اسلام ہو یا کوئی اور مذہب، ہر مذہب اور ہر جگہ پر وطن سے محبت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ نبی پاک ﷺ جب مکہ سے مدینہ ہجرت کی تھی تو مکہ کے پہاڑوں پر کھڑے ہو کر کہا 'اے میرے مکہ اگر تمہارے لوگ مجھے تنگ نہ کرتے تو میں تجھے کبھی چھوڑ کر نہ جاتا' ایک اور مقام پر فرمایا، مفہومِ حدیث”وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے“ کہ حب الوطنی کو سب سے قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دنیا کیمختلف ممالک میں بچوں کی فطرت میں مُحبِ وطنی کو اجاگر کیا جاتا ہے۔جس میں بہت سے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں، جیسے جاپان میں پرائمری کلاس تک کے بچوں کو کچی مٹی میں بیٹھ کر پڑھایا جاتا ہے۔تاکہ اُن کی نَس نَس میں وطن کی محبت جاگ جائے۔ اِسی طرح ترقی یافتہ قوموں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو ہمیں پتہ لگے گا کہ اُن کی کامیابی کا راز صرف و صرف وطن سے محبت ہے۔اور وطن سے محبت ایک خوبصورت اور قابلِ تحسین جذبہ ہے۔جو ہمیشہ ہر قوم میں سراہا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص قوم کی خاطر چھوٹا سا بھی اقدام کر جائے تو اُس کو سراہا جاتا ہے، مختلف قِسم کے حکومتی سطح پر انعامات اور خطاب دئیے جاتے ہیں تاکہ نوجوانوں کو تحریک ملے، ملک و قوم کی خاطر کام کرنے والوں میں اضافہ ہو۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس پر ہر قوم فخر کرتی ہے نہ کہ شرم محسوس کرتی ہے۔ لیکن کشمیر میں تو اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ یہاں پر تو وطن سے محبت کرنے والے پر فخر نہیں بلکہ شرم محسوس کی جاتی ہے۔ یہ دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ اپنے قومی ہیروز کو اٰیجنٹ اور ایجنٹس کوپل بھر میں قومی ہیروز بنا لیتیہیں۔یہ وطن فروشوں کو غازی اور مجاہد کا لقب دیتے ہیں اور وطن کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو ایجنٹ کا لقب دیتے ہیں۔ حال ہی میں سعید اسد کی دو کتابوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔اور ساتھ ہی ساتھ سِتم ظریفی ایسی کے انہیں مملکتِ کشمیر کا حقیقی نقشہ پیش کرنے پر فردِ جرم عائد کر دیا گیا۔ کوئی اِس قوم کی ذہنی معیار کو دیکھے 67سال سے غلام چلے آ رہے ہیں۔ اِن کی حالت یہ ہے کہ اِن کو پاکستان کا ایک حوالدار کنٹرول کرتا ہے، اور پھر بھی ان کا نعرہ؟ آ ہا آزاد کشمیر کی اسمبلی پر لاھور چڑیا گھر کا منظر یاد آ گیا، چڑیا گھر میں ایک بڑے سے پنجرے میں پرندوں کو بند کیا گیا ہے اور پرندے اُونچا اُڑتے ہیں لیکن جال سے ٹکرا کر زمین کی طرف آ جاتے ہیں۔ اور وہ سوچتے ہیں کہ شاید وہ آسمان کی بلندیوں کو چھو کر واپس آ رہے ہیں، کچھ ایسا ہی منظر ہماری اسمبلی کے ساتھ بھی ہے۔اس کو بھی ایک سیکٹری کے ماتحت رکھا گیا ہے اور یہ اسمبلی ممبرز اُس سیکٹری کی ایک مسکراہٹ دیکھنے کو آزادی کی انتہا سمجھتے ہیں، خیر اِن بیچاروں سے کیا شکوہ یا غاصبِ کشمیر سے کیا شکایت؟ بس اتنا کہتا ہوں خدا کے لئے خود کو پہچانو، غاصبوں کی خوش آمد چھوڑ دو اور اگر وطن سے محبت کوئی گناہ یا جرم ہے تو میں سب سے بڑا مجرم ہوں۔اور اِس جرم کو بار بار دوہراتا رہوں گا۔