بہت دن نہیں ہوئے اس بات کو، جب ہم کامل5برس تک مسلسل ایک ہی تکرار سے قوم کا دل بہلاتے رہے کہ"ہمارے پاس بڑا تجربہ ہے، ہرقسم کے بحرانوں سے نمٹنے کا بھلے وہ اقتصادی بدحالی کی شکل میں ہو یاپھر لوڈ شیڈنگ کا سبب بننے والی توانائی وسائل کی کمی"۔ یہ ثابت کرنے کیلئے کبھی ہم اپنے زیر بار احسان جسٹس چودھری کی "آزاد عدلیہ" سے رینٹل پاور پلانٹس کے خلاف حکم امتناعی جاری کرواتے رہے تو کبھی قطر سے ایل این جی کی درآمد کے معاہدے کی تنسیخ کے احکامات اورجب اتنے سے تشفی نہ ہوئی تو ریکوڈگ میں معدنی ذخائر کی کھوج لگانے والے غیر ملکی کنٹریکٹرزکو بھی اسی جسٹس چودھری سے فارغ کراکے گھر بھجوادیا۔
ہاں،یہ سب "بندوبست"ہم نے اس وقت کی حکومت کو ناکام ثابت کرنے کے "مصمم" ارداے سے ہی تو کرایا تھا ۔ ورنہ آتے ہی ہم نے جہاں قطر کے ساتھ ایل این جی کے اسی معاہدہ کو بعینہہ انہی شرائط پر "بحال"کردیا بلکہ تاخیر پر بطور ہرجانہ، شرح ادائیگی میں جو بڑھوتری ناگزیر تھی وہ بھی ہم نے قبول کرلی کہ ہماری جیب سے کیا جارہا تھا۔دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ افتخارچودھری نے اس پر بالکل ویسی خاموشی اختیار کئے رکھی، جیسی اس نے ہمارے پہلے بجٹ میں عام آدمی کیلئے سی این جی سمیت روزمرہ ضرورت کی بے شمار اشیاء پر لگائے گئے بھاری ٹیکسز پر جاری کردہ "سٹے آرڈر" پر ہماری طرف سے اسے ٹھینگا دکھانے پر اختیار کئے رکھی۔
اور تو اور ہم نے اسی خواجہ آصف کو "لوڈ شیڈنگ" کا وزیر بھی بنا دیا جس نے ، تازہ ترین انکشاف کے مطابق اپنی ملکیتی IPPکے وسیع تر مفاد میں پی پی پی گورنمنٹ کی طرف سے لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کیلئے ہائر کئے گئے رینٹل پلانٹس کے خلاف چودھری عدالت سے فیصلہ کروا کر اپنے علاوہ ہمارے "ایجنڈہ" کو بھی تقویت پہنچائی تھی۔ہم نے تو جناب ،آتے ہی خواجہ آصف کے ساتھ سا تھ ا پنے دیرینہ انوسٹر کی پاور کمپنیز کودن دگنی اور رات چگنی ترقی دینے کی خاطرگردشی قرضہ کے نام پر500ارب روپے کی"حسب منشاء" ادائیگی کے بعد نہ خواجہ سے اور نہ ہی منشاء سے پوچھا کہ دیرینہ ڈیمانڈز پوری ہونے کے باوجود آپ لوگوں کی کمپنیاں بجلی پیدا کرنے میں اب کیوں ہچکچاتی پھرتی ہیں۔
عمران خان اور آصف زرداری سمیت سب سیاستدان ، بھلے وہ اپوزیشن میں بیٹھی جماعت اسلامی جیسی ہوں یا مولوی فضل الرحمان جیسے ہماری اتحادی جس واحد نکتے پر متفق و متحد ہیں ، وہ بے شک افتخار چودھری کی قیادت میں دوتہائی اکثریت کی ہماری "معصومانہ خواہش" کی تکمیل کیلئے رچائی گئی انتخابی تاریخ کی بدترین دھاندلی ہی سمجھی جاتی رہے، لیکن 1988اور1990میں ہماری سرپرست ایجنسی کی طرف سے بنائی گئی IJIہو یا پھر1996کے الیکشنز میں ہمارے کمزور امیدواروں والے حلقوں میں صرف 20,000ووٹ فی حلقہ کا تحفہ، یہ سب ہمارے لئے توکوئی نئی بات ہے نہیں کہ اب لوگ گذشتہ الیکشن میں جسٹس چودھری کی طرف سے ہمارے نامزد کردہ 93حلقوں میں 17تا 20ہزار کے حساب سے اضافی ووٹوں کے طعنے دئے جارہے ہیں اور وہ بھی ایسے حلقوں میں جہاں سے وزیر دفاع، وزیر ریلوے اور سپیکر نیشنل اسمبلی جیسے ہمارے تگڑے بندے" جیت" کر آئے ہوں۔
بھائی لوگو، اب اتنی"تجربہ کار"حکومت کے خلاف کبھی چار حلقوں کولے کر لمبے چوڑے جلسے جلوس اوراب سارے کے سارے انتخابی عمل کو مسترد کرکے مڈ ٹرم الیکشن کی مانگ لے کر ہماری راجدھانی تک "آزادی مارچ"،کیا کھلم کھلا زیادتی نہیں رہے گی، ہمارے خلاف؟؟
یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ ہماری "آخری اُمید"، جی ہاں یہ ہمارے چھوٹے بھائی زرداری میاں بھی شاید افغان صدارتی انتخاب کے تازہ تنازعہ کا حل دیکھ کر اب ہمیں مشورہ دینے آگئے کہ ہم خان کی طرف سے ری پولنگ کا مطالبہ مان کر کیوں نہیں دیتے؟ بندہ پوچھے کہ بھائی جی ، پاکستان کوئی افغانستان ہے کیا؟ یہ سیاسی افہام و تفہیم اور تنازعات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے والی زرداری ادائیں ہماری ضرورت کب سے بن گئیں؟ ویسے بھی افغانستان کے دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان معاملات طے کرانے کیلئے تو جان کیر ی کو وہاں پہنچنا پڑا ، ہمیں تو اب تک اپنے یار غار امریکہ بہادر کا ایسا کوئی پیغام ملا نہیں ۔ اور جب تک وہاں سے کوئی "کیبل"آ نہیں جا تی، ہم یہ کیوں نہ سمجھے رکھیں کہ امریکہ سمیت سارا مغرب وسط2012 تامئی 2013کے انتخابات کی طرح ابھی بھی ہمارا"حامی و ناصر" ہے۔
باقی رہی ہماری وہ پریشانی، جو ہم سے اس طرح کے بیانات جاری کرواتی رہتی ہے کہ "نیک نیتی سے کام کررہے ہیں، استعفیٰ کیوں دیں؟" یا پھراضطراری حالت میں اپنے بالڑے عابد شیر علی کو ایسی ڈانٹ ڈپٹ کہ "جو بجلی پیدا ہوتی ہے ، وہ جاتی کہاں ہے؟ "، تو ان کے پیچھے کسی "آزادی مارچ" یا کسی "کنٹینر انقلاب" کا خوف بالکل نہیں کیونکہ ہم نے اپنے تئیں ہر دو کا "مکو ٹھپنے" کاپکا بندوبست کررکھا ہے۔ بس یہ تو اپنے نثار علی خان کا رویہ ہے جودن رات ہمیں پریشان کئے رکھتا ہے کہ وہی تو اصل "بندہ" ہے افتخار چودھری کے جانے کے بعد، ہماری امید وں کے پنڈی والے مرکز اور ہمارے درمیان۔
سچ پوچھئے توہم "آپریشن ضرب عضب" کی نسبت سے وار کیبنٹ کے نام پر آل پارٹیزقومی حکومت کیلئے خود کو ذہنی طور پر تیار کر بھی چکے ہیں کہ چلورسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے۔ لیکن کیا کریں کہ خان کسی "کمٹمنٹ" کی یاد دلاتے ہوئے بضدہے کہ اب "باری" اُس کی ہے جبکہ ہمارے یہ سیٹ چھوڑ نے سے شریف گروپ کی "قومی ترقی" کا جو پنج سالہ منصوبہ ہم لے کر آئے تھے، وہ ادھورا رہ گیا تو چھوٹے کے خیال میں، صوبہ بلکہ اب ملک بھرکا ترقیاتی بجٹ لاہور میں لگا کر بچے کھچے لاہوری ووٹ پکے کرنے میں رکاوٹ کے علاوہ برخوردار حمزہ کی ناراضگی کا بھی اندیشہ ہے کہ کہیں ارسلان افتخار"کمیشن"میں آگے نہ نکل جائے۔ اسلئے خان جی،ضد چھڈو، آؤ"مُک مُکا"کر لیئے!۔
ڈیلی کائنات نیوز میں شائع ہو چکاہے۔
ڈیلی کائنات نیوز میں شائع ہو چکاہے۔