28 فروری، 2015

اُمت مرحوم۔ مرگِ مفاجات سے آگے

بہت ہنسی آتی ہے مجھے جب میں پڑھتا اور سُنتا ہوں کہ ’’یہ ملک اللہ تعالیٰ نے بنایا تھا اور ہماری تمام تر بداعمالیوں کے باوجود وہی ذات اسے چلائے جارہی ہے‘‘۔ ہرطرف سے اس قسم کی وکھری ’’دانش‘‘کے اظہار نے میرے ذہن میں ہمیشہ یہی سوال پیدا کیا ہے کہ ’’کیا یہ ملک وقوم واقعی آزادی اور قوم سازی کیلئے فطرت کی طرف سے وضع کردہ اصول و ضوابط کے تحت وجود میں آئے تھے؟ نیز یہ ملک کیا سچ مچ چل بھی رہا ہے‘‘؟؟. اسی طرح مجھے کسی ’’اُمت مُسلمہ‘‘ کے کشمیر یا فلسطین جیسے اعضائے ضعیف پر ڈھائی جارہی بربریت پر کسی’’مُسلم دُنیا‘‘ کے حکمرانوں پر نامردی اوربے غیرتی کے طعنوں پر بھی خوب ہنسی آتی ہے اور سوال پھر وہی اُبھرتا ہے دل میں کہ ’’کہاں وجود رکھتا ہے، آپ کا مخاطب اُمت مسلمہ یا مسلم دنیا نامی یہ نادر نمونہ‘‘؟؟ مجھے اس فلسفے کی سمجھ بھی سچ پوچھئے کبھی نہیں آئی، جس کے مطابق 1926 میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سے ’’اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک دنیا بھر میں بپا ہے‘‘، نیز یہ کہ ’’پاکستان نامی مملکت خداداد کا قیام اور اس کے بعد کسی غزوۂ ہند کے نتیجے میں خراسانی ریاست کا قیام قدرت کا اٹل فیصلہ ہے‘‘ اور افغانستان سے نیٹو ٹروپس کی واپسی کے ہنگام داعش کی نئی خلافت اسلامیہ اس منزل کی جانب ’’سفر مبارک‘‘ کے آخری مراحل کا حصہ ہیں۔ کیونکہ میرے ناچیز مطالعہ کے مطابق اقوام عالم کے عروج کے جو قواعدو ضوابط القرآن المجید سمیت کسی بھی الہامی کتاب کی رُو سے متعین کئے جاچکے ہیں یا تاریخ کی کسی بھی مستند تصنیف میں ملتے ہیں، موجودہ ’’اُمت مسلمہ‘‘کا اجتماعی طرزعمل، کسی بھی طرح اُن پر پورا نہیں اُترتا بلکہ بیسیوں مسلم ریاستیں بحیثیت مجموعی، سب ان صلاحیتوں سے کلیتاََ عاری دکھائی دیتی ہیں جو ان میں بسنے والے ’’مسلمان‘‘ نامی بکھرے ہوئے منقسم گروہوں کو ایک ’’قوم‘‘ کے قالب میں ڈھالنے کے’’ لوازمات‘‘ کا لازمی حصہ سمجھی جاتی ہیں۔ خواتین و حضرات! وعظ و تبلیغ میرا منصب نہیں اور نہ ہی مجھے پند و نصائح سے کوئی نسبت ہے لیکن ا قوام عالم کے عروج وزوال کے ایک ادنیٰ طالبعلم کی حیثیت سے اتنا میں ضرور جانتا ہوں کہ ’’آزادی‘‘ نامی نعمت کبھی کسی بھی ’’قوم‘‘ کو، خود کو ایک طاقت ور اور منظم وجود میں ڈھالے بغیر محض نعروں، مطالبوں اور قراردادوں کی شکل میں بپا کی گئی کسی قسم کی’’سیاسی جدوجہد‘‘کے نتیجے میں نہیں ملا کرتی، بلکہ ’’غاصب سامراج‘‘ کے پنجرے میں قید ’’آزادی‘‘ کی چڑیا منظم طاقت کے زور پر چھین لینے کے سوا کسی دوسرے طریقے سے ہاتھ نہیں آیا کرتی اور نہ ہی قوانین فطرت کے اسلوب پر استوار تاریخ عالم نے کسی کلمے، کسی عقیدے اور کسی نیک نیتی کے صلے میں کسی قوم کو کبھی لیلائے آزادی سے ہم آغوش ہوتے دیکھا ہے۔ علیٰ ہٰذالقیاس نعروں، ہاروں، جلسوں، جلوسوں اور قراردادوں اور جیل بھرو تحریکوں کے نتیجے میں جو کچھ ملا کرتا ہے، اسے برطانوی سامراج کی غلامی کو امریکی سامراج کے تسلط میں ڈھلنے کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا جیسا کہ تاریخ نے ثابت کربھی دیا۔
بالکل اسی طرح قارئین کرام! میری سوچی سمجھی رائے میں کسی بھی ’’اُمت‘‘ یا ’’قوم‘‘ کی تشکیل ’’اتحاد عمل‘‘ کے بغیر محض ایک جیسا کلمہ پڑھ لینے یا ایک جیسے نام رکھ لینے سے ممکن نہیں ہوا کرتی اوریہ ’’اتحاد عمل‘‘ کسی مشترکہ نصب العین کا ٹارگٹ سامنے رکھ کر کسی متفقہ مرکز کی کامل اور غیر مشروط اطاعت کے نتیجے میں ہی پیدا ہوا کرتا ہے ، ’’پاکستانی قوم‘‘ کیلئے جس کا ’’شارٹ کٹ نُسخہ‘‘ اجتماعی تربیت کے ’’نظام عمل‘‘کے ذریعے ڈسپلن پیدا کرنے والی ’سکاؤٹس‘ جیسی کسی رضاکارانہ تحریک کے آغاز کے سوا کم از کم مجھے تو سُجھائی نہیں دیتا۔
مکمل تحریر >>

27 فروری، 2015

۔۔۔۔۔ خیال خاطر "طالبان" چاہیئے

۔۔۔۔۔ خیال خاطر "طالبان" چاہیئے ہر دم
"شریف" ٹھیس نہ لگ جائے "بدمعاشوں" کو
ہم بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ دہشت گردوں کے حامیوں اور سہولت کاروں پر مشتمل "فورتھ شیڈول" ہو یا ان کے حق میں میڈیا میں مہم چلانے والا"ففتھ کالم"، ہماری تو پوری جماعت اسی نسل پر مشتمل ہے۔۔ جہاں تک جنرل صاحب فیم "نیشنل ایکشن پلان" اور"اپیکس کونسل" کے فیصلوں کے تحت مشکوک افراد کی نشاندہی کیلئے ہزاروں کی تعداد میں بائیومیٹرک مشینوں، گاڑیوں کے سکینرز اور فورتھ شیڈول کے پاوں کے ساتھ لگانے والی چپس کے علاوہ انسداد دہشت گردی فورس کیلئے قیمتی ہیلی کاپٹرز اور جدید آلات کا تعلق ہے، اس "پراجیکٹ" سے برخوردار حمزہ کو چونکہ زرکثیر کمیشن ملنے کے امکانات روشن ہیں، اسلئے ہم یہ ضرور درآمد کریں گے اور وہ بھی بہت جلد۔۔"خادم پنجاب" خاکی پوش"چیف ایگزیکٹو" کی طرف سے وفاقی وزیر خارجہ کا عہدہ بزور چھین لئے جانے کا غم غلط کرنے کیلئے بُلائے "خصوصی دہشتگردی اجلاس" کی صدارت فرمارہے تھے۔۔
آپ نے اس موقع پر طالبان بھائیوں کے خدشات دور کرتے ہوئے کہا کہ "آپ بالکل بے فکر رہیں، کروڑوں روپے کی لاگت والے یہ مہنگے آلات کسی کے خلاف استعمال کیلئے نہیں منگوائے جارہے، بالکل ویسے جیسے ہم نے نیکٹا کیلئے درآمد شدہ اربوں روپے کی مشینری زنگ لگنے کیلئے کھلے آسمان تلے رکھ چھوڑی ہے"۔۔ اگر ہم اپنے اعلانات پر عمل بارے ذرا بھی سنجیدہ ہوتے تو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا ملعون قاتل کب کا پھانسی چڑھ چکا ہوتا۔۔ جبکہ لال مسجد والا مولوی برقعہ پوش عدالتی حکم کے باوجود آزاد دکھائی نہ دیتا اور نہ ہی دہشت گردوں کے سب سے بڑے سرپرست ملا سمیع الحق اور حافظ سعید یوں دندناتے پھرتے۔۔ ہم نے آپ کی تالیف قلب کی خاطر حال ہی میں تو مولوی لدھیانوی کو اپنے نیوز چینل "جیو" پر سرعام دل کے پھپھولے کھولنے کا پورا موقع فرام کیا ہے۔۔
مکمل تحریر >>

"ویلنٹائن"-مردار تہذیب کی دستک

وہ دن گئے جب ہم مغرب سے کہتے تھے تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی۔ وہ ہمیں ساتھ لیے بغیر مرنے کا ارادہ نہیں رکھتے… اورہم ان کے بغیر جینے کے روادار نہیں!
یہ موت کب سے ہمارے دروازوں پر دستک دے رہی ہے۔ 
’کلچرل گلوبلائزیشن‘ کی حالیہ رفتار سے اگر آپ واقف ہیں، تو ہرگز بعید مت جانئے کہ ہم جنس پرست بن مانس اور بجو کل آپ کی اِن گلیوں میں پھٹی ہوئی جینوں کے ساتھ جلوس نکالتے پھریں… 
اور بدفعلی پہ ناک چڑھانے پر آپ کو اور آپ کے آباؤ اجداد کو بدتہذیبی کے طعنے دیں… بلکہ ’تہذیب‘ کا یہ آخری گھونٹ بھی زبردستی آپ کے حلق سے اتارنے کی کوشش کریں!
باؤلا جس کو کاٹ لے، باؤلا کر دے۔ ایک نہایت کالی، باؤلی آندھی اب ہر ملک کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہے۔ لبرلسٹ، سیکولر، جدت پسند سب اپنا اپنا کام کریں گے اور تاریخ کے اِس فسادِ عظیم کا راستہ صاف کرکے رخصت ہوں گے۔ پیچھے، پیکیج ایک ہے؛ اور ہر کسی کو یہ پورے کا پورا لینا ہو گا؛ اِس پیکیج کے حصے کرنا ممکن نہیں!!!
’سرخ سویرا‘ بیت چکا، اب وہ سب بھاڑے کے لکھاری، ادیب، دانشور، اینکر، گویے، بھانڈ، ڈھولچی اِس ’کالے سویرے‘ کے بگل بردار ہیں۔
حضرات! اِس کالی آندھی کے مقابلے پر نہیں اٹھیں گے، تو بِجو اور سوؤر آپ کے مال روڈ، لبرٹی اور آپ کے سوک سینٹرز کے آس پاس نکلا ہی چاہتے ہیں۔
اِس جدید بدبودار مخلوق کی ’ذات‘ کیا ہے؟ سید قطب کے الفاظ میں….:" دن کے وقت مشین، رات کے وقت حیوان۔ اور حیوان بھی ایسا ویسا نہیں!"این جی اوز نے حرام کے بچوں کیلیے پہلے ہی ’کریڈل‘ نصب کر لیے ہیں!
ایک سماجی جنگ کا گھمسان؛ جبکہ ہمارے ’صالحین‘ اپنی نیکی کے نشے میں مست۔ آپکی شریف زادیوں کے سر کی چادر تو کب کی فسانہ ہوئی، اور خدابخشے وہ اپنے ساتھ نہ جانے اور کیا کچھ لیگئی… بس یہ دیکھئے اتنا سا لباس بھی آپکی اِس آبرو کے تن پر کب تک سلامت ہے۔
’تعلیم‘ کا عفریت اور ’ابلاغ‘ کا بھیڑیا کس فنکاری اور مشاقی کے ساتھ ہم نمازیوں، روزہ داروں، حاجیوں، عبادت گزاروں اور علماء وفضلاء ومبلغین کے زیرِتماشا ہماری بچی کا لبادہ نوچتا چلا جارہا ہے۔ کیا ہوا، ہماری بیٹی سربازار ’’لباس‘‘ اور ’’روایات‘‘ کے بوجھ سے ہلکی ہی تو کی جارہی ہے…! ہرسال اس فیبرک کے کچھ ہی تَند نکالے جاتے ہیں! ہوتے ہوتے بہت اترا پھربھی ’مغرب جتنا‘ نہیں! آپ خوامخواہ پریشان ہوتے ہیں؛ وہاں تو آپ کو پتہ ہے…!
خاطر جمع رکھئے؛ سب اُدھر ہی کو جارہے ہیں۔ ایک دم برہنہ تو نہیں ہوئی ہماری لختِ جگر۔۔پورا سو سال لگا ’اتنی سی‘ برہنہ ہونے میں۔۔زبردستی تو نہیں ہوئی! جتنا ہمیں ہضم ہوا اتنا ہوئی!
ہاں اب ہمارا ’ہاضمہ‘ تیز کرنے کی وہ زوداثر خوراکیں جو ’انفرمیشن ریوولیوشن‘ کی پڑیوں میں ڈال کر ہمیں بیچی جارہی ہیں اپنا جادو دکھانے لگیں … نہ جانے فری میسن اِس بار اتنی مطمئن کیوں ہے!
اپنی شریف زادیوں کی ایک برہنگی ہی کیا، اب تو ویلنٹائن، کنڈوم کلچر، شوقیہ قحبہ گری، ’سیکس ایجوکیشن‘، لِزبینز اینڈ گیز، کنواری ماؤں کو ’قبول‘ کروانے کی انسانی ہمدردی کی تحریکیں اور نہ جانے کیا کیا ہمیں ’’ہضم‘‘ ہوجانے والا ہے۔
فکر مت کیجئے؛ پیکیج ایک ہے۔ بس یہ تھوڑے دنوں کی بات ہے صاحب! یہ سب متلی جو ’کنواری ماؤں‘ کا لفظ سن کر فوراً آپ کے حلق کو آپہنچتی ہے، ’پُڑی‘ کے اثر سے زائل ہوجانے والی ہے! آپ کوئی پہلے ’مریض‘ تھوڑی ہیں، اس سے پہلے بڑی بڑی قوموں کا کامیاب علاج کیا جاچکا ہے؛ معالج کی مہارت پر شک کرنے والا کوئی احمق جاہل ہی ہوسکتا ہے اور اس پر پردہ ڈالنے والا زندیق منافق… بلکہ ابلیس۔
حضرات خاموشی کب تک؟
اٹھیے۔ بولیے۔چیخیے… چودہ فروری آپکی تہذیب کا لٹمس ٹیسٹ ہے۔
رونا اس بدکار میڈیا کا نہیں… رونا اس بات کا ہے کہ آج ہماری مسجدوں، منبروں اور محرابوں کو سانپ سونگھ گیا ہے!

بشکریہ: ایقاظ تحریر حامد کمال الدین

مکمل تحریر >>

"لبرل"اور"دیسی لبرل"

مشرقی اور خاص کر مسلم دنیا کے تناظر میں لبرلزم کی دو اقسام ہیں: 
ایک 'باہر کا بنا ہوا، اصلی'۔ دوسرا،'یہاں کا بنا ہوا، دو نمبر'، جس کو ہمارے یہاں 'اصلی' کے نام پر بیچا جارہا ہے!
اول الذکر کے مالکان خود اپنا تیارکردہ مال بیچ رہے ہیں، لہٰذا اُن کے ساتھ بات ہوسکتی ہے۔ اُن کے مال میں کیا کیا نقص ہے، اُن کو نشاندہی کرکے دی جاسکتی ہے۔ یہ نقائص بے حد زیادہ ہیں، مگر آپ اُن کے ساتھ گفت و شنید کرسکتے ہیں۔ وہ سننے کے لیے تیار بھی ہوجاتے ہیں۔ کسی کسی وقت وہ آپ کی بات تسلیم بھی کرلیتے ہیں، یہاں تک کہ اپنی چیز کا عیب دور کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں، جیساکہ وہ عرصۂ دراز سے اپنی اِن اشیاء کو بہتر سے بہتر بنانے میں لگے ہیں؛ لہٰذا تنقید کو خاصی وقعت دیتے ہیں۔
مگر 'دو نمبر' مال بیچنے والوں کے ساتھ آپ یہ معاملہ نہیں کرسکتے؛ کیونکہ 'اصل' جس کی نقل ہورہی ہے اِن کی اپنی تیارکردہ نہیں۔ اِن کی مہارت 'کاپی' کرنا ہے؛ اور یہی اِن کی کامیابی کا پیمانہ۔ اِس میں کوئی'تبدیلی' یا 'بہتری' لانی ہے تو وہ"اصل" والے نے لے کر آنی ہے۔ اِس پر کسی 'نظرثانی' کی ضرورت ہے تو وہ "اصل" والے کا اختیار ہے اور اُسی کو اِس كا كوئی عيب يا نقص جاننے سے بھی کوئی دلچسپی ہوسکتی ہے؛ اِن کی تو چیز ہی تب بکے گی جب وہ زیادہ سے زیادہ "اصلی" معلوم ہو!
چنانچہ دیسی نقالوں کے ساتھ آپ لبرل ازم پر گفتگو نہیں کرسکتے؛ ایک لمحے میں مسئلہ خراب ہوجائے گا۔ ان دانش وروں میں وہ اسپرٹ یکسر مفقود ہے جو مغرب کے فلاسفہ کے ہاں پائی جاتی ہے۔
لبرل ازم کے اصل 'مالکان' اپنے نظریے میں سقم تسلیم کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے، ہمارے نقال اسے ہر عیب سے ماوراء بتائیں گے، ناقابل تنقید، 'مقدس گائے'! 
آپ ایک ایسے شخص سے کیا مکالمہ کرلیں گے جس کی حدِتخیل یہ ہے کہ وہ یورپی مخلوق نظر آئے اور اس کی ہر چیز یورپ سے آئے!
یہ تو وہ عبقری ہیں جو آپ کو یورپی باشندے کے شکم میں پلنے والے کیڑوں تک کے فوائد انگلیوں پر گنوا دیں! 
زیادہ عرصہ نہیں ہوا ترکی کے انقلابی 'کمال اتاترک' اور مصر کے عبقری 'طہ حسین' کہا کرتے تھے کہ ہمیں اہل مغرب سے میٹھا کڑوا سب ہی لینا ہو گا۔ ڈاکٹر زکی نجیب محمود راہ حق پر آنے سے پہلے کہا کرتے تھے: 
"اپنے یہاں فکر کی بالیدگی ناممکن ہے جب تک ہم اپنیفکری ورثے سے جان نہیں چھڑا لیتے، اپنے معاصرین جیسا علمی وتہذیبی طرزِحیات اختیار نہیں کرلیتے، انسان اور کائنات کو اُسی نظر سے دیکھنے نہیں لگتے، بلکہ میں تو کہوں گا کہ ہم کھائیں تو اُن کی طرح، کام میں جتیں تو اُن کی طرح، کھیل شغل ہو تو ان کی طرح، لکھیں تو اُن کی طرح بائیں سے دائیں"!
بتائیے کیا ایسے مقلدِجامد کے ساتھ تبادلہ خیال کی کوئی صورت ہو سکتی ہے؟ ایسا شخص جس کی ہر رائے وہی ہونی ہو جو پیشواؤں کی ہے!
اِس خطے کی قسمت میں شاید اصلی چیز ہے ہی نہیں۔ جو چیز دیکھو، دو نمبر!
(جس قوم کے پاس سب سے اصل چیز ہو 150 یعنی کتابِ ہدایت 150 اور وہ اس سے لاتعلق ہو، اس پر تعجب بھی کیسا!)
عالم اسلام میں پائے جانے والے مغربی افکار کے "مقلدین" جو آج کل 'لبرل' کہلاتے ہیں مغربی افکار میں سے صرف باطل نظریات ہی درآمد کرنے پر سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ خود مغرب نے ایسے باطل نظریات اس گمان پر اختیار کیے تھے جو ان کے خیال میں مغرب میں پائے جانے والے خلفشار کا حل ثابت ہوں گے۔ عالم اسلام کے اپنے حالات ہیں مغرب سے سراسر مختلف ہیں۔یہاں وہ مغرب والے حالات بھی نہیں ہیں یہاں کا ماحول بھی ان افکار کے لیے قطعاً ساز گار نہیں ہے۔ یہاں بھی انہی افکار اور نظریات کی پیوند؟!
مقلدینِ مغرب کو لاحق آفت یہ ہے کہ یہ مغرب کے بعض افکار اور سسٹمز اپنے یہاں کچھ ایسے مسائل کو حل کرنے کے لیے درآمد کررہے ہیں جن کا اپنے یہاں وجود ہی کہیں نہیں ہے!
اس کی ایک مثال: سیاست سے مذہب کو بے دخل کرنے کا فلسفہ جو سیکولرزم کہلاتا ہے، مغرب کو اس نظریے کی اس لیے ضرورت پڑی تھی کہ مغرب میں پائی جانے والی تھیو کریسی(مذہبی شخصیات کی اجارہ داری) جنگ و جدال کا سبب بن رہی تھی، پادریوں کی بلاوجہ کی پابندیوں، کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کی لڑائیوں سے زندگی اجیرن تھی۔ جبکہ مسلمانوں کے ہاں ایسا کچھ نہیں، یہاں پہلے تو اسلامسٹوں کو اقتدار ملا ہی نہیں، اگر مل بھی جائے تو ایسی اسلام کی نا تعلیمات ایسی ہیں اور نا انکی تاریخ سے ایسی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔مثال کے طور پر اہل سنت نے جس زمانے میں معتزلہ ایک اہم فرقہ تھا کبھی انہیں اپنے اعتقادات تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔ علمی مباحث ضرور ہوتے تھے جو کہ ایک مثبت رویہ کی غمازی کرتے ہیں۔ اہل سنت سے اصولی اختلاف کرنے والے فرقوں کو تبدیلی مذہب پر مجبور کرنا تو دور کی بات ہے اہل سنت نے تو کبھی یہود و نصاریٰ کو اپنی قلمرو میں تبدیلی دین پر مجبور نہیں کیا۔مسلمانوں کے خطوں میں دوسرے ادیان کے پیروکار اپنے خاص مذہبی تہواراور عبادت کے رسم و رواج ادا کرنے میں آزاد تھے۔ ایسی فراخ دلی تو آپ کو لبرل ازم میں بھی کہیں نظر نہ آئے گی۔
باطل نظریات کو رواج دینے میں ہم نے اپنے دیسی لبرلز کو نہایت سرگرم عمل پایا ہے لیکن مغرب میں چند اعلیٰ اقدار بھی پائی گئی ہیں اُن پر ہم نے کبھی ان لبرلز کو سرگرم ہوتے نہیں دیکھا! چلیں اُن اشیاء میں بھی تو یہ کبھی اعلیٰ نمونہ بن کر دکھاتے!

تحریر: جعفر شيخ إدريس، ترجمہ: محمد زکریا خان

بشکریہ: مذہب، فلسفہ اور سائنس

مکمل تحریر >>

جہاد کا قائم مقام- پاکستان بھارت کرکٹ میچ۔۔!

کرکٹ کا میدان..... 
پاکستان بھارت کا میچ..... 
فضا نعرہ تکبیر سے گونج رہی ہے۔ ڈھول بج رہے ہیں۔ جوش و خروش دیدنی ہے۔ 
تماشائیوں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
یوں تو پتہ نہیں چل رہا تھاکہ یہ خواتین انڈین ہیں یا پاکستانی..... 
میچ اپنے عروج پر پہنچا تو ننگے شانوں کے علی الرغم دوپٹے نزاکت سے سر پر آگئے۔
ہونٹ تیزی سے دعائیہ انداز میں حرکت کرنے لگے..... 
اللہ پاکستان کو جتا دے! یہ چھکا... وہ چوکا... یہ فاسٹ بال... یہ گگلی... وہ باؤنسر... 
بیٹ صورتِ تلوار دشمن کی گیند سے نبردآزما ہے۔ 
سورۃ توبہ، الانفال کی تلاوت تو نہیں۔ ہاں ڈھول، باجے، نفیریاں، بھنگڑے خون گرما رہے ہیں۔
نفل مانے جا رہے ہیں۔ منت، نذر، نیاز سب فتح کو پکار رہے ہیں۔
اللہ ہمیں کافروں پر سرخرو کردے۔ غلبہ دے دے۔
رمضان کا مہینہ ہے روزہ رکھ کر یہ جہاد ممکن نہیں۔ اس لیے کھلاڑی روزہ تو نہیں رکھ سکتے۔ 
ہاں نماز کا وقت بھی نکل رہا ہے.....
لیکن اس وقت حالتِ جہاد میں ہیں بعد میں جس کسی نے بھی ضرورت محسوس کی قضا نماز پڑھ لے گا۔ 
یہاں چاروں طرف سے پڑتی گیندوں میں صلوٰۃ الخوف کا وقت بھی نہیں۔ آپا .....
درس کے بعد دعا کروا دیجیے گا..... انڈیا پاکستان کا میچ ہے۔ اللہ پاکستان کو سر بلند کرے۔
لو بھئی ساری قوم کی دعائیں رنگ لائیں ..... 
ایک رن درکار تھا.... اور چھکا مار دیا..... نعرئہ تکبیر..... اللہ اکبر..... نعرئہ حیدری..... یا علیؓ (صدقے اس شجاعت کے!)
پاکستان زندہ باد.....
کھلاڑی شکرانے میں وہیں میدان میں سجدے میں جا پڑے۔ 
زمین سے جو صدا آرہی تھی وہ سنائی نہیں دے رہی تھی (جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی.....!) 
کیونکہ تماشائیوں کا شور ہی بہت تھا۔ وکٹیں اُکھاڑیں.... فتح یاب بَلّا اُٹھا کر لہرایا ..... 
اور یوں کھیل تمام ہوا..... درشنی بِلّے گیند کے جہاد سے سرخرو ہو کر جہادِ اکبر کو چل دیے!

تحریر: عامرہ احسان

بشکریہ: مذہب، فلسفہ اور سائنس

مکمل تحریر >>

روحِ محمد ﷺ اِس کے بدن سے نکال دو

چچ نامے میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم کے آنے سے پہلے ہندوستان کا جو حکمران تھا، اس کو کسی نجومی نے مشورہ دیا کہ تم فلاں لغواور غیر اخلاقی حرکت کرو تو بادشاہت پر قائم رہو گے پرانی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ جو شخص فلاں غیر اخلاقی حرکت کرے گا وہ بادشاہت حاصل کرے گا۔ 
بادشاہ نے کہا کہ یہ تو بڑا مشکل کام ہے۔ میں اگر ایسی حرکت کروں گا تو لوگ کیا کہیں گے۔ نجومی یا وزیر نے کہا کہ لوگ کچھ نہیں کہیں گے۔ لیکن بادشاہ کو تامل تھا . مشورہ دینے والے وزیر نے ایک بھیڑ منگوائی جس کے بال بہت بڑے بڑے تھے۔ اس کے بالوں میں ایک خاص مصالحہ لگایا جس سے بال بہت لمبے ہو گئے اور اس کی کمر ہاتھی کے سائز کی ہو گئی۔ بادشاہ سے کہا کہ اس بھیڑ کو شہر میں لوگوں کو دکھانے کے لیے نکالیں۔ چنانچہ اس عجیب و غریب بھیڑ کو دیکھنے کے لیے پورا شہر امڈ آیا۔ سارے شہر میں ایک ہنگامہ بپا ہو گیا۔ پورے شہر میں چرچا ہو گیا کہ ایک عجیب طرح کی بھیڑ آئی ہے جو ہاتھی کے سائز کی ہے۔ تمام دن سب لوگ اسی موضوع پر بات کرتے رہے۔ شہر میں اور کوئی کام نہیں ہوا۔ بازار بند ہو گئے۔
دوسرے دن پھر بھیڑکو شہر کی گلیوں میں پھرانے کے لیے نکالا تو آدھے لوگ آئے۔ تیسرے دن کوئی نہیں آیا۔ جس وزیر نے یہ مشورہ دیا تھا اس کا نام بدھیمن تھا۔ بدھیمن نے کہا کہ آپ کے ساتھ بھی یہی ہو گا۔ پہلے دن لوگ بہت تذکرہ کریں گے۔ دوسرے دن تھوڑا سا ذکر کریں گے۔ تیسرے دن کچھ نہیں کہیں گے۔ 
شاید اہلِ مغرب نے بدھیمن نجومی کا مشورہ پڑھا ہوا ہے۔ وہ وقتاً فوقتاً اس طرح کی بھیڑیں نکالتے رہتے ہیں۔ توہینِ رسالت کے جو واقعات وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے ہیں یہ کوئی اتفاقی واقعات نہیں۔ یہ واقعات بڑے غور و خوض اور سوچ سمجھ کر کیے جاتے ہیں۔ جو قومیں دنیا پر حکومت کر رہی ہیں۔ جو دنیا کی رگ رگ سے واقف ہیں۔ جو مسلمانوں کے اندونی احساسات کا پتہ چلانے کے لیے ادارے بناتے ہیں۔ اس کام پر کروڑوں روپیہ خرچ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے آئندہ عزائم کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں۔ ان کو یہ ضرور معلوم ہو گاکہ ذاتِ رسالتِ مآب کے بارے میں مسلمانوں کا رویہ کیا ہے۔ اس طرح کے واقعات جب ایک ایک کرکے پیش آتے جائیں گے تو جو مسلمانوں کے اندر کے جذبات ہیں وہ نکلتے جائیں گے۔ایک مرحلہ خدانخواستہ ایسا آسکتا ہے اور ان کا اندازہ یہی ہے کہ ایسا مرحلہ آنے والا ہے کہ توہینِ رسالت کا ارتکاب ہو اور مسلمان کسی ردعمل کا اظہار نہ کریں۔ جب وہ مرحلہ خدانخواستہ آجائے تو پھر وہ اگلے مرحلے کا آغاز کریں گے جس میں اس وابستگی کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے جو اقدامات انہوں نے سوچ رکھے ہیں وہ کریں گے۔
اس سب کے ساتھ ساتھ گزشتہ دو سو برس سے یہ کام بھی ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کی توجہات کو ایسے غیر عملی مسائل میں اُلجھا دیا جائے جو مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم بھی کرتے رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی قوتِ عمل کو بھی ختم کرتے رہیں۔ 
میں نے عرض کیا تھا کہ سیرت کے بارے میں بعض ایسے سوالات جو مسلمانوں میں کبھی نہیں اُٹھے تھے۔ انیسویں صدی میں اٹھے۔ آخر انیسویں صدی میں کیا نئی بات ہوئی تھی۔ انیسویں صدی ہی میں وہ مسائل کیوں اٹھائے گئے۔ ؟؟
وجہ صرف ایک ہی سمجھ میں آتی ہے۔ یہ مسائل مسلمانوں میں اس لیے اٹھ سکے کہ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی حاکم ہو گئی تھی۔ اس لیے اُٹھے کہ ہندوؤں میں سے بہت سے طبقات کو انگریزیوں نے کھڑا کرکے اس کام پر مامور کر دیا تھا کہ مسلمانوں کے عقائد پر حملے کریں۔ یہ آریہ سماجی اور برہمو سماجی از خود تو کھڑے نہیں ہوئے تھے۔ یہ کسی خاص ہدف کی خاطر کھڑے کردیے گئے تھے۔ یہ مسلمانوں پر حملے کرنے پر انیسویں ہی میں کیوں آمادہ ہوئے۔ اس لیے کہ کسی نے ان کو آمادہ کیا تھا ورنہ یہ حملے بہت پہلے بھی ہوسکتے تھے ۔ مسلمانوں پر دورِ زوال کئی بار آیا۔ برصغیر میں کئی بار مسلمان سیاسی طور پر کمزور ہوئے اور کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ مسلمانوں کی حکومت یہاں ختم ہوتے ہوتے رہ گئی ۔ لیکن کبھی اس طرح کی تحریکات اور اعتراضات نہیں اُٹھائے گئے جو انگریزوں کے آنے کے بعد اٹھائے گئے ۔ اس لیے قوی امکان یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب واقعات اور مظاہر ایک منصوبے کا حصّہ تھے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی وابستگی کمزور کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ 
(از محاضراتِ سیرت۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی، ص 723-725 )

بشکریہ:  ایقاظ

مکمل تحریر >>

26 فروری، 2015

کون سی شریعت--الزامی جواب

ذرا اپنی شریعت کی بابت بھی بتاؤ، یہ کہاں سے ثابت ہوتی ہے؟ تم جو روز ’جمہوریت‘ کی گردان لے کر بیٹھ جاتے ہو، کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کونسی جمہوریت؟ امریکہ کی جمہوریت؟ برطانیہ کی جمہوریت؟ فرانس کی جمہوریت (جو پیچاری مسلم خاتون کے سکارف کا بوجھ نہ سہار سکی)؟ حسنی مبارک کی جمہوریت؟ پرویز مشرف کی جمہوریت؟ چائنا کی جمہوریت؟ 
جیسا کیسا جمہوریت کا دعویٰ تو یہ بھی سارے ہی کرتے ہیں! یہاں تو کبھی تمہیں کسی کو الجھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ بھئی کونسی جمہوریت؟
ذرا دہرے معیار دیکھتے جائیے۔ نمیری اور ضیائالحق کے اعمال کی ذمہ داری ’شریعت‘ کو اٹھوا دی جائیگی اور انکے اعمال کو جھٹ سے ’شریعت‘ کے خلاف دلیل بنا دیا جائیگا۔ یہاں تک کہ شریعت کے ہر طلبگار کو چڑا کر پوچھا جائے گا کہ ارے صاحب کونسی شریعت، ضیائالحق والی یا نمیری والی؟ البتہ حسنی مبارک اور پرویز مشرف کے اعمال کی ذمہ داری ’جمہوریت بی‘ کو نہیں اٹھوائی جائے گی۔ ظاہر ہے جمہوریت کا ڈھونگ حسنی مبارک نے بھی رچا کر رکھا ہے اور ہر بار ’ننانوے فیصد‘ کی اکثریت سے الیکشن جیت کر دکھایا ہے۔ اب الیکشن ’جمہوریت‘ ہی کے اندر تو ہوتے ہیں!
اِسی جمہوریت کا ڈھونگ پرویز مشرف نے بھی رچایا۔ الیکشن کروائے۔ اور پارلیمنٹ بٹھائی۔ لیکن ’جمہوریت‘ کیونکہ حق ہے اور ’آسمان سے اتری ہے‘، لہٰذا کسی کی بد اعمالیوں کی ذمہ داری اِس پر نہیں ڈالی جا سکتی؛ یہ منزہ مبراء ہی رہے گی۔ نہ صرف یہ کہ کسی کی بد اعمالیوں کی ذمہ داری ’جمہوریت‘ پر نہیں ڈالنے دی جائے گی بلکہ اُس ظالم شخص کو جمہوریت کا باقاعدہ مجرم گردانا جائے گا اور الٹا یہ رونے روئے جائیں گے کہ ’جمہوریت‘ کے ساتھ ظلم ہوا ہے!
سچ ہے....، جس بات پر آدمی کا ایمان ہو، اُسکے ساتھ وہ اِسی اخلاص کے ساتھ پیش آتا ہے۔ جمہوریت پر تمہارا ایمان تھا، دیکھ لو، لوگوں کے سب برے کرتوتوں کے باوجود یہ کس طرح صاف کی صاف اور پاک کی پاک رہی! بلکہ اور بھی مقدس ہو گئی!!! اور اس کی حرمت کیلئے دہائی مچانا اور بھی ضروری ہو گیا! شریعتِ خداوندی تمہارے ایمان کا حصہ ہوتی، تو کسی کی بدعملی کی ایک بھی چھینٹ تم شریعت پر نہ پڑنے دیتے اور اسکی پاکی بیان کرنے میں تم کم از کم اتنا ہی زور صرف کرتے جتنا کہ جمہوریت کی پاکی بیان کرنے میں صرف کرتے ہو، بلکہ اُس سے زیادہ:

وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا ....!

جبکہ ایمان والے اللہ کی محبت میں اس سے کہیں بڑھ کر ہوتے ہیں
یہاں تک کہ سیکولرزم ہی کی بابت، واقفانِ حال جانتے ہیں کہ خود اِسکے بہت سارے ورژن ہیں۔ کسی ملک میں ’مذہب‘ کو سوسائٹی میں زیادہ رسوخ رکھنے دیا جاتا ہے اور کہیں پر کم۔ یہاں تک کہ برطانیہ میں معاملہ اور ہے اور فرانس میں اور۔
مارکسسٹوں نے اِس برادری۔ آزادی۔ مساوات کا اقتصادی معیار سامنے لانا چاہا؛ یہ معاشی حوالے سے دنیا کو ایک نرالا ماڈل دینے چل پڑے۔ لبرلسٹوں نے اس کا سیاسی معیار سامنے لانا چاہا اور یہ سیاسی آزادی کو باقی دونوں چیزوں پر فوقیت دینے چلے گئے۔ جبکہ چینیوں نے اِن ہردو کو غلط گردانا اور ایک ’جمہوریۂ نو‘ کا تصور پیش کیا، جیسا کہ ایشیائی وافریقی انقلابیوں نے اول الذکر ہر دو کے طریقے کو ٹھکراتے ہوئے ’اشتراکی جمہوریت‘ کی داغ بیل ڈالی۔ اِن سب گروپوں میں وہ رسہ کشی اور وہ کھینچا تانی رہی ہے __ افکار کی دنیا میں بھی اور عمل کی دنیا میں بھی، بلکہ عالمی سیاست کی بساط پر بھی __ کہ پوری انسانیت اس کے شکنجے میں کراہتی رہی ہے۔
اِن لوگوں کے پاس تو کوئی ایک معیار، اور انسانیت کو اکٹھا کرنے کیلئے کوئی واضح بنیاد ہے ہی نہیں۔ جس کا زور چلے وہ اپنا ایک نظریہ گھڑ لیتا ہے؛ چند عشروں کے بعد وہ نظریہ پٹخا جاتا ہے اور کسی نئے تجربے کا ڈول ڈالا جا رہا ہوتا ہے۔ کوئی بتائے، اِن کی قلابازیوں کا یہ عمل آج تک رکا کب ہے؟
مارکسزم ہی کو لے لیجئے، جوکہ ایک نہیں بے شمار شکلیں رکھتا ہے۔ اِس کے باوجود مارکسسٹوں کو کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ جب تک تم مارکسزم کی ایک متعین تفسیر پر متفق نہیں ہو لیتے تب تک تمہیں بولنے کا کوئی حق نہیں۔ حالانکہ مارکسزم کی تحریکیں آپس میں اِس قدر متعارض رہی ہیں کہ ان میں بعد المشرقین پایا جاتا رہا ہے۔ فرانس کا ایک معروف مارکسسٹ رہ چکا مؤلف میکسم روڈنسن Maxime Rodinson لکھتا ہے:
حقیقت یہ ہے کہ مارکسزم کوئی ایک نہیں بلکہ درجنوں سینکڑوں صورتیں رکھتا ہے۔ کارل مارکس کے ارشادات متعدد ہیں۔ یہ کچھ ایسا مشکل نہیں کہ اُس کے چھوڑے ہوئے علمی ورثے کو بنیاد بنا کر مارکسزم کے نام پر کسی بھی نظریہ کو ثابت کر لیا جائے۔ سمجھو مارکس کی کتاب بھی مقدس بائبل ہی کی طرح ہے، جس کی نصوص میں سے شیطان بھی اپنی کسی گمراہی کا ثبوت پیش کرنے لگے تو کر سکتا ہے۔
 (بحوالہ کتاب الاسلام والعالمانیۃ وجہا لوجہ۔ د۔ یوسف القرضاوی-185)
یہی حال اشتراکیت اور انکی جمہوریت کا ہے۔۔ انہی سیکولرسٹوں کے بھی اپنے ہزاروں مذاہب ہیں،
اور بھانت بھانت کی بولیاں ہیں۔
سب جانتے ہیں کمیونسٹوں نے جمہوریت پرستوں کے کیسے کیسے پرخچے اڑائے ہیں، اور جمہوریت پرستوں نے کمیونسٹوں کے کیسے کیسے لتے لئے ہیں، جبکہ یہ دونوں گروہ (یعنی کمیونسٹ اور جمہوریت پرست) انسان پرستی کے ٹھیکیدار رہے ہیں۔ ان میں ہر ایک گویا خلق خدا کے درد میں صبح شام لوٹتا رہا ہے.... یہ سب سرگرداں ظالم آج شریعتِ محمدی کو یہ طعنہ دینے چلے ہیں کہ یہ کسی واضح چیز پر کھڑی ہوئی نہیں ہے! دوہرے پیمانے اِس کے سوا اور کیا ہوتے ہیں۔۔


مکمل تحریر >>

سیکولرز کا پیش کردہ اشکال: کون سی شریعت؟

شریعت شریعت تو سب کرتے ہیں۔ مگر اِن داعیانِ شریعت میں سے آج تک کوئی یہ نہیں بتا سکا کہ کونسی شریعت؟ کوئی ایک شریعت ہو تو بات کریں۔ یہاں خمینی کی شریعت ہے۔ نمیری کی شریعت ہے۔ ضیائالحق کی شریعت ہے۔ قذافی کی شریعت الگ ہے۔ سعودیہ میں وہابیوں کی اور ہی شریعت ہے۔ اب طالبان ایک اور ہی شریعت لانے جا رہے ہیں۔ آپ حضرات پہلے شریعت پر متفق ہو لیں کہ شریعت کے نام پر آپ لانا کیا چاہتے ہیں!
جواب:
رب العالمین کی شریعت پر اتنی آسانی سے دھول پھینک جانا اور اسکو کوئی ایسی مہمل چیز ثابت کر لینا ممکن نہیں۔ ہماری شریعت کا تعین کرنے کیلئے تو اللہ کا شکر ہے کتاب اللہ پوری کی پوری محفوظ کر رکھی گئی ہے اور پچھلی چودہ صدیوں سے امت اسکو سینے سے لگائے بیٹھی ہے کہ جب بھی کسی کو رب العالمین کی شریعت دریافت کرنا ہو وہ اس کتاب کو کھولے اور اپنے سوال کا جواب پا لے بشرطیکہ ایمان ہو اور اتباع کا ارادہ ہو۔ اس پر اللہ کے فضل سے کبھی بھی دھول پڑنے والی نہیں خواہ تم جتنا مرضی زور لگا لو۔ پھر ہماری شریعت کا تعین کرنے کیلئے ہمارے نبی کی سنت کا پورا ذخیرہ موجود ہے جس کیلئے امت کے محدثین نے چھان پھٹک کرنے میں عمریں کھپا دیں۔ پھر اس شریعت کے فہم و تفسیر کیلئے اور اس سے استدلال کے اصول وضع کرنے کیلئے اور اسکے اختلاف کو ضبط میں لانے کیلئے فقہائے امت نے اپنی زندگیاں صرف کر دیں۔ پس ہماری شریعت تو ایک نہایت معلوم چیز ہے اور جو بھی اخلاص کے ساتھ، نہ کہ کھلواڑ کرنے کیلئے، اِس شریعت کی طرف بڑھے گا وہ ہرگز اِس شریعت کی پہچان اور تعین کرنے میں کوئی الجھن نہ پائے گا۔
مسئلہ کاعلمی پہلو:
شریعت دو طرح کے احکام پر مشتمل ہے: 
اِس کا ایک حصہ محکم ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جس پر دلیل قاطع پائی جاتی ہے، نصِ صحیح کی صورت میں یا اجماعِ صریح کی صورت میں۔
اِس کا دوسرا حصہ متشابہ ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جس میں اجتہادات متفاوت ہو جاتے ہیں اور آرائمتعدد ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ اس کے دلائل قطعی نہیں، یا تو ثبوت کے لحاظ سے اور یا دلالت کے لحاظ سے۔
وہ اسلام جس کی ہم صدا لگاتے ہیں، اور جس کی آج ہر مسلمان راہ تک رہا ہے، وہ اسلام ہے جو ایک قطعی انداز میں کتاب اللہ سے ثابت ہوتا ہے، سنت رسول اللہ سے ثابت ہوتا ہے اور اس امت کے اولین دور کے اجماع سے ثابت ہوتا ہے۔ یہی چیز شریعت کا وہ محکم حصہ ہے، جس کے اندر مسلمانوں کے مابین جھگڑا ہی کوئی نہیں ہے۔ کوئی فقہی نزاع شریعت کے اِس حصہ میں نام کو نہیں ہے۔ سب ائمہ، سب فقہیں شریعت کے اِس بنیادی و مرکزی حصہ کی بابت آپ کو ایک ہی بات بتائیں گی۔ 
رہ گیا اِس کے ماسوا حصہ، جس میں ظنیات اور متشابہات آ جاتے ہیں، تو وہ اجتہاد اور تحقیق کا میدان ہیں۔۔ اِس میں بھی حرج نہیں کہ علاقوں علاقوں کے فرق سے شریعت کے اِس حصہ میں اجتہادات مختلف ہوں۔ ایک خطہ میں کسی ایک رائے یا اجتہاد کو اختیار کیا جائے تو کسی دوسرے خطہ میں کسی دوسری رائے یا اجتہاد کو۔ لوگوں سے حرج کو رفع کرنا شریعت کا اپنا ہی اقتضاۂے۔ اِس بات تک کی گنجائش ہے کہ جب بھی کوئی نئی صورتحال جنم لے لے اور حوادث نئے سامنے آئیں، پچھلے اجتہاد کے اندر ایک نظرثانی کر لی جائے، اور اُس متعین فریم کا پابند رہتے ہوئے نئے حالات کی رعایت سے اس میں کوئی تبدیلی یا پیشرفت ہو جائے۔
حیرت یہ ہے کہ شریعت نے لوگوں کیلئے یہ جو ایک وسعت اور ایک گنجائش اور ایک آسانی رکھی تھی، کچھ طبقوں کو یہ سوجھی کہ یہ اس بات کو الٹا شریعت ہی سے لوگوں کو متنفر کرنے کیلئے استعمال کریں اور اسکو بنیاد بنا کر شریعت کی ایک ایسی عجیب و غریب تصویر پیش کریں کہ دیکھیں جناب شریعت میں تو کتنا اختلاف ہے اور کس قدر تنوع اور تعدد ہے! حالانکہ یہ جتنا سا اختلاف اور جتنا سا تعددِ اقوال اور تنوعِ اجتہادات ہمارے معروف فقہی مذاہب (مانند حنفی، شافعی، مالکی حنبلی وغیرہ) کے مابین پایا جاتا ہے، یہ تو شریعت کی عظیم ترین خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے، اور شریعت کو امر کر دینے والے عظیم ترین عوامل میں سے ایک عامل ہے۔ یہی تو وہ چیز ہے جس کے دم سے شریعت قیامت تک آنے والے ہر قسم کے زمان و مکان کی احتیاج کو پورا کرتی ہے اور ہر قسم کے مصالح العباد پر پورا اترتی ہے۔ 
یہی تو وہ چیز ہے جو امت کیلئے یہ بات ممکن بناتی ہے کہ ہر زمانے میں یہ اجتہاداتِ فقہائمیں سے دلیل کی روشنی میں اور مصالح کے اقتضائکو سامنے رکھتے ہوئے مناسب ترین قول کو اختیار کرے اور اپنے علمائے ثقات کے ذریعے اپنی یہ ضرورت پوری کروائے۔ چنانچہ یہ چیز تو امت کیلئے رحمت اور گنجائش ہے۔ اگر یہ پوری کی پوری امت ایک ہی مذہب اور ایک ہی قول کی پابند ہوتی اور قیامت تک اسی کی اسیر رکھی جاتی تو کس قدر تنگی میں ہوتی۔ 
اس کی شہادت انصاف پسند غیر مسلم تک دے چکے ہیں۔ آج سے کچھ عرصہ پیشتر پیرس یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں عالمی تنظیم برائے تقابلی قانون کی دوسری کانفرنس کے انعقاد کے دوران (جوکہ ”ہفتہ فقہ اسلامی“ کے عنوان کے تحت ہوئی تھی).... کانفرنس کے شرکائنے جہاں کئی اور نقاط پر اتفاق کیا، وہاں اِس نقطے پر بھی اُنکا اتفاق دیکھا گیا کہ اسلام کے فقہی مذاہب کے مابین پایا جانے والا اختلاف ایک ایسے علمی ومعلوماتی وقانونی سرمائے پر مشتمل ہے جو عقل انسانی کو دنگ کر دیتا ہے۔ اسلامی فقہ اس سے کام لے کر سول لائف کے تمام مطالب و ضروریات پر پورا اترنے کی قدرت رکھتی ہے۔ شرکائنے یہ امید بھی ظاہر کی کہ ایک ایسی کمیٹی قائم کی جائے جو فقہ اسلامی کا کوئی انسائیکلوپیڈیا وجود میں لے کر آئے۔
 (دیکھئے کتاب مشاکلنا فی ضوئالاسلام مولفہ د۔ عبد المنعم النمر: ۷۳)
صلاح الصاوی۔استفاد: حامد کمال الدین

بشکریہ : مذہب، فلسفہ اور سائنس


مکمل تحریر >>

ابھی تو پارٹی شروع ہوئی

چوہدری نثار علی خان اس طرح دفاع کر رہے ہیں مولوی عبدالعزیز کا کہ "کیا ہی کہنے"۔
موصوف کا کہنا ہے کہ مولوی صاحب نے معافی مانگ لی ہے"وہ بھی تحریری"۔
مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ اس کو تحریری معافی سے قبل اتنا عرصہ گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟
دوسرا
یہ مولوی تو پہلے بھی معافیاں مانگ چکا ہے؟
پھر یہ کوئی ٹریفک سگنلز کا مسئلہ نہیں بلکہ "ریاست" کی اتھارٹی کا معاملہ ہے اور امید ہے کہ "ریاست " کی اتھارٹی کے"ذمہ داران " اس کا کوئی حل نکالیں گے
 یا پھر کسی سانحہ پشاور کا انتظار کیا جائے گا؟
باقی لدھیانوی اور جیو نے تو کوئی جرم ہی نہیں کیا۔ انہوں نے تو صرف شیعہ کو گالیاں بکی ہیں اگر دو تین سو شیعہ بیک وقت مر بھی جائیں تو یہی رویہ ہو گا کہ "ابھی تو پارٹی شروع ہوئی"۔
مکمل تحریر >>

25 فروری، 2015

آؤ جمہوریت، جمہوریت کھیلیں !

راقم الحروف نے گذشتہ دنوں ایک محفل میں ’’مملکت خداداد‘‘ کے موجودہ نظام کو ’’تجارتی جمہوریت‘‘ کا نام دیا توحاضرین کی اکثریت نے اس اصطلاح کی وضاحت طلب کی کہ جناب اس قسم کی ’’جمہوریت‘‘ کا نام ہم نے نہ پولیٹیکل سائنس کی کسی کتاب میں پڑھا اور نہ ہی کہیں سے سنا؟ میرا فوری اور مختصر جواب تو یہ تھا کہ بھائیو اور بہنو، عرض خدمت یہ ہے کہ بندہ ناچیز نے عمرعزیز کی نصف صدی جس دشت کی سیاحی میں برباد کردی، اُس کے’’سنگ ہائے میل‘‘ میں 1970 کے الیکشن سے لے کر 2013 تک کے تمام انتخابات کی یادیں شامل ہیں۔ بالخصوص 1977 کے بعد ہونے والے تمام انتخابی ڈراموں کی تو مجھے تفصیلات بھی ازبر ہوچکیں۔ انتخابی معرکہ آرائی کی ان یادوں کیلئے قارئین، ’’جمہوری تماشہ‘‘ سے بہتر سرنامہ کم از کم مجھے تو سجھائی نہیں دے رہا۔
ساتھیو! تاریخ کا ہر طالبعلم بہت اچھی طرح واقف ہے اس تلخ حقیقت سے کہ تقسیم ہندکے نتیجے میں قائم ہونے والی دو ریاستوں میں سے ایک نے تو مختصر ترین عرصہ میں اپنے لئے ایک باقاعدہ اور متفقہ آئین، جیسے تیسے وضع کرلیا لیکن اپنے اپنے’’ظرف‘‘ کی بات ہے کہ کامل نو برس کی خرابئی بسیارکے بعد اوردستور ساز اسمبلی کے الیکشن کے بغیرسہی، ہمارا جو آئینی پھول 1956 میں کھلا،وہ بھی کھل کے مُسکرانہ سکا اور صرف 2 برس کی عمر قلیل میں ہی نئی ریاست کے حقیقی وارثوں کو ’’پیارا‘‘ہو گیا، جنہوں نے پھر 6 برس مزید انتظار کرانے کے بعد 1962 میں خود جو غنچہ کھلایا، حسرت اس پہ کہ وہ بھی بن کھلے مرجھا گیا یعنی آئین نامی اس دستاویز کی قسمت میں ایک الیکشن بھی نہ آسکا۔
خیر دوستو! ’’قومی مفاد‘‘ کا یہ سفر جو 1958 میں بلکہ سچ پوچھئے تو اس سے کہیں پہلے شروع ہوگیا تھا، اسے 1970 میں پہلی دستور ساز اسمبلی کیلئے منعقد ہونے والے انتخابات نے ایک ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا، جہاں سے ایک راستہ آئینی و سیاسی استحکام کی طرف جاسکتا تھا۔ لیکن ہم نے چُنا تو بندگلی والا دوسراراستہ، جس نے بالآخر ’’سب سے بڑی مُسلم ریاست‘‘ کو دولخت کردیا۔ ریاست کے اصل وارثین کیلئے غیر متوقع، لہٰذا قطعی طور پر ناقابل قبول انتخابی نتائج تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کس نے دکھائی اورکون انہیں ایک ہزار میل کی دوری پر واقع ملک کے دونوں حصوں میں مختلف مینڈیٹ حاصل کرنے والی پارٹیوں کیلئے قابل قبول بنانے کیلئے، ’’غداری‘‘ کے الزام میں لائلپور (اب فیصل آباد) جیل میں بند مشرقی حصے کے اکثریت حاصل کرنے والے لیڈر کے ساتھ مذاکرات میں مصروف رہا اور کس نے اس دوران مشرقی بازو میں ملٹری آپریشن کا آغاز کرکے سلگتی آگ پر تیل چھڑکا، یہ سب حقائق اب تاریخ کا حصہ ہے، جسے تحقیق کا شوق ہے وہ گوگل پر عام دستیاب ’’حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ‘‘ خود پڑھ کر فیصلہ کرلے کیونکہ ہمارا آج کا موضوع اس سے خاصا مختلف ہے۔
ہاں، نوجوان دوستوں کیلئے مذکورہ رپورٹ کے صرف اس حصے کا مختصر حوالہ دینے میں کوئی ہرج نہیں جس میں کچھ’’ذمہ داروں‘‘ کا نام لے کر ان کیلئے ’’کورٹ مارشل‘‘ کی سزا تجویز ضرور کی گئی تھی جو بہرحال ایسے کسی سیاست دان کیلئے نہیں تھی، ’’قومی مفاد‘‘ والے اپنے تنخواہ دار میڈیا کے شاندار اور کامیاب استعمال سے سارا نزلہ جس پر ڈال کر ’’کورٹ مارشل‘‘ سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بچ گئے۔ یہ مان لینے میں، البتہ کوئی ہرج نہیں کہ تاریخ کی بدترین ’’فوجی شکست‘‘ کے ہاتھوں تباہ حال ملک، برباد معیشت، زبوں حال قوم اور مورال سے عاری فوج، سب کی تعمیر نو میں تن تنہا مصروف’’سیاست دان‘‘ نے شاید نئے ملک کو پرانے تنازعات میں اُلجھانا ضرر رساں سمجھ کر ’’کمیشن رپورٹ‘‘ میں نشان زدہ ’’ذمہ داروں‘‘ کیلئے واضح سفارش کے مطابق ’’کورٹ ماشل‘‘ کی کارروائی شروع نہ کرکے وہ ’’غلطی‘‘ ضرور کی، جس کی سزا،انہی ’’ذمہ داروں‘‘ کی سازش کے تحت ان کی ازلی داشتہ عدالت کی طرف سے اسے تختۂ دار پر چڑھا دینے کی شکل میں مل گئی، تاریخ البتہ اس کیس کو ہمیشہ ’’عدالتی قتل‘‘ کے نام سے ہی پکارتی رہے گی۔
صاحبو! ہم سنارہے تھے داستان، وطن عزیز کی پہلی اور اب تک آخری دستوساز اسمبلی کیلئے منعقدہ انتخابا ت 1970 کی، جس کے نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ اور اس کے بعد 1973 میں قوم و ملک کو پہلے متفقہ آئین کا تحفہ دینے والے وطن عزیز کے پہلے ’’منتخب‘‘ وزیر اعظم اور اور سقوط مشرقی پاکستان کے بعد فوج اور قوم دونوں کا مورال بحال کرکے ہمیں اقوام عالم کی صف میں دوبارہ کھڑا ہونے کے قابل بنانے والے ذوالفقار علی بھٹو کے الم ناک انجام کا تعلق ہے 1977 میں اسی آئین کے تحت ہونے والے پہلے عام انتخابات سے۔ اب یہ بھٹو کی حد سے بڑھتی خود اعتمادی تھی یاشہید کا فیوڈل پس منظر کہ واضح اکثریت سے یقینی جیت دیکھنے کے باوجود اسے مخالف اُمیدواروں کے اغوا اور پھر انتخابی عمل میں غیر ضروری بے اعتدالیوں جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔
یہاں بھول بھلکڑ ’’قوم‘‘ کویہ یاد دلاتے ہوئے کہ اگرچہ اپوزیشن کی طرف سے نشان زدہ 21 قومی حلقوں کے انتخابی نتائج کے تنازعہ پر پی این اے اور بھٹو کے درمیان مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوئے اور بغیر گولی چلائے ’’مجاہد اول کشمیر‘‘ کا خطاب ازخود حاصل کرلینے والے سردار عبدالقیوم کی جانب سے کھڑی گئی رکاوٹ کے باجود نواب زادہ نصر اللہ خان اور قومی اتحاد کے دیگر رہنماؤں نے 4 جولائی 1977 کی شام کو ایک پریس کانفرنس میں اس معاہدہ کا اعلان بھی کردیا تھا جو ڈیلی "پاکستان ٹائمز" کی 5جولائی کی اشاعت میں شائع بھی ہوا، لیکن اسی تاریخ کو ریڈیو پاکستان کی صبح 6 بجے کی خبروں میں مارشل لاء کے نفاذ اور بھٹو سمیت دیگر لیڈرز کی گرفتاری کی خبر بھی نشر ہوگئی کیونکہ دھاندلی کے خلاف تحریک پر ’’نفاذ نظام مصطفی‘‘ کا لیبل لگانے والوں کا اصل ایجنڈہ تو بھٹو کو ’’کیفر کردار‘‘ تک پہنچانا تھا اور انہوں نے ایسا کر دکھایا۔
قارئین گرامی، ’’جمہوریت،جمہوریت‘‘ کے کھیل کی دلچسپ کہانی صرف 1970 اور 1977 کے الیکشنزپر پہنچ کر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ’’قومی مفاد‘‘ کی یہ ’’تذویراتی گہرائی‘‘، بعد ازاں 1988 سے لے کر 2013 تک ہرالیکشن میں پہلے سے زیادہ گہری ہوتی چلی گئی، البتہ ہمارے کالم کی گنجائش یہاں ختم ہو جاتی ہے۔ آئندہ کالم میں آپ کا داستان گو، ضیائی نظام مصطفی کی ’’برکتوں‘‘ پر مختصر روشنی ڈالتے ہوئے اس کہانی کو انشاء اللہ آگے بڑھائے گا اور ’’جمہوریت‘‘ کے اس تاریخی سفر کی رننگ کمنٹری کا یہ قسط وار سلسلہ جلداز جلد 2013 کے ’’ریکارڈ ساز‘‘ انتخابات تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔!
مکمل تحریر >>

24 فروری، 2015

حب الوطنی مِن الایمان

اسلام ہو یا کوئی اور مذہب، ہر مذہب اور ہر جگہ پر وطن سے محبت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ نبی پاک ﷺ جب مکہ سے مدینہ ہجرت کی تھی تو مکہ کے پہاڑوں پر کھڑے ہو کر کہا 'اے میرے مکہ اگر تمہارے لوگ مجھے تنگ نہ کرتے تو میں تجھے کبھی چھوڑ کر نہ جاتا' ایک اور مقام پر فرمایا، مفہومِ حدیث”وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے“  کہ حب الوطنی کو سب سے قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دنیا کیمختلف ممالک میں بچوں کی فطرت میں مُحبِ وطنی کو اجاگر کیا جاتا ہے۔جس میں بہت سے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں، جیسے جاپان میں پرائمری کلاس تک کے بچوں کو کچی مٹی میں بیٹھ کر پڑھایا جاتا ہے۔تاکہ اُن کی نَس نَس میں وطن کی محبت جاگ جائے۔ اِسی طرح ترقی یافتہ قوموں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو ہمیں پتہ لگے گا کہ اُن کی کامیابی کا راز صرف و صرف وطن سے محبت ہے۔اور وطن سے محبت ایک خوبصورت اور قابلِ تحسین جذبہ ہے۔جو ہمیشہ ہر قوم میں سراہا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص قوم کی خاطر چھوٹا سا بھی اقدام کر جائے تو اُس کو سراہا جاتا ہے، مختلف قِسم کے حکومتی سطح پر انعامات اور خطاب دئیے جاتے ہیں تاکہ نوجوانوں کو تحریک ملے، ملک و قوم کی خاطر کام کرنے والوں میں اضافہ ہو۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس پر ہر قوم فخر کرتی ہے نہ کہ شرم محسوس کرتی ہے۔ لیکن کشمیر میں تو اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ یہاں پر تو وطن سے محبت کرنے والے پر فخر نہیں بلکہ شرم محسوس کی جاتی ہے۔ یہ دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ اپنے قومی ہیروز کو اٰیجنٹ اور ایجنٹس کوپل بھر میں قومی ہیروز بنا لیتیہیں۔یہ وطن فروشوں کو غازی اور مجاہد کا لقب دیتے ہیں اور وطن کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو ایجنٹ کا لقب دیتے ہیں۔ حال ہی میں سعید اسد کی دو کتابوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔اور ساتھ ہی ساتھ سِتم ظریفی ایسی کے انہیں مملکتِ کشمیر  کا حقیقی نقشہ پیش کرنے پر فردِ جرم عائد کر دیا گیا۔ کوئی اِس قوم کی ذہنی معیار کو دیکھے 67سال سے غلام چلے آ رہے ہیں۔ اِن کی حالت یہ ہے کہ اِن کو پاکستان کا ایک حوالدار کنٹرول کرتا ہے، اور پھر بھی ان کا نعرہ؟ آ ہا آزاد کشمیر کی اسمبلی پر لاھور چڑیا گھر کا منظر یاد آ گیا، چڑیا گھر میں ایک بڑے سے پنجرے میں پرندوں کو بند کیا گیا ہے اور پرندے اُونچا اُڑتے ہیں لیکن جال سے ٹکرا کر زمین کی طرف آ جاتے ہیں۔ اور وہ سوچتے ہیں کہ شاید وہ آسمان کی بلندیوں کو چھو کر واپس آ رہے ہیں، کچھ ایسا ہی منظر ہماری اسمبلی کے ساتھ بھی ہے۔اس کو بھی ایک سیکٹری کے ماتحت رکھا گیا ہے اور یہ اسمبلی ممبرز اُس سیکٹری کی ایک مسکراہٹ دیکھنے کو آزادی کی انتہا سمجھتے ہیں، خیر اِن بیچاروں سے کیا شکوہ یا غاصبِ کشمیر سے کیا شکایت؟ بس اتنا کہتا ہوں خدا کے لئے خود کو پہچانو، غاصبوں کی خوش آمد چھوڑ دو اور اگر وطن سے محبت کوئی گناہ یا جرم ہے تو میں سب سے بڑا مجرم ہوں۔اور اِس جرم کو بار بار دوہراتا رہوں گا۔
مکمل تحریر >>

پاکستان۔گلوبل ولیج میں کمرشل ری پبلک !

قارئین گرامی! ضیاء الحقی مارشل لاء کے 11سالہ دور پُر آشوب کے بعدکے 11برسوں جتنی ہی مدت میں ہمارے "جمہوری تماشہ" کی جو چار ایپی سوڈزآئیں اورگذر گئیں، اُن کے دوران جینئس بھٹو کی قابل فخر صاحب زادی اوراُن کے مقابلے کیلئے بڑی محنت سے تراش خراش کر " قومی لیڈر" بنائے گئے کشمیری پنجابی سپوت دونوں کو دو ، دوباریاں دے کر بھگتادیا گیا۔اس کے بعد"تذویراتی گہرائی"افغانستان کے حالات میں ایک اور بڑی تبدیلی سے ٹھیک دو سال پہلے وطن عزیز کے اصل وارث خاکیوں نے"معاملات"براہ راست اپنے ہاتھ میں لے لئے، بالکل اُسی طرح جیسے "امریکی جہاد افغانستان" سے ٹھیک دو سال قبل جنرل ضیاء نے بھٹو شہید کو"فارغ" کرکے کارسرکار سنبھال لیاتھا۔
دوستو اور ساتھیو! کالم کی تنگ دامنی اختصار نویسی پر مجبور کرتی ہے، ورنہ ہم آپ کو بتاتے کہ یہ ضیاء الحق کا"اسلام"ہو یا جنرل مشرف کی "روشن خیالی"،سب ایک ہی سکے کے دو رُخ رہا کرتے ہیں اور سکے کو یار لوگوں نے کبھی "نظریۂ پاکستان" کانام دیا تو کبھی یہ"سب سے پہلے پاکستان" کی عُرفیت سے جانا ، پہچانا گیا جبکہ سرکاری کاغذات میں اس کا نام اب تک "قومی مفاد"ہی لکھا ملتا ہے۔ لیکن راقم لحروف نے اسے اس کی"پیشہ ورانہ اہلیت" سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ،"کمپنی"کی اجازت کے بعد اب"سٹیٹ آن رینٹ" کے خطاب و اعزاز سے نواز کر اشتہار شائع کروادیا ہے کہ"آئندہ مجھے" کمرشل ری پبلک آف پاکستان"کے نام نامی سے لکھا اور پُکاراجائے"!
قارئین! گلوبل اکانومی کے دورِ جدید میں "خالص مال برائے فروخت"کالیبل ہی کامیاب تجارت کی ضمانت قرار پایاہے، لہٰذا"کرایہ کیلئے خالی" مملکت خدادادکو ہرقسم کی" نیشنلسٹ"ملاوٹ سے پاک کرنا ضروری قرار پایا ۔ اس" مقصد اولیٰ" کے حصول کیلئے" ساہوکار" نے بھٹو کی جلاوطن بیٹی کو " این آر او" کے ٹریپ میں پھنسا کر وطن لوٹنے کی ترغیب دی ، جسے"چوکیداروں"نے اپنے بھرتی کردہ "اثاثہ جات" کی مدد سے اپنے شہید بابا کے پاس بھجوادیا۔ بعدازاں بھٹو کے داماد کو اپنے عظیم سُسر اور قابل فخر اہلیہ کے نقوش ہائے پا پر چلتے دیکھ کرعالمی بنئے نے اپنے اُس کارندے کو"بحال" کراکے مرد حُر کے سر پر لابٹھایا،جس کی خدمات وہ روشن خیال آمر کے خلاف بخوبی آزما چکا تھا۔ سو جس نے پھر پنجابی انوکھے لاڈلے اور شاطر محافظ اعظم کی مدد سے مسلسل 5 برس تک اسے اس طرح زچ کئے رکھا کہ وہ اپنے ایجنڈہ پر کھل کر کام ہی نہ کرسکا۔سویہ رہی، بی بی کو شہید کرنے کے بعد منعقدہ الیکشنز 2008سے لے کر 2013 کے انتخابات تک کی داستان۔
صاحبان !وطن عزیز کے سٹیج پربرسوں سے رچائے جارہے "جمہوری تماشہ" کی 2008تا 2013ایپی سوڈ کا سبق اگر یہ رہا کہ"جس نے کھیلنا ہے وہ ہمارے طے کردہ اصول و ضوابط کے دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش بالکل نہ کرے، ورنہ اُس کے ساتھ بھی فخر ایشیا اور دُختر مشرق جیسا "شاہانہ سلوک" روا رکھا جائے گا "۔تو 2013 میں سجائے گئے وکھرے سٹیج نے"جمہوریت" کے چہرے سے عوامی حمایت کا منافقانہ نقاب نوچ کرجہاں اسے رہے سہے بھرم سے بھی محروم کردیا،وہیں پوری دنیا کو کو جتلادیا کہ"آ سٹیٹ آن رینٹ" نامی بین الاقوامی دوکان کا کاروبار چلانے کیلئے وہی سب سے زیادہ "فٹ" ہے، جو ریاستی اداروں سمیت عالمی ساہوکار وں کے ساتھ سب سے زیادہ مول تول کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ"کاروباری اہلیت" بھلاچوکیداروں کے تراشیدہ ہیرے سے زیادہ کس میں ہوسکتی ہے، جسے من مانی کرتے دیکھ کر عارضی طور پربے دخل ضرور کردیا گیا تھا لیکن بوقت ضرورت دوبارہ استعمال کرنے کیلئے "سرورپیلیس" میں محفوظ بھی رکھا گیا۔
خود سوچئے اربا ب فکر و نظر! کہ جب"الباکستان" نامی مملکت خدادادکی وجۂ پیدائش ہی خطے میں عالمی ساہوکار کے کاروباری ا ور کاروبار سے جڑے تذویراتی مفادات کی"کرایہ پر نگہبانی" ٹھہری تو اس بزنس کیلئے اپنے آزمودہ "منیجر" کا انتخاب المریکہ نامی ساہوکاراور اس کے السعودیہ نامی مقامی انوسٹر کاصوابدیدی حق بنتا تو ہے، بالخصوص جب وہ مقامی دلال "السعودیہ" کا محبوب و مرغوب ہونے کے علاوہ طالبان نامی اس کے موبائل کریڈٹ آفیسرزکی" ضمانت" جیسی اہم ترین کوالفکیشن پربھی پورا اُترتا ہو؟جس کی ترجیحی اہلیت میں"سیکورٹی رسک" پارٹی کے خلاف چوکیدارکے اکلوتا چوائس ہونے کی خوبی شامل حال رہی ہو اور"ایوان عدل" سمیت تمام ترریاستی اداروں کو تن تنہا خریدلینے کا وسیع تر اضافی تجربہ بھی صرف اسی کے پاس ثابت ہوتا ہو؟؟
یہ"انصاف"بھی خواتین و حضرات ، آپ خود کرلیجئے کہ ساہوکار سے لے کر اس کے مقامی ایجنٹ اور محافظین سے لے کر منصفین بشمول کرایہ کے جہادیوں جیسے" اثاثہ جات" سب کا اکلوتا اور متفقہ "انتخاب"، اس رینٹڈ اسٹیٹ کا منیجر اگرعدلیہ، نادرا، کرکٹ بورڈ،اوگرا،الیکشن کمیشن اوراے جی آفس جیسے تمام ریاستی اداروں کو "حسب منشاء" چلانے کی غرض سے ان کے ساتھ کھلواڑ کرتا پھرے یا پھر عُمرہ کا ثواب باجماعت حاصل کرنے کے "نیک ارادے" سے 300 مسافروں کی گنجائش والی ریاست کی کمرشل فلائٹ کو اپنے اہل خانہ سمیت 60 افراد اورآموں کی123 پیٹیوں کیلئے سرکاری خرچے پر چارٹر کرکے اپنے مربی خادم الحرمین و شریفین کی زیارت کو چلاجائے تو کسی کو اس میں میخ من نکالنے کی بھلا کیا ضرورت ہے کیونکہ" کھیلن کو چاند"اگرہمارا" انوکھا لاڈلا" نہ مانگے تو اس پربھلااور کس کا حق ہے؟؟؟
ڈیلی کائنات نیوز میں شائع ہو چکا ہے۔
مکمل تحریر >>

23 فروری، 2015

سینیٹ انتخابات‘ چوہدری تنویر کی سیاست میں دوبارہ آمد

جیسے جیسے مارچ قریب آرہاہے ایوان بالا کے انتخابات کے حوالے سے ماحول میں گرمی آرہی ہے۔پنجاب کی گیارہ کی گیارہ نشستوں پر پاکستان مسلم لیگ ن کی کامیابی کے واضح آثار ہیں۔فی الحال تک مسلم لیگ ن نے چھ ٹکٹ راولپنڈی ڈویژن کو دیئے ہیں۔جن میں سینئیر سیاستدان اور بزرگ لیگی راہنما راجہ ظفر الحق ،پرویز رشید،جنرل (ر) عبدالقیوم ،چوہدری تنویر خان اور نجمہ حمید شامل ہیں۔مسلم لیگ ن سندھ کے راہنما نہال ہاشمی کو بھی پنجاب سے منتخب کروایا جا رہا ہے جنہوں نے اپنا ووٹ راولپنڈی میں رجسٹرڈ کروایا ہے۔اس لئے ان کو بھی راولپنڈی ڈویژن کا امیدوار قرار دیا جا سکتا ہے۔پنجاب سے ن لیگ کے امیدواران ایوان بالا پر نظر دوڑائی جائے توجنوبی پنجاب سے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہونے کے باوجود وہاں سے سرائیکی پس منظر کا کوئی امیدوار نظر نہیں آتا۔جو یقیناًسرائیکی وسیب ایسے پسماندہ علاقہ سے زیادتی کے مترادف ہے۔مسلم لیگ ن کے نصف سے زائد امیدواروں کا تعلق راولپنڈی سے تعلق ہونے کا پس منظر جاننے کے لئے ضروری ہے کہ قارئین کو بتایا جائے ضلع راولپنڈی میں کی انتخابی پوزیشن کیا ہے اور ماضی میں کیا تھی۔قومی انتخابات 2002میں ضلع راولپنڈی سے مسلم لیگ ن ایک قومی اور چار صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔2008کے انتخابات میں چھ قومی اور نو صوبائی اسمبلی کی نشستیں مسلم لیگ ن کے حصہ میں آئیں جبکہ بعد ازاں مسلم لیگ ق کے یونینفیکیشن بلاک کے ذریعے اور دو اور ممبران صوبائی اسمبلی مسلم لیگ ن کا حصہ بنے۔2013کے انتخابات میں چار قومی اور آٹھ صوبائی نشستوں پر مسلم لیگ ن نے کامیابی حاصل کی ۔یوں 2013کے انتخابات میں عمومی فضا مسلم لیگ ن کے حق میں ہونے کے باوجود مسلم لیگ ن نے 2008کے انتخابات کی نسبت دو قومی اور تین صوبائی نشستیں کم حاصل کیں۔2008کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک قومی اور دو صوبائی جبکہ مسلم لیگ ق نے تین صوبائی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن ان دونوں پارٹیوں کے اتحاد کے باوجود 2013میں ایک بھی نشست حاصل نہ کرسکیں۔2013میں ضلع راولپنڈی میں مسلم لیگ کے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف نے دو قومی اور چھ صوبائی نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ قومی اسمبلی ایک نشست پر شیخ رشید نے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کامیابی حاصل کی۔
امید واثق یہ ہے کہ یہی ہے کہ درجہ بالا حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے مسلم لیگ ن نے ایوان بالا کے زیادہ ٹکٹ راولپنڈی کو دیئے ہیں تاکہ پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو روکا جا سکے اور راولپنڈی کو دوبارہ مسلم لیگ ن کے لئے اور محفوظ کیا جائے۔شنید یہ بھی ہے کہ راجہ ظفر الحق کو چیئرمین کو ایوان بالا نامزد کیا جائے گا۔خلق خدا ان امیدواران ایوان بالا کو دیکھتے ہوئے اپنے اپنے اندازے قائم کر رہی ہے۔ جن کی حقیقی ہونے میں شک کیا جانا بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے۔
تین امیدواروں کے حوالے سے یہاں کچھ پس پردہ عوامل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔سب سے پہلے بزرگ اور سینیئرسیاستدان راجہ ظفر الحق کے حوالے دیکھتے ہیں۔راجہ ظفرالحق اس قبل بھی ایوان بالا کے رکن ہیں۔راجہ ظفر الحق کے بیٹے راجہ محمد علی حلقہ پی پی 2سے اس وقت رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔راجہ محمد علی 2002میں بھی رکن صوبائی رہ چکے ہیں۔2013کے انتخابا ت میں راجہ محمد علی کی مخالفت وہاں سے امیدوار قومی اسمبلی اور موجودہ وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی نے کھل کی ۔شاہد خاقان عباسی نے حلقہ پی پی 2سے مٹور ہی سے آزاد امیدوار راجہ صغیر کی کھلم کھلا حمایت کی اور یہ مخالفت تا حال جاری ہے جو مستقبل میں ن لیگ کے لئے نقصان دہ ہے۔عوامی حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ راجہ محمد علی کو کوئی صوبائی وزارت نہ دینا بھی راولپنڈی کی ن لیگ کے اندورنی اختلافات کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ ان تمام شکوک و شبہات کو رفع کرنے اور اختلاف کو دبانے کے لئے راجہ ظفرالحق کو دوبارہ ممبر ایوان بالا اورامید ہے کہ چیئرمین ایوان بالا ہوں گے۔سنیارٹی اور پارلیمانی تجربہ کی بنیاد پر راجہ ظفرالحق ہی اس وقت مسلم لیگ ن کے پاس موزوں چیئرمین ایوان بالا ہو سکتے ہیں۔
جنرل (ر) عبدالقیوم سابق گورنر پنجاب،سابق چیئرمین پی او ایف واہ اور سابق چیئرمین اسٹیل ملز رہ چکے ہیں۔ان تمام عہدہ جات پر سابق جنرل نے ایک اچھا منتظم ہونے کی حتی المقدور کوشش کی ہے۔جس میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔یہ تمام عہدہ جات جنرل قیوم کو سابق آمر جنرل مشرف نے ودیعت کیئے تھے۔سابق آمر جنرل مشرف کو آرٹیکل چھ کے تحت سزا دلوانا میاں برادران کی دلی خواہش ہے البتہ مشرف کے کئی ایک حواری اس وقت میاں برادران کے نفس ناظقہ بنے ہوئے ہیں۔راقم کا خیال یہ ہے کہ جنرل (ر) قیوم کو چکوال میں معروف صحافی و سیاستدان محترم المقام ایاز امیر کے نعم البدل کے طور پر سامنے لایا جا رہا ہے۔جنرل(ر) قیوم ایک اچھے منتظم ہو سکتے ہیں لیکن ایاز امیر کا نعم البدل قطعا نہیں۔
سب سے حیرت انگیز ٹکٹ سابق ایم پی اے اور محترمہ کلثوم نواز کے راولپنڈی کے اولین جلسہ کے میزبان چوہدری تنویر خان کا ہے چوہدری تنویر اور وزیر داخلہ چوہدری نثار کے اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں2013کے انتخابات میں چوہدری تنویر کے آبائی حلقہ پی پی چھ کو چوہدری نثار علی خان کی ضد کی وجہ سے اوپن رکھا گیا تھا اور یہاں سے چوہدری نثار علی خان آزاد امیدوار کی حیثیت سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو ئے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف پنجاب میں جن نشستوں پر دھاندلی پر اصرار کر رہی ہے ان میں سے یہ حلقہ بھی شامل ہے۔ان اختلافات کی بنیاد پر چوہدری تنویر خان ایک عرصہ سے ن لیگ کی سیاست سے کنارہ کش تھے۔ان اختلافات کو ن لیگ کی پنڈی میں شکست کو ایک وجہ سمجھا جا رہا ہے ۔شاید انہی اختلافات کا ازالہ کرنے ک ے لئے میاں برادران نے چوہدری تنویر خان کو ٹکٹ دیا ہے۔اسی بنیاد پر خلق خدا میں یہ چہ میگوئیاں چل رہی ہیں کہ شاید اسی وجہ سے اپنے حالیہ دورہ کلرسیداں میں چوہدری نثار علی خان اپنی حکومت کے خلاف ہی پھٹ پڑے اور حکومت کو ناکام قرار دیدیااور یہاں تک کہا کہ میں حکومت میں ہونے کے باوجود اپوزیشن کا کردار کا ادا کر رہا ہوں ۔اندر کی خبر رکھنے والے کہہ رہے ہیں کہ اس ٹکٹ کے علاوہ راجہ قمرالاسلام ایم پی اے حلقہ پی پی پانچ کی بطورچیئرمین ایجوکیشن ٹاسک فورس تعیناتی بھی اہم ہے۔یہ چیئرمین شپ صوبائی وزیر کے ہم پلہ ہوتی ہے۔اس تعیناتی پر چہ میگوئیاں اس لئے ہو رہی ہیں کہ ایم پی اے مذکور کو حلقہ میں ایک بے اختیار رکن اسمبلی متصورکیا جاتا رہا ہے۔ علاقہ میں تمام اہم ترقیاتی منصوبہ جات پر چوہدری نثار علی خان کی تختیاں لگی ہیں جبکہ ان کے افتتاح بھی غیر منتخب افراد کرتے رہے ہیں۔راجہ قمرالاسلام کے ذاتی ووٹ بینک کا علاقہ کی سڑک کی صورتحال کچی سڑک سے بھی بدتر ہے۔جس کی از سر نو تعمیر کا مطالبہ اہلیان علاقہ متعدد بار کر چکے ہیں اس اہم معاملہ پر تاحال شنوائی نہ ہوئی ہے۔بادی النظر میں یہی منظر تشکیل پا رہا ہے کہ ن لیگ ان اختلافا ت کو ختم کرنا چارہی ہے جبکہ ان اختلافات کا بنیادی مرکز چوہدری نثار علی خان کی ذات کو سمجھا جاتا ہے۔چوہدری تنویر کا ایوان بالا کا ٹکٹ ،راجہ قمرالاسلام کی بطور چیئرمین ٹاسک فورس تعیناتی اور چوہدری نثار کا اپنے حلقہ کے دورہ کے موقعہ پر میڈیا اور عوامی اجتماعات میں اپنی حکومت پر تنقید حالا ت کا رخ تبدیل ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
مکمل تحریر >>

22 فروری، 2015

پڑوسیوں کے حقوق کی حفاظت

"پڑوسی ملک نے پاکستان میں دہشت گردی کی آگ بھڑکائی".. چودهری چکری باز کا واشنگٹن ڈی سی میں "عالمی وڈیرے" کے سامنے معشوقانہ شکوہ .. ہمارے محافظین نے اسی پڑوسی کے کہنے پر ہی تو ان بدمعاشوں کو "تذویراتی اثاثہ جات" قرار دے کر برسوں ان کی پرورش اور نگہداشت کا حق ادا کیا .. جنہوں نے پهر اسی بهارت کے اشارے پر ہمیں اپنے "ضامن" ڈیکلئیر کرکے اپنے "پالتو جج" کی مدد سے زبردستی ملک و قوم پر مسلط کیا .. جس کے صلے میں ہم نے "ضرب عضب" سے پہلے اپنے ان محسنین کی "مذاق رات" کے ذریعے شام و عراق کیلئے بکنگ کے بعد باقیوں کو اندرون ملک یا افغانستان کے محفوظ مقامات تک "ہجرت" کے بهرپور مواقع بهی اسی یپڑوسی کو خوش کرنے کیلئے ہی فراہم کئے .. اور تو اور ہم نے اپنے جاری کردہ "نیشنل ایکشن پلان" میں سے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے لعین قاتل کا نام بهی اسی "ازلی پڑوسی" کو لبهانے کی خاطر ہی خارج کیا ... وزیر داخلہ الباکستان نے عالمی دارالحکومت میں نیوز کانفرنس کے دوران پڑوسیوں کے حقوق کی حفاظت آئندہ بهی اسی عزم و ولولہ سے جاری رکهنے کا اعلان کیا ..
مکمل تحریر >>

20 فروری، 2015

"اتحادِ عمل"کی تربیت!

دہشتگردی کی نئی لہر نے"نیشنل ایکشن پلان" پر ناکامی کی مہر تصدیق ثبت کرکے ہمارے اس تجزئے کی تائید کردی ہے کہ دہشت گردی ہو یا دیگر قومی مسائل، صرف "اجتماعی ڈسپلن" کے ذریعے ہی ان پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔۔ اور افراد کے ہم پاکستانیوں جیسے بکھرے ہوئے بے سمت ہجوم کو مختصر ترین مدت میں منظم کرکے ایک "قوم" میں تبدیل کرنے کا واحد اور تیر بہد نسخہ "اتحاد عمل" کی تربیت کے سوا کچھ نہیں ۔۔
یہ ٹارگٹ کسی قسم کے اخلاقی لیکچرز اور درس قرآن وغیرہ کے ذریعے ہرگز نہیں بلکہ فوج، پولیس یا سکاؤٹس جیسے کسی "تربیتی نظام" پر رضاکارانہ عمل کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے، جس کے تحت تمام شہریوں کو محلہ وار سطح پر صف بند کروا کر باقاعدہ قواعد کے ذیعے ڈسپلن اور ایک مرکزکی اطاعت کا عملاََ عادی بنا دیا جائے۔۔ 
یاد رکھیں کہ یہی"صف بندی" ہی آپ کو مشترکہ شناخت ملے گی تمام ترقی یافتہ اقوام کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لازمی شعار کی شکل میں، بھلے وہ چینی ہوں یا جاپانی یا پھر"امت مسلمہ"کے سینے پر پون صدی سے سوار"ملعون" یہودی۔
مکمل تحریر >>

19 فروری، 2015

پوچھا کہ تمہارا’’ تجربہ‘‘، وہ کیا ہوا!

بہت دن نہیں ہوئے اس بات کو، جب ہم کامل5برس تک مسلسل ایک ہی تکرار سے قوم کا دل بہلاتے رہے کہ"ہمارے پاس بڑا تجربہ ہے، ہرقسم کے بحرانوں سے نمٹنے کا بھلے وہ اقتصادی بدحالی کی شکل میں ہو یاپھر لوڈ شیڈنگ کا سبب بننے والی توانائی وسائل کی کمی"۔ یہ ثابت کرنے کیلئے کبھی ہم اپنے زیر بار احسان جسٹس چودھری کی "آزاد عدلیہ" سے رینٹل پاور پلانٹس کے خلاف حکم امتناعی جاری کرواتے رہے تو کبھی قطر سے ایل این جی کی درآمد کے معاہدے کی تنسیخ کے احکامات اورجب اتنے سے تشفی نہ ہوئی تو ریکوڈگ میں معدنی ذخائر کی کھوج لگانے والے غیر ملکی کنٹریکٹرزکو بھی اسی جسٹس چودھری سے فارغ کراکے گھر بھجوادیا۔
ہاں،یہ سب "بندوبست"ہم نے اس وقت کی حکومت کو ناکام ثابت کرنے کے "مصمم" ارداے سے ہی تو کرایا تھا ۔ ورنہ آتے ہی ہم نے جہاں قطر کے ساتھ ایل این جی کے اسی معاہدہ کو بعینہہ انہی شرائط پر "بحال"کردیا بلکہ تاخیر پر بطور ہرجانہ، شرح ادائیگی میں جو بڑھوتری ناگزیر تھی وہ بھی ہم نے قبول کرلی کہ ہماری جیب سے کیا جارہا تھا۔دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ افتخارچودھری نے اس پر بالکل ویسی خاموشی اختیار کئے رکھی، جیسی اس نے ہمارے پہلے بجٹ میں عام آدمی کیلئے سی این جی سمیت روزمرہ ضرورت کی بے شمار اشیاء پر لگائے گئے بھاری ٹیکسز پر جاری کردہ "سٹے آرڈر" پر ہماری طرف سے اسے ٹھینگا دکھانے پر اختیار کئے رکھی۔
اور تو اور ہم نے اسی خواجہ آصف کو "لوڈ شیڈنگ" کا وزیر بھی بنا دیا جس نے ، تازہ ترین انکشاف کے مطابق اپنی ملکیتی IPPکے وسیع تر مفاد میں پی پی پی گورنمنٹ کی طرف سے لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کیلئے ہائر کئے گئے رینٹل پلانٹس کے خلاف چودھری عدالت سے فیصلہ کروا کر اپنے علاوہ ہمارے "ایجنڈہ" کو بھی تقویت پہنچائی تھی۔ہم نے تو جناب ،آتے ہی خواجہ آصف کے ساتھ سا تھ ا پنے دیرینہ انوسٹر کی پاور کمپنیز کودن دگنی اور رات چگنی ترقی دینے کی خاطرگردشی قرضہ کے نام پر500ارب روپے کی"حسب منشاء" ادائیگی کے بعد نہ خواجہ سے اور نہ ہی منشاء سے پوچھا کہ دیرینہ ڈیمانڈز پوری ہونے کے باوجود آپ لوگوں کی کمپنیاں بجلی پیدا کرنے میں اب کیوں ہچکچاتی پھرتی ہیں۔
عمران خان اور آصف زرداری سمیت سب سیاستدان ، بھلے وہ اپوزیشن میں بیٹھی جماعت اسلامی جیسی ہوں یا مولوی فضل الرحمان جیسے ہماری اتحادی جس واحد نکتے پر متفق و متحد ہیں ، وہ بے شک افتخار چودھری کی قیادت میں دوتہائی اکثریت کی ہماری "معصومانہ خواہش" کی تکمیل کیلئے رچائی گئی انتخابی تاریخ کی بدترین دھاندلی ہی سمجھی جاتی رہے، لیکن 1988اور1990میں ہماری سرپرست ایجنسی کی طرف سے بنائی گئی IJIہو یا پھر1996کے الیکشنز میں ہمارے کمزور امیدواروں والے حلقوں میں صرف 20,000ووٹ فی حلقہ کا تحفہ، یہ سب ہمارے لئے توکوئی نئی بات ہے نہیں کہ اب لوگ گذشتہ الیکشن میں جسٹس چودھری کی طرف سے ہمارے نامزد کردہ 93حلقوں میں 17تا 20ہزار کے حساب سے اضافی ووٹوں کے طعنے دئے جارہے ہیں اور وہ بھی ایسے حلقوں میں جہاں سے وزیر دفاع، وزیر ریلوے اور سپیکر نیشنل اسمبلی جیسے ہمارے تگڑے بندے" جیت" کر آئے ہوں۔
بھائی لوگو، اب اتنی"تجربہ کار"حکومت کے خلاف کبھی چار حلقوں کولے کر لمبے چوڑے جلسے جلوس اوراب سارے کے سارے انتخابی عمل کو مسترد کرکے مڈ ٹرم الیکشن کی مانگ لے کر ہماری راجدھانی تک "آزادی مارچ"،کیا کھلم کھلا زیادتی نہیں رہے گی، ہمارے خلاف؟؟
یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ ہماری "آخری اُمید"، جی ہاں یہ ہمارے چھوٹے بھائی زرداری میاں بھی شاید افغان صدارتی انتخاب کے تازہ تنازعہ کا حل دیکھ کر اب ہمیں مشورہ دینے آگئے کہ ہم خان کی طرف سے ری پولنگ کا مطالبہ مان کر کیوں نہیں دیتے؟ بندہ پوچھے کہ بھائی جی ، پاکستان کوئی افغانستان ہے کیا؟ یہ سیاسی افہام و تفہیم اور تنازعات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے والی زرداری ادائیں ہماری ضرورت کب سے بن گئیں؟ ویسے بھی افغانستان کے دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان معاملات طے کرانے کیلئے تو جان کیر ی کو وہاں پہنچنا پڑا ، ہمیں تو اب تک اپنے یار غار امریکہ بہادر کا ایسا کوئی پیغام ملا نہیں ۔ اور جب تک وہاں سے کوئی "کیبل"آ نہیں جا تی، ہم یہ کیوں نہ سمجھے رکھیں کہ امریکہ سمیت سارا مغرب وسط2012 تامئی 2013کے انتخابات کی طرح ابھی بھی ہمارا"حامی و ناصر" ہے۔
باقی رہی ہماری وہ پریشانی، جو ہم سے اس طرح کے بیانات جاری کرواتی رہتی ہے کہ "نیک نیتی سے کام کررہے ہیں، استعفیٰ کیوں دیں؟" یا پھراضطراری حالت میں اپنے بالڑے عابد شیر علی کو ایسی ڈانٹ ڈپٹ کہ "جو بجلی پیدا ہوتی ہے ، وہ جاتی کہاں ہے؟ "، تو ان کے پیچھے کسی "آزادی مارچ" یا کسی "کنٹینر انقلاب" کا خوف بالکل نہیں کیونکہ ہم نے اپنے تئیں ہر دو کا "مکو ٹھپنے" کاپکا بندوبست کررکھا ہے۔ بس یہ تو اپنے نثار علی خان کا رویہ ہے جودن رات ہمیں پریشان کئے رکھتا ہے کہ وہی تو اصل "بندہ" ہے افتخار چودھری کے جانے کے بعد، ہماری امید وں کے پنڈی والے مرکز اور ہمارے درمیان۔
سچ پوچھئے توہم "آپریشن ضرب عضب" کی نسبت سے وار کیبنٹ کے نام پر آل پارٹیزقومی حکومت کیلئے خود کو ذہنی طور پر تیار کر بھی چکے ہیں کہ چلورسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے۔ لیکن کیا کریں کہ خان کسی "کمٹمنٹ" کی یاد دلاتے ہوئے بضدہے کہ اب "باری" اُس کی ہے جبکہ ہمارے یہ سیٹ چھوڑ نے سے شریف گروپ کی "قومی ترقی" کا جو پنج سالہ منصوبہ ہم لے کر آئے تھے، وہ ادھورا رہ گیا تو چھوٹے کے خیال میں، صوبہ بلکہ اب ملک بھرکا ترقیاتی بجٹ لاہور میں لگا کر بچے کھچے لاہوری ووٹ پکے کرنے میں رکاوٹ کے علاوہ برخوردار حمزہ کی ناراضگی کا بھی اندیشہ ہے کہ کہیں ارسلان افتخار"کمیشن"میں آگے نہ نکل جائے۔ اسلئے خان جی،ضد چھڈو، آؤ"مُک مُکا"کر لیئے!۔
ڈیلی کائنات نیوز میں شائع ہو چکاہے۔

مکمل تحریر >>

18 فروری، 2015

چراغ سبھی کےبجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں

سانحہ لاہور کا خفیہ پیغام.! ہم نے تمہاری اس یقین دہانی پر کہ "ہمارا، تمہارا ایجنڈہ ایک ہے"، اپنے پالتو جج افتخار چودهری کے ذریعے تمہاری مخالف مرکزی حکومت کو مسلسل باندهے رکها اور پهر تمہیں نیٹو ٹروپس کیلئے سیف کاریڈور کا"ضامن" ڈیکلئر کرکے امریکہ بہادر اور تم پر مزید اعتماد نہ کرنے والی فوج کو تمہارے حق میں رام کیا .. انتخابات کے دوران پہلے ہم نے پنجاب میں تمہارے سیاسی مخالفین کو الیکشن کیمپین تک کی اجازت نہ دی اور پهر اپنے اور امریکہ کے آزمودہ اسی افتخار چودهری کی ترتیب کردہ دهاندلی سے تمہیں اکثریت دلائی .. اور تو اور صرف 2 ماہ پہلے ہم نے تمہیں سیاسی مشکلات سے نکالنے کیلئے پشاور کے ننھے پهولوں کو بهی خون میں نہلانے سے دریغ نہ کیا .. ایک تم ہو کہ ہمیں نیست و نابود کرنے کی سیاسی بڑهکیں مارتے مارتے ہمارے گرفتار ساتهیوں کے کیسز فوجی عدالتوں کو بهیجنے کے اعلانات پر اتر آئے .. یعنی"ہماری بلی، ہمیں کو میاؤں".؟؟ یاد رکهو، یہ تو بس چهوٹی سی وارننگ ہے .. اگر ہم مسلح اور تربیت یافتہ پولیس کو بے بس کر سکتے ہیں تو تمہارے صوبے میں بهی امام بارگاہوں، تعلیمی اداروں اور مزاروں کی کمی نہیں .. اسلئے ہمارے تهوڑا کئے کو بہتا جانو اور بندے دے پتر بن جاو .. پهر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی .!
مکمل تحریر >>

16 فروری، 2015

سرائیکستان

"سرائیکی صوبہ بن گیا تو اسٹیبلشمنٹ ہمارے وظیفے بند کر دے گی" ۔۔ نام نہاد سرائیکی قوم پرستوں کا اصل مسئلہ ۔۔ ہم سرائیکی صوبہ کے اولین علم بردار تاج محمد لنگاہ کی جانشین ساجدہ لنگاہ کی جانب سے "جنوبی پنجاب میں الگ صوبہ" کے مطالبہ کی بالکل اسی طرح پُرزور مذمت کرتے ہیں، جیسے ہم نے زرداری دور میں جنوبی پنجاب میں علیحدہ صوبے کی قرارداد کی سینیٹ سے منظوری کے بعد صوبے کے نام کے بہانے سے اس کی بھرپور مخالفت کرکے، نئے صوبے کے قیام کے مخالف"تخت لہور" اور اس کی سرپرست مادر پدر آزاد عدلیہ کے ہاتھ مضبوط کئے تھے ۔۔ کوئی لاکھ سمجھاتا پھرے لیکن ہم کسی بھی دوسرے نام کی بجائے صرف "سرائیکستان" پر ہی اصرار کرتے رہیں گے، کیونکہ اسٹیبلشمنٹ سے ملنے والی ہماری "دال روٹی" سرائیکی وسیب میں نئے صوبے کی مخالفت سے ہی جُڑی ہے ۔۔ اگر یہ صوبہ کسی بھی شکل میں بن گیا تو ہم بھوکے مرجائیں گے ۔۔ اگرچہ ہم یہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ خیبر پختونخواہ کے علاقے ڈی آئی خان اور کرک وہاں کی صوبائی اسمبلی کی منظوری کے بغیر فوری طور پر پنجاب میں بننے والے نئے صوبہ میں شامل نہیں کئے جاسکتے اور یہ کام بعد میں کسی مناسب وقت پر کیا جاسکتا ہے ۔۔ لیکن ہم ان علاقوں کے بغیر وسیب میں نیا صوبہ کسی صورت قبول نہیں کریں گے ۔۔ آخر ہمیں بھی اپنے بال بچے پالنے کا پورا، پورا حق ہے ۔۔
مکمل تحریر >>

14 فروری، 2015

مرد معتوب

"چائنہ کیلئے ریاست پاکستان کا اصل ضامن، "مرد معتوب"..! بہت سی جبینوں پر پڑی گہری شکنیں اس حقیقت کو بدل نہیں سکتیں کہ اسٹبلشمنٹ سمیت مخصوص "پنجابی ذہنیت" اور نام نہاد "ترقی پسند" خواتین و حضرات سب کا "گناہ گار"، جی ہاں آصف زرداری ہی بهٹو شہید کی قائم کردہ اس "پاک چین دوستی" کا معمار ثانی ہے، جسے ریاست الباکستان چینی وزیر جارجہ کے حالیہ دورہ کے تناظر میں امریکہ، بهارت اور افغانستان کو"راہ راست" پر لانے کیلئے استعمال کرنے کی اپنی کوشش پر پهولے نہیں سما رہی .. ذہن میں رکهئے کہ مہمان وزیر خارجہ کی وزیر اعظم اور آرمی چیف کے علاوہ اسلام آباد میں موجود سابق صدر زرداری سے "خصوصی ملاقات" اور اس کے بعد نواز شریف کے معتمد خاص خواجہ سعد رفیق کی مرد حر سے ملاقات کا تعلق، ملکی میڈیا کی طرف سے دانستہ پهیلائے جا رہے تاثر کے مطابق سینیٹ الیکشن سے قطعی نہیں بلکہ موجودہ پاکستانی حکومت کی امریکہ بارے ان پالیسیز سے ہے، جن میں افغانستان کے حوالے سے چائنہ کو گہری دلچسپی ہوسکتی ہے .. اس بات کو یوں سمجهنا چاہئے کہ چین کو اپنے صدر کے مجوزہ دورہ پاکستان کیلئے جن اہم امور پر یقین دہانیاں درکار ہیں، ان کیلئے وہ سابق صدر پاکستان کے علاوہ کسی پر بهی اعتماد کرنے کو تیار نہیں .. یہی وجہ ہے کہ چند ماہ قبل ہمارے ڈیفیکٹو وزیر خارجہ شہباز شریف اور چند روز قبل ہمارے ڈیفیکٹو چیف ایگزیکٹو جنرل شریف، دونوں حضرات کی باری باری چین یاترا کے دوران ملکی اور عالمی میڈیا میں چینی قیادت کی سابق صدر کیلئے دورہ چین کی خصوصی دعوت کی گونج مسلسل سنائی دیتی رہی .. دیکهنا اب یہ ہے کہ ملک و قوم کی تقدیر کی مالک یہ "شریف ٹرائیکا"، سابق صدر کی جانب سے، بحیثیت ریاستی نمائندہ فراہم کردہ ان ضمانتوں پر قائم رہتی ہے جن کی روشنی میں چینی وزیر خارجہ پاکستان، افغانستان اور طالبان کے درمیان اپنی حکومت کی "ثالثی" کا عندیہ دے کر جا رہے ہیں اور جن کی بنیاد پر ہی انہوں نے اپنے صدر کے دورہ پاکستان بارے مثبت توقعات کا اظہار کیا.؟؟
مکمل تحریر >>

ویلنٹائن ڈے

دنیا بھر میں مختلف ایام کو تہوار کی صورت میں منایا جاتا ہے۔ 14فروری کو دنیا بھر میں محبتوں کا دن منایا جاتا ہے۔ اس دن دوست و احباب، عزیز و اقارب ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔لیکن ہماری قوم کے اکثریت اس دن کو منفی انداز میں لیتے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے کے متعلق بہت سے حوالے موجودہیں لیکن معروف حوالے کے مطابق آج سے تقریبا ڈیڑھ ہزار سال پہلے روم کے بادشاہ نے نوجوانوں اور بالخصوص فوجیوں پر شادی کی پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ شادی شدہ لوگ جنگ و جدل میں دلچسپی نہیں لیتے۔ روم کے ایک پادری سینٹ ویلنٹائن نے بادشاہی احکامات سے بغاوت کرتے ہوئے کہا کہ شادی مذہبی اور انسانی اعتبار سے ہر ایک کا حق ہے لہٰذا اس نے چرچ میں لوگوں کی شادیاں کروانا شروع کردیں۔ اسی جرم میں اس کو قید کیا گیا اور سزائے موت دی گئی۔ قید کے دوران جیلر کی ایک بیٹی جو نابینا تھی سینٹ ویلنٹائن سے ملنے آتی تھی اور ان کی اچھی دوستی ہوگئی۔ ویلنٹائن نے مرنے سے قبل اس کو ایک الوداعی خط لکھا تھا۔ تب سے 14 فروری کو سینٹ ویلنٹائن کے یوم شہادت کے طور پر منایا جانے لگا اور بعد ازاں اسے یوم محبت کا نام دے دیا گیا
ہمارے ہاں چونکہ ہر چیز کو رد کرنے اور تاریخی واقعات پر تحقیق کے بجائے ہر چیز کو حرام اور سازش قرار دینے کی روایت بہت پختہ ہو چکی ہے اس لئے ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے بھی من گھڑت فتووں کا انبھار لگا ہوا ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو سینٹ ویلنٹائن نے ایک جانب بادشاہ کے ظالمانہ اقدام کی مخالفت کرکے اور لوگوں کے بنیادی حق کیلئے جدوجہد کرکے ایک انقلابی کام کیا تھا۔ اور دوسری جانب فطری جذبات اور محبت و امن کا درس دیا۔ ویلنٹائن ڈے کا یا محبت کا مفہوم صرف جنسی خواہشات کی تکمیل کا نام نہیں بلکہ محبت ایک وسیع اور لامحدود معنی رکھنے والا جذبہ ہے۔
ہمیشہ اپنی سوچ کو وسیع اور مثبت رکھیں۔
HAPPY VALENTINES DAY TO EVERY ONE
مکمل تحریر >>

سوالیہ نشان.؟؟؟

 پشاور میں دہشتگردی کی تازہ واردات نے جہاں 6 ماہ سے جاری "ضرب عضب" اور 2 ماہ سے جاری "نیشنل ایکشن پلان"، دونوں کی افادیت بلکہ "حقیقت" پر ایک بار پهر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے، بلکہ اس سے"ان" کی "پهرتی" بهی بخوبی عیاں ہوگئی جو آرمی پبلک اسکول والے"وقوعہ" کی طرح اس بار بهی 2 مہینے بعد 2 گهنٹے پر محیط کسی پریس بریفنگ میں قوم کو وارداتیوں کی تعداد اور کمین گاہوں سے لے کر واردات کی منصوبہ بندی اور فنڈنگ تک کی تمام تفصیلات بمعہ جزئیات "مو زبانی" سنانے کے بعد اپنی اس "فخریہ پیشکش" پر بهرپور داد سمیٹتے بهی دکهائی دیں گے ..
مکمل تحریر >>

13 فروری، 2015

بائیو میٹرک۔۔۔ ٹوپی ڈرامہ

بیس کروڑ آبادی والے ملک میں موبائل فون صارفین کی تعداد 13کروڑ 23لاکھ سے یقیناً زائد ہےجبکہ پانچ نیٹ ورکس کی موجودگی میں تقریباً ہر صارف کے پاس پانچ سم کارڈز زیر استعمال ہیں یا اوسطاً فی صارف کم از کم تین سم کارڈز ضرور موجود ہیں جن کی کل تعداد 39کروڑ70لاکھ سے زیادہ ہے گزشتہ برس آخری ماہ میں ہونے والی دہشت گردی کا سنگین واقع جس میں آرمی پبلک سکول پشاور کو نشانہ بنایا گیا اور نتیجے میں150سے زائد طلبہ شہید کر دیے گئےکہ بعد وقتی سنجیدگی میں آل پارٹیز کانفرنس میں موبائل فون صارفین کی سم کارڈز کی بائیو میٹرک تصدیق کو لازمی قرار دے کر محض ڈیڑھ ماہ کی ڈیڈلائن میں تصدیقی عمل کو مکمل کرنے کا ٹاسک دے دیا گیا جسے ملکی و غیر ملکی سیلولر سروسز پرووائیڈرز نے اندھی کمائی کو خطرے میں دیکھ کر سم کارڈز کو اندھا دھند تصدیق کرنا شروع کر دیا اور تصدیق کرنے کی رفتار کو دیکھ کر قطعاً نہیں کہا جا سکتا کہ اس عمل کا مقصد کسی قسم کی دہشت گردی کی روک تھام میں معاون ثابت ہو گا جس معیار کی تصدیق کی جا رہی ہے اس آرٹیکل کو اگلے سال فروری میں بطور حوالہ میں پیش کرنے کی پوزیشن میں ضرور ہوں گا کہ موبائل اور سم کارڈز کی مدد سے ہونے والی دہشت گردی کو کم کرنے کے لئے مزید کسی نئی حکمت عملی پر غور ہو رہا ہو گا، چونکہ پانچوں ملکی و غیر ملکی سیلولر کمپنیاں موجودہ تصدیقی ڈرامے کی حقیقت کو جانتے ہوئےایسے طریقہ کار پر عمل پیرا ہیں کہ قومی سلامتی سے زیادہ کاروباری فوائد پر فوکس نظر آ رہا ہے۔ صارف کا کیا قصور ہے کہ وہ سارا سارا دن میں کھڑا ہو کر ایک سم کارڈ کی بائیو میٹرک تصدیق کروائے اور کمپنی کو اس خدمت کی فراہمی پر چارجز بھی ادا کرے؟ لیکن جہاں سارےاندھے ہوں وہاں کانا راجا ہوتا ہے یعنی سادہ جمع منفی کےحساب میں تقریباً 40کروڑ سم کارڈز کی تصدیق کے ڈرامے میں مبلغ 7ارب94کروڑ روپے بحساب 20روپےفی سم بے وقوف پاکستانیوں کی جیب سے نکلوائے جا رہے ہیں۔
جبکہ تصویر کا دوسرا رُخ اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے کہ بیس کروڑ آبادی والے خود ساختہ جمہوری ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد2013 کے الیکشن میں8کروڑ بارہ لاکھ تھی جبکہ سم کارڈز کی تصدیق کے عمل کو دیکھتے ہوئے پاکستانی قوم کی سم کارڈ تصدیق کروانے کی رفتار کو ذہن میں رکھ کر اندازہ لگایا جائے تو ایک ماہ میں تمام رجسٹرڈ ووٹ کم از کم 8 بار تصدیق کیے جا سکتے ہیں لیکن اس ملک کی تقریباً دوسری بڑی سیاسی پارٹی حکومت کے اڈے میں بیٹھ کرتین ماہ سے زائد کا طویل مدتی دھرنا دیتی ہےکہ الیکشن شفاف ہونے چاہییں۔ 
اس تصویر کا دوسرا رخ یقیناً ان سوالوں سے پردہ اٹھاتا نظر آتا ہے جن کا تعلق بھی برائے راست قومی سلامتی سے ہے۔۔
مکمل تحریر >>

تلاش کیجئے