امید واثق یہ ہے کہ یہی ہے کہ درجہ بالا حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے مسلم لیگ ن نے ایوان بالا کے زیادہ ٹکٹ راولپنڈی کو دیئے ہیں تاکہ پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو روکا جا سکے اور راولپنڈی کو دوبارہ مسلم لیگ ن کے لئے اور محفوظ کیا جائے۔شنید یہ بھی ہے کہ راجہ ظفر الحق کو چیئرمین کو ایوان بالا نامزد کیا جائے گا۔خلق خدا ان امیدواران ایوان بالا کو دیکھتے ہوئے اپنے اپنے اندازے قائم کر رہی ہے۔ جن کی حقیقی ہونے میں شک کیا جانا بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے۔
تین امیدواروں کے حوالے سے یہاں کچھ پس پردہ عوامل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔سب سے پہلے بزرگ اور سینیئرسیاستدان راجہ ظفر الحق کے حوالے دیکھتے ہیں۔راجہ ظفرالحق اس قبل بھی ایوان بالا کے رکن ہیں۔راجہ ظفر الحق کے بیٹے راجہ محمد علی حلقہ پی پی 2سے اس وقت رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔راجہ محمد علی 2002میں بھی رکن صوبائی رہ چکے ہیں۔2013کے انتخابا ت میں راجہ محمد علی کی مخالفت وہاں سے امیدوار قومی اسمبلی اور موجودہ وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی نے کھل کی ۔شاہد خاقان عباسی نے حلقہ پی پی 2سے مٹور ہی سے آزاد امیدوار راجہ صغیر کی کھلم کھلا حمایت کی اور یہ مخالفت تا حال جاری ہے جو مستقبل میں ن لیگ کے لئے نقصان دہ ہے۔عوامی حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ راجہ محمد علی کو کوئی صوبائی وزارت نہ دینا بھی راولپنڈی کی ن لیگ کے اندورنی اختلافات کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ ان تمام شکوک و شبہات کو رفع کرنے اور اختلاف کو دبانے کے لئے راجہ ظفرالحق کو دوبارہ ممبر ایوان بالا اورامید ہے کہ چیئرمین ایوان بالا ہوں گے۔سنیارٹی اور پارلیمانی تجربہ کی بنیاد پر راجہ ظفرالحق ہی اس وقت مسلم لیگ ن کے پاس موزوں چیئرمین ایوان بالا ہو سکتے ہیں۔
جنرل (ر) عبدالقیوم سابق گورنر پنجاب،سابق چیئرمین پی او ایف واہ اور سابق چیئرمین اسٹیل ملز رہ چکے ہیں۔ان تمام عہدہ جات پر سابق جنرل نے ایک اچھا منتظم ہونے کی حتی المقدور کوشش کی ہے۔جس میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔یہ تمام عہدہ جات جنرل قیوم کو سابق آمر جنرل مشرف نے ودیعت کیئے تھے۔سابق آمر جنرل مشرف کو آرٹیکل چھ کے تحت سزا دلوانا میاں برادران کی دلی خواہش ہے البتہ مشرف کے کئی ایک حواری اس وقت میاں برادران کے نفس ناظقہ بنے ہوئے ہیں۔راقم کا خیال یہ ہے کہ جنرل (ر) قیوم کو چکوال میں معروف صحافی و سیاستدان محترم المقام ایاز امیر کے نعم البدل کے طور پر سامنے لایا جا رہا ہے۔جنرل(ر) قیوم ایک اچھے منتظم ہو سکتے ہیں لیکن ایاز امیر کا نعم البدل قطعا نہیں۔
سب سے حیرت انگیز ٹکٹ سابق ایم پی اے اور محترمہ کلثوم نواز کے راولپنڈی کے اولین جلسہ کے میزبان چوہدری تنویر خان کا ہے چوہدری تنویر اور وزیر داخلہ چوہدری نثار کے اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں2013کے انتخابات میں چوہدری تنویر کے آبائی حلقہ پی پی چھ کو چوہدری نثار علی خان کی ضد کی وجہ سے اوپن رکھا گیا تھا اور یہاں سے چوہدری نثار علی خان آزاد امیدوار کی حیثیت سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو ئے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف پنجاب میں جن نشستوں پر دھاندلی پر اصرار کر رہی ہے ان میں سے یہ حلقہ بھی شامل ہے۔ان اختلافات کی بنیاد پر چوہدری تنویر خان ایک عرصہ سے ن لیگ کی سیاست سے کنارہ کش تھے۔ان اختلافات کو ن لیگ کی پنڈی میں شکست کو ایک وجہ سمجھا جا رہا ہے ۔شاید انہی اختلافات کا ازالہ کرنے ک ے لئے میاں برادران نے چوہدری تنویر خان کو ٹکٹ دیا ہے۔اسی بنیاد پر خلق خدا میں یہ چہ میگوئیاں چل رہی ہیں کہ شاید اسی وجہ سے اپنے حالیہ دورہ کلرسیداں میں چوہدری نثار علی خان اپنی حکومت کے خلاف ہی پھٹ پڑے اور حکومت کو ناکام قرار دیدیااور یہاں تک کہا کہ میں حکومت میں ہونے کے باوجود اپوزیشن کا کردار کا ادا کر رہا ہوں ۔اندر کی خبر رکھنے والے کہہ رہے ہیں کہ اس ٹکٹ کے علاوہ راجہ قمرالاسلام ایم پی اے حلقہ پی پی پانچ کی بطورچیئرمین ایجوکیشن ٹاسک فورس تعیناتی بھی اہم ہے۔یہ چیئرمین شپ صوبائی وزیر کے ہم پلہ ہوتی ہے۔اس تعیناتی پر چہ میگوئیاں اس لئے ہو رہی ہیں کہ ایم پی اے مذکور کو حلقہ میں ایک بے اختیار رکن اسمبلی متصورکیا جاتا رہا ہے۔ علاقہ میں تمام اہم ترقیاتی منصوبہ جات پر چوہدری نثار علی خان کی تختیاں لگی ہیں جبکہ ان کے افتتاح بھی غیر منتخب افراد کرتے رہے ہیں۔راجہ قمرالاسلام کے ذاتی ووٹ بینک کا علاقہ کی سڑک کی صورتحال کچی سڑک سے بھی بدتر ہے۔جس کی از سر نو تعمیر کا مطالبہ اہلیان علاقہ متعدد بار کر چکے ہیں اس اہم معاملہ پر تاحال شنوائی نہ ہوئی ہے۔بادی النظر میں یہی منظر تشکیل پا رہا ہے کہ ن لیگ ان اختلافا ت کو ختم کرنا چارہی ہے جبکہ ان اختلافات کا بنیادی مرکز چوہدری نثار علی خان کی ذات کو سمجھا جاتا ہے۔چوہدری تنویر کا ایوان بالا کا ٹکٹ ،راجہ قمرالاسلام کی بطور چیئرمین ٹاسک فورس تعیناتی اور چوہدری نثار کا اپنے حلقہ کے دورہ کے موقعہ پر میڈیا اور عوامی اجتماعات میں اپنی حکومت پر تنقید حالا ت کا رخ تبدیل ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔