علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ |
بطل حُریت اور عالم بے بدل علامہ عنات اللہ خان المشرقی نے 25 اگست 1888 کو اس عالم رنگ و بو میں قدم رکھا۔۔ یورپ کی عالمی شہرت یافتہ جامعات میں ناقابلِ تنسیخ تعلیمی ریکارڈ قائم کرنے کے بعد 26 اگست 1930 کو متحدہ ہندوستان میں مسلم تسلط کے احیاء کی دعوے دار آخری تحریک "خاکسار" کی بنیاد رکھی۔۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کے ہنگام انگریز نے جب ہندوستان کی تقسیم کا حتمی فیصلہ کرلیا تو 19 مارچ 1940 کو لاہور میں خاکساروں کے خون سے ہولی کھیل کر تنظیمی مراحل سے گذرنے والی خاکسار تحریک کو بزور کچلنے کے چار روز بعد اسی شہر میں نئی قیادت اور نئے نعرے کے ساتھ نئی تحریک کا آغاز کردیا گیا۔
علامہ المشرقی نے قیام پاکستان کے بعد نئی مملکت کو مظبوط و مستحکم بنانے کی خاطر کئی کارآمد منصوبے پیش کئے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔۔۔ علامہ بعالم تمام حسرت و یاس 27 اگست 1963کو بالآخر اپنے مرکز واقع اچھرہ لاہور میں جا آسودہ خاک ہوئے۔۔۔
اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے
جی ہاں؛ اپنے وقت کا سب سے زیادہ پڑها لکها انسان، وہی المشرقیؒ جس نے ناصرف یورپ کی اعلیٰ ترین جامعات میں علمی فتوحات کے ناقابل فراموش جھنڈے گاڑنے، بلکہ اسے متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بازیابی کی آخری منظم کوشش "خاکسار تحریک" کا بانی قائد ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ..
اور جس کی صدائے جرس پر کان نہ دھرنے کا نتیجہ اس بدقسمت خطے کے تمام مسلمان نجانے کب تک بھگتتے رہیں گے ..
"ہم نے ملک تو حاصل کرلیا، لیکن قوم نہ بن سکے"، کی دہائی دینے والوں کیلئے دعوت عام ہے کہ زعیم مشرق علامہ المشرقی کی جانب سے، جہادی گروہ کی تشکیل نہیں بلکہ، افراد معاشرہ میں ڈسپلن پیدا کرکے انہیں صحیح معنوں میں ایک "قوم" کے قالب میں ڈھالنے کی خاطر رائج کئے گئے گیا "قطاروں میں عسکری قواعد پرمبنی تربیتی نظام" سے بہتر اور تیز اثر طریقہ کار، اگر کوئی موجود ہے تو اس کی نشاندہی ضرور کریں۔
یاد رکھئے خواتین و حضرات؛ تاریخ کے تناظر میں علامہ المشرقی کا نظریہ نہیں، البتہ خاکسار تحریک برٹش سامراج کے تیز رفتار استبدادی ہتھکنڈوں کے سامنے بظاہر ناکام ضرورہوئی۔ اسے انگریز کی عدالت سے سیاسی وکیلوں کی جیت قرار دینے والے آج اڑسٹھ برس بعد تک برطانیہ کے جانشین امریکہ بہادر کی مسلسل غلامی کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ 1947 میں ہمیں "آزادی" مل گئی تھی تو وہ آئندہ ایک صدی تک غلامی کے اسی طوق کیلئے اپنی گردنیں تیار رکھِیں۔۔
آج کا نوجوان اگرچہ الباکستان کے ہر شعبے میں غالب مخصوص مسلم لیگی ذہنیت کے زہریلے پروپیگنڈہ کے زیرِ اثر، میدان حریت اور علم و تحقیق میں اس گوہرِ تابناک کے کارہائے نمایاں سے غافل ہے؛ لیکن آنے والا وقت ثابت کر دے گا کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد کے دور میں برصغیر بالخصوص مسلمانان ہند کے مستقبل کو درپیش خطرات کو بر وقت بھانپتے ہوئے، مسائل کا جو حل المشرقیؒ نے تجویز کیا تھا، اسے پذیرائی نہ دے کر ہندی اقوام نے کتنے بڑے گھاٹے کا سودا کیا ...
آیئے؛ اس موقع پر بطل حُریت، ضعیم مشرق کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کر کے اس عظیم الشان شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کی اپنی سی ایک کوشش کریں..!!
ڈهونڈو گے ہمیں برسوں برسوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
Nobel
Prize Nominee (Literature) August 25, 1888 - August 27, 1963. Punjab
University: Master of Arts (M.A.) in Mathematics; Degrees from Christ's
College, Cambridge University, England (1907-1912): Bachelor of Arts (B.A.),
Bachelor of Science (Bsc.), Bachelor of Engineering (B.E.), Bachelor of
Oriental Languages (B.O.L.). Four Triposes with distinction in five years (at
Cambridge University from 1907-1912) in Mathematics, Natural Sciences,
Mechanical Sciences, and Oriental languages. Titles awarded at Cambridge
University: Wrangler, Foundation Scholar, and Bachelor Scholar; Fellow of the
Royal Society of Arts (F.R.S.A) (1923), Fellow Geographical Society (F.G.S)
(Paris, France), Fellow of Society of Arts (F.S.A) (Paris, France). Member of
the Board at Dehli University, President Mathematical Society, Authored
Tazkirah and many other books, Member International Congress of Orientalists,
President All World's Faiths Conference (1937), A delegate to Palestine World
Conference, Gold medalist World Society of Islam, Head of the delegation for
the Motamar-I-Khilafat Conference at Cairo, Member of Indian Education Service
( I.E.S), Under Secretary of Education of undivided India, Founder of the
Khaksar Tehrik.