قارئین گرامی! ضیاء الحقی مارشل لاء کے 11سالہ دور پُر آشوب کے بعدکے 11برسوں جتنی ہی مدت میں ہمارے "جمہوری تماشہ" کی جو چار ایپی سوڈزآئیں اورگذر گئیں، اُن کے دوران جینئس بھٹو کی قابل فخر صاحب زادی اوراُن کے مقابلے کیلئے بڑی محنت سے تراش خراش کر " قومی لیڈر" بنائے گئے کشمیری پنجابی سپوت دونوں کو دو ، دوباریاں دے کر بھگتادیا گیا۔اس کے بعد"تذویراتی گہرائی"افغانستان کے حالات میں ایک اور بڑی تبدیلی سے ٹھیک دو سال پہلے وطن عزیز کے اصل وارث خاکیوں نے"معاملات"براہ راست اپنے ہاتھ میں لے لئے، بالکل اُسی طرح جیسے "امریکی جہاد افغانستان" سے ٹھیک دو سال قبل جنرل ضیاء نے بھٹو شہید کو"فارغ" کرکے کارسرکار سنبھال لیاتھا۔
دوستو اور ساتھیو! کالم کی تنگ دامنی اختصار نویسی پر مجبور کرتی ہے، ورنہ ہم آپ کو بتاتے کہ یہ ضیاء الحق کا"اسلام"ہو یا جنرل مشرف کی "روشن خیالی"،سب ایک ہی سکے کے دو رُخ رہا کرتے ہیں اور سکے کو یار لوگوں نے کبھی "نظریۂ پاکستان" کانام دیا تو کبھی یہ"سب سے پہلے پاکستان" کی عُرفیت سے جانا ، پہچانا گیا جبکہ سرکاری کاغذات میں اس کا نام اب تک "قومی مفاد"ہی لکھا ملتا ہے۔ لیکن راقم لحروف نے اسے اس کی"پیشہ ورانہ اہلیت" سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ،"کمپنی"کی اجازت کے بعد اب"سٹیٹ آن رینٹ" کے خطاب و اعزاز سے نواز کر اشتہار شائع کروادیا ہے کہ"آئندہ مجھے" کمرشل ری پبلک آف پاکستان"کے نام نامی سے لکھا اور پُکاراجائے"!
قارئین! گلوبل اکانومی کے دورِ جدید میں "خالص مال برائے فروخت"کالیبل ہی کامیاب تجارت کی ضمانت قرار پایاہے، لہٰذا"کرایہ کیلئے خالی" مملکت خدادادکو ہرقسم کی" نیشنلسٹ"ملاوٹ سے پاک کرنا ضروری قرار پایا ۔ اس" مقصد اولیٰ" کے حصول کیلئے" ساہوکار" نے بھٹو کی جلاوطن بیٹی کو " این آر او" کے ٹریپ میں پھنسا کر وطن لوٹنے کی ترغیب دی ، جسے"چوکیداروں"نے اپنے بھرتی کردہ "اثاثہ جات" کی مدد سے اپنے شہید بابا کے پاس بھجوادیا۔ بعدازاں بھٹو کے داماد کو اپنے عظیم سُسر اور قابل فخر اہلیہ کے نقوش ہائے پا پر چلتے دیکھ کرعالمی بنئے نے اپنے اُس کارندے کو"بحال" کراکے مرد حُر کے سر پر لابٹھایا،جس کی خدمات وہ روشن خیال آمر کے خلاف بخوبی آزما چکا تھا۔ سو جس نے پھر پنجابی انوکھے لاڈلے اور شاطر محافظ اعظم کی مدد سے مسلسل 5 برس تک اسے اس طرح زچ کئے رکھا کہ وہ اپنے ایجنڈہ پر کھل کر کام ہی نہ کرسکا۔سویہ رہی، بی بی کو شہید کرنے کے بعد منعقدہ الیکشنز 2008سے لے کر 2013 کے انتخابات تک کی داستان۔
صاحبان !وطن عزیز کے سٹیج پربرسوں سے رچائے جارہے "جمہوری تماشہ" کی 2008تا 2013ایپی سوڈ کا سبق اگر یہ رہا کہ"جس نے کھیلنا ہے وہ ہمارے طے کردہ اصول و ضوابط کے دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش بالکل نہ کرے، ورنہ اُس کے ساتھ بھی فخر ایشیا اور دُختر مشرق جیسا "شاہانہ سلوک" روا رکھا جائے گا "۔تو 2013 میں سجائے گئے وکھرے سٹیج نے"جمہوریت" کے چہرے سے عوامی حمایت کا منافقانہ نقاب نوچ کرجہاں اسے رہے سہے بھرم سے بھی محروم کردیا،وہیں پوری دنیا کو کو جتلادیا کہ"آ سٹیٹ آن رینٹ" نامی بین الاقوامی دوکان کا کاروبار چلانے کیلئے وہی سب سے زیادہ "فٹ" ہے، جو ریاستی اداروں سمیت عالمی ساہوکار وں کے ساتھ سب سے زیادہ مول تول کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ"کاروباری اہلیت" بھلاچوکیداروں کے تراشیدہ ہیرے سے زیادہ کس میں ہوسکتی ہے، جسے من مانی کرتے دیکھ کر عارضی طور پربے دخل ضرور کردیا گیا تھا لیکن بوقت ضرورت دوبارہ استعمال کرنے کیلئے "سرورپیلیس" میں محفوظ بھی رکھا گیا۔
خود سوچئے اربا ب فکر و نظر! کہ جب"الباکستان" نامی مملکت خدادادکی وجۂ پیدائش ہی خطے میں عالمی ساہوکار کے کاروباری ا ور کاروبار سے جڑے تذویراتی مفادات کی"کرایہ پر نگہبانی" ٹھہری تو اس بزنس کیلئے اپنے آزمودہ "منیجر" کا انتخاب المریکہ نامی ساہوکاراور اس کے السعودیہ نامی مقامی انوسٹر کاصوابدیدی حق بنتا تو ہے، بالخصوص جب وہ مقامی دلال "السعودیہ" کا محبوب و مرغوب ہونے کے علاوہ طالبان نامی اس کے موبائل کریڈٹ آفیسرزکی" ضمانت" جیسی اہم ترین کوالفکیشن پربھی پورا اُترتا ہو؟جس کی ترجیحی اہلیت میں"سیکورٹی رسک" پارٹی کے خلاف چوکیدارکے اکلوتا چوائس ہونے کی خوبی شامل حال رہی ہو اور"ایوان عدل" سمیت تمام ترریاستی اداروں کو تن تنہا خریدلینے کا وسیع تر اضافی تجربہ بھی صرف اسی کے پاس ثابت ہوتا ہو؟؟
یہ"انصاف"بھی خواتین و حضرات ، آپ خود کرلیجئے کہ ساہوکار سے لے کر اس کے مقامی ایجنٹ اور محافظین سے لے کر منصفین بشمول کرایہ کے جہادیوں جیسے" اثاثہ جات" سب کا اکلوتا اور متفقہ "انتخاب"، اس رینٹڈ اسٹیٹ کا منیجر اگرعدلیہ، نادرا، کرکٹ بورڈ،اوگرا،الیکشن کمیشن اوراے جی آفس جیسے تمام ریاستی اداروں کو "حسب منشاء" چلانے کی غرض سے ان کے ساتھ کھلواڑ کرتا پھرے یا پھر عُمرہ کا ثواب باجماعت حاصل کرنے کے "نیک ارادے" سے 300 مسافروں کی گنجائش والی ریاست کی کمرشل فلائٹ کو اپنے اہل خانہ سمیت 60 افراد اورآموں کی123 پیٹیوں کیلئے سرکاری خرچے پر چارٹر کرکے اپنے مربی خادم الحرمین و شریفین کی زیارت کو چلاجائے تو کسی کو اس میں میخ من نکالنے کی بھلا کیا ضرورت ہے کیونکہ" کھیلن کو چاند"اگرہمارا" انوکھا لاڈلا" نہ مانگے تو اس پربھلااور کس کا حق ہے؟؟؟
قارئین! گلوبل اکانومی کے دورِ جدید میں "خالص مال برائے فروخت"کالیبل ہی کامیاب تجارت کی ضمانت قرار پایاہے، لہٰذا"کرایہ کیلئے خالی" مملکت خدادادکو ہرقسم کی" نیشنلسٹ"ملاوٹ سے پاک کرنا ضروری قرار پایا ۔ اس" مقصد اولیٰ" کے حصول کیلئے" ساہوکار" نے بھٹو کی جلاوطن بیٹی کو " این آر او" کے ٹریپ میں پھنسا کر وطن لوٹنے کی ترغیب دی ، جسے"چوکیداروں"نے اپنے بھرتی کردہ "اثاثہ جات" کی مدد سے اپنے شہید بابا کے پاس بھجوادیا۔ بعدازاں بھٹو کے داماد کو اپنے عظیم سُسر اور قابل فخر اہلیہ کے نقوش ہائے پا پر چلتے دیکھ کرعالمی بنئے نے اپنے اُس کارندے کو"بحال" کراکے مرد حُر کے سر پر لابٹھایا،جس کی خدمات وہ روشن خیال آمر کے خلاف بخوبی آزما چکا تھا۔ سو جس نے پھر پنجابی انوکھے لاڈلے اور شاطر محافظ اعظم کی مدد سے مسلسل 5 برس تک اسے اس طرح زچ کئے رکھا کہ وہ اپنے ایجنڈہ پر کھل کر کام ہی نہ کرسکا۔سویہ رہی، بی بی کو شہید کرنے کے بعد منعقدہ الیکشنز 2008سے لے کر 2013 کے انتخابات تک کی داستان۔
صاحبان !وطن عزیز کے سٹیج پربرسوں سے رچائے جارہے "جمہوری تماشہ" کی 2008تا 2013ایپی سوڈ کا سبق اگر یہ رہا کہ"جس نے کھیلنا ہے وہ ہمارے طے کردہ اصول و ضوابط کے دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش بالکل نہ کرے، ورنہ اُس کے ساتھ بھی فخر ایشیا اور دُختر مشرق جیسا "شاہانہ سلوک" روا رکھا جائے گا "۔تو 2013 میں سجائے گئے وکھرے سٹیج نے"جمہوریت" کے چہرے سے عوامی حمایت کا منافقانہ نقاب نوچ کرجہاں اسے رہے سہے بھرم سے بھی محروم کردیا،وہیں پوری دنیا کو کو جتلادیا کہ"آ سٹیٹ آن رینٹ" نامی بین الاقوامی دوکان کا کاروبار چلانے کیلئے وہی سب سے زیادہ "فٹ" ہے، جو ریاستی اداروں سمیت عالمی ساہوکار وں کے ساتھ سب سے زیادہ مول تول کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ"کاروباری اہلیت" بھلاچوکیداروں کے تراشیدہ ہیرے سے زیادہ کس میں ہوسکتی ہے، جسے من مانی کرتے دیکھ کر عارضی طور پربے دخل ضرور کردیا گیا تھا لیکن بوقت ضرورت دوبارہ استعمال کرنے کیلئے "سرورپیلیس" میں محفوظ بھی رکھا گیا۔
خود سوچئے اربا ب فکر و نظر! کہ جب"الباکستان" نامی مملکت خدادادکی وجۂ پیدائش ہی خطے میں عالمی ساہوکار کے کاروباری ا ور کاروبار سے جڑے تذویراتی مفادات کی"کرایہ پر نگہبانی" ٹھہری تو اس بزنس کیلئے اپنے آزمودہ "منیجر" کا انتخاب المریکہ نامی ساہوکاراور اس کے السعودیہ نامی مقامی انوسٹر کاصوابدیدی حق بنتا تو ہے، بالخصوص جب وہ مقامی دلال "السعودیہ" کا محبوب و مرغوب ہونے کے علاوہ طالبان نامی اس کے موبائل کریڈٹ آفیسرزکی" ضمانت" جیسی اہم ترین کوالفکیشن پربھی پورا اُترتا ہو؟جس کی ترجیحی اہلیت میں"سیکورٹی رسک" پارٹی کے خلاف چوکیدارکے اکلوتا چوائس ہونے کی خوبی شامل حال رہی ہو اور"ایوان عدل" سمیت تمام ترریاستی اداروں کو تن تنہا خریدلینے کا وسیع تر اضافی تجربہ بھی صرف اسی کے پاس ثابت ہوتا ہو؟؟
یہ"انصاف"بھی خواتین و حضرات ، آپ خود کرلیجئے کہ ساہوکار سے لے کر اس کے مقامی ایجنٹ اور محافظین سے لے کر منصفین بشمول کرایہ کے جہادیوں جیسے" اثاثہ جات" سب کا اکلوتا اور متفقہ "انتخاب"، اس رینٹڈ اسٹیٹ کا منیجر اگرعدلیہ، نادرا، کرکٹ بورڈ،اوگرا،الیکشن کمیشن اوراے جی آفس جیسے تمام ریاستی اداروں کو "حسب منشاء" چلانے کی غرض سے ان کے ساتھ کھلواڑ کرتا پھرے یا پھر عُمرہ کا ثواب باجماعت حاصل کرنے کے "نیک ارادے" سے 300 مسافروں کی گنجائش والی ریاست کی کمرشل فلائٹ کو اپنے اہل خانہ سمیت 60 افراد اورآموں کی123 پیٹیوں کیلئے سرکاری خرچے پر چارٹر کرکے اپنے مربی خادم الحرمین و شریفین کی زیارت کو چلاجائے تو کسی کو اس میں میخ من نکالنے کی بھلا کیا ضرورت ہے کیونکہ" کھیلن کو چاند"اگرہمارا" انوکھا لاڈلا" نہ مانگے تو اس پربھلااور کس کا حق ہے؟؟؟
ڈیلی کائنات نیوز میں شائع ہو چکا ہے۔