تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھا جائے تو7ہزار سال پرانی تاریخ یا جتنی بھی کتابی شکل میں میسر تاریخ ہے اُس میں کشمیر کا نام نمایاں حیثیت میں جلوہ گر ہے۔ کشمیر جو کہ تاریخی،جغرافیائی اور ثقافتی لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ اس کو مذاہب کی تاریخ میں جو کہ بنی نوع انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی وجود میں آ گئے تھے، اُن کی تاریخ میں کشمیر کو سنہری الفاظ میں لکھا جاتا ہے۔حدود اربعہ کے لحاظ سے یہ ریاست سکڑتی اور پھیلتی رہی ہے۔کبھی تبت تک جا پہنچی تو کبھی افغانستان تک،کبھی ٹیکسلا کو عبور کر ڈالا تو کبھی دہلی سے جا ٹکرائی۔موجودہ رقبہ ریاست جموں و کشمیر 84471 مربع میل پرمحیط ہے۔ جو 16مارچ1846 کو معاہدہ امرتسر کے تحت دنیا کے نقشے پر واضح ہوا۔اور اس کی شناخت کو 22اکتوبر 1947 کو پاکستان اور 27اکتوبر کو بھارت کی طرف سے کچلنے کی کوشش کی گئی۔ اِن حالات میں اس ریاست کے تشخص کو بچانے کے لئیے ریاست کا بیٹا مقبول بٹ ایک ریاستی حقیقیِ بیٹے کے فرائض انجام دیتے نظر آتا ہے۔ کہتے ہیں اگر زندگی کا مقصد سمجھ آ جائے تو دونوں جہاں سرخرو ہو جاتے ہیں۔ کشمیر کےاس سرخروعظیم سپوت کی زندگی پرنظر ڈالتے ہیں۔آپ نے 18 فروری1938 کو کشمیر کے ضلع کپواڑہ میں غلام قادر کے گھر آنکھ کھولی آپ سات بہن بھائی تھے، ظہور بٹ(جو سرینگرمیں مقیم ہیں)،حبیب اللہ بٹ(جو 17سال کی عمر میں پر اسرار طور پر لا پتہ ہو گئے)،غلام نبی بٹ(جو 1994 میں شہید ہوئے)۔زمانہِ طالبِ علمی میں ہی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت سیاسی اور سماجی طور پر خود کو منوا لیا۔میٹرک اپنے گاوں کے ایک سکول سے پاس کی اور بی اے کی ڈگری جوزف کالج بارہ مولہ سے حاصل کی۔ 1958 میں ایمانی اور اسلامی جذبے کے تحت پاکستان(آزاد کشمیر) ہجرت کر کہ آئے اور پشاور کے ایک اخبار میں ملازمت اختیار کی، پشاور یونیورسٹی سے ایم اے ، ایل ایل بی کی۔اور پھر سے اپنی زندگی کے مقصد کے لئے کوشاں ہو گئے اور اپنے فرائض انجام دینے لگے۔ اگر کہا جائے کہ مقبول بٹ نے ہی نظریہ خودمختار کشمیر کی بنیاد رکھی تو یہ غلط نہ ہو گا۔
اِن کے فرائض کی راہ میں رکاوٹ بنتے کبھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا علمبردار بھارت نظر آتا ہے تو کبھی اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنا کِردار ادا کرتے نظر آتا ہے۔کبھی مقبول بٹ لاہور شاہی قلعے میں سزا کاٹتے نظر آتے ہیں،تو کبھی مظفرآباد میں انوسٹیگیشن کے ہتھے چڑھے دکھائی دیتے ہیں، کبھی دہلی میں مقدمے لڑتے دکھائی دیتے ہیں، تو کبھی پاکستان کی عدالتوں میں دشمن کو منہ توڑ جواب دیتے نظر آتے ہیں، اور کبھی قوم کی خاطر جیل کی کوٹھڑی میں جاتے نظر آتے ہیں۔ تو کبھی محاز رائے شماری کے نام پر قوم کی خاطر لڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ اِنہی مرحلات سے گزرتے گزرے ایک دن تہاڑ جیل میں موت کا انتظار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور ایک تاریک صبح جس دن سورج تو طلوع ہوا پر انصاف کا نہیں ظلمت کا، جس دن ہوا تو چلی پر سکون کی نہیں قہر کی، یہ تاریک صبح 11فروری1984 کی تھی۔ جس دن تمام قانونی کاروائیوں کو سب سے بڑی جمہوریت کچلتےہوئے نظر آتی ہے۔جو جمہوریت کو کالے قانون کی نذر کرتے نظر آتی ہے۔اس دن مقبول بٹ کے جسم کو تو ساکت کر دیا گیا پر اٗس نظریے کاکیا جو نظریہ ایک طوفان کی طرح مچلتانظر آیا۔ اس سے بڑھ کر بھارت کے لئے شکست کا مقام کیاہو سکتا ہے؟ کہ آج ہر بچے بچے کی زباں پر خودمحتاری اور آزادی کا نعرہ ہے۔آج جو آزادی کی شمع ہمارے دل و دماغ میں پھوٹ رہی ہے وہ آزاد اور خودمختار ریاست کے قیام سے ہی بجھے گئی۔قسم اُس ذات کی اِس نظریے کو جتنا دباؤ گے اُتنا یہ ابھرےگا۔