کے حق میں فیصلے کر رہی ہیں۔ 
دہشت گردی کے خلاف جنگ انتہائی خوفناک ہے، ہمارے 70000 سے زائد بیگناہ شہری دہشتگردوں اور خود کش حملہ آوروں کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں، ہمارے فوجی افسر اور جوان ان دہشت گردوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر چکے ہیں، پولیس کے سینکڑوں افسر و سپاہی اپنے قومی فرائض انجام دیتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔ اور بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ایسی مذہبی تنظیمیں اور راہنما موجود ہیں جو دہشت گردوں کے ہاتھوں مرنے والوں کو شہید ماننے انکاری ہیں اور دہشتگردوں اور طالبان کو ہیرو قرار دیتے نہیں تھکتے۔،
ہماری جنگ عسکری سے کہیں زیادہ نظریاتی ہے۔ جو لوگ نظریاتی طور پر دہشت گردوں کے خلاف ہیں اور دہشتگردوں کے بدترین نشانے پر ہیں، وہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ سیاسی اور مذہبی قوتیں غنیمت ہیں جو دہشت گردوں کو بر سر عام للکارتی ہیں۔ یہ جنگ نظریاتی ہے، نظریاتی محاذ اہم ہے۔ نظریاتی محاذ پر بہادری سے لڑتے ہوئے جنہوں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں، وہ اعلی ترین قومی اعزازات کے مستحق ہیں۔ جس طرح عسکری جنگ لڑنے والے بہادروں کو اعلی ترین فوجی و قومی اعزازات سے نوازا جاتا ہے، اسی طرح ضرورت اس امر کی ہے کہ ان نظریاتی شہیدوں کی قربانی کا بھرپور اعتراف کیا جائے تا کہ قوم ان کے نقش قدم پر چلتی ہوئی دہشتگردوں کے خلاف صف آرا ہو اور دہشتگردوں کے حامیوں کی گز گز لمبی زبانیں خاموش ہوں۔ 
نظریاتی محاذ کی سب سے بڑی شہید بینظیر بھٹو ہیں جو اعلی ترین قومی اعزاز کی مستحق ہیں، اس راہ حق کے شہیدوں میں سلمان تاثیر، شہباز بھٹی، بشیر احمد بلور، سانحہ کارساز کراچی، لیاقت باغ راولپنڈی اور دیگر سینکڑوں شہدا شامل ہیں۔ پاک فوج کے شہدا سر آنکھوں پر مگر 70000 سویلین شہدا کو یاد رکھنا چاہئے، ان کا بھی کوئی یوم شہدا منانا چاہئے۔ بینظیر بھٹو شہید اور دیگر شہدا کے ایام شہادت قومی سطح پر منائے جانے چاہئیں۔ ایک زبردست نظریاتی و عسکری اتحاد کی ضرورت ہے، قوم نے ملا ملٹری اتحاد کی تباہ کاریاں دیکھ لیں، اب لبرل ملٹری اتحاد کی ضرورت ہے۔ یہ قوم کی ضرورت ہے، ملک کی ضرورت ہے۔ 
محترم راحیل شریف صاحب! اہم فیصلے کی گھڑی ہے۔ ایوب، یحی، مشرف، ضیا کی راہ چھوڑ دیجئے۔ ملک پر قبضہ کرنے کی سوچ چھوڑ دیجئے، دہشتگردی کے مخالفین کے ساتھ اتحاد بنا کر تاریخ کا رخ موڑ دیجئے۔ 
ہم جانتے ہیں کہ یہ مشکل فیصلہ ہے مگر کسی نہ کسی کو تو کرنا ہے، آج نہیں تو کل کرنا ہے۔ آپ ہی ہمت کیجئے، اپنے خاندان کو ملنے والے نشان حیدر کی لاج رکھُیے۔ آپ کے پیشرو ایوب، یحیی، مشرف، ضیا اور دیگر تو تاریخ کے گمنام قبرستان کا حصہ بن چکے۔ آپ امر ہو جائیے۔ 
قدم بڑھاؤ، ہمت دکھاؤ راحیل شریف! ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد
مکمل تحریر >>

4 ستمبر، 2015

بوٹ پالش کروا لو، پرانے نویں بنڑوا لو..!!

جی ہاں خواتین و حضرات؛ بقول سپریم کورٹ بهارت کو اصل خطرہ جن کی حربی صلاحیت سے نہیں بلکہ رئیل اسٹیٹ بزنس کی مہارت سے لاحق ہے کہ کہیں "ان" کا ڈی ایچ اے پھیلتا پھیلتا امرتسر تک نہ پہنچ جائے؛ رئیل اسٹیٹ اور دلیہ سازی جیسے شعبوں میں کامرانیوں کے جھنڈے گاڑنے کے بعد اب وہ "صنعت بوٹ پالش" میں نت نئے ماہرین فن کی نوک پلک سنوارنے میں نئے نئے ریکارڈ قائم کئے جارہے ہیں ..
یوں تو اپنے "آجرین" کے سامنے "نمبر ٹانگنے" کا مقابلہ وطن عزیز کے تقریباً تمام صحافیوں کے علاوہ نواز شریف اور عمران خان جیسے "تراشیدہ" سیاست دانوں کے درمیان بهی کافی دنوں سے جاری و ساری ہے، اور اب تک "تجربہ کار" نواز شریف کا پلہ اس میدان میں بظاہر بهاری دکهائی دے رہا تھا لیکن "مہربانوں" کی جانب سے سندھ کو فتح کر کے موصوف کی جھولی میں ڈال دینے کے وعدوں کا خود کو اہل و حق دار ثابت کرنے کیلئے اندرون سندھ پہنچنے والا "خان اعظم"، حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا کے مصداق اب شریف البنجاب کو کہیں پیچھے چھوڑتا محسوس ہورہا ہے ..
شوکت خانم ہسپتال کیلئے بیرون ملک سے بھجوائے گئے تین ملین ڈالرز کا حساب کتاب مانگنے کے "جرم" میں فنڈنگ کرنے والے کو دھکے اور گالیاں دے کر بنی گالہ پیلیس سے باہر پهنکوانے والا کرپٹ خان شکار پور میں بیٹھ کر خاکیوں کی زبان میں "سندھ کو سب صوبوں سے زیادہ کرپٹ" کہتا نظر آتا ہے تو کندھ کوٹ پہنچ کر "ازخود اختیارات" کے تحت "رینجرز کو کرپشن کے خلاف کارروائی" کی ترغیب مزید دے کر کرپٹ ترین جرنیلوں سے شاباش وصول کرنے کی بھونڈی کوشش کرتے ہوئے بهول جاتا ہے کہ وہ خیبر پختون خوا کے سابق وزیر صحت شوکت یوسفزئی کو اس کی تسلیم شدہ کرپشن پر نہیں بلکہ صوبائی محکمہ صحت کیلئے ادویات اور آلات جراحی کی سپلائی کے ٹهیکے پارٹی کے جنرل سیکرٹری ترین کی کمپنی کی بجائے (وزیر موصوف کی) اپنی پسندیدہ کمپنیوں کو دینے پر معزول کر چکا ہے ...
اور تو اور کنفیوزڈ خان کو حسبِ عادت یہ بهی یاد نہ رہا کہ رینجرز سمیت تمام دفاعی اداروں کے فرائض منصبی صرف "دہشت گردی کا قلع قمع اور امن و امان کی بحالی" تک محدود ہیں اور نا ملکی آئین اور ناہی سندھ حکومت کی طرف سے فراہم کردہ مینڈیٹ کی رو سے کرپشن کے خلاف، خالص انتظامیہ کے دائرہ کار میں آنے والے تمام تر اقدامات رینجرز کی ذمہ داری میں کسی بھی طرح شمار کئے جاسکتے ہیں ...
مکمل تحریر >>

3 ستمبر، 2015

منطقی انجام..!!

"ضربِ سندھ (المعروف کراچی آپریشن) کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا"؛ خاکی شریف کے ساتھ سفید شریف کا مکمل اتفاق ..
جی ہاں؛ آپ بالکل درست سمجھ رہے ہیں، بعینہ وہی "منطقی انجام"، بهکے بنگالیوں سے جان چھڑانے کیلئے جس تک "آپریشن مشرقی پاکستان" کو پہنچایا گیا تها .. نئے ہوں یا پرانے یہ "اجڈ" سندهی بهلا بنگالیوں سے اچهے ہیں ..؟؟
نہ ہم اپنے پالتو دہشت گردوں کو ختم کر سکتے ہیں اور نہ ہی خود بنائے "ازلی دشمن" کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں؛ چلو تاریخ ہمیں دنیا کے نقشے پر "بنگلہ دیش" کے بعد ایک اور نئے ملک "سندھو دیش" کے بانی مبانی کے طور پر تو یاد رکهے گی نا ..
کیا کریں؛ ہم روزانہ کے حساب سے درجنوں "نامعلوم" دہشت گردوں کو ٹی وی چینلز پر پرانی وڈیوز اور نئی پریس ریلیزز چلا چلا کر "کیفرکردار" تک پہنچا دیتے ہیں لیکن ہمارا "پالنہار" امریکہ بہادر ہے کہ مان کر ہی نہیں دیتا کہ ہم دہشت گردی کے خاتمے میں واقعی سنجیدہ ہیں، پس آئے روز معاوضے کی قسط روک دیتا ہے ...
اور ازل سے ہمارا ویری بهارت ہے کہ منہ توڑ جواب کی ہماری بلند آہنگ دھمکیوں کا اس پر ذرا سا بھی اثر نہیں پڑتا؛ آئے دن لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی جوانوں سمیت نہتے شہریوں کو نشانہ بنانے سے باز ہی نہیں رہتا ...
اندریں حالات ہمارے پیارے الباکستانیو؛ آپ خود فیصلہ کر لو کہ ہمارے پاس سندھ کو الگ کر دینے کے علاوہ کرنے کا اور کام رہ ہی کیا جاتا ہے، آخر ہم نے اپنی بهاری تنخواہیں بهی تو حلال کرنا ہیں ...
باقی اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے اس "انتباہ" سے ہمارے سندھو دیش بنانے کے "نیشنل ایکشن پلان" پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا کہ "ریاست باقی رہے گی تو ادارے بهی رہیں گے"...
ہمیں تو جو بهی اچها نہیں لگے گا، اسے بنگالیوں کی طرح علیٰحدگی پر مجبور کرتے رہیں گے ............. تا آنکہ رہے نام اللہ کا
مکمل تحریر >>

نہ بجلی،نہ گیس اور اب پٹرول بھی نایاب؟

ہم عوام بھی کتنے بھولے بھالے ہیں جو دوسروں کی باتوں میں آجاتے ہیں اورہر نئی قیادت سے اُمیدوں کے پہاڑ پر پہنچ جاتے ہیں۔لیکن اللہ بھلا کرے ہمارے حکمرانوں کا،وہ جلد ہی پہاڑ سے منہ کے بل ایسادھکا د یتے ہیں کہ اس کے زخم مندمل ہو بھی جائیں مگرنشان باقی رہ جاتے ہیں۔ہمارے حکمران یا توعوام کی حالت زار سے بے خبر ہیں یا پھر جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں جو انہیں ہر بحران کی خبرکئی دنوں بعدخبر ہوتی ہے اور پھرحسب سابق وہی نام نہاد   ”ایکشن“لیا جاتاہے جس میں اصل ذمہ دار کو توبچالیا جاتا ہے جبکہ چند ایک کو معطل کیا جاتاہے وہ بھی کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ جب معاملہ ٹھنڈا ہوتاہے تمام تر سہولیات اور بقایا جات کی ادائیگی کیساتھ بحال ہو جاتے ہیں۔
ابھی عوام کو بجلی،گیس کی ”جدائی“بھولنے بھی نہ پائی تھی کہ حکومت نے پٹرول کا ایسا جھٹکا دیا ہے کہ لوگوں نانی یاد کروا دی ہے۔پٹرول کی اتنی ”قدروقیمت“ہوگئی ہے کہ اب پٹرول کے حصول کے لیے بھی سفارش کروانی پڑ رہی ہے،پمپ مالکان سرعام منہ مانگی قیمت وصول کر رہے ہیں اگرآپ کسی کی شکایت حکام بالا سے کر بھی دیں تو وہ بھی کچھ نہیں کریں گے کیونکہ ان کو بھی ان کا ”حصہ“پہنچتا ہے۔اوّل تو پٹرول پمپ مالکان بھی آج کل حکومت کی طرح بات سننے کو تیار نہیں اور اگر آمادہ ہو بھی جاتے ہیں تو کئی گنا قیمت وصول کرکے حکومت کی ’بیک ڈور ڈپلومیسی‘کی طرح ”بیک ڈور“سے ہی مستفید فرمائیں گے،دوسرا زیادہ تر تو پٹرول پمپ بند ہیں جو کھلے ہیں ان پر لوگوں کی ”دیوار چین“آپ کو دور سے ہی نظر آئے گی۔پٹرول کا اگر یہی پرسان حال رہا تو مستقبل قریب میں مانگنے والا گدا گر بھی شائد یہی صدا لگایا کرے:اللہ کے نا م پر تھوڑا سا پٹرول دے دے رے بابا۔یا اللہ کے نام پہ دس روپے دیدے اللہ تجھے پٹرول دے۔
لوگ اس قدر ذلیل و خوار ہورہے ہیں کہ ہر سڑک پرآپ کو”پٹرول کے متاثرین“ملیں گے کوئی موٹر سائیکل کو سڑک پر پیدل گھسیٹتا ہوا ساتھ بیوی بچے بیچارے مارچ کرتے ہوئے،تو کوئی گاڑی کو دھکا لگاتا ہوا،کوئی بے بسی کے عالم میں سڑک کنارے کھڑا کسی مسیحا کا انتظار کرتے ہوئے،جدھر جاؤہر چوک،چوراہے پر پٹرول کے ہی چرچے ملیں گے۔دہشت گردی کے خطرے کی بدولت پہلے ہی طلباء کا کافی تعلیمی نقصان ہو رہا تھا اب پٹرول کی قلت کے باعث سکول وین والوں نے بھی جواب د یدیا ہے،مریض راستوں میں دم توڑ رہے ہیں،گاڑیوں سے پٹرول چوری ہو رہا ہے،وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔
میری اعلیٰ حکومتی عہدیداران سے التماس ہے کہ زبانی جمع خرچ کی بجائے ایسے عملی اقدامات کیے جائے جس سے جتنی جلدی ممکن ہو ایسے باربار جنم لینے والے بحرانوں اور جگ ہنسائی سے بچا جا سکے،اور پیچارے عوام کوبھی سکھ کا سانس نصیب ہوسکے۔
مکمل تحریر >>

2 ستمبر، 2015

قدم بڑھاؤ راحیل شریف‘عوام تمہارے ساتھ ہے

گذشتہ چند سالوں سے وطن عزیز میں دہشت گردی،فرقہ واریت اور ٹارگٹ کلنگ پورے عروج پر رہی ہے جس سے ہر اک محب ِوطن شہری اور امن کا داعی پریشان تھا مگرجب چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے حلف اٹھایا توان کے خاندانی پس منظر کو دیکھتے ہوئے اور ان کے پہلے ہی خطاب(جس میں انہوں نے پاکستان کواندرونی وبیرونی خطرات سے پاک کرنے کا اعادہ کیا تھا)سے ہرانسان دوست اورپاک سر زمین سے محبت و عقیدت رکھنے والے کے دل میں یہ اُمید پیدا ہوئی کہ شائد ہم بھی ایک ایسے معاشرے کو پروان چڑھتا ہوا دیکھ سکیں گے جس میں انسانیت کی قدر کی جا ئے گی اورنہ کہ ایسے معاشرے میں جہاں اسے جس کاجی چاہا جانوروں کی طرح، سڑکوں اور چوراہوں پر ذبح نہیں کیا جائے گا،جہاں اس وطن کے معصوم پھولوں کو محض صرف سکول سے دور رکھنے کی غرض سے نہیں مسل دیا جائے گا،یا بیچارے غریب،بھوک کے ماروں مزدوروں کو صرف پیسوں کی حرص کی بدولت زندہ نہیں جلادیا جائے گا۔
حالات جیسے بھی ہوں ہم سب کے انفرادی و اجتماعی فرائض ہیں جواس ملک کا شہری ہوتے ہوئے ہم سے ہمارے مثبت کردار کو ادا کرنے کا تقاضا کرتے ہیں اور اگراب کی بار بھی ہم اپنا مثبت حصہ ڈالنے سے قاصر رہ گئے تو شائد آئندہ ہمیں موقع نہ ملے اور ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کوستی رہیں۔پاکستان آرمی نے جہاں ”آپریشن ضربِ عضب“میں دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے وہاں اندرون ِملک بھی ملک دشمنو ں کا صفایا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھ رہی ہے۔مگر افسوس در افسوس کہ ہماری سیاسی قیادت نے ہمیشہ دوغلے پن اور منافقت کی پالیسی کو اپنایا ہے۔جہاں اپنا مفاد نظر آتا ہے وہاں سب اکٹھے ہو جا تے ہیں اور اس نام نہاد’’مفاہمت‘‘کو جمہوریت کا ”حسن“قرار دیتے ہیں اور جہاں مفادات کو ذرا سی ٹھیس پہنچنے لگتی ہے تو ”جمہوریت کو خطرہ‘‘ قرار دے کر عوام کو طرح طرح کی ”گولیاں“دیتے ہیں۔جب آرمی ”آپریشن ضرب ِعضب“ کرے تو صحیح جب’’کراچی آپریشن“ہو تو غلط۔واہ جی واہ!یعنی ”میٹھا میٹھا ام ام،کڑوا کڑوا تھو کوڑی“۔یا ہمارے جمہوریت کاراگ الاپنے والے لیڈروں کی مثال ایک ایسی عورت کی سی ہے جو اپنے شادی شدہ بیٹے کو اکثر ان الفاظ میں لعن طعن کیا کرتی تھی”میرا بیٹا اتنا بُرا ہے کہ جوکماتاہے اپنی بیوی کو لاکر دیتا ہے،اس سے اچھا تو میرا داماد ہے جو کما تا ہے لاکر میری بیٹی کو دیتا ہے۔“یعنی آرمی باقی سارے کام کرے تو صحیح اورلٹیروں کی کرپشن پکڑے تو غلط۔۔۔۔
محترم جنرل راحیل شریف صاحب!ان سیاستدانوں کو چھوڑیں یہ نہ خود کچھ کرتے اور نہ کرنے دیتے ہیں۔قوم اب آپ کی طرف دیکھ رہی ہے،اس ملک میں حقیقی جمہوریت کیلئے،امن وخوشحالی کیلئے اوراس قوم کی کھوئی ہوئی خوشیوں کو واپس لانے کیلئے ہر محب وطن پاکستانی آپ کے ساتھ ہے آپ جو کر رہے ہیں،اس پرڈٹے رہیں اوراب موقع ملا ہے کہ ایک بار اس ملک کے ”گند“کو صاف کر دیں جو برسوں سے پڑامختلف”بیماریاں“پھیلا رہا ہے،اس ”گند“نے اس قوم سے اس کے بنیادی حقوق کوبھی اس سے دور کر دیا ہے۔ روز روز کے رونے سے ایک بار کا رونا بہترہوتا ہے۔آرمی چیف صاحب کے کرپشن کے خلاف حالیہ آپریشن کے بعدجنرل راحیل شریف کی عوامی مقبولیت اپنی آخری حدوں کوچھو رہی ہے جس کے بعداب یہ ہر اک پاکستانی کا نعرہ بنتاجارہاہے:
”قدم بڑھاؤ راحیل شریف‘عوام تمہارے ساتھ ہے“

مکمل تحریر >>

سامراجی ایجنڈہ پر مسلط کی گئی "شریف" حکومت..!

کاٹ کر زبان میری مجهے کہہ رہا تھا وہ
اب تمہیں اجازت ہے حال دل سنانے کی
سابق صدر زرداری کی حکومت کے خلاف لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، کرپشن، نااہلی، دہشت گردی اور سرحدوں کے عدم تحفظ سمیت سفارت کاری میں ناکامی جیسے الزامات کی لفاظی پر پروپیگنڈہ کرنے والے تمام عناصر کو عدلیہ اور فوج کی جانب سے سامراجی ایجنڈہ پر مسلط کی گئی "شریف" حکومت کے اڑھائی برس میں ہی ان تمام "اصطلاحات" کے درست ترین معانی سمجھ آچکے ہیں، اب صرف آصف زرداری کی فہم و فراست کا اعتراف باقی ہے، جس کی مدد سے وہ ناصرف پانچ برس تک ریاستی گاڑی کو نا ہموار شاہراہ پر دھکیلتا رہا؛ بلکہ "قومی مفاد" کے نام پر غلیظ کهیل کهیلنے والے شاطر خاکیوں، انتشار چودھری کی مادر پدر آزاد عدلیہ اور عیار شرفاء کی پنجاب حکومت کی گھناؤنی مشترکہ سازشوں کے باوجود چند اہم کامیابیاں بهی حاصل کرلیں۔
1. 1973 کے آئین کی اصل حالت کے قریب قریب بحالی، جس کا سب سے بڑا فائدہ نواز شریف نے تیسری مرتبہ وزیراعظم بن کر اٹھایا
2. خارجہ پالیسی کا چین و روس کی جانب میجر ٹویسٹ، جس کی مدد سے موجودہ شریف ریجیم امریکہ اور مغربی بلاک کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہی ہے
3. رسوائے زمانہ آئی ایم ایف کے چنگل سے چھٹکارہ، شرفاء نے اپنی نالائقی اور کاروباری مفادات کی خاطر جس کے شکنجے میں ملک و قوم کو دوبارہ جکڑ دیا
..... شدت درد میں کمی نہ آئی ذرا بھی
درد، درد ہی رہا الٹا بهی لکها سیدھا بهی لکها
مکمل تحریر >>

نظریاتی لوگ قابل فخر ہیں۔۔!

نظریاتی لوگ قابل قدر ہوتے ہیں، با وفا ہوتے ہیں، مستقل مزاج ہوتے ہیں، اپنے نظریات کے لئے تن، من اور دہن کی بازی لگا دیتے ہیں۔ نفع و نقصان اور سود و زیاں سے بالا تر ہوتے ہیں۔ صاحب الرائے ہونا بہت اہم ہے۔ لیکن رائے منطقی ہونی چاہیے اور ذاتی مفادات سے آزاد ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ 
نظریاتی لوگوں کا دوست، ساتھی، ہمنوا ان کا ہم خیال ہوتا ہے۔ ہم خیالی کا رشتہ سب رشتوں سے مضبوط ہوتا ہے۔ جوش ملیح آبادی نے اپنے زبردست ہم خیال اور شاگرد خاص مصطفیٰ زیدی کی موت پر لکھا تھا کہ آج زیدی کے بھائی، بہن اور دیگر خونی اور دنیاوی رشتہ دار اپنے اپنے رشتوں کے نقصان پر رو رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ وہ کیا کریں، ان کا صدمہ سب سے گہرا ہے۔ لکھتے ہیں، میرا من کا رفیق جدا ہو گیا۔
تیری موت نے غم کی لے دی
زیدی زیدی کہاں ہے بیٹا زیدی
نظریاتی لوگوں میں بلا کی قوت برداشت ہوتی ہے اور مناسب سمجھوتے بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ہم خیال بھی نہ ہو، مخالف الخیال ہو اور ان پر نافذ ہو کر ان کے نظریات کے خلاف اور اپنے نظریات کے حق میں استعمال کرنا چاہیتو پھر ایسے شخص کا کوئی بھی مقام و مرتبہ ہو وہ نا قابل برداشت اور قابل نفرت بن جاتا ہے۔ دوسروں کو اپنے مقاصد اور انا کے لئے استعمال کرنا سراسر بد معاشی، غنڈہ گردی اور نوسر بازی کیزمریمیں آتا ہے۔ آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہیاور اپنے نظریات سے وفاعظیم ترین جذبہ ہے۔
 غالب نے کہا ہے۔
وفاداری، بشرط استواری، اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں، کعبہ میں گاڑو برہمن کو

مکمل تحریر >>

دہشت گردی میں جنگی صنعت اور ملا گردی کا کردار

جنگی صنعت، دہشتگردی، فرقہ واریت اور بین الاقوامی تجارتی راہداری کی حفاظت کا 
آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
اگر دنیا میں جنگ کا خاتمہ ہو جائے تو اسلحہ سازی کے کارخانے بند ہو جائیں گے۔ کیا اسلحہ کے سوداگر ایسا چاہیں گے؟
اگر دنیا میں نفرتیں ختم ہو جائیں تو اسلحہ کون خریدے گا؟
اگر فرقہ وارانہ مدارس بند ہو جائیں تو نفرت کون پھیلائے گا؟ واضع رہے کہ تمام فرقوں کے مدارس میں دوسروں کے خلاف نفرت پھیلائی جاتی ہے۔ اسلامی دنیا بالخصوص پاکستان میں کوئی مدرسہ اسلامی یا مسلمانوں کا نہیں ہے، سب کے سب کسی نہ کسی فرقے کے ہیں جہاں نفرت اور احساس برتری کی تربیت دی جاتی ہے۔ کوئی مسجد، کوئی عبادت گاہ ایسی نہیں جو سب کے لئے ہو۔
جب تک فرقہ وارانہ مدرسے موجود رہیں گے، دہشتگرد پیدا ہوتے رہیں گے۔ 
پاکستان میں تو دہشتگردی بھی ایک اہم انڈسٹری بن چکی ہے۔
اس لیا عوام الناس کو بیدار ہونا پڑے گا۔ نفرت ختم کرنا ہو گی۔ ایک دوسرے کا احترام کرنا ہو گا۔ اسلحے کا استعمال ترک کرنا ہو گا۔ اسلحے کی فیکٹریاں بند کروانا ہوں گی۔
مکمل تحریر >>

دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری ہے۔۔!

ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ یہ جنگ ہماری ہے۔ کیونکہ چوکوں، چوراہوں میں، مسجدوں میں، امام بارگاہوں، سکولوں میں، ہسپتالوں میں، درباروں اور  بازاروں میں غرضیکہ پاکستان میں ہر جگہ دہشتگرد بمباروں اور خودکش حملہ آوروں کے ہاتھو ں بے گناہ پاکستانی ہی مارے جا رہے ہیں، لیکن طالبان کے ہمدرد مختلف توجیحات کے ذریعے اسے پاکستان کی جنگ ماننے کو  تیار نہ تھے۔ 
یہ جنگ عسکری سے زیادہ نظریاتی جنگ ہے جس میں طالبان کے نظریات سے اختلاف رکنیے والے سیاستدانوں، مذہبی رہنماؤں اور فوج اور نیوی کے افسروں، جوانوں، پولیس اور رینجرز کے جوانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ انتہا یہ ہے کہ سکول کے بچوں کو بد ترین طریقے سے مارا گیا۔ 
اب اگر قوم نے بالخصوص پارلیمانی پارٹیوں نے متفقہ طور پر مان لیا ہے کہ یہ ہماری جنگ ہے تو یہ بین مان لیں کہ اس جنگ کا محاذ عسکری سے زیادہ نظریاتی ہے۔ اور جن غیر عسکری شخصیتوں نے طالبان کو للکارتے ہوئے باہدری کے ساتہ جام شہادت نوش کیا ہے، انہیں قومی ہیرو قرار دیتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا جائے کیونکہ وہ پوری قوم کے لیے باعث فخر ہیں۔ ان میں سر فہرست شہید محترمہ بینظیر بٹوو ہیں۔ ان میں بشیر احمد بلور، سلمان تاثیر، شہباز بھٹی اور بے شمار شہدا شامل ہیں۔ بھارت کے خلاف جنگوں میں بہادری کے ساتھ جام شہادت نوش کرنے والے اور نشان حیدر جیسے اعلیٰ ترین تمغے حاصل کرنے والے ہمیشہ کے لئے قابل صد احترام اور سر آنکھوں پر، لیکن دہشت گردی کی جنگ میں جام شہادت نوش کرنے والے فوجی افسروں، جوانوں، پولیس، رینجرز کے افسروں، جوانوں اور سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں کو اعلیٰ ترین قومی اعزازات دے کر قومی اتحاد کو مضبوط کیا جائے۔ ان کی تصویریں ٹی وی چینلوں پر دکھائی جائیں۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کی سب سے بڑی شہادت بینظیر بھٹو  نے پیش کی ہے۔ وہ نظریاتی محاذ کی سب سے بہادر شہید ہیں۔ ان کی شہادت صرف اپنی پارٹی کے لئے نہیں بلکہ پوری قوم کے لئے ہے۔ وہ بین الاقوامی راہنما تھیں، وہ پاکستان کی قابل فخر شناخت تھیں۔ انہیں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بہادری کے ساتھ جام شاردت نوش کرنے پر "نشان حیدر" دیا جائے۔

مکمل تحریر >>

جہالت کیا ہے۔۔۔؟

جہالت پڑھا لکھا نہ ہونا نہیں ہے، ہرگز بھی نہیں ہے۔ جہالت ان پڑھ ہونا بھی نہیں ہے۔ جہالت لا علم ہونا بھی نہیں ہے۔
جہالت ہٹ دھرمی کا نام ہے۔ سچائی واضع ہونے کے باوجود اسے نہ ماننا جہالت ہے۔ کسی مفاد کے نقصان کے ڈر سے سچائی کو نا ماننا جہالت ہے۔ سچائی واضع ہو جانے کے باوجود اپنے قبائلی یا خاندانی عقائد و رسومات کے ساتھ جڑے رہنا جہالت ہے۔ فرسودہ رسومات کا دفاع کرنا جہالت ہے۔ چنانچہ عمر بن ہشام، جسے ابوالحکمت یعنی حکمت کا باپ کہا جاتا تھا، اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے، اپنے سرداری نظام کے خاتمے کے ڈر سے، کنیزوں اور غلاموں کو حقوق نہ دینے کی وجہ سے، بلا وجہ میں نہ مانوں کی رٹ لگائے رکھنے کی وجہ سے ابو جہل کہلایا۔ یعنی جہالت کا باپ۔
مکمل تحریر >>

31 اگست، 2015

وسائل ہی وسائل، مگرپھر بھی مسائل۔۔۔!

ایک دفعہ کسی کھوہ(کنواں) میں کتّاگر گیااُس مُلک کے بادشاہ نے حکم دیاکہ کنویں کا پانی نکال دیا جائے چنانچہ بادشاہ کا حکم بجا لاتے  ہوئے کنویں کاپانی تو بدل دیا گیامگر کُتے کوباہر نہ نکالا گیا۔کچھ ایسی ہی صورتحال سے ہماراوطن عزیزبھی گزر رہا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان ایک غریب،پسماندہ اور کمزورملک ہے؟؟؟؟؟ہر گزبھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔بلکہ ہمارے پاس دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان ہے،پانچویں بڑی سونے کی کان ہے،پانچویں بڑی کوئلے کی کان ہے،ساتویں بڑی تانبے کی کان ہے مگرپھر بھی ہمIMF سے بھیک کیوں مانگتے ہیں؟ہم ساتویں بڑی ایٹمی طاقت ہیں،ارض ِپاک پانچ دریاؤں کی سرزمین ہے مگرپھر بھی یہاں لوڈ شیدنگ کیوں ہوتی ہے؟ہماری پاس دنیا کی چھٹی بڑی آرمی ہے،ہم نیو کلیئرپاورہیں،ہمارے پاس نمبر1ٹرینڈآرمی ہے،پھر بھی بھارتی جارحیت اورحملوں پر ہمارے حکمران کیوں خاموشی اختیار کرتے ہیں اور اقوامِ عالم میں ہماری عزت وسا  لمیت کو کیوں للکارا جاتا ہے؟ہم ساتواں بڑاچاول پیداکرنیوالا ملک اورآٹھواں بڑاگندم پیداکرنیوالازرعی ملک ہیں، پھر بھی مہنگائی اور غذائی قلت کا شکارکیوں ہیں اور کیوں ہمارے کسان ذلیل و خوار ہورہے ہیں؟ہمارے پاس بے شمارقدرتی وسائل(تیل،گیس،قیمتی پتھر،نایاب معدنیات)ہیں اوراس کے علاوہ ہمارے پاس محنتی اورجفاکش افرادی قوت کی فراوانی ہے لیکن پھر بھی یہاں بے روزگاری کیوں ہے؟ہماراملک اسلام کے نام پر قائم ہونیوالا ملک ہے مگر پھر بھی یہاں فرقہ واریت اور مذہبی انتہاپسندی کیوں ہے؟موجودہ حکومت برسرِاقتدار آنے سے پہلے یہ دعویٰ کرتی پھرتی تھی کہ ہمارے پاس بہترین تجربہ کی حامل ٹیم ہے مگر”حکومتی تجربہ کار ٹیم“ہونے کے باوجوداداروں کو بہترکرنے کی بجائے ان اداروں کی تباہی کیوں کی جا رہی ہے؟ہم سے بعد میں آزاد ہونے والی اقوام آج ہم سے آگے نکل چکی ہیں،آخرکیوں؟ہماری ترجیحات کا انتخاب درست نہیں ہے،آخر کیوں؟ہمارے ہاں ادارے کمزور اور شخصیات طاقتور ہیں،آخر کیوں؟امیر،امیرتر اور غریب،غریب تر،آخر کیوں؟جائز کا م کروانے کی بھی رشوت،آخر کیوں؟جتنا بڑا چور،اتنا بڑا عہدہ،آخر کیوں؟ان تمام مسائل اور”کیوں“ کی وجہ صرف اور صرف ایک ہی ہے وہ یہ کہ ہم بھی کنویں سے پانی ہی نکال رہے ہیں ”کُتا“نہیں۔
شائد ہمارے لکھنے یا پڑھنے سے حکمرانوں کی صحت پر کوئی اثر نہ ہو۔۔۔مگر ”دستک“ تو دینی چاہیے نا!
مکمل تحریر >>

30 اگست، 2015

سوزان رائس سے کس کس کو ڈانٹ پڑی..؟؟

قارئین گرامی؛ تیز رفتار گلوبل میڈیا کے اس دور میں یہ حقیقت زیادہ دیر تک چهپی نہیں رہے گی کہ خاکی شرفاء کے بوٹ اور سرخ و سفید شرفاء کے تلوے چاٹ چاٹ کر روزی روٹی کمانے کے عادی ہمارے میڈیا نے امریکی مشیر برائے سلامتی امور مس سوزان کی پاکستان کے سول اور فوجی حکمرانوں کے ساتھ ملاقاتوں کے صرف اس پہلو کو ہی اجاگر کیا جو ان شرفاء کے حق میں جانا ہے؛ جبکہ امریکی اہلکار کے دورے کے "تکلیف دہ" پہلوؤں کو نظرانداز کرنے کی بھونڈی کوشش میں اپنا رہا سہا اعتبار پر داوء لگا دیا ہے ...
آیئے؛ ہم آپ کو اصل صورت سے آگاہ کریں اور وہ بهی اپنے چند روز پرانے ایک تجزیہ بلکہ پیشین گوئی کے حوالے سے ...
مجهے باقاعدگی سے پڑهنے والوں کو یاد ہوگا کہ چند روز قبل آرمی چیف، وزیر اعظم اور وزیرِ داخلہ کی جانب سے "دہشت گردی کے خلاف ان دیکھی کامیابیاں اور مستقبل کے اقدامات" کی اچانک تکرار نے جب میرے کان کھڑے کئے تو کسی "سورس" کے بغیر صرف اپنی تجزیاتی حس کی مدد سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ سب "کوالیشن اسپورٹ فنڈ" کی کئی ملین ڈالرز پر مشتمل نئی قسط سر پر آن پہنچنے کا کرشمہ ہے ..
اپنے اس درست ترین اندازے کی بنیاد پر بی راقم الحروف نے "پهرتیاں" کے عنوان سے لکهے اپنے مختصر مضمون میں یہ "انکشاف" بهی کیا تها کہ پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل شجاع خانزادہ کی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت نے نام نہاد "ضربِ عضب" اور نام نہاد "نیشنل ایکشن پلان" دونوں کی حقیقت آشکار کر کے قوم سمیت دنیا بھر کے سامنے خاکی اور سفید دونوں شرفائے البنجاب کی کارکردگی مکمل طور پر بے نقاب کر کے رکھ دی ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے ذمہ دار ہمارے سول اور عسکری اعلیٰ عہدہ دار بے چارے اسی کارن "پهرتیاں" دکھانے پر مجبور ہو گئے ہیں ...
امریکی صدر کی مشیر برائے سلامتی امور سوزان رائس کے موجودہ دورہ الباکستان کے دوران منافق اور زرخرید ملکی میڈیا میں "کل" کی گئی اس خبر نے میرے مذکورہ بالا تجزیہ پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے، جس کے مطابق
"پاکستانی قیادت نے مس رائس کے سامنے امریکی اسپورٹ فنڈ کی قسط روکے جانے کا سوال بهی اٹھایا ہے" ..
گویا الباکستانی صورت حال کے تناظر میں میرے اس وقت کے اس اندازے کی درستگی بهی ثابت ہو گئی کہ
"کرنل شجاع خانزادہ کے سانحہ کے بعد الباکستان کیلئے دہشت گردی کی بیخ کنی والی اسائنمنٹ کے حوالے سے امریکہ سمیت عالمی برادری کو مطمئن کرنا اب مشکل ہوگیا ہے اور اس کا اثر اس اسائنمنٹ کے معاوضے کی آئندہ قسط پر پڑتا دکهائی دے رہا ہے"..
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سوزان رائس کے تازہ دورہ کی روشنی میں تو بات اس قسط کے روک لئے جانے تک پہنچ گئی ہے ....
سوزان رائس کے حالیہ دورہ کے حوالے سے ایک اہم خبر یہ بھی رہی ہے کہ محترمہ نے پاکستان کی جانب سے بهارتی جارحیت کی شکایت کو یہ کہتے ہوئے رد کر دیا کہ "بھارت کے پاس اس کا جواز پاکستان کی طرف سے جاری دہشت گردی کی صورت میں موجود ہے"؛ جس کا الباکستانی قیادت کے پاس جوابی الزام تراشی کے علاوہ کوئی جواب نہ تها، جسے بہر کیف امریکی مشیر کی طرف سے خاص پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی ..
سوزان رائس کی اس "بے نیازی" سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ امریکہ بہادر اب ٹی وی چینلز پر پرانی وڈیوز اور نئے پریس ریلیزز کے ذریعے جاری "ضربِ عضب" کے چکر میں مزید آنے والا نہیں ہے ..
کیمرہ فوٹیج سمجھنے اور باڈی لینگویج پڑهنے کی صلاحیت والے احباب، دونوں شرفاء بالخصوص خاکی شریف کے ساتھ ملاقات میں مس سوزان کے چہرے کی سختی بلکہ کرختگی سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پیغام کیا ڈلیور کیا جا رہا ہے؛ 
کاش ہم پاکستانی قوم کی طرح کل کی امریکی چھوکری کو بھی کهل کر بتا سکتے کہ "پہلے ہم سندھ تو فتح کرلیں، دہشت گردوں سے بهی نمٹنے رہیں گے"..
خواتین و حضرات؛ سوزان رائس نے پاکستان جیسی اپنی محکوم بلکہ بهکاری اقوام کیلئے مخصوص امریکہ کی المشہور "ڈومور" کال کا اعادہ کرتے ہوئے، افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان، ملا عمر کی ہلاکت کے بعد رک جانے والے ان مذاکرات کے فوری احیاء پر بهی زور دیا ہے، جس میں پاکستان "سہولت کار" کا کردار ادا کر رہا تھا ...
...... سنتا جا، شرماتا جا
مکمل تحریر >>

ہماری منزل کیا ہے...؟

 ہمارا مُلک کدھر جا رہا ہے؟ہماری منزل کیا ہے؟ہمارا مستقبل کیا ہو گا؟ایسے بیشمار سوالات مجھ جیسے ایک عام پاکستانی کے دل ودماغ اور زبان پر ہیں۔اور وہ ہرنئی صبح کو نئی اُمید لیے بیدار ہوتا ہے کہ شائد آج کا دن اُس کے کل سے بہتر ہوگامگر یہ صرف اس کی ”خوش فہمی“ہی ثابت ہوتی ہے۔مہنگائی،غربت،بے روزگاری اورگھریلو پریشانیوں نے ویسے ہی ایک عام آدمی کی ”مت“مارکر کے رکھ دی ہے۔دوسرا ملک کے حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ انہیں دیکھتے ہوئے کسی بھی محب وطن کا دل روئے بغیر نہیں رہ سکتا۔وطنِ عزیزکے بیچارے عوام پر ان مسائل نے اس حد تک گہرے اثرات مرتّب کیے ہیں کہ غریب آدمی ایک توسارا دن روزی،روٹی کے حصول میں ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہے اور جب شام کو تھکا ہارا جب گھر لوٹتا ہے تو آگے”لوڈ شیڈنگ اور مچھر“اس بیچارے کے”استقبال“ کے لیے راہیں بچھائے،نظریں جمائے،تاک لگائے انتظار میں ہوتے ہیں۔وہ رات بھر ان سے نبرد آزما ہوتا ہے اور اس وجہ سے نیند بھی پوری نہیں کر پاتاہے۔صبح پھر کام پر چلا جاتا ہے کیونکہ کام نہیں کرے گا تو کھائے گا کہاں سے؟بجلی آئے نہ آئے بل تو ٹائم پر آئے گااور وہ بھی اتنا۔۔۔ کہ جیسے ”چاند“بھی شائد اس بیچارے کے میٹر سے روشن ہوتا ہو۔ اوراس تما م صورتحال کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ وہ ایک قسم کا ذہنی مریض بن کر رہ جاتا ہے اور اس میں چڑچڑاپن،غصہ،عدم برداشت،بلڈپریشراور خود گفتاری جیسی ”بیماریاں“گھر کر لیتی ہیں۔ اچھے،بُرے حالات اور نشیب وفرازقوموں کی تاریخ و بقا ء کا حصہ رہے ہیں مگر ان قوموں کوایسے لیڈرز اور قیادت ملی کہ انہوں نے اپنے لوگوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دیں جس کی زندہ مثال ہمارا ہمسایہ اور دوست ملک چین ہے جو ہم سے دو سال بعد میں آزاد ہوامگر آج ہم سے بہت آگے نکل چکاہے بلکہ دنیا کے لیے چین کی ترقی ایک مثال ہے۔ جبکہ اس کے برعکس دوسری طرف ہمارے حکمرانوں نے ہمیں ایسے ”ٹرک کی بتّی“کے پیچھے لگایا ہوا ہے جس میں شائد انجن بھی نہیں ہے،ہمارے آقاہماری نام نہاد ”خوشحالی اور ترقی“کے بلندوبالاکرتے رہتے ہیں ہر سال بجٹ میں حسبِ سابق نئی نئی ”گولیاں“دے دیتے ہیں جن ”گولیوں“کافی الحال اثر کم اور ”سائیڈایفیکٹ“زیادہ نظر آرہا ہے۔اور تو اورآج ہمیں افغانستان بھی ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے۔حالیہ کراچی کے حادثہ سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ حکومتی صفوں میں خود بھی اعتماداور سنجیدگی کا فقدان ہے،وفاقی اور صوبائی حکومتیں مشترکہ کوششیں کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر الزامات لگا کر غیروں اور ملک دشمنوں کا کام آسان کر رہی ہیں۔حکمرانو!بیچاری عوام کو ”بھیڑ بکریوں“کی طرح نہ سمجھیں کہ جدھر چاہا ہانک لیا،مانا کہ آپ کو ووٹ دینا ان کا جرم ہے مگرخدارا!اللہ کے عذاب سے بچیں۔اس کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے،اس ملک کا بھی کچھ سوچیں جس نے آپ کو عزت اور پہچان عطا کی ہے۔
مکمل تحریر >>

ٹنگ دیو اناں سالیاں نوں..!!

پیپلزپارٹی والے تو ہیں ہی "غدار"؛ بس ایک "دہشتگردوں کی پشت پناہی" کا الزام رہ گیا تھا، سو ہم نے وہ بهی ثابت کر دکهایا ...
یہ پاکستانی طالبان، لشکر جھنگوی، یہ سپاہ صحابہ ان سب کی پالنہار یہی پارٹی ہی تو رہی ہے ..
دہشت گردوں کے یہی "دلال" چھ سال اپنے باپ اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد کینٹ میں چُھپا کر بیٹھے رہے ...
ہم بتاتے ہیں عوام کو کہ مہران بیس حملہ اور جی ایچ کیو حملہ میں بهی انہی کے غدار، دہشتگردوں کے دلال فوجی ہی ملوث تھے ..
اور تو اور اوجھری کیمپ کے ڈاکوؤں اور مہران بینک کے لٹیروں کے سر پر بهی انہی کی بے غیرت "اشٹیبلشمنٹ" کا ہاتھ تها ...
ملاعمر جیسے دہشتگرد کا جنازہ پڑھانے والا حافظ سعید، حکیم اللہ محسود کو شہید کہنے والا اور قتال فی سبیل للہ کا درس دینے والا منورحسن، "طلبان اور ہماری سوچ ایک ہے" کا نعرہ لگانے والا شوباز اعلیٰ، طالبان کا "ضامن" نوسرباز اعلیٰ، لال مسجد میں خودکش بمبار بنانے والا عبدلعزیز برقعہ، ایک سو پینتالیس بچوں کی شہادت کے بعد بهی طالبان سے مذاکرات کی حمایت کرنے والا سونامی خان اور یہ انڈیا کے سامنے ترانوے ہزار ہتھیار ڈالنے والا بے غیرت جرنیل بهی؛ 
جی ہاں؛ یہ سب "کالے چہرے" اسی راندہ درگاہ پارٹی کے ہی "بچہ لوگ" ہیں ...
ان پیپلیوں کے علاوہ باقی سب تو بس "الباکستانی" ہیں؛ لہٰذا سب کے سب "صادق و امین فرشتے"..!!!!
(از سہیل خان سیال؛ بترمیم و اضافہ)
مکمل تحریر >>

آؤ؛ سندھ ہی فتح کر ڈالیں..!!

دہشت گردی کی ہر نئی واردات پر وزیرستان اور ہر بھارتی جارحیت پر لائن آف کنٹرول پہنچ کر بڑهکیں مارنے کے عادی "محمد بن قاسم" اور وزیرِ اعظم ہاؤس میں بیٹهے بٹھائے دہشت گردوں کے خاتمے اور بهارتی عزائم کو ناکام بنانے والے "حجاج بن یوسف" کا مشترکہ "اعلان جہاد"...
ہمارے اپنے پالتو دہشت گرد جب چاہیں ہماری زیرِ نگرانی چلنے والے اسکول میں گهس کر معصوم نونہالانِ قوم کو اجتماعی طور پر خون میں نہلا دیں یا سب سے بڑے صوبے کے وزیر داخلہ کے ڈیرے پر حملہ کر کے اسے 70000 معصوم شہداء کے پاس پہنچادیں یا پھر ہمارے فوجی جوانوں کو گولی مار دیں یا ذبح کرتے پهریں؛ ہم سوائے بذریعہ پریس ریلیز اپنے ان "بهائی بندوں" میں سے درجنوں کی "ٹی وی چینلز پر ہلاکت" کے سوا عملاً کچھ کرنے کی ہمت ہی نہیں رکهتے ..
اسی طرح ہمارا اپنا پیدا کردہ "ازلی دشمن" بھارت ہماری حفاظت میں موج مستی کرنے والے حافظ سعید جیسے ہمارے "تذویراتی اثاثہ جات" کو لے کر بین الاقوامی فورمز پر ہماری مٹی پلید کرتا رہے یا پھر آئے روز ورکنگ باؤنڈری یا لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی جوانوں سمیت نہتے شہریوں کو ہلاک کرتا پهرے؛ جواب میں ہمارے پاس لائن آف کنٹرول پر پہنچ کر اپنے جوانوں کا "مورال بلند" کرنے اور انڈین ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاجی مراسلہ تھمانے کے علاوہ کرنے کو اور کچھ رہ بهی تو نہیں جاتا ...
ہاں البتہ ملک بهر میں ہر قسم کی دہشت گردی کا الزام بھارت پر عائد کرنے کے علاوہ ہم نے اب اپنی ایک اور "ازلی دشمن" پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت والے صوبہ سندھ کو "دہشت گردوں کا معاون" ثابت کرنے کے بعد صوبائی حکومت کے عہدیداروں کی گرفتاری کی صورت میں اس "سیکورٹی رسک" صوبے کو "فتح" کرکے اپنی تمام تر ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کا نیا سبق ضرور سیکھ لیا ہے ...
اندریں حالات خواتین و حضرات خود سوچئے؛ رینجرز کی طرف سے سندھ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر عاصم کی بلا الزام اور بلا وارنٹ گرفتاری یعنی باقاعدہ "اغوا" کے گھنٹوں بعد ان پر "دہشت گردوں کی معاونت" جیسے مضحکہ خیز الزامات عائد کئے جانے کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی کے دیگر رہنماؤں یوسف رضا گیلانی، مخدوم امین فہیم اور راجہ پرویز اشرف کی متوقع گرفتاری کی خبروں پر ردعمل میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی طرف سے "اعلان جنگ" اور وزیرِ اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی جانب سے ان اقدامات کو "سندھ پر نیا حملہ" کے مترادف قرار دینے میں آخر غلط ہی کیا ہے...؟؟
مکمل تحریر >>

27 اگست، 2015

A TEACHER

Every member of the Teaching Faculty is not a Teacher. A teacher is a person who teaches, who comes up with innovative thoughts, who inspires his students towards learning and searching, who shakes their existing knowledge, who creates new questions and promote discussion and debate, who creates pride of knowledge among his students, who enjoys sharing knowledge, who is committed, dedicated and keen to learn more and more, who is equipped with latest knowledge with clarity, who talks face to face and eye to eye with understanding of responses of his students through their face expressions and body language, who is able to simplify complex issues to be easily understandable, who does not repeat same lessons every year, who understands why his students are not responding, where they are stuck, why they are stuck and how they should be motivated and inspired.
Slide shows with the help of multimedia in a dark room should not be preferred, however, may be rarely adequately used. Teaching should be based on promotion of discussion and debate. Teaching must not be based on dictation and memorization only. Teaching must promote thinking leading to creative and innovative ideas for qualitative solutions to the complex problems. A teacher is answerable to himself. A teacher must be honest, truthful and responsible person. Thus teaching becomes enjoyable and a source of eternal satisfaction. A teacher must be an ideal role model of the youth.


مکمل تحریر >>

THE THIRD FEAR, The Most Dangerous.

When MAN was created and he started his activities over the planet of Earth, he faced two major problems in the way of his survival:

(1) Hunger (Joo in Arabic)
(2) Fear (Khauf in Arabic)

There were already created numerous natural resources of FOOD. They include food grown from the soil; vegetables and fruits, sea food, animals to be hunted. Man was required to gather / collect food according to his needs, he could hunt animals, he could produce more food with his efforts. He could move from place to place and settle at his favorite places over the planet. Thus food was unlimited and it is still unlimited.
He faced fear from natural disasters; earth quakes, tsunamis, floods, extreme weathers etc. and fear from wild and poisonous animals. The Man was equipped with thinking and creative abilities to save himself from these fears. And in fact he has largely saved himself from most of these fears by using his abilities.
Now Man is facing a THIRD FEAR, Fear of Man from Man. This fear has been created by Man himself. This is based on desire and lust for occupation of all economic resources, occupation of others' lands and properties through imposition one's faith on others. This gave birth to intolerance and paved the way for ignorance. Those human societies which allowed tolerance, they could fight against ignorance and progressed. And the intolerant societies remained ignorant and never progressed because they could not participate in inventions, discoveries, innovative knowledge and forward movement.
What a life we are living and what a place we are living? Insecure, frightened, helpless, weak, a place where people impose their agenda on gun-point, a place where ignorance is dominant, a place where no person and no place is safe. Even Mosques, Imam-bargahs, Churches, Temples are not safe. A place where suicide bombers, killers of innocent people are "Janaty". A jungle where there is no law, not even law of jungle. A place where we have lost our identity, our pride, our destiny. A place where audience dictate the speaker. A place where people are rigid. A place where teachers are dictated on what to teach. A place where academic degrees are without knowledge. A place where meanings of merit are changed. A place where success means snatching and looting by hook or by crook. A place where only gangsters are upright. A place where argument has died. A place where intolerance has dominated.......
مکمل تحریر >>

GREATNESS OF MY MOTHER

Once upon a time when I got admission in Class 9 (Matriculation) at Government Pilot Secondary School Sialkot after completion of my education from the rural Middle School of Rasulpur Bhallian. I went to Urdu Bazaar, Sialkot and bought new books from "Shah and Sons". I was very happy and returned to my village Raja Harpal, about eight miles east of Sialkot city. My mother was waiting for my return from school as she used to do every day. She was also very happy that I have the books which I needed. I opened the books, checked the prices and made the total. The total was wrong. The shopkeeper had not added the price of one book and that was book of "Physics". I told my mother. She advised me not to read the books till the price is fully paid. I followed the instructions of my mother. Next day I took all the books to "Shah and Sons" and told Shah Sahib that total of prices of the books was wrong. He checked the total and I paid the remaining amount.
It was month of April 1965. Later in September 1965 the war between India and Pakistan broke up. Our village was occupied by Indian Army. We moved to an other village situated to North West of Sialkot City. We stayed there for more than Six months. After an Agreement between India and Pakistan we returned to our village. During six months' occupation, Indian Army had demolished and burnt our house where walls were fallen on roof except one wall where my School Bag was hanging but burnt. The house was burnt and many times it had been rained. When I reached my house I saw that my book of "Physics" had fallen out of the Bag and was still totally safe. It had neither caught the fire nor damaged by rain. I thought it was all due to my mother's honest advice to pay the price of books before opening them for reading. Honesty pays. Honesty is the best policy. 
I love my mother who always taught me keeping up good values. May Allah Almighty place her soul close to the Prophets, Martyrs, Truthful and Righteous people Ameen Sum Ameen
مکمل تحریر >>

26 اگست، 2015

پتر ہڑپے دا (پنجابی نظم)

It was 1991. I was at the University of Sheffield and studying and searching the Indus Valley Civilization and how it was looted by the Foreign invaders, Aryans, Mughals, British etc. I started thinking that I, one of the sons of soil of Indus Valley was also a victim of External Invaders, then following Poem was revealed in the Punjabi Language as a "Son of Harrappa."
اجڑے پنجاب تے اجڑی پجڑی نظم
ایہہ میرا ہڑپہ میرا سی
ایتھے وگدیاں ددھ دیاں نہراں سن
ہر پاسے لہراں بہراں سن
ایتھے تھاں تھاں میلے لگدے سن
گبھرو مٹیاراں سج دے سن
ایتھے رہندا نت سویرا سی
ایہہ میرا ہڑپہ میرا سی
۔۔۔۔۔۔۔
ایہناں آریاں مغل چوغتیاں نے
ابدالیاں تے انگریزاں نے
مینوں عرش توں فرش تے سٹیا اے
میرا سب خزانہ لٹیا اے
ایہناں دھرتی لیر و لیر کیتی
وکھ رانجھے توں ایہناں ہیر کیتی
ایہناں دتا صرف ہنیرا اے
ایہہ میرا ہڑپہ میرا اے
۔۔۔۔۔۔۔
مینوں آکھدے ہنھ مصلی نیں
کرمو دا پت متلی نیں
میں اصلی وارث پنجاب دا ہاں
راوی تے چناب دا ہاں
اساں ہن قبضہ واپس لینا اے
اجڑیا دیس وساؤنا اے
ایہہ قرض! اگلیاں پچھلیاں نسلاں دا
اگے ودھ کے ہن چکاؤنا اے
اساں ہڑپہ فیر وساؤنا اے
ہن کامے ڈانگاں کڈھن گے
تے سارے چور لٹیرے 
ساڈے اگے لگ کے بجھن گے
ایس دھرتی دے اصلی وارث
رجھن گے تے گجھن گے
فیر تھاں تھاں میلے لگن گے
فیر گبھرو مٹیاراں سجن گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایہہ میرا ہڑپہ میرا سی
ایہہ میرا ہڑپہ میرا اے
مکمل تحریر >>

متحدہ ہندوستان کی بذور منظم طاقت آزادی کا آخری علم بردار ..!!

علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ
بهول بهلکڑ قوم کو یاد دلاتے چلیں کہ مورخہ 25 اگست 2015 مسلم برصغیر کے ایک بهولے بسرے لیکن تاریخ ساز کردار بطل حُریت، ضعیم ملت اور نقیبِ فطرت علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ کا 127 واں یوم پیدائش جبکہ 27 اگست آپ کا 52 واں یومِ وفات ہے ...
بطل حُریت اور عالم بے بدل علامہ عنات اللہ خان المشرقی نے 25 اگست 1888 کو اس عالم رنگ و بو میں قدم رکھا۔۔ یورپ کی عالمی شہرت یافتہ جامعات میں ناقابلِ تنسیخ تعلیمی ریکارڈ قائم کرنے کے بعد 26 اگست 1930 کو متحدہ ہندوستان میں مسلم تسلط کے احیاء کی دعوے دار آخری تحریک "خاکسار" کی بنیاد رکھی۔۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کے ہنگام انگریز نے جب ہندوستان کی تقسیم کا حتمی فیصلہ کرلیا تو 19 مارچ 1940 کو لاہور میں خاکساروں کے خون سے ہولی کھیل کر تنظیمی مراحل سے گذرنے والی خاکسار تحریک کو بزور کچلنے کے چار روز بعد اسی شہر میں نئی قیادت اور نئے نعرے کے ساتھ نئی تحریک کا آغاز کردیا گیا۔ 
علامہ المشرقی نے قیام پاکستان کے بعد نئی مملکت کو مظبوط و مستحکم بنانے کی خاطر کئی کارآمد  منصوبے پیش کئے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔۔۔ علامہ بعالم تمام حسرت و یاس 27 اگست 1963کو بالآخر اپنے مرکز واقع اچھرہ لاہور میں جا آسودہ خاک ہوئے۔۔۔ 
             اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے
جی ہاں؛ اپنے وقت کا سب سے زیادہ پڑها لکها انسان، وہی المشرقیؒ جس نے ناصرف یورپ کی اعلیٰ ترین جامعات میں علمی فتوحات کے ناقابل فراموش جھنڈے گاڑنے، بلکہ اسے متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بازیابی کی آخری منظم کوشش "خاکسار تحریک" کا بانی قائد ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ..
اور جس کی صدائے جرس پر کان نہ دھرنے کا نتیجہ اس بدقسمت خطے کے تمام مسلمان نجانے کب تک بھگتتے رہیں گے ..
"ہم نے ملک تو حاصل کرلیا، لیکن قوم نہ بن سکے"، کی دہائی دینے والوں کیلئے دعوت عام ہے کہ زعیم مشرق علامہ المشرقی کی جانب سے، جہادی گروہ کی تشکیل نہیں بلکہ، افراد معاشرہ میں ڈسپلن پیدا کرکے انہیں صحیح معنوں میں ایک "قوم" کے قالب میں ڈھالنے کی خاطر رائج کئے گئے گیا "قطاروں میں عسکری قواعد پرمبنی تربیتی نظام" سے بہتر اور تیز اثر طریقہ کار، اگر کوئی موجود ہے تو اس کی نشاندہی ضرور کریں۔
یاد رکھئے خواتین و حضرات؛ تاریخ کے تناظر میں علامہ المشرقی کا نظریہ نہیں، البتہ خاکسار تحریک برٹش سامراج کے تیز رفتار استبدادی ہتھکنڈوں کے سامنے بظاہر ناکام ضرورہوئی۔ اسے انگریز کی عدالت سے سیاسی وکیلوں کی جیت قرار دینے والے آج اڑسٹھ برس بعد تک برطانیہ کے جانشین امریکہ بہادر کی مسلسل غلامی کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ 1947 میں ہمیں "آزادی" مل گئی تھی تو وہ آئندہ ایک صدی تک غلامی کے اسی طوق کیلئے اپنی گردنیں تیار رکھِیں۔۔
آج کا نوجوان اگرچہ الباکستان کے ہر شعبے میں غالب مخصوص مسلم لیگی ذہنیت کے زہریلے پروپیگنڈہ کے زیرِ اثر، میدان حریت اور علم و تحقیق میں اس گوہرِ تابناک کے کارہائے نمایاں سے غافل ہے؛ لیکن آنے والا وقت ثابت کر دے گا کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد کے دور میں برصغیر بالخصوص مسلمانان ہند کے مستقبل کو درپیش خطرات کو بر وقت بھانپتے ہوئے، مسائل کا جو حل المشرقیؒ نے تجویز کیا تھا، اسے پذیرائی نہ دے کر ہندی اقوام نے کتنے بڑے گھاٹے کا سودا کیا ...
آیئے؛ اس موقع پر بطل حُریت، ضعیم مشرق کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کر کے اس عظیم الشان شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کی اپنی سی ایک کوشش کریں..!!
ڈهونڈو گے ہمیں برسوں برسوں
  ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
Nobel Prize Nominee (Literature) August 25, 1888 - August 27, 1963. Punjab University: Master of Arts (M.A.) in Mathematics; Degrees from Christ's College, Cambridge University, England (1907-1912): Bachelor of Arts (B.A.), Bachelor of Science (Bsc.), Bachelor of Engineering (B.E.), Bachelor of Oriental Languages (B.O.L.). Four Triposes with distinction in five years (at Cambridge University from 1907-1912) in Mathematics, Natural Sciences, Mechanical Sciences, and Oriental languages. Titles awarded at Cambridge University: Wrangler, Foundation Scholar, and Bachelor Scholar; Fellow of the Royal Society of Arts (F.R.S.A) (1923), Fellow Geographical Society (F.G.S) (Paris, France), Fellow of Society of Arts (F.S.A) (Paris, France). Member of the Board at Dehli University, President Mathematical Society, Authored Tazkirah and many other books, Member International Congress of Orientalists, President All World's Faiths Conference (1937), A delegate to Palestine World Conference, Gold medalist World Society of Islam, Head of the delegation for the Motamar-I-Khilafat Conference at Cairo, Member of Indian Education Service ( I.E.S), Under Secretary of Education of undivided India, Founder of the Khaksar Tehrik.
مکمل تحریر >>

25 اگست، 2015

"پهرتیاں..!!

"ملک سے ہر قیمت پر دہشت گردی کا خاتمہ کر کے دم لیں گے".. چیف اعظم
150 ملین ڈالرز پر مشتمل کوالیشن اسپورٹ فنڈ کی آئندہ قسط کی وصولی کا وقت آن پہنچا؛ "وہ" سابقہ قسط کے بدلے کارکردگی کا حساب کتاب مانگ رہے ہیں، اب کیا کریں..؟؟
"فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف باقاعدہ آپریشن کا وقت آگیا ہے"؛ وزیر اعظم
میرے اپنے صوبے کا وزیر داخلہ ہی جب دہشت گردی کا نشانہ بن گیا ہے، کوالیشن اسپورٹ فنڈ کی اگلی قسط کس منہ سے مانگوں گا...؟؟
"دہشت گردوں کے تمام تر ٹھکانوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے"؛ وزیر داخلہ
کرنل شجاع خانزادہ پر حملہ کرنے والے دہشت گرد معلوم نہیں کہاں ٹھکانہ کئے ہوئے تھے، ورنہ میں نے تو انہیں چکری کے اپنے "گیسٹ ہاؤسز" سے محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا تها ..
بہرحال؛ یہ نیوز کانفرنس تو میں دونوں بڑے "شرفاء" کے حکم پر کر رہا ہوں، ورنہ مجھے کوالیشن اسپورٹ فنڈ میں سے صرف ان کا "جهوٹا" ہی ملا کرتا ہے؛ لائنز شئیر تو تینوں "شریف" ہی لے اڑتے ہیں ..
"الباکستانیو"؛ اب ہم اس طرح کی "پهرتیاں" نہ دکھائیں تو کیا کریں؛ یہ کرنل شجاع خانزادہ کو بهی عین اس وقت مرنا تها، جب "قسط" سر پر آگئی تھی...؟؟؟ ..........
خواتین و حضرات؛ ویسے آپ سب کو اب ہمارے "چیف" صاحب کے عزم و ولولہ میں سے چھلکتی "ہر قیمت" کی ویلیو کا اندازہ تو خوب ہو گیا ہوگا..!!!
مکمل تحریر >>

24 اگست، 2015

MEMOIR

STORY OF DESTRUCTION, DEMOLITION, RECONSTRUCTION AND REHABILITATION:
This is the story of the people living close to the border between India and Pakistan, particularly along the Line of Control (LOC) between Pakistani and Indian Kashmir and Working Boundary between Pakistan and Indian occupied Kashmir. This is my story. This is story of my parents and grand-parents. This started in 1947 and repeated many times afterwards particularly in 1965, 1971 and 1987 and yet continuing. This is a different experience.

1947: My mother's village "Naikowal" went on Indian side of the Working Boundary. I remember during my childhood my mother used to take me along to the new border. She used to recite "Fateha" for her parents (My Nana and Nani) while facing towards the graveyard of her native village and pray for independence of Jammu and Kashmir so that she could go to the graves of her parents. I remember, I used to say Ameen Sum Ameen. I used to remain emotional for years and years and wanted my mother's desire to be fulfilled. I remember I used to raise the slogan "Kashmir Hamara Hai Aur Saray Ka Saraa Hai).
1965: Our village "Raja Harpal" along with many other villages and towns of Sialkot District were occupied by India. They remained under Indian Occupation for more than Six Months. During the occupation the villages had been looted, demolished and burnt. We have to take a new start for reconstruction and rehabilitation.
1971: Another war broke up between India and Pakistan. Our area was got vacated by the Army and we were displaced. After short time we returned and rehabilitated our villages and agricultural lands. This war also resulted into creation of Bangladesh.
1987: Another war was about to start. Our villages were got vacated and once again we were displaced. However, this war was postponed and we resettled in our villages.
The tension between both sides still continues, cross firing starts, people are killed and some times displaced temporarily.
This is our experience of sufferings, agonies and rehabilitation. On the other hand this was a useful experience and taught many meaningful lessons. It made us strong and confident.

1996: I was at the UET Lahore living in House D-5, close to Gate No: 6. A heavy storm water during the rainy season suddenly entered into the eastern part of the UET. Many houses including my house were damaged. My house was most hit as it was first in the way of storm water. A lot of households were damaged and destroyed. The affected people started applying for the grant of Funds for the rehabilitation and buying the new households. I did not apply. One day a high official came to me and asked why I had not applied. I told him this was not a new thing for me. Our properties had been destroyed many times and we had rehabilitated ourselves as first Human on this planet had settled. We were never beggars and my mother had taught me that "beggars are liars". And I can not go against the principles of my mother. However, I thanked him for his concern but he was surprised. I could not understand why he was surprised.
مکمل تحریر >>

پٹواری لیگ کی روایات اور عدالت عظمیٰ کا بالاخانہ..!!

"نون لیگ کی روایات کے مطابق فیصلہ تسلیم کرتے ہیں".. ایاز صادق
لاہور کے انتخابی ٹربیونل کی جانب سے الیکشن 2013 میں حلقہ این اے 122 سے اپنے انتخاب کو کالعدم قرار دئے جانے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی کا یہ "ردعمل" ہمیشہ صرف پنجاب کی اکثریت کے بل بوتے پر ملک بھر پر قابض ہونے والی نواز لیگ کی "روایات" سے واقفیت رکھنے والوں کیلئے خاصی دلچسپی کا حامل ہوگا ...
کالعدم اسپیکر صاحب کو اگر "پارٹی پالیسی" اجازت دیتی تو وہ اپنی بات یقیناً کچھ یوں مکمل کرتے کہ 
"ہم نے الیکشن بهی نون لیگ کی روایات کے مطابق دھاندلی سے جیتا تھا اور اب نون لیگ کی روایات کے مطابق الیکشن ٹربیونل کے، دھاندلی نہیں انتخابی مشینری کی ناکامی والے مقبول عام فیصلے کو (سپریم کورٹ سے وابستہ روایتی توقعات کے ساتھ) تسلیم بهی کرتے ہیں ..
پارٹی کی انہی روایات کے عین مطابق اب ہم اپنی زرخرید سپریم کورٹ جا رہے ہیں؛ جہان سے ہمیں بعینہ اسی طرح ریلیف مل جائے گا، جیسے سعد رفیق کے خلاف بالکل اسی قسم کے فیصلے کے بعد فوراً ہی مل گیا تھا ..
مسئلہ اس مرتبہ صرف یہ ہے ہماری سپریم کورٹ کی جانب سے ریلیف ملنے تک کے چند روزہ عبوری دور میں ہمارے قائد نواز شریف نے سعد رفیق کو تو ریلوے کی وزارت میں ہی اپنا مشیر بر وزن وزیر مقرر کر دیا تها؛ جبکہ آئین میں اسپیکر کا ہم وزن کوئی عہدہ سرے سے موجود ہی نہیں، اسلئے لگتا ہے کہ سپریم کورٹ سے اپنی بحالی تک کی اس عبوری مدت کے دوران مجهے مجبوراً بیروزگار رہنا پڑے گا"...
............ رہے نام اللہ کا..!!
مکمل تحریر >>

پاکستان اور الیکشن میں دھاندلی

پاکستان میں ہر الیکشن میں دھاندلی ہوتی رہی ہے۔ جیتے ہوؤں کو ہرایا جاتا رہا ہے۔ نتیجے تبدیل کئے جاتے رہے ہیں۔ الیکشن سے پہلے فیصلہ کر لیا جاتا رہا ہے کہ کس پارٹی کو کتنی سیٹیں دینی ہیں اور کس کی حکومت بنانی ہے۔ 
کون نہیں جانتا کہ 1988 میں آئی جے آئی کس نے بنائی اور اس کے باوجود پنجاب میں کس طرح اپنی پسند کی حکومت بنائی گئی۔ کون نہیں جانتا کہ 1977 کے بعد سے آج تک جیتنے کے باوجود پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت کس نے نہ بننے دی۔ کون نہیں جانتا کہ کس طرح، کس کس کو اور کس نے اپنی پسند کے سیاستدانوں میں پیسے بانٹے کہ وہ پیپلز پارٹی کے خلاف 1990 کا الیکشن جیت سکیں، کون نہیں جانتا کہ پوری حکومتی مشینری پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال ہوتی رہی۔ کون نہیں جانتا کہ 1993 میں کس نے اور کن نامعلوم طریقوں سے پیپلز پارٹی کی جیتی ہوئی سیٹیں کم کی گئیں اور بینظیر شہید کو ایک کمزور اقتدار دیا گیا اور وہ بھی مجبوری کے تحت۔ اور پھر 1997 کی جادوگری کے پیچھے کون تھا کہ 37 فیصد ووٹ لینے والی پیپلز پارٹی کو صرف 17 سیٹیں دی گئیں اور 36 فیصد ووٹ لینے والی نون لیگ کو لگ بھگ 140 سیٹوں کا تحفہ دیا گیا۔ اور پھر کون نہیں جانتا کہ 2002 میں کیا کیا کھیل کھیلے گئے۔ جب خواہشات کے خلاف پیپلز پارٹی جیتتی جا رہی تھی تو جنوبی پنجاب کے نتیجے 72 گھنٹے تک روک کر بدلے گُیے اور جب اس پر بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے تو کچھ فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ مزید کمال دکھائیں، ان فرشتوں میں رینجرز کے جنرل حسین مہدی کا نام نمایاں تھا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی میں پیٹریاٹس کے نام سے فارورڈ بلاک بنا کر اپنی پسند کی حکومت بنانے کا بندوبست کر دیا۔ واضع رہے کہ ان میں پنجاب کے، ہاں صرف پنجاب کے 22 ایم این اے شامل تھے۔ ق۔لیگ بنائی گئی۔ اور پھر 2008 کے الیکشن سے پہلے ق۔لیگ کو جتوانے کا پورا بندوبست موجود تھا۔ بینظیر اور نواز شریف کو پاکستان نہ آنے دینے کی تکرار ہو رہی تھی۔ مگر بین الاقوامی قوتوں کے دباؤ پر مجبوراً بینظیر کو آنے دیا گیا اور بینظیر کے مطالبے پر نواز شریف کو بھی آنے دیا گیا۔ مگر بینظیر ناقابل برداشت تھی اسے اپنے پالتو تذویراتی اثاثوں کی مدد سے شہید کروا دیا گیا۔ الیکشن میں پیپلز پارٹی کی واضع برتری کو ہر قسم کے حربے استعمال کرتے ہوئے کم کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کو 124 سیٹوں تک محدود کیا گیا جبکہ وہ 180 کے لگ بھگ سیٹیں جیت سکتی تھی۔ اب ایک کمزور اتحادی حکومت پیپلز پارٹی کو دی گئی۔ اس کے خلاف ایک طرف پنجاب میں تماشہ جاری رکھوایا گیا اور دوسری طرف عدالت عظمی کے چیپ جسٹس کو پیچھے لگا دیا گیا۔ نہ صرف یہ بلکہ بکاؤ میڈیا کو بد ترین کردار کشی کا مشن سونپ دیا گیا کہ جو اب تک جاری ہے۔ پنجاب میں حکومت نون لیگ کی اور تمام الزام زرداری پر۔ واہ کیا کہنے میڈیا کے بقراطوں کے۔

سوال یہ ہے کہ دھاندلی کون کرتا رہا ہے، نتیجے کون بناتا رہا ہے، عوام کے دئیے ہوئے مینڈیٹ کو کون بدلتا رہا ہے؟ مجرم کون ہے؟ آئین پاکستان کی بیحرمتی کون کرتا رہا ہے؟ کیا ان مجرموں کو کبھی سزا ملے گی؟ پاکستان کی کینگرو کورٹس انہیں سزا بھلے نہ دیں، ان سے کوئی امید بھی نہیں ہے کیونکہ یہ فیصلے کرتی نہیں، کہیں سے لکھے لکھائے ہوئے فیصلے سناتی ہیں۔ مگر تاریخ فیصلہ کر چکی ہے اور ان سب کو مجرم قرار دے چکی ہے۔ 
اب 2013 کی دھاندلی کی بات کچھ مختلف ہے۔ اس الیکشن میں خصوصا" پنجاب اور کے پی کے ہر حلقے میں دھاندلی ہی دھاندلی ہے۔ میڈیا کی بکواس کے ذریعے ایک فضا ضرور بنائی گئی۔ لہاذہ کے پی کے میں پی ٹی آُیی کی حکومت بھی جعلی ہے اور مرکز میں نون لیگ کی حکومت بھی جعلی ہے۔سوال یہ ہے کہ دھاندلی کس نے کی؟ سیدھا سا جواب ہے کہ انہوں نے ہی کی جو ہمیشہ کرتے آئے ہیں۔ لیکن اس بار ان کی مرضی کچھ اور تھی مگر ان کے بین الاقوامی آقاؤں کا حکم کچھ اور تھا جس پر ان دھاندلی کے ماہرین کو با دل نخواستہ عمل کرنا پڑا اور بیشمار بے ضابطگیاں سر انجام دی گئیں تا کہ بوقت ضرورت کام آئیں۔ 
ہمارا مطالبہ ہے کہ دھاندلی کرنے والوں کو عبرتناک سزا دی جائے اور ان مجرموں کو تاریخ میں ایک مثال بنا دیا جائے۔ کاش کہ ایک بار پاکستان میں ایک غیرجانبدار ماحول میں دھاندلی کے بغیر الیکشن ہونے دئیے جائیں۔
مکمل تحریر >>

22 اگست، 2015

جنرل حمید گل اور چرسی لابی

شیعہ مکتبہ فکر بنیادی طور پر دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ وہ ہے جو ان کے اہل علم و دانش پر مشتمل ہے۔ آپ اس حلقے کی زبان سے کبھی بھی گالی یا غیر شائستہ بات نہیں سن پائینگے۔ یہ خاموشی اور رواداری سے اپنا کام کرتے ہیں اور بالعموم سیاست کے جھمیلوں سے دور رہتے ہیں۔ شیعہ عوام کی اکثریت بھی اسی حلقے سے جڑی رہتی ہے اور ہر طرح کے تنازعات سے دور رہ کر اپنے کام سے کام رکھتی ہے۔ دوسرا حصہ وہ ہے جو حشیشیوں اور چرسیوں پر مشتمل ہے۔ یہ اہل علم و دانش کے بجائے ان ذاکرین کا پیرو کار ہے جو ہر سال واقعہ کربلا کا نیا ورژن سامنے لاتے ہیں اور جنہوں نے اس حوالے سے اتنی تحریفات کر رکھی ہیں کہ عیسائیوں کی بائبل بھی انگشت بدنداں ہے۔ اس گروہ کی صدیوں سے ایک ہی پہچان ہیاور وہ ہے "گالی" جو ان کے ہاں عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ گالیوں کے حوالے سے بھی ان کی خاص بات یہ ہے کہ یہ گد کی طرح اپنے شکار کے مرنے کا انتظار کر تے ہیں۔ ادہر اس کی جان نکلی اور ادہر یہ اس پر پل پڑے۔ اس حوالے سے اس گروہ نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سمیت تقریبا تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو نہیں بخشا تو جنرل حمید گل کیا چیز ہے۔ آپ یقین کیجئے میرا شیعہ اہل علم کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے۔ وہ ان چرسی ذاکرین اور ان کے پیرو کاروں کو ہم سے زیادہ ناپسند کرتے ہیں۔ میں ان کے لئے "چرسی" کا خطاب کسی طنز یا غصے کے سبب استعمال نہیں کر رہا بلکہ مجھے کئی شیعہ علماء بتا چکے ہیں کہ یہ ذاکر چرس پیئے بغیر کبھی بھی مجلس نہیں پڑھتے اور ان کی سب و شتم میں چرس کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔
اس گروہ کو جنرل حمید گل سے شکایت یہ ہے کہ سپاہ صحابہ (میں یہی نام استعمال کرتا ہوں) کے رہنماء مولانا محمد احمد لدھیانوی کو انہوں نے خود سے بہت قریب رکھا تھا۔ اگر اس قربت کا نتیجہ یہ نکلا ہو کہ یہ جماعت زیادہ متشدد بن کر ابھری ہو تو پھر اس گروہ کی شکایت بجا لیکن اگر اس قربت کے نتائج آج لوگوں کے سامنے اس شکل میں موجود ہیں کہ سپاہ صحابہ "کافر کافر۔ شیعہ کافر!" کا نعرہ ترک کر چکی ہے اور اپنے ورکرز کو سمجھا چکی ہے کہ یہ نعرہ نہ جلسوں میں لگے گا اور نہ ہی جلوسوں میں حتیٰ کہ وال چاکنگ اور سٹیکرز سے بھی یہ نعرہ غائب ہو چکا ہے تو کیا یہ برا ہوا ہے؟ اسی طرح اگر اس قربت کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آج اگر کسی امام بارگاہ پر دہشت گردی ہوتی ہے تو سپاہ صحابہ اس کی کھلے عام مذمت کرتی ہے تو کیا یہ غلط ہوا ہے؟ اگر اس قربت کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ سپاہ صحابہ خود کو لشکر جھنگوی سے مکمل طور پر الگ تھلگ کر چکی ہے اور لشکر جھنگوی کے ملک اسحاق نے اس کے رد عمل میں سپاہ صحابہ پر قبضہ کر کے محمد احمد لدھیانوی کو بیدخل کرنے کی سرتوڑ مگر ناکام کوششیں کیں تو یہ معمولی بات ہے؟ اگر اس قربت کے نتیجے میں سپاہ صحابہ ایک متشدد جماعت سے ایک ایسی تنظیم میں ڈھل گئی ہے جس کی جد و جہد کا مرکزی پوائینٹ یہ ہے کہ نفرت انگیز لٹریچر اور زبان کے سد باب کے لئے آئین و قانون میں ترامیم کی جائیں تو کیا یہ غیر معقول اور معمولی تبدیلی ہے؟؟؟
اسی گروہ کی جانب سے شکر گڑھ کی زمینوں کا ایک سکینڈل اچھالا جا رہا ہے جس کا لنک کچھ دوست بار بار میری پوسٹوں پر پیسٹ کر دیتے ہیں۔ اللہ کے بندو اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ اگر اس سکینڈل میں ذرا بھی جان ہوتی تو جنرل مشرف اسے استعمال نہ کر چکا ہوتا؟ سی این این اور بی بی سی اسے صبح و شام نہ اچھال رہے ہوتے؟ حامد میر اور سلیم صافی اس پر چٹخارے دار پروگرام نہ کر چکے ہوتے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ متاثرین افتخار چوہدری کے دور میں سپریم کورٹ کا دروازہ نہ کھٹکھٹا چکے ہوتے؟ ایک چھیتڑے نے یہ بکواس شائع کردی اور آپ چونک اٹھے۔ سلام ہے آپ کے فہم کو!!!
مکمل تحریر >>

تلاش کیجئے