راقم الحروف نے گذشتہ دنوں ایک محفل میں ’’مملکت خداداد‘‘ کے موجودہ نظام کو ’’تجارتی جمہوریت‘‘ کا نام دیا توحاضرین کی اکثریت نے اس اصطلاح کی وضاحت طلب کی کہ جناب اس قسم کی ’’جمہوریت‘‘ کا نام ہم نے نہ پولیٹیکل سائنس کی کسی کتاب میں پڑھا اور نہ ہی کہیں سے سنا؟ میرا فوری اور مختصر جواب تو یہ تھا کہ بھائیو اور بہنو، عرض خدمت یہ ہے کہ بندہ ناچیز نے عمرعزیز کی نصف صدی جس دشت کی سیاحی میں برباد کردی، اُس کے’’سنگ ہائے میل‘‘ میں 1970 کے الیکشن سے لے کر 2013 تک کے تمام انتخابات کی یادیں شامل ہیں۔ بالخصوص 1977 کے بعد ہونے والے تمام انتخابی ڈراموں کی تو مجھے تفصیلات بھی ازبر ہوچکیں۔ انتخابی معرکہ آرائی کی ان یادوں کیلئے قارئین، ’’جمہوری تماشہ‘‘ سے بہتر سرنامہ کم از کم مجھے تو سجھائی نہیں دے رہا۔
ساتھیو! تاریخ کا ہر طالبعلم بہت اچھی طرح واقف ہے اس تلخ حقیقت سے کہ تقسیم ہندکے نتیجے میں قائم ہونے والی دو ریاستوں میں سے ایک نے تو مختصر ترین عرصہ میں اپنے لئے ایک باقاعدہ اور متفقہ آئین، جیسے تیسے وضع کرلیا لیکن اپنے اپنے’’ظرف‘‘ کی بات ہے کہ کامل نو برس کی خرابئی بسیارکے بعد اوردستور ساز اسمبلی کے الیکشن کے بغیرسہی، ہمارا جو آئینی پھول 1956 میں کھلا،وہ بھی کھل کے مُسکرانہ سکا اور صرف 2 برس کی عمر قلیل میں ہی نئی ریاست کے حقیقی وارثوں کو ’’پیارا‘‘ہو گیا، جنہوں نے پھر 6 برس مزید انتظار کرانے کے بعد 1962 میں خود جو غنچہ کھلایا، حسرت اس پہ کہ وہ بھی بن کھلے مرجھا گیا یعنی آئین نامی اس دستاویز کی قسمت میں ایک الیکشن بھی نہ آسکا۔
خیر دوستو! ’’قومی مفاد‘‘ کا یہ سفر جو 1958 میں بلکہ سچ پوچھئے تو اس سے کہیں پہلے شروع ہوگیا تھا، اسے 1970 میں پہلی دستور ساز اسمبلی کیلئے منعقد ہونے والے انتخابات نے ایک ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا، جہاں سے ایک راستہ آئینی و سیاسی استحکام کی طرف جاسکتا تھا۔ لیکن ہم نے چُنا تو بندگلی والا دوسراراستہ، جس نے بالآخر ’’سب سے بڑی مُسلم ریاست‘‘ کو دولخت کردیا۔ ریاست کے اصل وارثین کیلئے غیر متوقع، لہٰذا قطعی طور پر ناقابل قبول انتخابی نتائج تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کس نے دکھائی اورکون انہیں ایک ہزار میل کی دوری پر واقع ملک کے دونوں حصوں میں مختلف مینڈیٹ حاصل کرنے والی پارٹیوں کیلئے قابل قبول بنانے کیلئے، ’’غداری‘‘ کے الزام میں لائلپور (اب فیصل آباد) جیل میں بند مشرقی حصے کے اکثریت حاصل کرنے والے لیڈر کے ساتھ مذاکرات میں مصروف رہا اور کس نے اس دوران مشرقی بازو میں ملٹری آپریشن کا آغاز کرکے سلگتی آگ پر تیل چھڑکا، یہ سب حقائق اب تاریخ کا حصہ ہے، جسے تحقیق کا شوق ہے وہ گوگل پر عام دستیاب ’’حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ‘‘ خود پڑھ کر فیصلہ کرلے کیونکہ ہمارا آج کا موضوع اس سے خاصا مختلف ہے۔
ہاں، نوجوان دوستوں کیلئے مذکورہ رپورٹ کے صرف اس حصے کا مختصر حوالہ دینے میں کوئی ہرج نہیں جس میں کچھ’’ذمہ داروں‘‘ کا نام لے کر ان کیلئے ’’کورٹ مارشل‘‘ کی سزا تجویز ضرور کی گئی تھی جو بہرحال ایسے کسی سیاست دان کیلئے نہیں تھی، ’’قومی مفاد‘‘ والے اپنے تنخواہ دار میڈیا کے شاندار اور کامیاب استعمال سے سارا نزلہ جس پر ڈال کر ’’کورٹ مارشل‘‘ سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بچ گئے۔ یہ مان لینے میں، البتہ کوئی ہرج نہیں کہ تاریخ کی بدترین ’’فوجی شکست‘‘ کے ہاتھوں تباہ حال ملک، برباد معیشت، زبوں حال قوم اور مورال سے عاری فوج، سب کی تعمیر نو میں تن تنہا مصروف’’سیاست دان‘‘ نے شاید نئے ملک کو پرانے تنازعات میں اُلجھانا ضرر رساں سمجھ کر ’’کمیشن رپورٹ‘‘ میں نشان زدہ ’’ذمہ داروں‘‘ کیلئے واضح سفارش کے مطابق ’’کورٹ ماشل‘‘ کی کارروائی شروع نہ کرکے وہ ’’غلطی‘‘ ضرور کی، جس کی سزا،انہی ’’ذمہ داروں‘‘ کی سازش کے تحت ان کی ازلی داشتہ عدالت کی طرف سے اسے تختۂ دار پر چڑھا دینے کی شکل میں مل گئی، تاریخ البتہ اس کیس کو ہمیشہ ’’عدالتی قتل‘‘ کے نام سے ہی پکارتی رہے گی۔
صاحبو! ہم سنارہے تھے داستان، وطن عزیز کی پہلی اور اب تک آخری دستوساز اسمبلی کیلئے منعقدہ انتخابا ت 1970 کی، جس کے نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ اور اس کے بعد 1973 میں قوم و ملک کو پہلے متفقہ آئین کا تحفہ دینے والے وطن عزیز کے پہلے ’’منتخب‘‘ وزیر اعظم اور اور سقوط مشرقی پاکستان کے بعد فوج اور قوم دونوں کا مورال بحال کرکے ہمیں اقوام عالم کی صف میں دوبارہ کھڑا ہونے کے قابل بنانے والے ذوالفقار علی بھٹو کے الم ناک انجام کا تعلق ہے 1977 میں اسی آئین کے تحت ہونے والے پہلے عام انتخابات سے۔ اب یہ بھٹو کی حد سے بڑھتی خود اعتمادی تھی یاشہید کا فیوڈل پس منظر کہ واضح اکثریت سے یقینی جیت دیکھنے کے باوجود اسے مخالف اُمیدواروں کے اغوا اور پھر انتخابی عمل میں غیر ضروری بے اعتدالیوں جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔
یہاں بھول بھلکڑ ’’قوم‘‘ کویہ یاد دلاتے ہوئے کہ اگرچہ اپوزیشن کی طرف سے نشان زدہ 21 قومی حلقوں کے انتخابی نتائج کے تنازعہ پر پی این اے اور بھٹو کے درمیان مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوئے اور بغیر گولی چلائے ’’مجاہد اول کشمیر‘‘ کا خطاب ازخود حاصل کرلینے والے سردار عبدالقیوم کی جانب سے کھڑی گئی رکاوٹ کے باجود نواب زادہ نصر اللہ خان اور قومی اتحاد کے دیگر رہنماؤں نے 4 جولائی 1977 کی شام کو ایک پریس کانفرنس میں اس معاہدہ کا اعلان بھی کردیا تھا جو ڈیلی "پاکستان ٹائمز" کی 5جولائی کی اشاعت میں شائع بھی ہوا، لیکن اسی تاریخ کو ریڈیو پاکستان کی صبح 6 بجے کی خبروں میں مارشل لاء کے نفاذ اور بھٹو سمیت دیگر لیڈرز کی گرفتاری کی خبر بھی نشر ہوگئی کیونکہ دھاندلی کے خلاف تحریک پر ’’نفاذ نظام مصطفی‘‘ کا لیبل لگانے والوں کا اصل ایجنڈہ تو بھٹو کو ’’کیفر کردار‘‘ تک پہنچانا تھا اور انہوں نے ایسا کر دکھایا۔
قارئین گرامی، ’’جمہوریت،جمہوریت‘‘ کے کھیل کی دلچسپ کہانی صرف 1970 اور 1977 کے الیکشنزپر پہنچ کر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ’’قومی مفاد‘‘ کی یہ ’’تذویراتی گہرائی‘‘، بعد ازاں 1988 سے لے کر 2013 تک ہرالیکشن میں پہلے سے زیادہ گہری ہوتی چلی گئی، البتہ ہمارے کالم کی گنجائش یہاں ختم ہو جاتی ہے۔ آئندہ کالم میں آپ کا داستان گو، ضیائی نظام مصطفی کی ’’برکتوں‘‘ پر مختصر روشنی ڈالتے ہوئے اس کہانی کو انشاء اللہ آگے بڑھائے گا اور ’’جمہوریت‘‘ کے اس تاریخی سفر کی رننگ کمنٹری کا یہ قسط وار سلسلہ جلداز جلد 2013 کے ’’ریکارڈ ساز‘‘ انتخابات تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔!