کسی قوم کیلئے آزادی کے حصول کا سوال ہو یا اس کی بقاء کا، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان مقاصد کیلئے فطرت کی طرف سے متعین کردہ ابدی اصول ہرجگہ یکساں کارفرما ہوا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر موجودہ حالات میں اگر ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہزاروں معصوم شہریوں کے قاتل اور ریاست کے غداروں کے ساتھ مذاکرات نہیں بلکہ ان کی بیخ کنی کیلئے باقاعدہ آپریشن ہی دہشت گردی کا واحد اور دیرپا حل ہے تو ہمیں یہ ماننے میں تامل کیوں ہے کہ انگریز کی برصغیر ہندوستان سے رُخصتی کے فیصلہ کُن مرحلے پرمسلمانوں سمیت اقوام ہند کے مُستقبل کا فیصلہ اکثریت یا اقلیت کی بجائے آزادی کے حصول کی اہلیت اور اس کی حفاظت کی صلاحیت کی بنیاد پر ہونا چاہئے تھا۔ پاکستان کے جُملہ مسائل کی جڑ اس اصول کی خلاف ورزی میں پنہاں ہے۔ کیا بہتر نہیں تھا کہ اقوام ہند علامہ المشرقی کے مشورہ کے مطابق انگریز سے تقسیم کروانے کی بجائے پہلے متحد ہو کر اسے رُخصت کرتے اور پھر باہمی مسائل مل بیٹھ کر حل کرلیتے تاکہ سامراج کو وہ تنازعات پیدا کرنے کا موقع نہ ملتا،جو پاکستان اور بھارت نامی ریاستوں کو کئی دہائیاں بعد بھی حالت جنگ میں رکھے ہوئے ہیں؟؟ اسی "ازلی دُشمنی" کے نام پر پالے گئے تذویراتی اثاثوں کا جادو اب سر چڑھ کر بول رہا ہے۔