26 فروری، 2015

سیکولرز کا پیش کردہ اشکال: کون سی شریعت؟

شریعت شریعت تو سب کرتے ہیں۔ مگر اِن داعیانِ شریعت میں سے آج تک کوئی یہ نہیں بتا سکا کہ کونسی شریعت؟ کوئی ایک شریعت ہو تو بات کریں۔ یہاں خمینی کی شریعت ہے۔ نمیری کی شریعت ہے۔ ضیائالحق کی شریعت ہے۔ قذافی کی شریعت الگ ہے۔ سعودیہ میں وہابیوں کی اور ہی شریعت ہے۔ اب طالبان ایک اور ہی شریعت لانے جا رہے ہیں۔ آپ حضرات پہلے شریعت پر متفق ہو لیں کہ شریعت کے نام پر آپ لانا کیا چاہتے ہیں!
جواب:
رب العالمین کی شریعت پر اتنی آسانی سے دھول پھینک جانا اور اسکو کوئی ایسی مہمل چیز ثابت کر لینا ممکن نہیں۔ ہماری شریعت کا تعین کرنے کیلئے تو اللہ کا شکر ہے کتاب اللہ پوری کی پوری محفوظ کر رکھی گئی ہے اور پچھلی چودہ صدیوں سے امت اسکو سینے سے لگائے بیٹھی ہے کہ جب بھی کسی کو رب العالمین کی شریعت دریافت کرنا ہو وہ اس کتاب کو کھولے اور اپنے سوال کا جواب پا لے بشرطیکہ ایمان ہو اور اتباع کا ارادہ ہو۔ اس پر اللہ کے فضل سے کبھی بھی دھول پڑنے والی نہیں خواہ تم جتنا مرضی زور لگا لو۔ پھر ہماری شریعت کا تعین کرنے کیلئے ہمارے نبی کی سنت کا پورا ذخیرہ موجود ہے جس کیلئے امت کے محدثین نے چھان پھٹک کرنے میں عمریں کھپا دیں۔ پھر اس شریعت کے فہم و تفسیر کیلئے اور اس سے استدلال کے اصول وضع کرنے کیلئے اور اسکے اختلاف کو ضبط میں لانے کیلئے فقہائے امت نے اپنی زندگیاں صرف کر دیں۔ پس ہماری شریعت تو ایک نہایت معلوم چیز ہے اور جو بھی اخلاص کے ساتھ، نہ کہ کھلواڑ کرنے کیلئے، اِس شریعت کی طرف بڑھے گا وہ ہرگز اِس شریعت کی پہچان اور تعین کرنے میں کوئی الجھن نہ پائے گا۔
مسئلہ کاعلمی پہلو:
شریعت دو طرح کے احکام پر مشتمل ہے: 
اِس کا ایک حصہ محکم ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جس پر دلیل قاطع پائی جاتی ہے، نصِ صحیح کی صورت میں یا اجماعِ صریح کی صورت میں۔
اِس کا دوسرا حصہ متشابہ ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جس میں اجتہادات متفاوت ہو جاتے ہیں اور آرائمتعدد ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ اس کے دلائل قطعی نہیں، یا تو ثبوت کے لحاظ سے اور یا دلالت کے لحاظ سے۔
وہ اسلام جس کی ہم صدا لگاتے ہیں، اور جس کی آج ہر مسلمان راہ تک رہا ہے، وہ اسلام ہے جو ایک قطعی انداز میں کتاب اللہ سے ثابت ہوتا ہے، سنت رسول اللہ سے ثابت ہوتا ہے اور اس امت کے اولین دور کے اجماع سے ثابت ہوتا ہے۔ یہی چیز شریعت کا وہ محکم حصہ ہے، جس کے اندر مسلمانوں کے مابین جھگڑا ہی کوئی نہیں ہے۔ کوئی فقہی نزاع شریعت کے اِس حصہ میں نام کو نہیں ہے۔ سب ائمہ، سب فقہیں شریعت کے اِس بنیادی و مرکزی حصہ کی بابت آپ کو ایک ہی بات بتائیں گی۔ 
رہ گیا اِس کے ماسوا حصہ، جس میں ظنیات اور متشابہات آ جاتے ہیں، تو وہ اجتہاد اور تحقیق کا میدان ہیں۔۔ اِس میں بھی حرج نہیں کہ علاقوں علاقوں کے فرق سے شریعت کے اِس حصہ میں اجتہادات مختلف ہوں۔ ایک خطہ میں کسی ایک رائے یا اجتہاد کو اختیار کیا جائے تو کسی دوسرے خطہ میں کسی دوسری رائے یا اجتہاد کو۔ لوگوں سے حرج کو رفع کرنا شریعت کا اپنا ہی اقتضاۂے۔ اِس بات تک کی گنجائش ہے کہ جب بھی کوئی نئی صورتحال جنم لے لے اور حوادث نئے سامنے آئیں، پچھلے اجتہاد کے اندر ایک نظرثانی کر لی جائے، اور اُس متعین فریم کا پابند رہتے ہوئے نئے حالات کی رعایت سے اس میں کوئی تبدیلی یا پیشرفت ہو جائے۔
حیرت یہ ہے کہ شریعت نے لوگوں کیلئے یہ جو ایک وسعت اور ایک گنجائش اور ایک آسانی رکھی تھی، کچھ طبقوں کو یہ سوجھی کہ یہ اس بات کو الٹا شریعت ہی سے لوگوں کو متنفر کرنے کیلئے استعمال کریں اور اسکو بنیاد بنا کر شریعت کی ایک ایسی عجیب و غریب تصویر پیش کریں کہ دیکھیں جناب شریعت میں تو کتنا اختلاف ہے اور کس قدر تنوع اور تعدد ہے! حالانکہ یہ جتنا سا اختلاف اور جتنا سا تعددِ اقوال اور تنوعِ اجتہادات ہمارے معروف فقہی مذاہب (مانند حنفی، شافعی، مالکی حنبلی وغیرہ) کے مابین پایا جاتا ہے، یہ تو شریعت کی عظیم ترین خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے، اور شریعت کو امر کر دینے والے عظیم ترین عوامل میں سے ایک عامل ہے۔ یہی تو وہ چیز ہے جس کے دم سے شریعت قیامت تک آنے والے ہر قسم کے زمان و مکان کی احتیاج کو پورا کرتی ہے اور ہر قسم کے مصالح العباد پر پورا اترتی ہے۔ 
یہی تو وہ چیز ہے جو امت کیلئے یہ بات ممکن بناتی ہے کہ ہر زمانے میں یہ اجتہاداتِ فقہائمیں سے دلیل کی روشنی میں اور مصالح کے اقتضائکو سامنے رکھتے ہوئے مناسب ترین قول کو اختیار کرے اور اپنے علمائے ثقات کے ذریعے اپنی یہ ضرورت پوری کروائے۔ چنانچہ یہ چیز تو امت کیلئے رحمت اور گنجائش ہے۔ اگر یہ پوری کی پوری امت ایک ہی مذہب اور ایک ہی قول کی پابند ہوتی اور قیامت تک اسی کی اسیر رکھی جاتی تو کس قدر تنگی میں ہوتی۔ 
اس کی شہادت انصاف پسند غیر مسلم تک دے چکے ہیں۔ آج سے کچھ عرصہ پیشتر پیرس یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں عالمی تنظیم برائے تقابلی قانون کی دوسری کانفرنس کے انعقاد کے دوران (جوکہ ”ہفتہ فقہ اسلامی“ کے عنوان کے تحت ہوئی تھی).... کانفرنس کے شرکائنے جہاں کئی اور نقاط پر اتفاق کیا، وہاں اِس نقطے پر بھی اُنکا اتفاق دیکھا گیا کہ اسلام کے فقہی مذاہب کے مابین پایا جانے والا اختلاف ایک ایسے علمی ومعلوماتی وقانونی سرمائے پر مشتمل ہے جو عقل انسانی کو دنگ کر دیتا ہے۔ اسلامی فقہ اس سے کام لے کر سول لائف کے تمام مطالب و ضروریات پر پورا اترنے کی قدرت رکھتی ہے۔ شرکائنے یہ امید بھی ظاہر کی کہ ایک ایسی کمیٹی قائم کی جائے جو فقہ اسلامی کا کوئی انسائیکلوپیڈیا وجود میں لے کر آئے۔
 (دیکھئے کتاب مشاکلنا فی ضوئالاسلام مولفہ د۔ عبد المنعم النمر: ۷۳)
صلاح الصاوی۔استفاد: حامد کمال الدین

بشکریہ : مذہب، فلسفہ اور سائنس


تلاش کیجئے