22 اگست، 2015

جنرل حمید گل اور چرسی لابی

شیعہ مکتبہ فکر بنیادی طور پر دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ وہ ہے جو ان کے اہل علم و دانش پر مشتمل ہے۔ آپ اس حلقے کی زبان سے کبھی بھی گالی یا غیر شائستہ بات نہیں سن پائینگے۔ یہ خاموشی اور رواداری سے اپنا کام کرتے ہیں اور بالعموم سیاست کے جھمیلوں سے دور رہتے ہیں۔ شیعہ عوام کی اکثریت بھی اسی حلقے سے جڑی رہتی ہے اور ہر طرح کے تنازعات سے دور رہ کر اپنے کام سے کام رکھتی ہے۔ دوسرا حصہ وہ ہے جو حشیشیوں اور چرسیوں پر مشتمل ہے۔ یہ اہل علم و دانش کے بجائے ان ذاکرین کا پیرو کار ہے جو ہر سال واقعہ کربلا کا نیا ورژن سامنے لاتے ہیں اور جنہوں نے اس حوالے سے اتنی تحریفات کر رکھی ہیں کہ عیسائیوں کی بائبل بھی انگشت بدنداں ہے۔ اس گروہ کی صدیوں سے ایک ہی پہچان ہیاور وہ ہے "گالی" جو ان کے ہاں عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ گالیوں کے حوالے سے بھی ان کی خاص بات یہ ہے کہ یہ گد کی طرح اپنے شکار کے مرنے کا انتظار کر تے ہیں۔ ادہر اس کی جان نکلی اور ادہر یہ اس پر پل پڑے۔ اس حوالے سے اس گروہ نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سمیت تقریبا تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو نہیں بخشا تو جنرل حمید گل کیا چیز ہے۔ آپ یقین کیجئے میرا شیعہ اہل علم کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے۔ وہ ان چرسی ذاکرین اور ان کے پیرو کاروں کو ہم سے زیادہ ناپسند کرتے ہیں۔ میں ان کے لئے "چرسی" کا خطاب کسی طنز یا غصے کے سبب استعمال نہیں کر رہا بلکہ مجھے کئی شیعہ علماء بتا چکے ہیں کہ یہ ذاکر چرس پیئے بغیر کبھی بھی مجلس نہیں پڑھتے اور ان کی سب و شتم میں چرس کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔
اس گروہ کو جنرل حمید گل سے شکایت یہ ہے کہ سپاہ صحابہ (میں یہی نام استعمال کرتا ہوں) کے رہنماء مولانا محمد احمد لدھیانوی کو انہوں نے خود سے بہت قریب رکھا تھا۔ اگر اس قربت کا نتیجہ یہ نکلا ہو کہ یہ جماعت زیادہ متشدد بن کر ابھری ہو تو پھر اس گروہ کی شکایت بجا لیکن اگر اس قربت کے نتائج آج لوگوں کے سامنے اس شکل میں موجود ہیں کہ سپاہ صحابہ "کافر کافر۔ شیعہ کافر!" کا نعرہ ترک کر چکی ہے اور اپنے ورکرز کو سمجھا چکی ہے کہ یہ نعرہ نہ جلسوں میں لگے گا اور نہ ہی جلوسوں میں حتیٰ کہ وال چاکنگ اور سٹیکرز سے بھی یہ نعرہ غائب ہو چکا ہے تو کیا یہ برا ہوا ہے؟ اسی طرح اگر اس قربت کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آج اگر کسی امام بارگاہ پر دہشت گردی ہوتی ہے تو سپاہ صحابہ اس کی کھلے عام مذمت کرتی ہے تو کیا یہ غلط ہوا ہے؟ اگر اس قربت کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ سپاہ صحابہ خود کو لشکر جھنگوی سے مکمل طور پر الگ تھلگ کر چکی ہے اور لشکر جھنگوی کے ملک اسحاق نے اس کے رد عمل میں سپاہ صحابہ پر قبضہ کر کے محمد احمد لدھیانوی کو بیدخل کرنے کی سرتوڑ مگر ناکام کوششیں کیں تو یہ معمولی بات ہے؟ اگر اس قربت کے نتیجے میں سپاہ صحابہ ایک متشدد جماعت سے ایک ایسی تنظیم میں ڈھل گئی ہے جس کی جد و جہد کا مرکزی پوائینٹ یہ ہے کہ نفرت انگیز لٹریچر اور زبان کے سد باب کے لئے آئین و قانون میں ترامیم کی جائیں تو کیا یہ غیر معقول اور معمولی تبدیلی ہے؟؟؟
اسی گروہ کی جانب سے شکر گڑھ کی زمینوں کا ایک سکینڈل اچھالا جا رہا ہے جس کا لنک کچھ دوست بار بار میری پوسٹوں پر پیسٹ کر دیتے ہیں۔ اللہ کے بندو اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ اگر اس سکینڈل میں ذرا بھی جان ہوتی تو جنرل مشرف اسے استعمال نہ کر چکا ہوتا؟ سی این این اور بی بی سی اسے صبح و شام نہ اچھال رہے ہوتے؟ حامد میر اور سلیم صافی اس پر چٹخارے دار پروگرام نہ کر چکے ہوتے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ متاثرین افتخار چوہدری کے دور میں سپریم کورٹ کا دروازہ نہ کھٹکھٹا چکے ہوتے؟ ایک چھیتڑے نے یہ بکواس شائع کردی اور آپ چونک اٹھے۔ سلام ہے آپ کے فہم کو!!!

تلاش کیجئے