28 فروری، 2015

اُمت مرحوم۔ مرگِ مفاجات سے آگے

بہت ہنسی آتی ہے مجھے جب میں پڑھتا اور سُنتا ہوں کہ ’’یہ ملک اللہ تعالیٰ نے بنایا تھا اور ہماری تمام تر بداعمالیوں کے باوجود وہی ذات اسے چلائے جارہی ہے‘‘۔ ہرطرف سے اس قسم کی وکھری ’’دانش‘‘کے اظہار نے میرے ذہن میں ہمیشہ یہی سوال پیدا کیا ہے کہ ’’کیا یہ ملک وقوم واقعی آزادی اور قوم سازی کیلئے فطرت کی طرف سے وضع کردہ اصول و ضوابط کے تحت وجود میں آئے تھے؟ نیز یہ ملک کیا سچ مچ چل بھی رہا ہے‘‘؟؟. اسی طرح مجھے کسی ’’اُمت مُسلمہ‘‘ کے کشمیر یا فلسطین جیسے اعضائے ضعیف پر ڈھائی جارہی بربریت پر کسی’’مُسلم دُنیا‘‘ کے حکمرانوں پر نامردی اوربے غیرتی کے طعنوں پر بھی خوب ہنسی آتی ہے اور سوال پھر وہی اُبھرتا ہے دل میں کہ ’’کہاں وجود رکھتا ہے، آپ کا مخاطب اُمت مسلمہ یا مسلم دنیا نامی یہ نادر نمونہ‘‘؟؟ مجھے اس فلسفے کی سمجھ بھی سچ پوچھئے کبھی نہیں آئی، جس کے مطابق 1926 میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سے ’’اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک دنیا بھر میں بپا ہے‘‘، نیز یہ کہ ’’پاکستان نامی مملکت خداداد کا قیام اور اس کے بعد کسی غزوۂ ہند کے نتیجے میں خراسانی ریاست کا قیام قدرت کا اٹل فیصلہ ہے‘‘ اور افغانستان سے نیٹو ٹروپس کی واپسی کے ہنگام داعش کی نئی خلافت اسلامیہ اس منزل کی جانب ’’سفر مبارک‘‘ کے آخری مراحل کا حصہ ہیں۔ کیونکہ میرے ناچیز مطالعہ کے مطابق اقوام عالم کے عروج کے جو قواعدو ضوابط القرآن المجید سمیت کسی بھی الہامی کتاب کی رُو سے متعین کئے جاچکے ہیں یا تاریخ کی کسی بھی مستند تصنیف میں ملتے ہیں، موجودہ ’’اُمت مسلمہ‘‘کا اجتماعی طرزعمل، کسی بھی طرح اُن پر پورا نہیں اُترتا بلکہ بیسیوں مسلم ریاستیں بحیثیت مجموعی، سب ان صلاحیتوں سے کلیتاََ عاری دکھائی دیتی ہیں جو ان میں بسنے والے ’’مسلمان‘‘ نامی بکھرے ہوئے منقسم گروہوں کو ایک ’’قوم‘‘ کے قالب میں ڈھالنے کے’’ لوازمات‘‘ کا لازمی حصہ سمجھی جاتی ہیں۔ خواتین و حضرات! وعظ و تبلیغ میرا منصب نہیں اور نہ ہی مجھے پند و نصائح سے کوئی نسبت ہے لیکن ا قوام عالم کے عروج وزوال کے ایک ادنیٰ طالبعلم کی حیثیت سے اتنا میں ضرور جانتا ہوں کہ ’’آزادی‘‘ نامی نعمت کبھی کسی بھی ’’قوم‘‘ کو، خود کو ایک طاقت ور اور منظم وجود میں ڈھالے بغیر محض نعروں، مطالبوں اور قراردادوں کی شکل میں بپا کی گئی کسی قسم کی’’سیاسی جدوجہد‘‘کے نتیجے میں نہیں ملا کرتی، بلکہ ’’غاصب سامراج‘‘ کے پنجرے میں قید ’’آزادی‘‘ کی چڑیا منظم طاقت کے زور پر چھین لینے کے سوا کسی دوسرے طریقے سے ہاتھ نہیں آیا کرتی اور نہ ہی قوانین فطرت کے اسلوب پر استوار تاریخ عالم نے کسی کلمے، کسی عقیدے اور کسی نیک نیتی کے صلے میں کسی قوم کو کبھی لیلائے آزادی سے ہم آغوش ہوتے دیکھا ہے۔ علیٰ ہٰذالقیاس نعروں، ہاروں، جلسوں، جلوسوں اور قراردادوں اور جیل بھرو تحریکوں کے نتیجے میں جو کچھ ملا کرتا ہے، اسے برطانوی سامراج کی غلامی کو امریکی سامراج کے تسلط میں ڈھلنے کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا جیسا کہ تاریخ نے ثابت کربھی دیا۔
بالکل اسی طرح قارئین کرام! میری سوچی سمجھی رائے میں کسی بھی ’’اُمت‘‘ یا ’’قوم‘‘ کی تشکیل ’’اتحاد عمل‘‘ کے بغیر محض ایک جیسا کلمہ پڑھ لینے یا ایک جیسے نام رکھ لینے سے ممکن نہیں ہوا کرتی اوریہ ’’اتحاد عمل‘‘ کسی مشترکہ نصب العین کا ٹارگٹ سامنے رکھ کر کسی متفقہ مرکز کی کامل اور غیر مشروط اطاعت کے نتیجے میں ہی پیدا ہوا کرتا ہے ، ’’پاکستانی قوم‘‘ کیلئے جس کا ’’شارٹ کٹ نُسخہ‘‘ اجتماعی تربیت کے ’’نظام عمل‘‘کے ذریعے ڈسپلن پیدا کرنے والی ’سکاؤٹس‘ جیسی کسی رضاکارانہ تحریک کے آغاز کے سوا کم از کم مجھے تو سُجھائی نہیں دیتا۔

تلاش کیجئے