پاکستان میں ہر الیکشن میں دھاندلی ہوتی رہی ہے۔ جیتے ہوؤں کو ہرایا جاتا رہا ہے۔ نتیجے تبدیل کئے جاتے رہے ہیں۔ الیکشن سے پہلے فیصلہ کر لیا جاتا رہا ہے کہ کس پارٹی کو کتنی سیٹیں دینی ہیں اور کس کی حکومت بنانی ہے۔
کون نہیں جانتا کہ 1988 میں آئی جے آئی کس نے بنائی اور اس کے باوجود پنجاب میں کس طرح اپنی پسند کی حکومت بنائی گئی۔ کون نہیں جانتا کہ 1977 کے بعد سے آج تک جیتنے کے باوجود پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت کس نے نہ بننے دی۔ کون نہیں جانتا کہ کس طرح، کس کس کو اور کس نے اپنی پسند کے سیاستدانوں میں پیسے بانٹے کہ وہ پیپلز پارٹی کے خلاف 1990 کا الیکشن جیت سکیں، کون نہیں جانتا کہ پوری حکومتی مشینری پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال ہوتی رہی۔ کون نہیں جانتا کہ 1993 میں کس نے اور کن نامعلوم طریقوں سے پیپلز پارٹی کی جیتی ہوئی سیٹیں کم کی گئیں اور بینظیر شہید کو ایک کمزور اقتدار دیا گیا اور وہ بھی مجبوری کے تحت۔ اور پھر 1997 کی جادوگری کے پیچھے کون تھا کہ 37 فیصد ووٹ لینے والی پیپلز پارٹی کو صرف 17 سیٹیں دی گئیں اور 36 فیصد ووٹ لینے والی نون لیگ کو لگ بھگ 140 سیٹوں کا تحفہ دیا گیا۔ اور پھر کون نہیں جانتا کہ 2002 میں کیا کیا کھیل کھیلے گئے۔ جب خواہشات کے خلاف پیپلز پارٹی جیتتی جا رہی تھی تو جنوبی پنجاب کے نتیجے 72 گھنٹے تک روک کر بدلے گُیے اور جب اس پر بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے تو کچھ فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ مزید کمال دکھائیں، ان فرشتوں میں رینجرز کے جنرل حسین مہدی کا نام نمایاں تھا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی میں پیٹریاٹس کے نام سے فارورڈ بلاک بنا کر اپنی پسند کی حکومت بنانے کا بندوبست کر دیا۔ واضع رہے کہ ان میں پنجاب کے، ہاں صرف پنجاب کے 22 ایم این اے شامل تھے۔ ق۔لیگ بنائی گئی۔ اور پھر 2008 کے الیکشن سے پہلے ق۔لیگ کو جتوانے کا پورا بندوبست موجود تھا۔ بینظیر اور نواز شریف کو پاکستان نہ آنے دینے کی تکرار ہو رہی تھی۔ مگر بین الاقوامی قوتوں کے دباؤ پر مجبوراً بینظیر کو آنے دیا گیا اور بینظیر کے مطالبے پر نواز شریف کو بھی آنے دیا گیا۔ مگر بینظیر ناقابل برداشت تھی اسے اپنے پالتو تذویراتی اثاثوں کی مدد سے شہید کروا دیا گیا۔ الیکشن میں پیپلز پارٹی کی واضع برتری کو ہر قسم کے حربے استعمال کرتے ہوئے کم کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کو 124 سیٹوں تک محدود کیا گیا جبکہ وہ 180 کے لگ بھگ سیٹیں جیت سکتی تھی۔ اب ایک کمزور اتحادی حکومت پیپلز پارٹی کو دی گئی۔ اس کے خلاف ایک طرف پنجاب میں تماشہ جاری رکھوایا گیا اور دوسری طرف عدالت عظمی کے چیپ جسٹس کو پیچھے لگا دیا گیا۔ نہ صرف یہ بلکہ بکاؤ میڈیا کو بد ترین کردار کشی کا مشن سونپ دیا گیا کہ جو اب تک جاری ہے۔ پنجاب میں حکومت نون لیگ کی اور تمام الزام زرداری پر۔ واہ کیا کہنے میڈیا کے بقراطوں کے۔
سوال یہ ہے کہ دھاندلی کون کرتا رہا ہے، نتیجے کون بناتا رہا ہے، عوام کے دئیے ہوئے مینڈیٹ کو کون بدلتا رہا ہے؟ مجرم کون ہے؟ آئین پاکستان کی بیحرمتی کون کرتا رہا ہے؟ کیا ان مجرموں کو کبھی سزا ملے گی؟ پاکستان کی کینگرو کورٹس انہیں سزا بھلے نہ دیں، ان سے کوئی امید بھی نہیں ہے کیونکہ یہ فیصلے کرتی نہیں، کہیں سے لکھے لکھائے ہوئے فیصلے سناتی ہیں۔ مگر تاریخ فیصلہ کر چکی ہے اور ان سب کو مجرم قرار دے چکی ہے۔
اب 2013 کی دھاندلی کی بات کچھ مختلف ہے۔ اس الیکشن میں خصوصا" پنجاب اور کے پی کے ہر حلقے میں دھاندلی ہی دھاندلی ہے۔ میڈیا کی بکواس کے ذریعے ایک فضا ضرور بنائی گئی۔ لہاذہ کے پی کے میں پی ٹی آُیی کی حکومت بھی جعلی ہے اور مرکز میں نون لیگ کی حکومت بھی جعلی ہے۔سوال یہ ہے کہ دھاندلی کس نے کی؟ سیدھا سا جواب ہے کہ انہوں نے ہی کی جو ہمیشہ کرتے آئے ہیں۔ لیکن اس بار ان کی مرضی کچھ اور تھی مگر ان کے بین الاقوامی آقاؤں کا حکم کچھ اور تھا جس پر ان دھاندلی کے ماہرین کو با دل نخواستہ عمل کرنا پڑا اور بیشمار بے ضابطگیاں سر انجام دی گئیں تا کہ بوقت ضرورت کام آئیں۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ دھاندلی کرنے والوں کو عبرتناک سزا دی جائے اور ان مجرموں کو تاریخ میں ایک مثال بنا دیا جائے۔ کاش کہ ایک بار پاکستان میں ایک غیرجانبدار ماحول میں دھاندلی کے بغیر الیکشن ہونے دئیے جائیں۔