بائیو میٹرک۔۔۔ ٹوپی ڈرامہ
بیس کروڑ آبادی والے ملک میں موبائل فون صارفین کی تعداد 13کروڑ 23لاکھ سے یقیناً زائد ہےجبکہ پانچ نیٹ ورکس کی موجودگی میں تقریباً ہر صارف کے پاس پانچ سم کارڈز زیر استعمال ہیں یا اوسطاً فی صارف کم از کم تین سم کارڈز ضرور موجود ہیں جن کی کل تعداد 39کروڑ70لاکھ سے زیادہ ہے گزشتہ برس آخری ماہ میں ہونے والی دہشت گردی کا سنگین واقع جس میں آرمی پبلک سکول پشاور کو نشانہ بنایا گیا اور نتیجے میں150سے زائد طلبہ شہید کر دیے گئےکہ بعد وقتی سنجیدگی میں آل پارٹیز کانفرنس میں موبائل فون صارفین کی سم کارڈز کی بائیو میٹرک تصدیق کو لازمی قرار دے کر محض ڈیڑھ ماہ کی ڈیڈلائن میں تصدیقی عمل کو مکمل کرنے کا ٹاسک دے دیا گیا جسے ملکی و غیر ملکی سیلولر سروسز پرووائیڈرز نے اندھی کمائی کو خطرے میں دیکھ کر سم کارڈز کو اندھا دھند تصدیق کرنا شروع کر دیا اور تصدیق کرنے کی رفتار کو دیکھ کر قطعاً نہیں کہا جا سکتا کہ اس عمل کا مقصد کسی قسم کی دہشت گردی کی روک تھام میں معاون ثابت ہو گا جس معیار کی تصدیق کی جا رہی ہے اس آرٹیکل کو اگلے سال فروری میں بطور حوالہ میں پیش کرنے کی پوزیشن میں ضرور ہوں گا کہ موبائل اور سم کارڈز کی مدد سے ہونے والی دہشت گردی کو کم کرنے کے لئے مزید کسی نئی حکمت عملی پر غور ہو رہا ہو گا، چونکہ پانچوں ملکی و غیر ملکی سیلولر کمپنیاں موجودہ تصدیقی ڈرامے کی حقیقت کو جانتے ہوئےایسے طریقہ کار پر عمل پیرا ہیں کہ قومی سلامتی سے زیادہ کاروباری فوائد پر فوکس نظر آ رہا ہے۔ صارف کا کیا قصور ہے کہ وہ سارا سارا دن میں کھڑا ہو کر ایک سم کارڈ کی بائیو میٹرک تصدیق کروائے اور کمپنی کو اس خدمت کی فراہمی پر چارجز بھی ادا کرے؟ لیکن جہاں سارےاندھے ہوں وہاں کانا راجا ہوتا ہے یعنی سادہ جمع منفی کےحساب میں تقریباً 40کروڑ سم کارڈز کی تصدیق کے ڈرامے میں مبلغ 7ارب94کروڑ روپے بحساب 20روپےفی سم بے وقوف پاکستانیوں کی جیب سے نکلوائے جا رہے ہیں۔
جبکہ تصویر کا دوسرا رُخ اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے کہ بیس کروڑ آبادی والے خود ساختہ جمہوری ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد2013 کے الیکشن میں8کروڑ بارہ لاکھ تھی جبکہ سم کارڈز کی تصدیق کے عمل کو دیکھتے ہوئے پاکستانی قوم کی سم کارڈ تصدیق کروانے کی رفتار کو ذہن میں رکھ کر اندازہ لگایا جائے تو ایک ماہ میں تمام رجسٹرڈ ووٹ کم از کم 8 بار تصدیق کیے جا سکتے ہیں لیکن اس ملک کی تقریباً دوسری بڑی سیاسی پارٹی حکومت کے اڈے میں بیٹھ کرتین ماہ سے زائد کا طویل مدتی دھرنا دیتی ہےکہ الیکشن شفاف ہونے چاہییں۔
اس تصویر کا دوسرا رخ یقیناً ان سوالوں سے پردہ اٹھاتا نظر آتا ہے جن کا تعلق بھی برائے راست قومی سلامتی سے ہے۔۔